کوفت سے جان لب پہ آئی ہے

0

غزل

کوفت سے جان لب پہ آئی ہے
ہم نے کیا چوٹ!دل پہ کھائی ہے
لکھتے رُقعہ، لکھی گئے دفتر
شوق نے بات کیا بڑھائی ہے
دیدنی ہے شگفتگی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے
دل سے نزدیک اور اتنا دور
کس سے، اس کو کچھ آشنائی ہے
بے ستوں کیا ہے ؟کوہ کُن کیسا؟
عشق زور آزمائی ہے
یا ہوئے خاک سے برابر ہم
واں وہی نازو خود نمائی ہے
مرگ مجنوں سے عقل گم ہے مؔڑ
کیا دوانے نے موت پائی ہے

تشریح

پہلا شعر

کوفت سے جان لب پہ آئی ہے
ہم نے کیا چوٹ!دل پہ کھائی ہے

شاعر کہتا ہے کہ محبت میں ہم نے اپنے دل پر وہ گہری چوٹ کھائی ہے کہ ہماری جان پر بن آئی ہے۔ہماری مصیبت کا عالم یہ ہے کہ جی جان لبوں پر آگئی ہے۔

دوسرا شعر

لکھتے رُقعہ، لکھی گئے دفتر
شوق نے بات کیا بڑھائی ہے

شاعر کہتا ہے کہ چار سطریں اپنے محبوب کو لکھنے بیٹھے تھے۔اپنے دل کا حال ایک رقعے پر لکھنے بیٹھے تھے کہ محبت کی جوش نے اس رقعے کو دفتر میں بدل دیا گویا ڈھیروں لکھ دیا۔

تیسرا شعر

دیدنی ہے شگفتگی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے

شاعر کہتا ہے کہ ہمارے اس زخمی دل کی شگفتگی یعنی ہریانی دیکھنے کے قابل ہے۔ زخم ہرا ہونے سے مراد گھاؤ تازہ ہو جانے سے ہے۔اور یہ گھاؤ تازہ ہوتا ہے شدت غم سے۔لہذا شاعر کہتا ہے کہ ہمارے خانہ دل کو غموں نے ایسے ڈھا دیا کہ ہمارے زخم ہرے ہو گئے اور درد کی شدت بے انتہا بڑھادی ہے‌۔

چوتھا شعر

بے ستوں کیا ہے ؟کوہ کُن کیسا؟
عشق زور آزمائی ہے

بے ستوں وہ پہاڑ ہے جو فرہاد نے شیریں کے لیے کاٹا تھا۔کوہ کن،پہاڑ کاٹنے والے یعنی فرہاد یاد۔ اب شاعر کہتا ہے کہ وہ پہاڑ کیا اور وہ پہاڑ کاٹنے والے یعنی فرہاد کیا۔میں نہ پہاڑ کاٹ سکتا تھا۔دراصل وہ عشق نے اپنی قوت دکھائی۔ورنہ کسی کی کیا مجال کہ وہ تیشے سے پہاڑ کاٹے۔