ناول آگ کا دریا کا تنقیدی جائزہ | Novel Aag ka Darya Tanqeedi Jaiza

0

قرۃالعین حیدر کی حیات

قرۃ العین حیدر 20جنوری 1927 کو علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ان کی پیدائش کے وقت ان کے والد سید سجاد حیدر یلدرم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے رجسٹرار تھے۔ان کی والدہ کا نام نذر سجاد حیدر ہے۔قرۃ العین حیدر کا ابتدائی نام نیلوفر تھا لیکن ان کے ماموں جان سید افضل علی نے نیلوفر بدل کر ان کا نام قرۃالعین حیدر رکھ دیا۔عرف عام میں قرۃ العین حیدر کو لوگ عینی کہتے ہیں عینی کی خوش نصیبی ہے کہ ان کے والدین معروف اور صاحب طرز افسانہ نگار ناول نگار گزرہے ہیں۔عینی کو تعلیمی و تربیتی،ثقافتیو خاندانی اور جنسی اعتبارسے ادبی اور تخلیقی ذہن و شخصیت وراثت میں ملی ہے۔

ان کے مورث اعلی وسط ایشیا سے ہندوستان آئے سید کمال الدین جن کو عینی نے ” آگ کا دریا” ناول میں مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد کی علامت کے طور پر ایک کردار کی شکل میں پیش کیا ہے۔1180ء میں ترکی سے ہندوستان کی طرف کوچ کیا اور یہی سید کمال الدین بن سید عثمان ترمزی قرہ العین حیدر کے جدا علی ہیں۔سید کمال الدین ترمذی نے تمانسر سے متصل قصبہ کھیتل ریاست ہریانہ میں مستقل طور پر سکونت اختیار کی اور ہریانوی زبان میں اسلام کی تبلیغ کا کام کیا۔ سید کمال الدین کے بیٹے سید جلال الدین غازی تھے اور سید جلال الدین رازی کے صاحبزادہ سید حسن ترمزی تھے جو قصبہ نہٹور ضلع بجنور میں بس گئے تھے قرۃ العین حیدر کے آباؤ اجداد کی حویلیوں کے نشانات کھنڈر کی شکل میں آج بھی پائے جاتے ہیں سید حسن ترمزی کے لڑکے آخوندامام بخش تھے اور ان کے لڑکے میر احمد علی تھی جو میرٹھ چھاؤنی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے معمولی سپاہی تھے ان کے بڑے لڑکے سید جلال الدین حیدر سید سجاد حیدر یلدرم کے والد تھے اور قرۃ العین حیدر کے دادا میر احمد علی کا زور شور سے انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو جاگیر ضبت ہوگی نتیجتا یلدرم کے والد اور خاندان کے دیگر افراد کو سرکاری نوکری کا سہارا لینا پڑا۔ان کا خاندان اپنی اہمیت اور فضیلت کے لئے بہت ممتاز تھا ان کے خاندان کی ایک خاتون بی بی مریم نواز شریف کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا تھا۔

سجاد حیدر یلدرم نے بھی بہ حثیت ادیب کافی شہرت حاصل کی اردو میں جدید طرز کے مختصر افسانے کا بانی ہونے کا شرف کس کو حاصل ہے اردو افسانے میں رومانویت کے رجحان کا بانی بھی انہیں قرار دیا گیا ہے۔ 18جنوری 1912ء میں ان کو مشہور افسانہ نگار محترمہ نزر الباقر سے یلدرم کی شادی ہوی محترمہ کا اصل نام نزر زہرہ بیگم تھا عورتوں کے اخبار”تہزیب نسواں”میں لکھا کرتی تھیں۔1910ء میں ان کا پہلا ناول”اختر النساء بیگم” اور 1918ء میں دوسرا ناول” آہ مظلوماں” شایع ہوا ان کے سبھی نالوں کو یکجا کرکے قرہ العین حیدر نے “ہواے چمن میں خیمہ گل” کے عنوان سے کلیات کی شکل میں ترتیب دیا ہے۔

سجاد حیدر کے یہاں چھ اولادیں ہویں چار بچے بچپن میں انتقال کر گئے ایک لڑکا مصطفی خیدر اور ایک لڑکی قرہ العین حیدر بقید حیات رہے جن میں سے مصطفی حیدر کا پاکستان میں انتقال ہو گیا۔ عینی کا بچپن بڑے کی عیش و آرام سے گزرا،کافی نازونعم سے پرورش ہوئی ان کا گھرانہ کافی خوشحال تھا چونکہ گھر کی واحد لڑکی تھی لہذا گھر کے تمام لوگ کافی توجہ دیتے تھے ان کے خاندان کے لوگ نئی قدروں کو گلے لگانا بھی چاہتے تھے اور پرانی قدروں کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتے تھے۔

عینی کی زندگی کے ابتدائی دن علی گڑھ اور پورٹ بیلر میں گزرے میٹرک کی تعلیم انہوں نے دہرادون کے ایک پرایوٹ اسکول سے حاصل کی اس کے بعد از بلا تمو برن کالج لکھنؤ سے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کی اس کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا چونکہ عینی کو ارٹ کا بے حد شوق تھا لہذا گورنمنٹ سکول آف آرٹ لکھنو سے آرٹ کی باضابطہ تعلیم حاصل کی۔شاید آسی لئے انہوں نے اپنی تمام کتابوں کے سرورق پر بڑی علافتی اور معنی خیز تصویریں پیش کی ہیں۔

قرۃ العین حیدر نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ بہت معزز اوراعلیٰ تعلیم یافتہ تھا ان کے گھر کا ماحول کافی علمی اور ادبی تھا جس کی وجہ سے عینی کو لکھنے پڑھنے کی تحریک ملی ان کے ادبی سفر کا آغاز کارٹون سے ہوا تھا جو رسالہ”پھول” کے سالنامے میں شایع ہوا تھا۔انہوں نے اپنی پہلی کہانی سات سال کی عمر میں لکھی تھی جس کا آغاز ان کے عظیم ادبی سفر کی دلالت کرتا ہے ملاحظہ فرمائیے۔

” رات کے 12:00 بجے کاٹھ گودام کے اسٹیشن پر قلی لالٹین لئے ادھر ادھر دوڑتے پھرتے تھے ہیروین شاید میری گڑیا تھی جو خود ٹکٹ خرید کر پاؤں چل کر غلط ٹرین میں بیٹھ گئی تھی”

میری کہانیاں ،ساقی، ہمایوں، ادب لطیف میں چھپا کرتی تھیں۔ جس سال قرۃالعین حیدر تعلیم سے فارغ ہوئی اسی سال ملک آزاد ہوا پھر تقسیم ہوا تقسیم کے بعد عینی کا خاندان دسمبر 1947 میں پاکستان ہجرت کر گیا۔
پاکستان میں وزرات اطلاعات و نشریات کراچی کے محکمہ اشارات فلمیات میں انفارمیشن افسر کی جگہ پر ان کی تقریب ہوئی اس کی بات وہ لندن چلی گئی جہاں وہ پاکستانی ہائی کمیشن میں انفارمیشن آفیسر کے عہدے پر فائز ہوئیں۔اس کے بعد اس عہدے سے استعفی دے دیا لندن سے ثقافت کا ڈپلومہ کیا اس کے بعد لندن میں بی بی سی سے وابستہ ہوگئی لندن سے واپسی پر ممبئی میں والدہ کے ساتھ سکونت پذیر تھی کہ یہاں 1967ء میں عینی کی والدہ کا انتقال ہوا۔

1964-68 میں تین سال “امیرنٹ،بمبی میں منیجنگ ایڈیٹر اور سال،انڈیڑ کی حثیت سے کام کیا پھر “السڑیڈوپکی آف انڈیا”کی ادارتی عمل میں شریک ہو گی اور اس میں1968-75 تک کام کیا۔1968-77ء تک ساہیتہ اکادمی دہلی کی ممبر رہیں ترقی اردو بورڈ کی بھی ممبر ہیں انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور یو ایس اے کی متعدد یونیورسٹیوں میں وزٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

عنی کو ان کی ادبی خدمات کیلئے متعدد انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔1967ء میں ان کے تبصرے افسانوی مجموعہ “پت جھڑ کی آواز” کے لیے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا اور 1967ء میں ان کو ترجمہ کے لیے “سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ” دیا گیا.1968ء میں ہندوستان کی سب سے بڑیے ادبی انعام” گیان پیٹھ ایوارڈ” سے سرفراز کیا گیا مدھیہ پردیش کا سب سے بڑا اعزاز اقبال سماں بھی انہیں ملا۔ جنوری 1994ءمیں ساہتیہ اکیڈمی فیلوشپ سے بھی انہیں نوازا گیا اس وقت وہ نوئیڈا اتر پردیش میں رہائش پذیر ہیں اور ادبی اور تخلیقی سرگرمیوں میں مصروف رہیں۔

قرۃ العین حیدر کی ناول نگاری

مولوی نذیر احمد سے پریم چند تک اور پریم چند سے کرشن چندر تک پہنچتے پہنچتے اردو ناول نے کہیں منزلیں طے کر لی تھیاور اس صنف کی ایک مستحکم روایت قائم ہوگئی تھی ایسے میں قراۃ العین حیدر نے اس وعدہ نے قدم رکھا۔جیرت نہ ہوتی اگر وہ اپنےکسی پیش رو کے نقش قدم پر چل پڑتیں اگر قرۃ العین حیدر میں ایک بلند پایہ فنکار خوابیدہ تھا جس نے اپنا راستہ آپ کہ اور پچھلی سیٹ کر نکالا ناول کا موضوع انداز پیشکش اسلوب نگارش پر معاملے میں ان کی انفرادیت نمایاں ہوتی ہے ان کے ہاں بہت کچھ ایسا ہے جو دوسروں کے ہاں ناپید ہے۔

مغربی ادب کا مطالعہ قرہ العین حیدر نے براہ راست کیا دور حاضر کا شعور حاصل کیا۔انہوں نے انگریزی ادب کا مطالعہ کیا اس پر غور کیا اور اس سید فیض اٹھایا انہوں نے محض تقلید نہیں کی بلکہ حسبہ ضرورت اس میں کمی پیشی بھی کی اور جو کچھ اپنایا بھی تو وہ اس طرح سے کہ اصل سے بہتر ہوگیا اس لئے باہر نظر کی رائے ہے کہ قرۃ العین حیدر انگریزی ناول نگاروں سے آگے نکل گئی ہے۔

آج اردو ادب میں حیدر کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جو کسی کا عرف کے محتاج نہیں آزادی کے بعد جن ناول نگاروں کے لیے شہرت کا آفتاب بلند ہوا ان کی ناول نگاری کا آغاز اس وقت ہوا اور غیر کی تقسیم کے عمل سے متاثر ہوکر اپنا پہلا ناول “میرے بھی صنم خانے” میں رکھا اس کے بعد “سفینہ غم دل” اور “آگ کا دریا” لکھ کر کر انہوں نے بہت ہی مختصر عرصے میں شہرت کی بلندیوں کی سیر کی کار جہاں دراز ہے “آخری شب کے ہمسفر” گردش رنگ چمن” اور “چاندنی بیگم” مصنفہ کے دوسرے اہم ناول ہیں۔

قرۃالعین حیدر کا نام بہت بار سے اردو ناول نگاری میں کافی اہمیت کی حامل ہے ان کی شہرت کا اسلوب اس ناول کی وہ تکنیک ہے جس سے شور کی روح کہا جاتا ہے جو لکیروں والے ناول میں باضابطہ پلاٹ کا فقدان ہوتا ہے اور اس میں سب سے زیادہ توجہ کردار کے نفس پر دی جاتی ہے قرۃ العین حیدر نے شعور کی رو کی تکنیک کو اپنے ناولوں میں ہے زندگی کی بھرپور عکاسی کی ہے اس موضوع پر انہوں نے غور کر کے اسے فلسفیانہ انداز سے پیش کیا ہے وقار عظیم لکھتے ہیں۔

“قرۃ العین حیدر کی ناول نگاری آتی اور فلسفیانہ فکر پرخلوص مشاہدے اور فن کے نئے تجربات کا ایسا امتزاج ہی جی میں ناول اپنی جدید تعلیم سی آیت میں ہمارے سامنے آتا ہے”

قرۃالعین حیدر ورجینا وولف سے بہت متاثر ہیں اردو ناول کے اثرات کو وسیع کرنے میں ان کا بہت اہم رول ہے کہ وہ اعلی تعلیم یافتہ تربیت یافتہ اور صحت مند ماحول کے ساتھ ساتھ سحری کی ذہانت کی حامل شخصیت ہی ہو کر جب ناول تخلیق ہوتا ہے تو پھر اس میں بھی بیعت جمع ہوجاتی ہے جو چیز قرۃ العین حیدر کو اردو کے باقی تمام فنکاروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کا وسیع کینوس ہے وہ ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش کے علاوہ یورپ کو بھی اپنے ناولوں میں شامل کر لیتی ہیں ان کی نظر بہت وسیع ہے بنی نوع انسان کو جو مسائل درپیش ہیں اور عالمی سطح پر جو ہے نہ رونما ہو رہے ہیں وہ سب ان کے پیش نظر رہتے ہیں اسی کا نام موت ہے اور اس معاملے میں کوئی دوسرا فنکار ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

حیدر کے ناولوں کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کہ وہ معاشرے کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں خاص کر ان مغرب پرست ہندوستانیوں کی تصویریں سونا تلاش کی ہیں کہ جن کو دولت مندی کی وجہ سے ہر قسم کا عیش و آرام میسر ہے یہ لوگ جاگیردارانہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو جاگیر دار تو ہیں لیکن شہروں میں رہتے ہیں گاؤں سے ان کا تعلق صرف اتنا ہے کہ وہ ان کی آمدنی کے مالک ہوتے ہیں جاگیرداروں کی اس ذہنی کشمکش کو مصنفہ نے اپنے کچھ ناولوں کا موضوع بنایا ہے۔حیدر نے عدد کا گہرا مطالعہ کیا ہے انگریزی ادب کے وسیع مطالعہ نے ان کے فن کو اور زیادہ نکھارا ناول کو انہوں نے جدید فن سے روشناس کرایا جب بھی ان کے ناولوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو تاریخ اور تہذیب کا ایک بہترین امتزاج ملتا ہے اور سماجی موضوعات کو اپنے ناولوں میں بڑی خوبصورتی اور فنی لوازمات کے ساتھ اجاگر کیا ہے انہوں نے کہیں تجربے کیے اور اردو ناول کو جدید فن سے روشناس کرایا بقول ڈاکٹر حسن فاروقی۔”اردو ناول نگاری میں قرۃ العین حیدر کی فرد ہیں جنہوں نے ناول کو جدید فن کی خوبیوں سے معمور کیا”

جب کردار نگاری کے حوالے سے قرۃالعین حیدر کے ناولوں کا جائزہ لیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مصنفہ نے اپنے ناولوں میں کردار نگاری کے ہر پہلو پر وہ خاص توجہ دی ہے ان کے ناولوں میں مشاہدے کی گہرائی اور تجرباتی وسعت کا اثر تمام کرداروں ہے ہر ہر پہلو پر نظر رکھتی ہیں اور کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کرتی اور ان کے کرداروں میں زندگی کا سوز بی ہے اور معاشرتی تغیرات کے نمایاں نقوش بھی ہیں بقول وقار عظیم۔

“ان کے کردار بہت معصوم بہت نیک سر شست اور علی وارفع ہیں”
اپنے ناولوں میں خاص کر ناولوں کے پلاٹ میں مصنفہ نے وساطت جعمیت ربط اور ملنگی کو برقرار رکھا ہے ان کے ناولوں میں منظر نگاری کی بھی بہترین نمونے ملتے ہیں منظر نگاری کے سلسلے میں حیدر جذبات سے کام نہیں لیتی ہیں البتہ رومانی زرور ہوجاتی ہیں انہوں نے اپنے بیشتر ناول فطرت کی شاعرانہ کاسی سے شروع کیے ہیں ان کے ناولوں میں فطرت ایک خاموش کردار کا رول ادا کرتی ہے قرۃ العین حیدر کی منظر نگاری کی نہ کسی تاریخی مقصدیت اور صداقت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔حیدر اپنے ناولوں کے واقعات کے انتخابات اور ان کی پیشکش کے انداز میں بھی محتاط اور سلیقہ مند ہیں انہوں نے اپنے ناولوں کے پلاٹ میں واقعات کو موتیوں کی طرح لڑی میں پرویا ہے۔

حیدر کو رنگین نثر سے بھی بے حد دلچسپی ہے ان کے اسلوب میں بانکپن وہ شوخئ تیزی و طراری پائی جاتی ہے لیکن حیدر کا اسلوب نگارش ہر جگہ نہیں رہتا کہیں تو وہ شاعرانہ زبان استعمال کرتی ہیں اور کہیں زیادہ سہل اور سلیس زبان دکھای دیتی ہے اسی لئے قرہ العین حیدر کے اسلوب نگارش کے بارے میں مختلف ناقدین نے مختلف رائے دی ہے چنانچہ شمس الرحمن فاروقی کے مطابق؛ “قراۃ العین حیدر کا اسلوب اپنی رومان زدگی کے باعث نثر کا اچھا اسلوب نہیں بلکہ اس میں بہت زیادہ سطحیت ہے”
اس کے برعکس وحیدہ اختر اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں۔
“اردو فکشن میں اتنی جاندار اور معنی ہیز نثر شاید ہی کسی اور نے لکھی ہو”

اس اختلاف کا سبب دراصل یہ ہے کہ انہوں نے شاعرانہ شہزادہ اور راست سبھی طرح کی زبان استعمال کی ہے حیدر نے علامتی طرز تحریر سے بھی فائدہ اٹھایا ہے دیہاتی زبان کے فکر بھی انہوں نے اپنی تحریروں میں استعمال کیے ہیں طنز و مزاح بھی ان کی تخلیقات کی روح ہے جو کچھ بھی حیدر نے دیکھا ہے اس میں طنز و مزاح کی چاشنی بھی موجود ہے یہی عناصر ان کے طرز بیان کو اس درجہ انوکھا بناتے ہیں کہ سنجیدہ موقعوں کال پر بھی مذاق کا عنصر ساتھ نہیں چھوڑتا۔

ماضی کی بازیافت بھی قراۃ العین حیدر کی ناول نگاری کا ایک اہم جز ہے لیکن وہ ماضی میں اسیر ہو کر نہیں رہ جاتی اور کسی بھی خان میں مستقبل کو نظر انداز نہیں کرتی بلکہ ان کی دو رخ ہیں ایک ماضی کی طرف اور دوسرا مستقبل کی طرف اور حال میں ان دونوں کا عکس نظر آتا ہے ماضی ان کے نزدیک ایک زندہ وجود ہے جو خال میں داخل اور مستقبل میں شامل رہتا ہے “آگ کا دریا” 2050 پرسوں پر پھیلا ہوا ہے “آخری شب کے ہمسفر” اس جملے پر ختم ہوتا ہے۔

“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاکھوں برس سے سورج اسی طرح طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوتا ہے اور غروب ہوتا ہے اور طلاع۔۔۔۔۔۔۔”

اسی تسلسل کا نام زندگی ہے اور اسی حقیقت کا عرفان جتنا قراۃ العین حیدر کو حاصل ہے کسی اور فنکار کو نہیں۔

مجموعی اعتبار سے قرۃالعین حیدر کا نام اردو ناول نگاری میں خاص اہمیت کا حامل ہے ہے جس حیدر نے ناول نگاری کی دنیا میں ایک نیا راستہ اختیار کیا ہے اور اپنے قلم سے ایسے کارنامے سرانجام دیے جن کی وجہ سے اردو ادب ان کے نام اور ان کے کارناموں کے ساتھ فطرت کی طرح لہلہا رہا ہے اس کو قرۃ العین حیدر نے اپنے خون جگر سے سینچا ہے اپنے ناولوں کے ذریعے جہاں ایک طرف مصنفہ نے قاری کو گہرے شعور اور تجربات سے روشناس کرایا ہے وہاں دوسری طرف انہوں نے تھکے ہوئے ذہنوں کو تفریح کا سامان بھی مہیا ہیں کیا ہے اردو ناول کے آفاق کو وسیع کرنے میں خیدر کا اہم رول ہے اردو ناول قرۃ العین حیدر کے افسانوں سے گرام بار ہے جب بھی اردو ناول نگاری کے حوالے سے بات کی جائے گی تو ان کے ناولوں کا ذکر نازل ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں فراموش کیا جاسکتا ہے اردو ادب اس فنکار پر ہمیشہ ناز کرتا رہے گا جب تک اردو ناول نگاری کی دنیا باقی ہے تب تک قراۃ العین حیدر کا نام بھی زندہ جاوید رہے گا۔

قرۃ العین حیدر کا ناول “آگ کا دریا”

“آگ کا دریا”قرۃ العین حیدر کا سب سے اہم اور اردو ادب کا ایک عظیم ناول ہے یہ ناول 1953ء میں پاکستان سے شایع ہوا۔”آگ کا دریا” لکھ کر حیدر نے اردو ناول کو ایک نئی روح بخشی یہ ناول اردو ادب کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے “گیان پیٹھ ایوارڈ” یافتہ یہ ناول خیدر کی فنکارانہ صلاحیتوں کا بین ثبوت ہے۔

“آگ کا دریا” اردو ناول نگاری میں ایک منفرد شخصیت کا حامل ہے کیونکہ اس ناول کے ذریعے قراۃ العین حیدر نے اردو ناول کو فکر و فن کی انتہائی بلندیوں سے روشناس کرایا ہے اگر اس سے بیسویں صدی میں ناول نگاری کا عظیم کارنامہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا اس ناول کا کینوس بہت وسیع اور پھیلا ہوا ہے یہ ہندوستان کی تہذیبی تاریخ ہزار ہا برس کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے اس ناول میں ہندوستانی تہذیب کے مختلف پہلوؤں کو جس طرح انہوں نے پیش کیا ہے اس پر پاکستان میں کہیں دفعہ ان کی مخالفت بھی کی گئی مگر سنجیدہ حلقوں نے ناول کی خوب پذیرائی بھی کی۔

“آگ کا دریا” ایک ذہین ناول ہے اس میں حیدر نے دریا کو وقت کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔وقت نے اپنی رفتار بدلیں بدلے ہوئے حالات اور ماحول سے تہذیبیں بنی اور اور مٹ گئیں ان سب چیزوں کو ناول نگار نے دریا کے بدلتے ہوئے روپ میں پیش کیا ہے جو زندگی اور موت کے چکر سے آزاد ہے کیونکہ وقت کو کبھی موت نہیں آتی۔

قرۃ العین حیدر نے اس ناول میں شعور کی رو کی تکنیک کو بھرتا ہے شعور کی رو ح کے ناولوں میں ذہنی تاثرات کو پیش کیا جاتا ہے لیکن یہ سب بھی ربط ہوتے ہیں لیکن جب کوئی شخص اپنے خیالات کو دوسرے کے سامنے پیش کرتا ہے تو الفاظ کی ترتیب دب لیتا ہے۔بس اتنا ہی کچھ ربط و تسلسل شعور کی رو ح کے ناولوں میں ملتا ہے اس تکنیک اور انداز کو کام میں لاتے ہوئے قراۃ العین حیدر نے یہ ناول لکھا ہے. قرۃ العین حیدر نے “آگ کا دریا”کو تین تہذیبی ادوار میں تقسیم کیا ہے۔

  • ١ چانکہ منی سے واجد علی شاہ کے زمانے تک۔
  • ٢ واجد علی شاہ کے عہد سے تحریک آزادی کے زمانے تک۔
  • ٣ تحریک آزادی سے 1950ء کے زمانے تک۔

پلاٹ

ناول کا پلاٹ ویڈیو زمانے سے شروع ہوتا ہے اس زمانے کے طالبعلم “روح کیا ہے؟”اور قدر کیا ہے؟” اس قسم کے فلسفیانہ سوالات پر غور و فکر کرتے تھے اسی قسم کا ایک طالب علم “آگ کا دریا” میں گوتم نیلمبر ہے جو براہمن ہے اور چپس ہنر رکھتا ہے وہ بدھ مذہب سے بھی متاثر ہے ایودھیا سے شروع ہوتی جاتے ہوئے سر جوت کے کنارے دو لڑکیاں “چمک اور نرملا” اسے نظر آتی ہیں چمپک کی شادی ایک پچاس سالہ چلاک برہمن سے ہو جاتی ہے گوتم کی انگلیاں اور غوریوں کے حملے میں کٹ جاتی ہیں اور ادھر ادھر پھرتا ہے اسی دوران اس کی ملاقات کاشی کی نایکہ سے ہو جاتی ہے وہ اس سے اپنے ناٹک فنڈلی میں شامل کر لیتی ہے ایک ناٹک کرتے وقت وہ چمپک کو عورتوں میں بیٹھی ہوئی دیکھتی ہے دونوں کی نظریں ملتی ہیں چمپک اس سے ملنا چاہتی ہے اور وہ یہ کہہ کر انکار کرتا ہے کہ؛ “پتی والی عورت کیلئے دوسرا مراساے کے سماں ہوتا ہے”

یہ ایک جملہ قاری کے سامنے ہندوستانی تہذیب و تمدن کے تقدس کو پیش کرتا ہے ناول نگار نے اس ایک جملے کے ذریعے ہندوستانی مرد کی نظر میں ہندوستانی عورت کے مقام کو عیاں کرنے کی کوشش کی ہے جہاں ناول کا پہلا حصہ ختم ہو جاتا ہے۔

ناول کا دوسرا حصہ

ناول کا دوسرا حصہ مسلمانوں کی آمد کے بعد شروع ہوتا ہے ان مسلمانوں میں عربی کا ایک نثر نگار قبول کمال بھی تھا جس نے جون پور کے کتب خانے میں بیٹھ کر ہندوستان کی تاریخ بھی لکھی اس نے ہندوستان کے مختلف مقامات کی سیر بھی کی اور لوگوں سے تبادلہ خیال کیا اسلام کی تعلیمات نے ہندو بھگتوں کو بھی متاثر کیا۔ امن پسند صوفیوں نے اسلام قبول کیا جہاں ہندو مسلمان کا کوئی سوال نہ تھا یہ ایک محبت کی دنیا تھی ہندو مسلمان میں اتفاق تھا اسی دوران کمال کو ایودھیا میں ایک لڑکی چمپا نظر آئیں اور دانوں ایک دوسرے سے متاثر ہوتے ہیں دونوں ایک دوسرے کو پا لینے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن جنگ نے دونوں کو جدا کر دیا کمال چمپا کو نہ پاکر کر کبیر کا بھگت ہو جاتا ہے اور بنگال کا ایک محنت کش احسان بن کر اس سر زمین کو قبول کرتا ہے۔

ناول کا تیسرا حصہ

ناول کاتیسراحصہ مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے اب ناول میں ایودھیا اور پاٹلی پتر کی جگہ فیض آباد اور لکھنؤ کی تہذیب سامنے آتی ہے لکھنؤ کی تصویر کشی حیدر نے بڑی کامیابی کے ساتھ کی یہ وہ زمانہ تھا جب انگریز ہندوستان میں تجارتی کوٹھیاں بنا رہے تھے بنگال کا گوتم اب اپنی انفرادیت ہندوستانی تہذیب کا علمبردار ہے جب لکھنؤ واپس آتا ہے تو چمپا بھائی نامی طوائف پر نظر رکھتا ہے وہ بھی گوتم سے عشق کرنے لگتی ہے لیکن جب گوتم بنگال واپس جاتا ہے اور ایک لمبے عرصے کے بعد لکھنؤ آتا ہے تو چمپا ایک بھکارن کے روپ میں ملتی ہے 1857ء کئی بار ہندوستان برٹش امپائر میں شامل کر لیا جاتا ہے گوتم پروفیسر نلیمبردت بن جاتا ہے۔اس پر ناول کا تیسرا حصہ ختم ہو جاتا ہے۔

ناول کا چوتھا حصہ

ناول کے چوتھے حصے میں نواب کمن اور پروفیسر نلیمبردت کی اولادیں یوپی کے اونچے طبقہ کے تعلیم یافتہ افراد بن کر ابھرتے ہیں جو ذہن ،حساس اور خود دار ہیں اس کے علاوہ سیاسی شعور بھی رکھتے ہیں ان میں گوتم، کمال، میری شنکر، چمپا، احمد ،نرملا ،اور سرل وغیرہ اہمیت کے حامل ہیں یہ سب جذباتی ہیں اور اصول پرست بھی چمپا احمد کے علاوہ باقی سب کو فرصت ہی بیسویں صدی کے باشندے ہیں جو ہندوستانی تہذیب اور روایات سے بے پناہ محبت کرتے ہیں لیکن ان کے اندر ڈھائی ہزار سال پرانی گوتم اور ابوالمنصور کی روح موجود ہے اس گروپ کے سارے کردار پاروں کے سہارے جیتے ہیں۔یہ نوجوان یونیورسٹی کے طالب علم ہیں برطانوی حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور بھارت پاکستان پر بھی تبصرہ کرتے رہتے ہیں۔

زبان و بیان

قرۃالعین حیدر کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں علی سوسائٹی کی انگریزی آمیز اردو لکھتی ہیں۔لیکن درحقیقت وہ جس ماحول کی عکاسی کرتی ہیں اسی ماحول کے مطابق زبان بھی استعمال کرتی ہیں اس ناول میں انہوں نے فارسی اور عربی کے لاتعداد الفاظ استعمال کئے ہیں اور ان تمام الفاظ کا استعمال برستا طورپر کیا ہے قرۃ العین حیدر کے پاس الفاظ کا جتنا ذخیرہ ہے شاید کسی دوسرے ناول نگار کے پاس نہ ہو اس ناول کی زبان موضوع کے مطابق علامتی اور انداز شاعرانہ ہے مکالمے اس ناول میں ضمنی طور پر آئے ہیں جیسے وہ کسی منظر کا جز ہوں یہی وجہ ہے کہ مکالمے کہیں تبدیل نہیں ہے ان مکالموں سے ناول میں ڈرامائی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اس میں طنز و مزاح کی چاشنی بھی ملتی ہے۔

ہر عہد کی زبان میں قرۃ العین حیدر نے ایک فرق قائم کیا ہے اور قابل ذکر انفرادیت کے ساتھ ہر آیت کے لوگوں کی زبان کی عکاسی کی ہے غرض ہر معاملے میں ناول کا جواب نہیں اور کہا کہ والے ناولوں میں ربط و تسلسل کا فقدان ہوتا ہے لیکن “آگ کا دریا” میں یہ یہ ہیڈ نہیں ہے اور وجہ اس کی زبان و بیان ہے یہ زبان کی مٹھاس ہی ہے جو ہر جملے کو بار بار پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ الغرض آگ کا دریا کیا مطالعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قرۃ العین حیدر کے پاس جو صلاحیتیں انہوں نے ان کا بھرپور استعمال کیا بلکہ دوسروں سے الگ ایک نئی راہ نکالنے کی کوشش کی ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ قدر یا ایک مکمل ہندوستان کی تصویر ہے اور یہ اردو ناول کا سنگ میل ہے کیونکہ اس میں حیدر ہندوستان کی تین ہزار سالہ پرانی تہذیب کو سمیٹا ہے اس ناول میں حیدر نے مغربی تکنیک کے ساتھ اسلوب اور اظہار و بیان کیک ہیں نئے تجربے کیے ہیں اور نئی راہ نکالی ہیں۔با قول پروفیسر اسلوب احمد انصاری؛

“جس وسعت کے ساتھ اس ناول میں تاریخی شعور اور تخلیق کے آداب کو سمویا گیا ہے اس کے پیش نظر “آگ کا دریا” نہ صرف ناول نگاری کے اب تک کے کارناموں میں شاہکار درجہ رکھتا ہے بلکہ ہماری زبان کے ادب میں بھی اس کی جگہ ایک ایسی منفرد اور ممتاز ہے کہ اس کی ہمسری شاید عرصہ تک ممکن نہ ہو”

آگ کا دریا کے چند اہم کردار

جس طرح انسانی جسم میں آنکھ ،ناک، کان، ہاتھ،بازو، ٹانگ وغیرہ میں اعضاء کی اہمیت ہے اور ان کے بغیر انسان کا تصور ہی ممکن نہیں اسی طرح ناول میں بھی کرداروں کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے بالکل انسانی جسم کے اعضاء کی طرح جو اپنا رول ادا کرتے ہیں اور کہانی کو آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔

قرۃ العین حیدر کا ناول “آگ کا دریا” ان چند اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے جن کی کردار نگاری کے حوالے سے کافی اہمیت ہے اس ناول کا ہر کردار روپ بدل بدل کر ہمارے سامنے آتا ہے اور اپنے عہد کی اور اپنی تہذیب کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے ناول کے تمام کردار کہانی کے ساتھ چلتے ہیں اور اپنے ماحول کی عکاسی کرتے ہوئے کہانی کو آگے بڑھانے میں مدد دیتی ہیں غرض ناول کے تمام کرداروں کو حیدر کمال کال آئی سا ہے جو قراۃالعین خیبر جیسی ناول نگار ہی انجام دے سکتی ہے یوں تو اس ناول میں بہت کردار ہیں جو اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں لیکن ناول کے اہم کردار گوتم، چمپا اور کمال ہیں۔

گوتم نیلمبر کا کردار

گوتم نیلمبر دراصل ویددوں کے عہد کا ایک طالب علم ہے جو تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنا گھر اور عیش چھوڑ کر روح کا سکون حاصل کرنے کے لیے جنگلوں میں گھومتا ہے۔اور غوریوں سے لڑائی کرتا ہے اور اس لڑائی میں اس کا ایک ہاتھ بیکار ہوجاتا ہے اس کے بعد اداکاری کو وہ اپنا مشغلہ بنا لیتا ہے اور ناٹک کمپنی میں کام کرتا ہے۔

اس کے بعد انگریزوں کے عہد میں گوتم ایسٹ انڈیا کمپنی کے مسلمان میں کلرک بن جاتا ہے کی طرز معاشرت سے متاثر ہوتا ہے اور چمپا پائی سے محبت کرنے لگتا ہے لیکن اس سے حاصل نہیں کرپاتا کلکتہ سے واپس جا کر وہ کالج میں داخلہ لے لیتا ہے اس کے بعد ملازمت ترک کر دیتا ہے کیونکہ وہ راجہ رام موہن رائے کی تقریریں سن کر متاثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے برہمن سماج کا ایک جوشیلا کارکن بن جاتا ہے۔ انگریزی دور میں گوتم ایک ایسے ترقی پسند نوجوان کے روپ میں سامنے آتا ہے جو انقلابی خیالات رکھتا ہے۔وہ صحافی بن جاتا ہے جب ملک تقسیم ہوجاتا ہے تو ہندوستانی سفارت خانے کا ایک کارکن بن جاتا ہے اور باہر کے ممالک یعنی انگلینڈ ماسکو اور نیویارک کے چکر لگاتا ہے۔ان مصروفیات سے فرصت پائے تہی وہ گھر واپس آجاتا ہے اور ماضی کے نقوش اس کے دل پر ابھرنے لگتے ہیں۔بقول شاعر؀


شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کہیں کہانیاں یاد سی آ کر رہ گئیں

چمپا احمد کا کردار

چمپا کو گوتم جب سر جوت کے کنارے دیکھتا ہے تو اسے پسند کرنے لگتا ہے مگر غوریوں کی لڑائی کے بعد چمپا احمد ایک فوجی افسر سے شادی کر لیتی ہے ادھر سے چمپا کسی سے محبت کرتی ہے دور جدید میں چمپا طوائف بن جاتی ہے جہاں بڑے بڑے حاکم اور نواب اس کے عاشق بن جاتے ہیں اور عودھ کی تباہی کے بعد ایک بھکارن کا روپ اختیار کر لیتی ہے اور آخر میں احمد عامر رضہ اور گوتم نیلمبردت کی منظور نظر بنتی ہے۔ لیکن اس سے کوئی نہیں اپناتا ہے تعلیم ختم کرنے کے بعد جب لندن سے واپس ہندوستان آتی ہے تو مراد آباد میں ایک رشتے کے چچا کے ہاں رہنے لگتی ہے جب کمال پاکستان سے واپس آتا ہے تو چمپا احمد سے ملتا ہے تو اس وقت اس کی حالت قابل رحم تھی لیکن پاس زندگی سے مایوس نہیں ہوتی ہے اس کا ارادہ تھا کہ وہ اپنے وطن شہو پوری جائے اور وہاں زندہ رہنے کی جدوجہد کرے اس کردار کو قرات العین حیدر نے دراصل ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کا نمائندہ بنا کر پیش کیا ہے اور اس کے ذریعے ہندوستان میں رہنےوالےمسلمانوں کی جدوجہد کو پیش کیا ہے۔

کمال کا کردار


کمال ایک ایرانی فلسفی ماں کا بیٹا ہے جو جونپور کے سلطان کے ساتھ مہم پر جاتا تھا لیکن سلطان کی شکست کے بعد صحافیوں کے ساتھ ہو جاتا ہے گیانیوی اور پنڈتوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔بعد میں گوڈ جاکر سورنا گاؤں کی ایک لڑکی سے شادی کر لیتا ہے اس کے اولادیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ ہندوستان کو اپنا وطن بنا لیتا ہے سیریل اور پیٹر سر جی سے انگریزوں کو اپنی کشتی میں بتاتا ہے اور ان کی باتیں سنتا ہے لیکن صبر و سکون سے برداشت کر لیتا ہے اور پھر ایک بنگال کے قحط میں مر جاتا ہے۔

اس کے بعد ناول میں وہ نواب کمان بن کر ابھرتا ہے بعد میں کمال رضا بن بن کر دی دلہن اور موجودہ دور کی نمائندگی کرتا ہے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتا ہے لیکن اسے ہندوستان میں اعلی ملازمت نہیں ملتی ہے custodian نے جب جایداد پر قبضہ کر لیا تو تنگ آکر پاکستان چلا جاتا ہے۔

الغرض “آگ کا دریا” کے تمام کردار ہندوستان کی محصوس تہذیب و تمدن کے کردار ہیں۔ان میں زیادہ تر خوشحال گھرانوں کے ذہین نوجوان ہیں جو اپنے طرز زندگی سے جاگیردارانہ طبقہ کی معاشرتی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں چند کردار جیسے چمپا کبیر اورگنگا وغیرہ متوسط اور غریب گمرانوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن کسی نہ کسی طرح خوش حال لوگوں سے وابستہ ہیں یہ نوجوان کردار حالات کی تبدیلیوں سے گہرے تاثرات قبول کرتے ہیں اور ترقی پسند خیالات سے متاثر ہوتے ہیں “آگ کا دریا” میں قرۃ العین حیدر نے جہاں اپنے کرداروں کے ذریعے جدید ذہنوں کی کشمکش کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے وہیں انہوں نے ان کے ذریعے اثرات خیالات اور جذبات کو بھی عیاں کیا ہے۔اور اگر یہ کہا جائے کہ آقا دریا کے کردار نگاری کے اعتبار سے ہندوستانی تہذیب و معاشرت کا مرقع پیش کرتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔

آگ کا دریا میں ”شعور کی رو“

”شور کی رو“ کا ناول کی وہ قسم ہے جس میں انسان کے خارجی احساسات کے بجائے داخلی احساسات پر روز دیا جاے شور کی رو کی بنیاد پر جو ناول تخلیق کیا جاتا ہے اس میں قدیم ناولوں کی طرح باضابطہ پلاٹ کا فقدان ہوتا ہے اس میں سب سے زیادہ توجہ کردار کے نفس پر دی جاتی ہے اور قاری براہ راست یا بلاواسطہ طور پر اس کردار کے نفس کا مطالعہ اور مشاہدہ کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس سے ناولوں کو پڑھ کر قاری کے ذہن کو دہرا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ پلاٹ اور واقعات پر زور دینے کے بجائے کرداروں کی ذہنی کیفیت کو پیش کیا جاتا ہے بقول ڈاکٹر احسن فاروقی:

“شعور کی رو اس کو اس لیے کہا جاتا ہے کہ انسان کو اس کے وجود اور رفتار کا عالم مسرور ہوتا ہے مگر اس کو پورے طور پر کسی دوسرے کے سامنے پیش کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے بات نصیحت یعنی زبان کے ذریعے انسان اس کا کچھ حصہ واضح کرتا ہے مگر اس کے مقابلے میں زبان محدود چیز ہے”

ڈاکٹر ہارون ایوب شعور کی رو کی تعریف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
“شعور کی رو کے ناولوں میں ذہنی تاثرات کو پیش کیا جاتا ہے یہ بالکل بے ربط ہوتے ہیں لیکن جب کوئی شخص اپنے خیالات دوسرے کے سامنے پیش کرتا ہے تو الفاظ کی ترتیب دے دیتا ہے بس اتنا ہی کچھ ربط و تسلسل کا تعلق شعور کی رو ح کے ناولوں میں ملتا ہے”

شعور کی رو کو برتنے والے فنکاروں کے لیے ضروری ہے کہ اس کا تخیل بلند ہو نگاہ دور رس کو زبان پر دسترس ہو تو علامات کو فنی طور پر استعمال کرنے کے فن سے پوری واقف ہو۔

جہاں تک قرۃالعین حیدر کی ناول “آگ کا دریا” کا تعلق ہے تو قرۃ العین حیدر اس بات سے انکار کرتی ہیں کہ ان کے ناولوں میں شعور کی رو کی تکنیک کو برتا گیا ہے لیکن اردو کے بیشتر اور مشہور ناقدین نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حیدر کا ناول شعور کی رو ح کے تحت لکھا گیا ہے اردو میں یہ پہلا کامیاب تجربہ ہے بقول ڈاکٹر ہارون:

“اردو ناول نگاری میں صرف قراۃالعین حیدر ہی وہ شخصیت ہیں جو شعور کی رو کی تکنیک کو پیش کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں اور انہوں نے سلیقے اور پورے مشاہدے سے اس تکنیک کا استعمال کیا ہے “

ڈاکٹر حسن فاروقی قراۃ العین حیدر کے ناول کو شعور کی رو کا ناول قرار دیتے ہوئے اس پر اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں۔

“اردو ناول نگاری میں قرت العین حیدر پہلی فرد ہیں جنہوں نے ناول کو جدید فن کی خوبیوں سے معمور کیا وہ شعور کی روح کے طریقے سے پوری طرح واقف ہی نہیں بلکہ ان کی فطرت کو بھی اس طریقے سے مناسب ہے”

شعور کی رو کی اس تکنیک کو پوری توجہ کے ساتھ حیدر نے ناول آگ کا دریا میں برتا ہے ان کے فن کی سب سے پہلی چیز یہی تکنیک ہے آگ کا دریا کی تکنیک مفربی مفہوم میں شعور کی رو پر مشتمل ہے۔

“آگ کا دریا” اظہار بیان، اسلوب نگاری اور موضوع کے اعتبار سے ایک فنکارانہ تخلیق ہے۔اس میں انگریزی ہندی اور اور سکرٹ کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی کے الفاظ کا استعمال بہت خوبصورت انداز سے کیا گیا ہے یہ الفاظ اپنے اپنے عہد کی ترجمانی کرتے ہیں اور حقیقت و سچائی کے ساتھ فلسفیانہ خیالات کو پاکیزہ انداز میں پیش کرتے ہیں یہ ایک بے مقصد ناول ہے جو سیاسی اور سماجی زندگی کی الجھنوں کو ہمارے سامنے لا کھڑا کرتا ہے اور ساتھ ہی انسانی دوستی کی تلقین بھی کرتا ہے۔

مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو حیدر کا یہ ناول ہندوستان کی تہذیبی اور تاریخی زندگی کی روایت پر حاوی ہے قراۃ العین حیدر نےکثرت سے مطالعہ کیا ہے اپنے تجربات حاصل کیے ہیں مختلف ممالک کے ادب کو توجہ سے پڑھا ہے اور کسی بھی پہلو کسی بھی انداز حیات اور کسی بھی تجربے کو اپنا موضوع بنا سکتی نہیں ان کے دل و دماغ کی روشنی سے رجحانات و خیالات جذبات و احساسات اور تہذیبی انقلاب بات نمایاں ہوئے ہیں ان کے ہاں موضوع اسلوب اور اظہار کامل کی ہم آہنگی ملتی ہے ان کے ناول میں ان تمام کا حسین امتزاج جلوہ گر ہے شعور کی رو اور تلازمہ خیال کے ذریعے ناول “آگ کا دریا” کی تکنیک کو انہوں نے تازگی دلکشی اور توانائی عطا کی ہے۔

قرۃالعین حیدر چونکہ انگریزی کے مشہور ناول نگار “ورجینا وولف” سے متاثر ہیں اور ورجینا وولف شعور کی رو کا جو بھی قصہ بیان کرتی ہیں اس میں عام طور پر وہ ماجرہ کا ایک سیدھا سادھا تھا کہ پہلے ہی مرتب کر لیتی ہیں اس کے بعد آپ نے خالص کردار کو شعور کی رو میں واقعات کی جذبات میں بہت خود دکھائی دیتا ہے آقا دریا میں خیبر نے بھی یہی کوشش کی ہے لیکن حیدر کا پیمانہ تخیل “ورجینا وولف” سے زیادہ ہے وہ کسی ایک فرد کی داستان پیش نہیں کرتی ہے بلکہ پورے سماج کی عکاسی کرتی ہے. پھر اس کی نفسیاتی لاشاری کے ساتھ ساتھ ایک تاریخی شعور بھی موجزن ہے بقول ڈاکٹر خارون ایوب۔

“قرۃ العین حیدر نے انسانی جذبے اور شعور کے رنگ کو ہم آہنگ کر کے اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ ایک مرقع بن گیا ہے آقا دریا کو اردو ناولوں میں ایک خاص مقام حاصل ہے کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ناول ہے جو قراۃ العین حیدر کا ہی نہیں اردو ناول نگاری کا بھی شاہکار ہے”

جب ہم اس ناول کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حیدر نے اس ناول میں شعور کی رو کی تکنیک کو جا بجا استعمال کیا ہے یہ تکنیک اور اس کے پیچھے وقت کا تسلسل سماجی حقیقتوں اور منطقی مطالعے کی نفسی اور انسانی وجود کی ٹریجڈی کے تلازمات اور تصورات ہیں۔حیدر نے مذکورہ بالا چیزوں سے بھی استفادہ کیا ہے ان کے اکثر کرداروں کے باطنی اور ذہنی تجربات میں بلا کی یکسانیت ہیں وہ ایک ہی انداز اور آواز میں باتیں کرتے ہیں ان کے کردار تخیل پرستانہ اور آرزومندی کا پیکر ہیں ان کی روح کی المناکی تنہائی اور خود نگاہی بھی رومانی تخیل کی دین ہے حیدر کا اور شدت احساس عکس رومانی لباس میں جلوہ گر ہوا ہے چنانچہ اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آکر یا میں شعور کی روح بدرجہ اتم موجود ہے۔اس میں شک نہیں کہ قراۃ العین حیدر کے ناولوں میں معمولی کمزوریاں بھی ہیں اور ناول نگاری کے سلسلے میں ان کا فن کوئی حرف آخر نہیں ہے مگر کم از کم اتنی بات مسلم ہے کہ پریم چند کے بعد ناول کے فن کو بلندی عطا کرنے کے سلسلے میں اور اس کے معیار و دروں کو برقرار رکھنے میں ناول نگار پر نگاہیں پھیر لیتی ہیں تو وہ قراۃ العین حیدر ہیں جنہوں نے اپنی کوششوں سے اردو ناول نگاری کو ایک ترقی یافتہ تحلیقی شعور دیا شعور کی رو کی سیل کی قدرت و شادابی سے اس صنف کو آشنا کیا جس کی زندہ مثال ان کا یہ ناول آگ کا دریا ہے جب بھی اردو ناول نگاری میں شور کے حوالے سے بات کی جائے تو حیدر اور ان کے ناول آگ کا دریا کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔

ناول کا خلاصہ

“آگ کا دریا” قرۃ العین حیدر کا سب سے اہم اور اردو و ادب کا ایک عظیم ناول ہے یہ ناول 1953ء میں پاکستان سے شائع ہوا “آگ کا دریا” لکھ کر حیدر نے اردو ناول کو ایک نئی روح بخشی۔یہ ناول اردو ادب کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے “گیان پیٹھ” ایوارڈ یافتہ یہ ناول حیدر کی فنکارانہ صلاحیتوں کا بین ثبوت ہے۔الغرض” آگ کا دریا” کے مطالعے سے یہ پتا چلتا ہے کہ قرۃ العین حیدر کے پاس جو صلاحیتیں تھیں انہوں نے ان کا بھرپور استعمال کیا۔بلکہ دوسروں سے الگ ایک نئی راہ نکالنے کی کوشش کی ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ آگ کا دریا ایک مکمل ہندوستان کی تصویر ہے اور یہ اردو ناول کا سنگ میل ہے کیونکہ اس میں حیدر نے ہندوستان کی تین ہزار سالہ پرانی تہذیب کو سمیٹا ہے۔

“آگ کا دریا”کے تمام کردار ہندوستان کی محسوس تہذیب و تمدن کے کردار ہیں ان میں زیادہ تر خوشحال گھرانوں کے ذہین نوجوان ہیں جو اپنے طرز زندگی سے جاگیردارانہ طبقہ کی معاشرتی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں اس ناول میں حیدر نے مغربی کنیت کے ساتھ ساتھ اسلوب اور اظہار و بیان کے کہیں نئے تجربے کیے ہیں اور نئی راہیں نکالی ہیں۔

شعور کی رو کی تکنیک کو پوری توجہ کے ساتھ حیدر نے ناول آگ کا دریا میں بھرتا ہے ان کے فن کی سب سے پہلی چیز یہی تکنیک ہے “آگ کا دریا”کی تکنیک مغربی مفہوم میں شعور کی رو پر مشتمل ہے۔