جگن ناتھ آزاد کی شاعری میں تصور محبوب

انسان کے پاس ایک جذبہ احساس ہے جس کے ذریعے وہ حسن کی رنگارنگ کیفیات، حالات اور اداؤں کو محسوس کرتا ہے۔ خدا کی کائنات وسیع ترین رنگینیوں کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے ان رنگینیوں کو مزید حسین ترین بنانے کے لیے ایک فنکار صبح و شام اپنا خونِ جگر جلاتا ہے۔اس کائنات کے وسیع ترین پھیلاؤ میں اسے جو سب سے زیادہ شے پسند ہے وہ ہے اس کا محبوب۔ اس کا محبوب دنیا کی تمام تر مخلوقات سے زیادہ حسین ترین ہے۔ اس کے اوصاف مثالی ہیں، فنکار اس کے اوصاف اور اس کے حسن کو گو نا گوں اداؤں کو حسین اور نادر تخلیقی پیرایوں میں پیش کرنے کے لئے ہر ممکن تخلیقی جتن کرتا ہے اور واردات قلبی اور احساسات کو تخلیقی اظہار دینے میں تمام عمر صرف کر دیتا ہے۔

رہا یہ محبوب، تو اس سے تعلق کئی طرح کا ہوتا ہے۔ کسی کے یہاں محبوب بو الہوسی کا ایک ذریعہ ہے، کسی کے یہاں محبوب کے جسمانی حصوں کو ایک خاص لذت کے ساتھ پیش کرنے کا عمل ملتا ہے اور کسی کے یہاں صرف محبوب کے تصور میں ہی ہمیشہ زندہ رہنا زندگی ہے یا زندگی کی معراج ہے۔ آخرالذکر کے یہاں محبوب سے رشتہ بہت ہی پاکیزہ اور اس کا تصور اس کے لیے سرمایہ افتخار ہوتا ہے۔ سبب یہ ہے کہ اس پاکیزہ تصور سے عاشق کو تزکیہ نفس حاصل ہوتا ہے۔ اس کے دل و دماغ سے منفی رویے مٹ جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ مثبت رویوں سے محظوظ ہوتا رہتا ہے۔ اس کے خالص و طاہر جذبے کے سبب، اس دل و دماغ میں روشنیاں پھوٹتی رہتی ہیں۔

کلاسیکل دہلوی شعرا کے یہاں یہ روشن وارداتیں محسوس ہوتی ہیں لیکن اس کے برعکس لکھنؤ شعرا کے یہاں زیادہ تر محبوب کے جسمانی اعضا کی نمائش ہے۔ جدید شعرا کے یہاں تذکیر کے ساتھ تانیثی صیغے کے علاوہ محبوب کے تئیں شکوے اور بے وفائی کے الزامات ہیں۔ لیکن پروفیسر جگن ناتھ آزاد کی شاعری میں ایسا محبوب دکھتا ہے جس میں عشق کی خود سپردگی کے ساتھ تعلق کی پاکیزگی ملی ہے، جس طرح کلاسیکل اردو غزل میں تصور محبوب کی پاکیزگی نظر آتی ہے جگن ناتھ آزاد کے یہاں بیشتر مقامات پر محبوب کا تصور، خیال، اس کی جلوہ گاہ کے آس پاس حضوری وجود کا احساس تو ہوتا ہے لیکن ہوس یا جسمانی اعضا کا لمس اور وجودِ محبوب کی جسمانی نمائش نظر نہیں آتی۔

ان کے یہاں محبوب کا ایک پاکیزہ صاف و شفاف ایک روح کا تعلق محسوس ہوتا ہے۔ جن کے یہاں جلوہ محبوب، یا محبوب آس پاس کہیں سے گزر بھی جاتا ہے تو وہ اسے روحِ حیات کی تازگی سمجھتے ہیں۔ ہر مقام پر قریب قریب ایک خاص تصوراتی قرب و بعد کا احساس ہوتا ہے۔ اس تصور یا ذکرِ محبوب سے لطف اندوزی اور روح کے منور ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ ان کا عشق نیفس معلوم ہوتا ہے۔ وصال کے بجائے ہجر کی لذتوں سے محظوظ ہوتا ہے اور ہر مقام پر محبوب کے وجود کے ساتھ ہی ساتھ عاشق کے وجود کا احساس ضرور دلاتا ہے۔گویا ان کا محبوب کلاسیکی اور جدید غزل کے درمیان کا ایک ایسا محبوب ہے کہ اس کے اور عاشق مابین ایک حد فاصل کا احساس نمایاں ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ ہو:

آتا ہے اک ستارہ نظر چاند کے قریب
جب دیکھتے ہیں خود کو تمہاری نظر سے ہم

اس شعر میں اگر محبوب چاند کی حیثیت رکھتا ہے یا چاند کے مشابہ ہے تو عاشق بھی ستارہ کی حیثیت کا مالک ہے یا اس کے مشابہ ہے۔ چاند کے استعمال سے جگنات کے یہاں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اگرچہ محبوب چاند ہے لیکن محب کا وجود بالکل مجہول نہیں ہے بلکہ ستارے کی حیثیت ہے۔دوسرا احساس یہ ہوتا ہے کہ چاند اور ستارے کی جو دوری ہے اپنے اپنے شوقِ نور کے باوجود تصوراتی دوری بھی برقرار ہے، لیکن ایسا نہیں کہ آتشِ محبت کسی ایک میں لگی ہے بلکہ یہ آتش اپنے جلنے کی منزل سے ترقی کر کے روشن نور یا سفیدی کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ کولرج کی زبانی بہترین الفاظ کی بہترین ترتیب کا نام شعر ہے۔“ تو ستارہ اور چاند جہاں استعارے کے طور پر برتا ہے وہیں رعایت لفظی کے تحت ستارہ اور چاند کی مناسبت سے لفظ ”خود“ اور ”تمہاری“ کا برتاؤ پہلے والے مصرعے کی وضاحت کرتے ہوئے لف و نشر مرتب کے پیرائے میں آجاتا ہے۔یہ وہ شعری حسن ہے جو ایک اچھے شاعر کے یہاں فطری طور پر داخل ہوکر ادب کی ادبیت کی شان بن جاتا ہے۔

اس طرح جگن ناتھ آزاد کے یہاں جذبۂ احساس اور جذبۂ عشق جس قدر روشن ہوتا چلا گیا ہے اسی قدر محبوب و محب کا قرب ایک خاص قسم کے بعد کا احساس دلاتا چلا جاتا ہے۔کہیں کہیں ان کے یہاں محبوبِ ارضی کے اُوصاف نمایاں ہوتے ہیں تو کہیں کہیں ان کے یہاں محبوب سماوی کی وصفیں روشن ہوتی ہیں۔ اس نوعیت کے چند شعر ملاحظہ ہوں؛

کیف غم فراق کی لذت جسے ملی
حاصل اسے وصال نہیں ہے تو کیا ہوا
کچھ دور تک چلے ہی گئے بے خبر سے ہم
اے بے خودئ شوق یہ گزرے کدھر سے ہم
در جاناں سے آتا ہوں تو لوگ آپس میں کہتے ہیں
فقیر آتا ہے اور با شوکت شاہانہ آتا ہے
تصور اس طرح آتا ہے تیرا محفل دل میں
میرے ہاتھوں میں جیسے خود بخود پیمانہ آتا ہے
یہ کیا طلسم ہے کہ تیری جلوہ گاہ سے
نزدیک آسکوں نہ کہیں دور جا سکوں
ذوق ِ نگاہ اور بہاروں کے درمیان
پردے گرے ہیں وہ کہ نہ جس کو اٹھا سکوں
تمام عمر میرے دل کو یہ غرور رہا
کہ ایک لمحے کو یہ بھی تیرے حضور رہا

جگن ناتھ آزاد کی شاعری بساط میں حسن و عشق اور محبوب و محب کے متعلقات میں کسی حد تک پاکیزگی اور نفاست نظر آتی ہے لیکن ان کا کلام اس بات کی کہیں کہیں چغلی بھی کھا جاتا ہے کہ ان کا محبوب گوشت پوست کا بھی تھا، وہ محبوب دکن کی سمت کا ہے۔ جب محبوب کی سمت کا ذکر ملتا ہے تو وہاں محبوب کے لئے صیغہ تانیث مزید پردہ سِرکا دیتا ہے۔ مثلاً:

دکن کی ہیر سے آزاد کوئی جا کے یہ کہہ دے
کہ رانجھے کی وطن سے آج ایک دیوانہ آتا ہے
وہی ذکر دکن ہے اور وہی فرقت کی باتیں
تجھے آزاد کوئی اور بھی افسانہ آتا ہے
آزاد بے نیاز تھے اپنی خبر سے ہم
پلٹے کچھ اس طرح سے دکن کے سفر سے ہم

سماوی محبوب کے اوصاف ملاحظہ ہوں؛

لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ شاعر یا فنکار کتنا بھی ہنر مند کیوں نہ ہو الفاظ کے پسِ پردہ وہ بعض معنی ایسے ہوتے ہیں یا پسِ الفاظ ایک ایسی شے ہوتی ہے جس کا ذکر لفظوں کے ذریعہ نہیں ہو سکتا اور وہ پس الفاظ کی کی پراسرار شئے جگن ناتھ آزاد کے یہاں بھی پوشیدہ نظر آتی ہے۔مذکورہ شئے کے باوجود بھی کوئی کوئی شئے محسوس ہوتی ہے اور یہ وصف کائنات کے ہر انسان کے یہاں موجود ہے، بہت ساری باتوں کا اظہار میں بھی اس مضمون میں نہیں کر سکا ہوں، لفظوں میں نہ بیان ہونے والی شئے کا ادراک احمد ندیم قاسمی کے لفظوں سے یوں کر سکتے ہیں:

وہ جو شعروں میں ہے اک شئے پسِ الفاظ ندیم
اس کا الفاظ میں اظہار نہیں ہو سکتا
از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک (اسسٹنٹ پروفیسر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری)