اردد ناول نگاری میں نئے رحجانات و فکری میلانات

اردو ادب میں ناول کی تنقید کا ایک مخصوص پیمانہ یا چند اجزا کا ایک بنا بنایا سانچہ موجود ہے لیکن تنقید میں غوروفکر کا کیا طریقہ کار ہونا چاہیے اور پہلے سے موجود تمام تنقیدی نکات کو برقرار رکھتے ہوئے تنقید میں نئے افکار کے ساتھ نیا سانچہ کس طرح شامل کیا جائے اور نئے رجحانات کو اپلائی کیسے کیا جائے تاکہ اردو ادب مغرب ہی نہیں دنیا کے ادب کے شانہ بشانہ کھڑا ہو سکے۔ اس کے لیے ادیب کو اور نقاد کو دائرۂ فکر مزید وسیع کرنا ہو گا۔

اردو ناول نگاری میں نئے رحجانات کی کمی ہے بلکہ ان سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ اردو ناول میں علاقائیت اور کلچر کے مسائل کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔ دنیا بھر میں اس کو ناول کا حصہ مانا جاتا ہے لیکن اردو ادب میں اور تنقید میں اس کو درخور اعتناء نہیں سمجھا جاتا۔

جن پہلؤوں کی موجودگی ناول کے ساختیاتی ڈھانچے کی تکمیل کے لیے انتہائی ضروری ہے وہ درج ذیل ہیں۔

1۔ ناول میں موجودہ دور کے ثقافتی رنگ اور ثقافتی ورثے کی نشاندہی اس کی زوال پذیری اور اس کے اسباب

ادیب کے قلم سے معاشرے کے موجودہ مزاج اور کلچر کی تصویر کشی ثقافتی ورثے کی حفاظت کی ضامن ہے۔ کیونکہ جو تحریر ہو جاتا ہے وہ ایک دستاویز کی طرح محفوظ ہو جاتا ہے۔

بلراج کومل کا مضمون جو گوپی چند نارنگ کے مختلف ادباء کے مضامین کے مجموعے میں شامل تھا اس مضمون میں بلراج کومل مابعد جدید ناول کے بارے میں کہتے ہیں کہ “بڑھتی ہوئی آبادی، ہجرت اور نقل مکانی، اقدار کا انہدام، رشتوں کی نئی ترتیب، سماجی سرو کار ۔۔۔۔۔۔یہ سب مابعد جدید ناول کا حصہ ہیں۔”
معاشرت رہن سہن بودو باش کے تذکرے سے معاشرے کے مزاج کا پتہ چلتا ہے۔ اس کی زبوں حالی کی نشاندہی اس کے آئندہ کے شب و روز میں مثبت تبدیلی کے امکانات میں اضافہ کرتی ہے۔ احوال معاشرت آگہی کے در کھولتا ہے۔

2.علاقائیت و محل وقوع کا حوالہ

ناول میں علاقائیت کا حوالہ قاری کو کہانی کا ماحول سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور کہانی کو حقیقت سے قریب کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوتا ہے۔ جغرافیائی پس منظر یعنی زمان و مکاں اور محل و وقوع کا ذکر کرنے سے قاری کو کہانی کے عمومی تاثر کوسمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس سے ایک خاص علاقے کے بودو باش کا ہی پتہ نہیں چلتا بلکہ ناول کس پس منظر اور کس معاشرت کو نظر میں رکھ کر اور متاثر ہو کر لکھا گیا اس بات سے بھی قاری کو کماحقہ آگہی ہوتی ہے۔

نئی دہلی سے شائع ہونے والے سہ ماہی جریدے فکرو تحقیق میں اپنے مضمون “اردو ناول کی ایک صدی”میں صفحہ 70 پر نور الحسن لکھتے ہیں کہ “ناول خواہ کسی زبان میں لکھا جائے وہ سماج و تاریخ کا آئینہ ہوتا ہے۔ یہ جس عہد اور جس مقام کی بنیادوں پر لکھا جاتا ہے اس میں اس مقام کے افراد، وہاں کا جغرافیائی پس منظر، تاریخی آثار(اگر مقام کا تعلق تاریخی ہو تو) وہاں کے رسم و رواج، تہذیب و تمدن، معاشرتی، سماجی طور طریقے، زبان و بیان کا انداز، بولی ٹھولی اور محاورہ، بازار ہارٹ، گلیاں اور چوبارے، دشت و جنگل، باغ و بن، ندی نالے غرض اس مقام کی ہر طرح سے عکاسی کرتا ہے۔”

3.تاریخ، پیوستہ اور موجودہ صورت حال

ناول ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ موجودہ اور پیوستہ تہذیب اور کلچر کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ اس عہد کی سیاسی و سماجی صورت حال کی تصویر کشی کرتا ہے۔ تاریخ کے حوالہ جات، وقت، ثقافت اور حکومت کا صحیح تصور اس پر دوسری قوموں کے تسلط یا تسلط کے لیے کی جانے والی نادیدہ کوششیں بھی قلم زد کرنے سے آگہی کے در وا ہوتے ہیں۔

سفر نامے بہترین تاریخی مواد مہیا کرتے ہیں ان کے ذریعے نہ صرف احوال معاشرت بلکہ ثقافت و تہذیب کی تصویر کشی خودبخود ہو جاتی ہے۔ ناول میں اسے اسی طرح لفظوں میں سمویا جائے تو بات بنتی ہے۔

نسیم حجازی نے اپنے ناولوں میں تاریخی واقعات بیان کرنے کی کوشش کی اس نے اپنے کرداروں کو جیتا جاگتا دکھانے کے لیے مکالمے بھرے جو گزشتہ دور کی تصویر کشی تو کرتے ہیں کہ ایک عام فرد کی اور ایک حاکم کی سوچ کیا تھی لیکن ظاہر ہے وہ سب ڈائیلاگ مفروضے کی بنیاد پر لکھے گئے ہیں کہ “ایسا ہوا تھا اس لیے ایسے کہا ہو گا”۔ اس حد تک مبالغہ آرائی جب گوارا ہوتی ہے جب اصل تاریخی واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش نہ کیا جائے۔

کشمیر سے تعلق رکھنے والی ناول نگار، افسانہ نگار اور تنقید نگار ترنم ریاض کا ایک اہم ناول “برف آشنا پرندے” ہے جو کہ 2009ء میں شائع ہوا۔ یہ ناول اصل قصے اور نکات کے ساتھ ساتھ کشمیر کی تاریخ کا ایک دانش ورانہ تجزیہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ گو کہ یہ مکمل طور پر تاریخی روئیداد نہیں ہے۔ اپنی تہذیب اور کلچر سے دور ہوتے ایک کشمیری خاندان کی کہانی ہے۔ لیکن اصل قصے کے ساتھ ساتھ ادیبہ نے کشمیر کے حالات اور ماضی و حال کی عکاسی بہت خوبصورتی اور بہت جرات مندانہ انداز سے کی ہے۔ قاری کے سامنے کشمیر کی موجودہ اور گزشتہ صورتحال کی تصویر آ جاتی ہے۔ آج کا ناول کو ایسی ہی جرات اور کمزوریوں اور پائمالی کی ایسی ہی بلکہ اس سے بھی سوا تصویر کشی مانگتا ہے۔