افسانہ ” گنڈاسا” کا فنی جائزہ سوالات مع جوابات

از قلم حیدر خان

1-افسانہ گنڈاسا کا موضوع کیا ہے؟

ج:دیہاتی لوگوں کی جہالت سے پیدا ہونے والی عداوتیں

2- اس افسانے کے کرداروں کے نام بتائیں؟

ج: مولا،رنگے، تاجے، مولا کا مقتول باپ، مولا کی ماں، قادرے، گلے، پھلے، راجو، پیر نور شاہ، نورے نائی، چودھری مظفر علی

3-اس افسانے کا مرکزی کردار کس کا ہے؟

ج: افسانے کا مرکزی کردار مولا کا ہے۔

4-مولا کے کردار کو آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟

افسانہ گنڈاسا میں مولا ایک بد معاش کا کردار ہے۔احمد ندیم قاسمی نے اس کردار پر خصوصی توجہ دی ہے۔اور کمال فن کاری سے اس کردار کو نکھارا ہے۔قاسمی نے اس کردار کا وحشت زدہ سراپا بھی کھینچا ہے۔مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ
” اس کی مونچھوں میں دو بل آگئے تھے۔۔۔آنکھوں میں سُرمے کی دار کو کبھی کسی نے نہ دیکھا۔۔۔وہ گلیوں میں چلتا تو لٹھے کی تہبند کا کم سے کم آدھا گز تو اس کے عقب میں لوٹتا”
غرض انتقام کی آگ میں جلتے جلتے مولا ایک بڑا بد معاش بن کر علاقے بھر کے لیے ہیبت بن جاتا ہے۔اپنی لٹھ کے ساتھ جہاں وہ بیٹھتا ہے وہاں سے کوئی گزرنے کی ہمت نہیں کرسکتا۔

5-گنڈاسا کی کردار نگاری کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

قاسمی نے اس افسانے میں کامیاب کردار نگاری کی ہے۔ہر کردار کو فطری بنانے کی کوشش کی ہے۔اس افسانے کا ہر کردار اپنی تمام تر جذبات و نفسیات کے ساتھ سرگرم عمل دکھائی دیتا ہے۔ان تمام کرداروں کی نفسیات و جذبات اپنے اندر دشمنی کی تمام تلخیاں لیے ہوئے ہیں۔ان کی ایک ایک بات اور حرکت سے دشمنی کا زہر ٹپک رہا ہے۔

6- گنڈاسا کی مکالمہ نگاری کےبارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

ج: گنڈاسا میں بہترین مکالمہ نگاری پائی جاتی ہے۔ہر کردار اپنی حیثیت اور نفسیات کے مطابق بات کرتا دکھائی دیتا ہے۔موقع و محل کے مطابق کرداروں کے لب و لہجے میں سختی و تندی محسوس کی جاسکتی ہے۔اگر ایک کردار انتقام کی آگ میں جل نہیں رہا ہو تو اس کی بات میں نرمی، ملائمت اور ناصحانہ لب و لہجہ بھی پایا جاتا ہے۔جیسا کہ پیر نور شاہ کی گفتگو اپنے اندر نرمی و ملائمت یا اپنائیت کا لہجہ لیے ہوئے ہے۔ اس کے برعکس جو کردار انتقام کی آگ میں جل رہا ہے تو اس کا لب و لہجہ سخت اور تند ہے، جیسا کہ مولے یا رنگے کا لہجہ سخت اور تند ہے۔

7-کیا گنڈاسا میں منظرکشی کا عُنصر پایا جاتا ہے؟

ج: اس افسانے میں مختلف مقامات پر بہترین منظرکشی بھی پائی جاتی ہے۔اگرچہ افسانے کی فضا زیادہ تر دل دوز اور و حشت ناک ہے، چناں چہ جہاں کہیں منظر کشی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔یہ جھلک بھی حسرت ناک اور دردناک ہوتا ہے۔مثلاً “چار گنڈاسے ڈوبتے ہوئےسورج کی روشنی میں جنوں کی طرح بار بار دانت چمکا رہے تھے۔”
غرض قاسمی نے ماہر مصور کی طرح لفظی مرقعے پیش کیے ہیں۔

8-اس افسانے کا پلاٹ کیسا ہے؟

ج: مجموعی طور پر افسانہ گنڈاسا کا پلاٹ مربوط ہے۔تمام واقعات زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔البتہ ایک جگہ پلاٹ میں خلا بھی پایا جاتا ہے، مثلاً قتل کرنے کے بعد رنگے کا اسی دن اپنی چوپال میں موجود رہنا۔اور سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے مولے کے گنڈاسے کے آگے چڑھ جانا داستانوی سا لگتا ہے۔علاوہ ازیں مجموعی طور پر یہ مربوط پلاٹ ہے۔

9- افسانہ گنڈاسا کا اسلوب کیسا ہے؟

ج: گنڈاسا کا اُسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔اس باعث افسانے میں روانی پائی جاتی ہے۔ اس باعث قاری افسانہ پڑھتے ہوئے ذہنی دباؤ کا شکار نہیں ہوتا۔سلیس عبارت آرائی اس افسانے کی بڑی خوبی ہے۔

10-کیا اس افسانے میں تجسس و جستجو کی کیفیت پائی جاتی ہے؟

ج: افسانے میں تجسس اور جستجو کا مادہ بدرجہ اتم موجود ہے ۔گنڈاسا کا عنوان ہی بے پناہ تجسس لیے ہوئے ہے ۔مولا کے باپ کا قتل کے بعد کے واقعات سے یہ کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔اسی طرح گلا جب اپنے ساتھیوں سمیت مولا پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔یہ سب واقعات تجسس سے بھر پور ہیں۔مختصر یہ کہ افسانے میں آنے والا ہر ایک موڑ قاری کے لیے باعث تجسس ہے اوریہ کیفیت ابتدا سے آخر تک موجود رہتی ہے۔