غالب اور اقبال کے یہاں ژولیدہ بیانی

ژولیدہ بیانی کئی وجوہ سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے عربی علم معانی میں تعقید لفظی اور تعقید معنوی کی اصطلاحیں مستعمل ہیں۔ ژولیدہ بیانی بعض اوقات اجنبی لفظ کے استعمال سے پیدا ہوتی ہے، بعض اوقات مخدوفات کی کثرت سے یہ عیب در آتا ہے۔ بعض اوقات جملوں، مصرعوں کی ترکیب ضرورت سے زیادہ پیچیدہ بنانے سے ہوتی ہے اور بعض اوقات جملے اور مصرعے کی ساخت میں ضرورت سے زیادہ لفظوں کے برتنے، نیز افعال، فاعل اور مفعول کی غیر ضروری یا غیر مناسب ترتیب سے یہ عیب پیدا ہو سکتا ہے۔ غالب کے یہاں جملوں اور مصرعوں میں جو پیچیدگی یا ژولیدہ بیانی پیدا ہوئی ہے، اس کی وجہ محذوفات کی کثرت یا فعل و فاعل اور مفعول وغیرہ کی غیرضروری ترتیب کے سبب ہے۔ جبکہ اقبال کے یہاں ژولیدہ بیانی زیادہ نہیں ہے بہت کم اشعار میں، اس کی وجہ فعل و فاعل اور مفعول کی کہیں کہیں غیر مناسب ترتیب ہے اور کہیں کہیں غیر ضروری بھرتی کے الفاظ بنے ہیں۔ اقبال کے یہاں ایک اور چیز دیکھنے کو ملتی ہے کہ بعض شعروں میں غیر ضروری الفاظ کے استعمال سے ترکیب ڈھیلی ہو گئی ہے جس کے سبب کلام نثر کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے اور نظمیہ رنگ غزل پر حاوی ہونے لگتا ہے۔ کہیں کہیں وضاحتی لفظیات سے پیغام غالب آجاتا ہے اور شعریت مغلوب ہو جاتی ہے۔ یہاں پر چند شعر پہلے غالب کے اطلاقی انداز میں دیکھتے ہیں:

قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوار زنداں ہو گئیں

اس شعر کی ترتیب اگر عہد غالب کے شعری پیرایۂ اظہار میں دیکھی جائے تو یوں ہو سکتی تھی۔

قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوار زنداں ہو گئیں

گو یعقوب نے نہ لی، قید میں یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوار زنداں ہو گئیں

غالب کے اس شعر کا پہلا مصرعہ اگر مذکورہ ترتیب میں تخلیق ہوتا تو یہ ترکیب قیدر آسان ہو جاتی۔
ایک شعر کی اطلاقی مثال اور ملاحظہ ہو۔ غالب کا اصلی متن:

ابھرا ہوا نقاب میں ہے ان کے ایک تار
مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو

اس کی آسان ترتیب اس طرح کی جاسکتی ہے۔

ابھرا ہوا نقاب میں ہے ان کے ایک تار
مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو

نقاب میں ہے ابھرا ہوا ان کے ایک تار
مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو

اب دونوں ترتیبوں کو آپ نے دیکھا کہ ایک غالب کی ترتیب ہے جو مشکل اور قدرِ پیچیدہ ہے اور دوسری ممکنہ ترتیب راقم نے دی ہے جو عہد غالب کے شعرا کی شاعری ترتیب و ترکیب سے قریب ہے۔

ایک شعر کی اور پیچیدہ اور آسان ترتیب دیکھیں۔ غالب کا اصل متن یہ ہے۔

سایہ میرا مجھ سے مثل دود بھاگے ہے اسد
پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے

آسان ترتیب و ترکیب:

سایہ میرا مجھ سے مثل دود بھاگے ہے اسد
پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے!

ممکنہ ترتیب و ترکیب:

سایہ میرا مجھ سے بھاگے ہے مثل دور اسد
مجھ آتش بجاں کے پاس، کس سے ٹھہرا جائے ہے!

راقم کی اس ترتیب و ترکیب کے سبب غالب کا یہ شعر عہد غالب کے شعرا کے پیرائے میں آسکتا ہے۔ میرے اس خیال سے ہرگز کوئی یہ مطلب اخذ نہ کرے کہ میں غالب کی ترتیب و ترکیب غلط بتا کر صحیح کر رہا ہوں بلکہ میرا صرف یہ مقصد ہے کہ اطلاقی طور پر یہ واضح ہو سکے کہ غالب کے بعض اشعار گنجلک، پیچیدہ یا ژولیدہ بیانی کے شکار کئے ہوئے ہیں۔ شاید غالب اپنے مصرعوں کی ایسی ترکیب و ترتیب نہ کرتے تو غالب، غالب نہ رہتے۔ یہ غالب کی انفرادیت ضرور ہے لیکن اس عنصر سے غالب کے کلام میں ژولیدہ بیانی در آئی ہے۔ ایک اور اطلاقی مثال دیکھ لیں مزید افہام و تفہیم کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ غالب کا اصل متن یہ ہے۔

خط عارض سے لکھا ہے زلف کو الفت نے عہد
یک قلم منظور ہے جو کچھ پریشانی کرے

ممکنہ ترکیب و ترتیب:

خط عارض سے لکھا ہے زلف کو الفت نے عہد
یک قلم منظور ہے جو کچھ پریشانی کرے

اس کی ایک ترتیب یہ بھی ہوسکتی ہے جو اور آسان اور ضابطۂ لسان سے زیادہ قریب ہو سکتی ہے:

خط عارض سے لکھا ہے زلف کو الفت نے عہد
یک قلم منظور ہے جو کچھ پریشانی کرے

اب یہ دو ممکنہ ترکیبیں اس طرح ہوئیں۔

(١) خط عارض سے زلف کو لکھا ہے الفت نے عہد
یک قلم منظور ہے جو کچھ پریشانی کرے

(٢) الفت نے لکھا ہے خط عارض سے زلف کو عہد
یک قلم منظور ہے جو کچھ پریشانی کرے

یہ دونوں ممکنہ اطلاقی ترتیبیں راقم نے اپنی بات کو سمجھانے کے لئے یہاں پیش کی ہیں۔

غالب کے شعر میں غور کریں اور دیکھیں کہ ”خط عارض“ اور ”زلف کو“ مفعول کے طور پر رکھا ہے۔ ان دونوں ترکیبوں کے ذریعے ”لکھا ہے“ فعل اور ”الفت“ فاعل دونوں کے درمیان فعل پیدا کر دیا ہے۔ پھر ایک تیسرے مفول کو مصرعے کے آخر میں رکھ دیا ہے۔ اس طرح مفعولوں کو مصرعے کی زمین میں ابتدا، وسط اور انتہا میں تقسیم کر دیا ہے۔ مصرع اول میں ان تینوں مفعولوں کے درمیان فعل اور فاعل کو الگ الگ مقام پر رکھ دیا ہے جس سے مصرعے کی حقیقی (یعنی قواعدی) ترتیب کو اپنی مشکل ادائے خاص سے ترتیب دے دیا ہے، جس سے معنوی ترکیب گنجلک، پیچیدہ بالفاظ دیگر ژولیدہ بیانی کے دائرے میں آگئی ہے۔

اب اگر اقبال کی ترکیب کی ژولیدہ بیانی کی بات کی جائے تو ان کے کلام کے اطلاقی مطالعے کے بعد نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے کلام میں ضرورت سے زیادہ بھرتی کے الفاظ اور پنجابیت کے زیر اثر کہیں کہیں ترکیب کی حقیقی ترتیب کے بجائے قدرے الگ لفظ ترتیب دے دیئے ہیں جس سے ان کے یہاں ژولیدہ بیانی کا کہیں کہیں رنگ نظر آتا ہے، لیکن ان کے یہاں ژولیدہ بیانی کم اور ترکیب کی بندش ڈھیلی پڑ گئی ہے اور وضاحتی لفظیات جو غزل کا نہیں بلکہ نظم کا خاصہ ہے، کلام میں در آیا ہے۔ غزل یہ ابہام کم اور پیغام واضح ہو جاتا ہے نیز کلام شعری قدروں میں داخل ہو جاتا ہے۔ اقبال کے غزلیہ کلام سے چند اطلاقی مثالیں ملاحظہ ہوں۔
اقبال کا اصلی متن:

مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی
(بال جبریل)

اقبال کی یہ ترکیب غزلیہ ترکیب کے برعکس ڈھیلی اور غیر چست معلوم ہوتی ہے۔ اس کو چست بندش میں مندرجہ ذیل ممکنہ ترتیب میں لایا جا سکتا ہے۔

مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی

اب اس چست ترکیب کو ہم اس طرح رکھتے ہیں۔

مری مینائے غزل میں ذرا سی تھی باقی
شیخ کہتا ہے کہ یہ بھی ہے حرام اے ساقی!

اقبال کی غزل میں میں زائد لفظوں کے ذریعے جھول کیسے پیدا ہوئی ہے اس کی ایک دو اطلاقی مثالیں دیکھیں۔
اقبال کا اصل متن:

ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں
(بانگ درا)

اس میں زائد الفاظ دیکھیں، اگر اس شعر کے پہلے مصرعے میں ”اے“ اور دوسرے مصرعے میں لفظ ”گویا“ نہ ذکر کیا جاتا ہے تو ترکیبی بندش قدرے چست ہو جاتی اور مطلوبہ معنی کی ترسیل بھی ہوجاتی۔ ممکنہ شعر اس طرح ہوسکتا تھا:

ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں

ڈھونڈتا پھرتا ہوں؛ اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں

اسی طرح ایک اور مثال دیکھیں۔

اقبال کا اصل متن:

ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی، حرم بھی، کلیسا بھی چھوڑ دے
(بانگ درا)

اس کی ممکنہ ترتیب و ترکیب:

ہر رسم عاشقی، الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی، حرم بھی، کلیسا بھی چھوڑ دے

یہ خیال رہے کہ میرا مقصد ان کے شعر یا مصرعے کو غلط ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ دونوں شعرا کے یہاں لسانی اور ترکیبی قربتوں اور دوریوں کو دریافت کر کے ان کو واضح کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بھی واضح کرنا مقصود ہے کہ ان دونوں شعرا کی غزلیہ کلام میں پیچیدگی یا ترکیبی چستی اور ڈھیلی بندش کے اوصاف کس طرح پیدا ہوئے ہیں۔ یہاں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر ممکنہ ترتیب و ترکیب یا زائد الفاظ کے اخراج کی صورت میں وزن و بحر میں عیب آ جائے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں لیکن دونوں فنکاروں اور بحر کی تبدیلی کے ساتھ ان ترکیبوں کو مزید حسین بنا سکتے تھے۔ اقبال کی غزل بعض تراکیب اور زائد الفاظ کے سبب بعض مقامات پر وضاحت اور نظمیہ پیغام کی شکار ہوگئی ہے اور غالب کی غزل بعض مقامات پر ژولیدہ بیانی کی زد میں آ گئی ہے۔ اسی لئے عہد غالب کے شعرا نے درج ذیل مضمون کے شعر کہہ کر غالب پر تنقید کی تھی۔

کلام میر سمجھے اور کلام میرزا سمجھے
مگر اپنا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

اس کے جواب میں غالب کو کہنا پڑا تھا:

نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

اسی طرح بعض شعرا نے اقبال پر بھی تنقیدی رویے صاف کیے تو اقبال بھی جھنجلا گئے اور کہہ اٹھے کہ ” شاعری سے میرا کیا واسطہ“۔ اصل میں یہ دونوں شعرا اپنی روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ اس سے انحراف بھی کر رہے تھے اور نئی روایت قائم کرنے کی جدوجہد میں تھے اس لئے دونوں کا اسلوب بیان روایت سے بہت حد تک مختلف رہا ہے۔ غالب نے تو روایت کو اپنی ادائے خاص کے مطابق برتا لیکن اقبال اس سے آگے نکل کر روایتی ڈکشن میں نئے معنی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ نئی نئی اصطلاح وضع کرنے میں یقین رکھتے تھے اور شاعری کو اپنے پیغام اور مقصد کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ لہٰذا یہ فطری عمل ہے جہاں ان کی شاعری میں بے پناہ خوبیاں سمٹ آئی ہیں تو وہیں بعض کمزوریاں بھی ان کی شاعری میں در آئی ہیں اور ان کی عظمت کا سورج نصف النہار پر ہے۔ اس کے باوجود ان دونوں شعرا کا کلام اعجازی شان کا حامل ہے۔ غالب اور اقبال دونوں شعرا کے غزلیہ کلام سے بعض ایسے شعر یہاں درج کیے جارہے ہیں جن میں ژولیدہ بیانی اور ڈھیلی ترکیبی بندش کی وصفیں موجود ہیں۔

کلام غالب:

جاری تھی اسد داغِ جگر سے مرے تحصیل
آ تشکدہ جاگیرِ سمندر نہ ہوا تھا

اس کی ممکنہ ترتیب یہ ہے:

جاری تھی تحصیل مرے داغِ جگر سے اسد
آ تشکدہ جاگیرِ سمندر نہ ہوا تھا

نور الحسن نقوی نے دیوان غالب کے سفر نمبر ٧٧ پر اس شعر کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ” بعض مرتبین کے نزدیک ”مرے“ اور بعض کے نزدیک ”مری“ درست ہے لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ یہ غلط فہمی غالب کی ژ لیدہ بیانی کے سبب پیدا ہوئی ہے، جن مرتبین نے تحصیل کے مونث ہونے کے مطابق سمجھا ہے تو انہوں نے ”مری“ کہہ دیا، اور جنہوں نے اس کو داغ سے متعلق کیا تو انہوں نے مذکر مان کر ”مرے“ کو صحیح سمجھاہے۔ دراصل انہوں نے اس کو نحوی ترکیب کے مطابق نہیں دیکھا، راقم نے مندرجہ بالا جو ممکنہ ترتیب دی ہے، اس کو جب آپ حقیقی لسانی تنظیم کے مطابق دیکھیں گے تو ”مرے“ صحیح ثابت ہوگا۔ راقم کی ممکنہ ترتیب دوبارہ دیکھ لیں:

جاری تھی تحصیل میرے داغِ جگر سے اسد
آ تشکدہ جاگیرِ سمندر نہ ہوا تھا

لیکن اس تنظیم کے بعد بھی کس شے کی تحصیل مقصود ہے واضح نہیں ہو پا رہا ہے۔ یہ کسی مخذوف کے سبب ہے۔ یہی ژولیدہ بیانی ہے، عربی میں اس کو تعقید کہا جاتا ہے۔ غالب کی عظمت اپنی جگہ مسلم ہے، جب عقیدت سے ہٹ کر تحقیقی و تنقیدی نگاہ سے دیکھیں تو یہ چوک ضرور نظر آئے گی۔
بلا وضاحت چند اور مشکل و پیچیدہ اشعار ملاحظہ ہوں:

ہیں بسکہ جوشِ بادہ سے شیشے اچھل رہے
ہر گوشہ بساط ہے سر شیشہ باز کا

شاہد ہستی مطلق کی کمر ہے عالم
لوگ کہتے ہیں کہ ہے، پر ہمیں منظور نہیں

قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالب
ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے

ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا
جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچھا ہے
(غالب)

اب چند اشعار مذکورہ بالا وصفوں کے کلامِ اقبال سے ملاحظہ ہوں:

جینا وہ کیا جو ہو نفس غیر پر مدار
شہرت کی زندگی کا بھروسا بھی چھوڑ دے
(بانگ درا)

تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
(بال جبریل)

میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں!
غلغلہ ہائے الاماں بتکدۂ صفات میں
(بال جبریل)

مدت سے ہے آوارۂ افلاک مرا فکر
کر دے اسے اب چاند کی غاروں میں نظر بند!
(بال جبریل)

غالب کے بعض اشعار بہت ہی پیچیدہ ہو گئے ہیں اور اقبال کے چند اشعار پیچیدگی کا شکار ہوئے ہیں اور زیادہ اشعار زائد لفظیات کی زد میں آ گئے ہیں، جس کے سبب دونوں شعرا کے یہاں کہیں کہیں ژولیدہ بیانی در آئی ہے۔غالب کے یہاں ژولیدہ بیانی زیادہ ہے اور اقبال کے یہاں غزل کے ابہامی حسن کے بجائے نظمیہ وضاحت پیدا ہو گئی ہے۔غالب کی نحوی تراکیب میں ابہام اور ترکیبی سانچہ چست ہے اور اقبال کی نحوی تراکیب کا سانچہ غیر چست اور ڈھیلے پن کا شکار ہے۔

از تحریر ڈاکٹر محمد آصف ملک (اسسٹنٹ پروفیسر)