Knowledgeable Story of Mother In Urdu | مائیں نسلیں سنوارتی ہیں

ایک معلم قرآن انتہائی نصیحت آموز واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ایک بچہ میرے پاس آیا جو مدرسے میں داخلہ لینے کا شدید خواہشمند تھا۔
میں نے اس سے پوچھا: بچے! آپ کو قرآن کا کچھ حصہ زبانی یاد ہے؟ بچے نے کہا: جی۔

میں نے اس کا امتحان لیتے ہوئے کہا: پھر آپ مجھے تیسواں پارہ سنائیں۔
اس نے مجھے تیسواں پارہ زبانی سنا دیا۔

میں نے پوچھا: آپ کو سورۃ الملک بھی یاد ہے؟
اس نے مجھے سورۃ الملک بھی سنا دی۔

مجھے بڑا تعجب ہوا کہ اس چھوٹے سے بچے نے کم سنی کے باوجود قرآن کریم کا کچھ حصہ حفظ کیا ہوا ہے۔
میں نے اس سے سورۃ النحل سنانے کو کہا تو اسے وہ بھی یاد تھی۔۔

جوں جوں وہ میرے سوالات کا جواب دے رہا تھا، میری حیرانی بڑھتی جا رہی تھی۔

میں نے سوچا کہ اب اس سے بڑی سورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔ میں نے کہا: آپ کو سورۃ البقرہ بھی یاد ہے؟
اس نے ”ہاں“ میں جواب دیا اور ساتھ ہیں کسی غلطی کے بغیر سورۃ البقرہ بھی زبانی سنا ڈالی۔

میں نے متعجب ہو کر پوچھا: بچے! لگتا ہے آپ نے پورا قرآن حفظ کر رکھا ہے؟

اس نے کہا: جی۔ یہ سنتے ہی فرط مسرت سے میری زبان سے بے ساختہ سبحان اللّٰہ، ماشاءاللہ، تبارک اللہ کے الفاظ ادا ہونا شروع ہوگئے۔

میں نے اس سے کہا: آپ کل میرے دفتر آجائیے گا اور ساتھ اپنے سرپرست کو بھی لیتے آئیے گا۔

میں بچے کے جانے کے بعد حیرت و استعجاب کے سمندر میں ڈوبا رہا اور دل ہی دل میں تانے بانے بنتا رہا کہ یقینا اس کے والد صاحب دین کے پابند، نیک سیرت اور قرآن سے شدید محبت رکھنے والے ہوں گے جس کے نتیجے میں اس نے اپنے بچے کو اتنی چھوٹی عمر میں قرآن یاد کرا دیا ہے۔

مجھے اس وقت حیرانی کا شدید جھٹکا لگا جب وہ کل صبح اپنے والد صاحب کو لے کر آیا تو اس کے والد صاحب ظاہری شکل و صورت سے بالکل بھی متبع سنت اور پابند شریعت نہیں لگ رہے تھے۔

اس بچے کے باپ نے میری پریشانی اور استعجاب کو بھانپ لیا اور فورا بولا: میں جانتا ہوں کہ آپ میرے اس بچے کا والد ہونے کی وجہ سے حیران و ششدر ہو  رہے ہیں۔۔ میں ابھی آپ کی حیرت ختم کیے دیتا ہوں۔۔ اصل بات یہ ہے کہ اس بچے کے حفظ قرآن کے پیچھے اس کی والدہ کا ہاتھ ہے جو بچوں کی تربیت کے حوالے سے ایک ہزار آدمیوں کے برابر ہے۔۔

آپ یہ بات سن کر مزید  حیران ہوں گے کہ میرے تین بیٹے ہیں اور سب قرآن کے حافظ ہیں۔
میری سب سے چھوٹی بیٹی چار سال کی ہے اور وہ بھی تیسواں پارہ حفظ کر چکی ہے۔

میری حیرانی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔۔ میں نے پوچھا: یہ کیسے ممکن ہے!! چار سال کی بچی نے تیسواں پارہ کیسے یاد کر لیا ہے؟!

اس نے جواب دیا: بچوں کی والدہ کا طریقہ کار یہ ہے کہ جب بچہ بولنا شروع کرتا ہے تو وہ اسے قرآن یاد کروانا اور حفظ قرآن کا شوق دلانا شروع کر دیتی ہے۔۔

وہ بچوں کا مقابلہ کرواتی ہے اور کہتی ہے کہ جو سب سے پہلے یہ سورۃ یاد کرے گا، رات کا کھانا اس کی پسند کا بنے گا۔۔

جو سب سے پہلے پارہ حفظ کرے گا، ہم ویک اینڈ پر اس کی پسند کی جگہ جائیں گے۔۔

جو سب سے پہلے قرآن ختم کرے گا، ہم سالانہ چھٹیاں اس کے منتخب کردہ علاقے میں گزارنے جائیں گے۔۔

یوں بچے اپنے اپنے شوق کی تکمیل کے کیے حفظ قرآن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

جی ہاں، ایسی نیک مائیں ہی گھر سنوارتی ہیں۔

یاد رکھیے! نیک اور صالح عورت نصف معاشرہ نہیں ہوتی بلکہ معاشرے کی بنیاد اور ستون ہوتی ہے۔

میری امت کی ماؤں کو معاشرے کو کار آمد اور دین کے نور سے آراستہ افراد فراہم کرنے کے لیے امت بننے کی ضرورت ہے۔۔ اگر مائیں امت بننے کا تہیہ کر لیں تو قوم کو بام عروج پر پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

“مرد”۔۔اگر ہدایت پا جائیں تو اچھا ہے انکی “اصلاح” ہو جائے گی۔۔۔ !!!۔۔۔لیکن۔۔۔!!! اگر “خواتین” ہدایت پا جائیں اور “پیغام دین” لے لیں تو بہت اچھا ہے۔۔۔ خواتین کے سمجھنے سے پورے معاشرے اور امت کی اصلاح ہو جائے گی۔۔۔ اس لیے”خواتین” کے لئے  “دین” سمجھنا مردوں سے کہیں  زیادہ ضروری اور اہم ہے۔

انتخاب ظفر اقبال