حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے متعلق پانچ احادیث

0

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام و مرتبہ

عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ وَسَلَّمَ قَالَ لِکُلِّ
 نَبِیٍّ رَفِیْقٌ فِیْ الْجَنَّۃِ وَرَفِیْقِیْ فِیْھَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ۔

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر نبی کے لیے جنت میں ایک دوست ہوگا اور میرے دوست جنت میں عثمان بن عفان ہونگے۔
﴿ابنِ مَاجہ شریف شمار حدیث 121)

حضرت عثمان غنی کا نکاح مبارک

عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلیہِ وَسَلَّمَ لَقِیَ عُثْمَانَ عِنْدَ بَابِ 
الْمَسْجِدِ فَقَالَ یَا عُثْمَانُ ھَذَا جِبْرئِیْلُ أَخْبَرَنِیْ أَنَّ اللہَ قَدْ زَوْجَکَ أُمَّ 
کُلْثُومٍ بِمِثْلِ صِدَاقِ رُقَیَّۃَ عَلَی مِثْلِ صُحْبَتُھَا۔

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے مسجد کے دروازے کے پاس حضورِاکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوئی تو فرمایا اے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، یہ حضرت جبرئیل ہیں انھوں نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری شادی رقیہ کے مہرِ مثل کے ساتھ اور انہیں کے برابر صحبت پر ام کلثوم سے کر دی ہے۔
﴿شمار حدیث 122)

ایک فتنہ کی پیشنگوئی

عرکَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ قَالَ ذَکَرَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلیہِ وَسَلَّمَ فِتْنَۃً فَقَرَّبَھَا 
فَمَرَّ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ رَأسَہُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلیہِ وَسَلَّمَ ھَذَا یَوْمَئِذٍ 
عَلَی الْھُدَی فَوَثَبْتُ فَأَخَذْتُ بِضَبْعَیْ عُثْمَانَ ثُمَّ اسْتَقْبَلْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی 
اللہُ عَلیہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ ھَذَا قَالَ ھَذَا۔

حضرت کعب بن عجرہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک فتنہ کا ذکر کیا اور اسکو قریب بتایا۔ اسی دوران ایک شخص اپنا سر ڈھکے ہوے گزرا تو آپ نے فرمایا یہ شخص اس دن حق پر ہوگا تو میں نے یکا یک لپک کر حضرت عثمان کا بازو پکڑ لیا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے روبرو ہو کر معلوم کیا یہی تو ہے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہی ہے۔
﴿شمار حدیث 123)

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ کی وصیت

عَنْ عَائشَۃَ قَالَتْ قَالَ رسولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلیہِ وَسَلَّمَ فِیْ مَرَضِہِ وَدِدْتُ أَنَّ 
عِنْدِی بَعضَ أَصْحَابِیْ قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللہِ أَلَا نَدْعُو لَکَ أَبَا بَکْرٍ فَسَکَتَ 
قُلْنَا أَلَا نَدْعُو لَکَ عُمَرَ فَسَکَتَ قُلْنَا أَلَا نَدْعُو لَکَ عُثْمَانَ قَالَ نَعَمْ 
فَجَاءَ عُثْمَانَ فَخَلَا بِہِ فجَعَلَ النَّبِیُ صَلَّی اللہُ عَلیہِ وَسَلَّمَ یُکَلِّمُہُ وَوَجْہُ 
عُثْمَانَ یَتَغَیَرُ قَالَ قَیْسُ فَحَدَّثَنِیْ أَبُوْ سَھْلَۃَ مَوْلَی عُثْمَانَ أَنَّ عُثْمَانَ 
بْنَ عَفَّانَ قَالَ یَوْمَ الدَّارِ اِنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلیہِ وَسَلَّمَ عَھِدَ اِلَیَّ 
عَھْدًا فَأَنَا صَائِرٌ اِلَیْہِ وَ قَالَ عَلِیٌّ فِیْ حَدِیْثِہِ وَأَنَا صَابِرٌ عَلیہِ
 قَالَ قَیْسٌ فَکَانُوا یَرَوْنَہُ ذَلِکَ الْیَوْمَ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی بیماری کے دوران کہا کہ میری خواہش ہے کہ میرے اصحاب میں سے کوئی میرے پاس ہو۔ ہم نے عرض کیا یارسول اللہﷺ ابوبکر کو بلا دیں؟ آپ نے خاموشی اختیار فرمائی،ہم نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ حضرت عمر کو بلا دیں؟پھر بھی آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بلا دیں ؟ آپ نے جوابًا فرمایا ہاں،چناچہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ تشریف لاۓ اور تنہائی میں آپکے پاس بیٹھ گئے۔ آپﷺ حضرت عثمان سے گفتگو فرما رہے تھے اور حضرت عثمان کا چہرا ردو بدل ہو رہا تھا ،حضرت قیس کہتے ہیں کہ مجھ سے ابو سہلہ مولی عثمان نے بیان کیا کہ حضرت عثمان بن عفان نےمحاصرہ کے دن فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھ سے صبر کی وصیت کی تھی اس لیے میں وصیت پر قائم ہوں اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی حدیث میں فرمایا کہ میں صبر کرنے والا ہوں۔ حضرت قیس کہتے ہیں کہ حضرت عثمان کے محاصرہ کے دن لوگ انکے صبر کو دیکھ رہیں تھے۔
(شمار حدیث 125)

(نوٹ): یہ سبھی احادیث ابن ماجہ شریف کے” بَابُ فَضْلُ عُثْمَانَ رَضِیَ اللہ تعالیٰ عَنْہُ” سے لکھی گئی ہیں۔