Advertisement
Advertisement

تعارف

اردو ادب میں جتنی پذیرائی سنجیدہ لکھنے والوں کو ملی اتنی مزاح نگاروں کو البتہ نہیں ملتی مگر یہ بات ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ مزاح سنجیدہ لکھنے سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ مزاح نگاری بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ روٹھے سلوٹ زدہ چہروں پر الفاظ کے اوزار سے مسکراہٹ بکھیرنا بہت مشکل ہے۔ ایسے ہی ایک مزاح نگار ابراہیم جلیس جو کہ ۲۲ ستمبر ۱۹۲۳ کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم مدرسہ فوقافیہ گلبرگہ سے ہوئی جو کہ اس وقت کی روایت تھی اور میٹرک حیدرآباد دکن بورڈ سے پاس کیا۔ مزید تعلیم کے حصول کے لیے آپ علی گڑھ گئے اور وہاں سے آپ نے علی گڑھ یونی ورسٹی سے گریجویشن کی سند حاصل کی۔

Advertisement

ادبی تعارف

چونکہ آپ ادبی ماحول میں پھلے پھولے تو آپ کو کم سنی میں ہی ادب میں گہری دلچسپی ہونے لگی۔ ادب سے بچپن سے ہی لگاؤ ہو گیا تو آپ نے اس زمانے کے بچوں کے رسالے سب رس میں ابراہیم خاں کے نام سے کہانیاں لکھنے کی شروعات کر دی۔ آپ کا پہلا افسانہ زرد چہرے تھا جو کہ ۱۹۴۳ میں نیاز فتحپوری کے رسالے نگار میں شائع ہوا۔ آپ کے پہلے افسانے کے نام پر ہی آپ کا پہلا افسانوی مجموعہ زرد چہرے ۱۹۴۴ کو لاہور سے شائع ہوا۔ یہ وہ افسانیوی مجموعہ تھا جس نے آپ کو مقبولیت کے افق پر چمکتے ستارے کی مانند بنا دیا۔

ملازمت

روزگار اور ملازمتیں تو بہت کی مگر شروع میں۱۹۴۳ نشرگاہ حیدرآباد کے لیے اسکرپٹ لکھنے سے کام کا آغاز کیا بعد ازیں ۱۹۴۳ میں ہی حیدرآباد دکن کے تجارتی ادارے سے بحثیت افسر اطلاعات وابستہ رہے۔ ۱۹۴۸ میں سقوت حیدرآباد کے بعد پاکستان آئے اور رونامہ امروز سے اپنی صحافت کا آغاز کیا ۔ بعد میں آپ بحثیت سب ایڈیٹر ہو کر کراچی منتقل ہو گئے۔ ۱۹۵٦ سے روزنامہ جنگ سے مزاحیہ کالم وغیرہ وغیرہ لکھنا شروع کیا۔

Advertisement

۱۹۷۰ میں صحافیوں کی ملک بھر میں احتجاج ہوئے تو سینکڑوں صحافی بیروزگار ہوئے تو ان میں ابراہیم جلیس بھی شامل تھے۔ اسی سب کی وجہ سے انھوں نے اپنا ذاتی جریدہ ہفت روزہ عوامی عدالت نکالا۔ نومبر ۱۹۷٦ سے روزنامہ مساوات کی ادارت سنبھالی اور آخری سانس تک یہاں ہی وابستہ رہے۔

Advertisement

ابراہیم جلیس نے اپنا قلم حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ انھوں نے اپنی صلاحیتوں اور قلم کی قوتوں کو متاثرہ انسانوں کی بحالی کے لیے استعمال کیا۔ وہ قلم کی عزت کو ہر چیز سے زیادہ مقدم سمجھتے تھے۔ وہ دکھی انسانیت کے چہرے پر مسرت انگیز مسکراہٹ دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ خود ذاتی طور پر جتنے دکھی تھے اتنا ہی ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اپنی مشکلات اور تکالیف کی آہ کو پس پشت ڈال کر لوگوں میں مسکراہٹ اور آسودگی کے پھول بانٹیں۔ وہ ایک حساس، خوددار اور شریف النفس انسان تھے۔ ملک کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی پہلوؤں پر ان کی گہری نظر تھی۔

تصانیف

  • ابراہیم جلیس کی تصانیف میں
  • آزاد غلام ،
  • جالیس کروڑ بھکاری،
  • چور بازار،
  • دو ملک ایک کہانی،
  • ایک پیسے کی خاطر،
  • ہنسے اور پھنسے،
  • جیل کے دن جیل کی راتیں،
  • نئی دیوار چین،
  • نیکی کر تھانے جا،
  • ترنگے کی چھاؤں میں،
  • اجالے سے پہلے،
  • زرد چہرے اور
  • الٹی قبریں قابل ذکر ہیں۔

آخری ایام و اعزاز

ابراہیم جلیس کے انتقال کے 12 برس بعد 14 اگست 1989ء کو حکومت پاکستان نے جناب ابراہیم جلیس کی خدمات کے اعتراف میں انہیں بعد از مرگ تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

Advertisement

ابراہیم جلیس کی داستانِ زیست اس لحاظ سے قابلِ رشک ہے کہ انہوں نے حق و صداقت کے چراغ روشن کئے اور نہ صرف ادب بلکہ صحافت کو بھی نئی بلندیاں عطا کیں اس لیے ان کا نام زندہ رہے گا۔

Advertisement