امتیاز علی تاج | Imtiaz Ali Taj Ki Drama Nigari

0

معروف مصنف اور ڈرامہ نگار سید امتیاز علی تاج 13 اکتوبر 1900 کو لاہور میں پیدا ہوئے- آپ کے والد سید ممتاز علی اور والدہ بیگم ممتاز کا تعلق بھی اردو ادب سے تھا- ان کا جنم ایک ادبی ماحول میں ہوا- مولانا ظفر علی خان، چراغ حسن حسرت اور آغا حشر کاشمیری سے ملنے کا شرف بھی حاصل رہا- اس لئے وہ بچپن میں ہی اردو ادب سے منسلک ہو گئے- سنٹرل ماڈل سکول لاہور سے میٹرک پاس کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور منتقل ہوگئے، وہیں سے بی-اے کی ڈگری حاصل کرلی-

دوران طالب علمی ” کہکشاں ” کے نام سے 1918 میں ایک ادبی رسالہ نکالنے لگے- جس میں معروف افسانہ نگار منشی پریم چند کے افسانے بھی شائع کئے گئے- اس کے علاوہ اپنے والد کی وفات کے بعد ادبی رسالہ ” تعلیم نسواں” کی نگرانی کرنے لگے- 1958 میں ” انجمن ترقی ادب” کے ڈائریکٹر بنے- امتیاز علی تاج کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ برائے حسن کارکردگی اورستارہ امتیاز ملنے کا اعزاز بھی حاصل ہے-

آپ کی زوجہ حجاب امتیاز علی بھی اردو ادب کی معروف مصنفہ تھی- ” تعلیم نسواں “ میں ان کی تحریریں شائع ہوتی تھیں۔ امتیاز علی تاج نے ریڈیو  اور اسٹیج کے لئے متعدد ڈرامے لکھے ہیں- ان کے ریڈیائی ڈراموں میں کمرہ نمبرہ 5، قرطبہ کا قاضی، الو کی زبان، صرف کانوں کے لئے،  اور شیخ برادران شامل ہیں-

1922ء میں آپ نے محض 22 سال کی عمر میں ڈرامہ ” انار کلی” تحریر کیا- آپ کی شہرت میں اسی ڈرامے کا بہت پڑا کردار ہے- 1932 میںیہ ڈرامہ اسٹیج ہوا- تین ابواب (عشق، رقص، موت ) پر مشتمل اس ڈرامے کے مرکزی کرداروں میں اکبر، انارکلی، سلیم اور دل آرام شامل ہیں- اس ڈرامے کا کوئی تاریخی پس منظر نہیں تھا جس کا اعتراف تاج صاحب خود بھی کرچکے ہیں- لیکن اس کا پس منظر، منظر نگاری، کردار نگاری اور مکالمہ نگاری قابل تحسین ہے- اردو ادب کا یہ عظیم شاہکار اپنی مثال آپ ہے-

ڈرامہ نگاری کے ساتھ ساتھ تاج بہترین نثر نگار  مزاح نگار، ناول نگار اور افسانہ نگار بھی تھے- آپ بچوں کے لئے بھی لکھتے رہے- ” پھول “ کے نام سے بچوں کے لئے رسالہ نکالتے رہے-

آپ کو کئی انگریزی اور فرانسیسی ڈراموں کا اردو میں ترجمہ کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے- آپ نے مجموعی طور پر تقریباً سو کے قریب تصانیف تحریر کئے ہیں-

امتیاز علی تاج کی تصانیف:

کمرہ نمبر 5، امن وسکون، جادو راج ، کنجوسوں کی کہانیاں، خزانوں کی کہانیاں، سمندری شہزادہ، انار کلی، چچا چھکن، شاہ جہاں، طلسمات کی کہانیاں، بچوں کی بہادری، جادو کا برج، پرستان، جھوٹ موٹ کا بھوت، جنوں کی کہانیاں، موت کا راگ، بیربل کی کہانیاں، اسکول کی کہانی،پھول باغ، پھولوں کی گلیاں، ابوالحسن، بونوں کی کہانی، روشن آراء، چڑیاں خانہ، ہیبت ناک افسانے، گونگی جورو، قرطبہ کا قاضی، ان کے ابا، صرف کانوں کے لئے، خوشی، شیخ برادران، صید وصیاد، خریم قلب، الو کی زبان۔

19 اپریل 1970 کو رات کے وقت نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے اردو ادب کے اس عظیم سفیر کی زندگی کا خاتمہ کردیا (اس واقعہ میں حجاب امتیاز علی بھی زخمی ہوئیں تھیں)- یوں تاج صاحب ستر سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے- لیکن آپ کے خدمات اور تصانیف ہمیشہ کے لئے زندہ رہیں گے-