محمد مجیب | Mohammad Mujeeb Biography And Drama Nigari

0

تعارف

محمد مجیب 1902ء میں لکھنؤ کے ایک متمول خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کےوالد محمد نسیم ایک مالدار بیرسٹر تھے۔ بارہ برس کی عمر تک انھوں نے لکھنؤ کے لوریٹو کانونٹ اسکول میں پڑھا، ایک سال ایک اسلامی اسکول میں پڑھے پھر دہرہ دون کے ایک پرائیوٹ اسکول میں بھیج دئیے گئے۔ اس اسکول کے انگریز پرنسپل مسٹر ڈالبی سے بہت متاثر تھے جو تھیوسوفسٹ تھے۔

1918 میں سینئر کیمرج کا امتحان پاس کیا۔ 1922 میں آکسفورڈ سے تاریخ میں آنرس کی ڈگری لی، ،جرمنی میں پریس کا کام سیکھا ،جرمن اور روسی زبان پڑھی۔ جرمنی کے قیام کےدوارن ان کی دوستی ڈاکٹر ذاکر حسین اور ڈاکٹر عابد حسین سے ہوئی جنہوں نے ان کی زندگی کو ایک نیا رخ دے دیا۔ حکیم اجمل خان اور ڈٓاکٹر انصاری کی درخواست پر ان تینوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں، بہت کم تنخواہوں پر ملک و قوم کی خدمت کے پیش نظر کام کرنے کا تہیہ کرلیا اور 1926 میں ہندوستان واپس آکر دہلی میں جامعہ کی مختلف ذمہ داریاں سنبھالیں۔ یہ تینوں جامعہ کے ارکان ثلاثہ کہلاتے ہیں۔

مجیب صاحب تاریخ کے استاد تھے اور چند سال خازن کی ذمہ داری بھی سبنھالی۔ 1945 میں ان کی شادی لکھنؤ کے ایک معزز خاندان کی بیٹی آصفہ خاتون سے ہوئی۔ ان کے ایک بیٹے کا جوانی میں انتقال ہوگیا تھا۔ دوسرے بیٹے محمد امین جواہرلال یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ ان کے بڑے بھائی پروفیسر محمد حبیب بھی مؤرخ تھے جن کے بیٹے پروفیسر عرفان حبیب ہیں۔

ادبی تعارف

پروفیسر محمد مجیب ایک نامور مورخ، معلم، دانشور اور انگریزی اور اردو کے مصنف ہیں۔ وہ 1948 سے 1972 تک جامعہ کے ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر رہے۔ شروع میں زیادہ تر انگریزی میں لکھتے تھے۔ ان کی انگریزی مطبوعات اردو سے کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن جامعہ سے وابستہ ہونے کے بعد انھوں نے اردو میں بھی لکھنا شروع کیا اور جلد ہی اپنے اسلوب میں ایک انفرادیت پیدا کرلی۔ مجیب صاحب کے یہاں انگیزی نثر کی کئی اہم خصوصیات بڑی خوبی سے اردو نثر میں برتی گئی ہیں۔ انھیں ایک بڑے اور پھیلے ہوئے علم کے دریا کو چند الفاظ اور جملوں کے کوزے میں سمیٹنے کا فن آتا تھا۔ انھوں نے افسانہ، مضمون، ڈرامہ، تراجم غرض کہ نثر کی تمام اصناف کو اپنے خیالات کی ترسیل اور مقاصد کے تکمیل کا ذریعہ بنایا۔ تاریخ، تہذیب، فلسفۂ سیاسیات اور ادب سے متعلق ان کی متعدد کتابیں اور مضامین ہیں۔

ڈرامہ نگاری

انہوں نے اردو ڈرامہ نگاری کو بہت کچھ دیا۔  ان کے ڈراموں میں ’’خانہ جنگی ‘‘، ’’کھیتی‘‘، ’’حبہ خانم‘‘ اور ’’آزمائش‘‘ بہت ممتاز ہیں جن میں جدید اسلوب کے تمام فنی لوازمات پائے جاتے ہیں۔  اس عہد کے دوسرے ڈرامہ نویسوں میں میر غلام عباس، مخلص حیدرآبادی، نازاں ، محشر انبالوی، شاہد احمد، فضل حق قریشی، کیفی، آرزو لکھنوی اور نشتر لکھنوی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔  لیکن واقعہ یہ ہے کہ دوسرے اصناف کے مقابلہ میں ڈرامے کی صنعت کم پائدار رہی۔ عرصہ دراز سے معاشرتی و سماجی موضوعات کو محور بنا کر ڈرامے لکھے جاتے رہے ہیں۔ جن میں اصلاحی پہلو کو بہ طور ہتھیار استعمال کیا گیا ہے۔ان بزرگ ڈراما نگاروں میں سے ایک پروفیسر محمد مجیب بھی گذرے ہیں۔ جنہوں نے کئی کامیاب ڈرامے لکھے۔

ان کے ڈرامے اردو ادب میں گوہر آبدار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ “آزمائیش” اور “حبہ خاتون” جیسے مشہور ڈراموں کا تذکرہ اس ضمن میں کیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر محمد مجیب سماجی طور پر اہم مسائل پر قلم اٹھاتے ہیں۔ ان کے ڈراموں میں ہر قسم کے مو ضوعات ملتے ہیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد اردو میں بہت کم ڈرامے لکھنے کا رواج رہا۔ اپندر ناتھ اشک نے اپنے ڈراموں میں انسانی نفسیات کے نازک اور لطیف ترین نکات کو پیش کیا۔اس کے علاوہ جدید ایجادات کو بھی انہوں نے اپنے ڈراموں میں پیش کیا۔ جس کی مثال ان کا شاندار ڈراما “ٹرنک کال” ہے۔

بیماری

1975 میں مجیب صاحب بیمار ہوئے، دماغ کا آپریشن ہوا لیکن اس کے بعد وہ سب کچھ بھول گئے۔ روسی جرمن، فرنچ، انگریزی اور اردو سبھی زبانوں کے حروف تہجی تک یاد نہ رہے۔ انھوں نے از سرِ نو انگریزی سیکھنی شروع کی،تین چار برس کی محنت کے بعد انگریزی میں اپنی بائیو گرافی لکھی ،اردو دوبارہ سیکھنے میں مشکل ہوئی لیکن ہمت نہ ہاری اور اس میں بھی کامیاب ہوئے۔ بیماری کے بعد اردو میں ان کا پہلا مضمون ’میری دنیا میرا دین‘ تھا۔

تصانیف

  • پروفیسر محمد مجیب کی کتابوں کی ایک طویل فہرست ہے جس سے ان کے متنوع ذوق اور بالیدہ ذہن کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے تاریخی اور سماجی موضوعات پر ڈرامے بھی لکھے جس میں ’’خانہ جنگی‘‘ بہت اہم اور مشہور ہے جس کا پس منظر اورنگ زیب اور دارا شکوہ کی سیاسی جنگ ہےلیکن اصل میں یہ 1946 کے ہندوستان میں برپا خانہ جنگی، نفرت اور فساد پر ایک بصیرت آموز تبصرہ ہے۔
  • ’حبہ خاتون‘ ،
  • ’ہیروئین کی تلاش‘،
  • ’دوسری شام‘،
  • ’آزمائش‘،
  • ’کھیتی‘، اور
  • ’انجام‘ ان کے دیگر ڈرامے ہیں جو جامعہ میں اسٹیج بھی کئے گئے۔
  • دو جلدوں پر مشتمل روسی ادب کی تاریخ پر ان کی کتاب ’’روسی ادب‘‘ ایک اہم تصنیف ہے۔ افسانوی مجموعہ ’’کیمیا گر‘‘ہے جس کی دو کہانیاں انھوں نےجرمنی میں انگریزی میں لکھی تھیں، اس میں شامل دیگر کہانیاں جامعہ کے قیام کے دوران اردو میں لکھیں۔
  • ’’نگارشات‘‘ منتخب مضامین کا انتخاب ہے جو انھوں نے 1927 سے لے کر 1945 تک رسالہ ’’جامعہ‘‘ میں لکھے تھے۔
  • ’’ہندوستانی سماج پر اسلامی اثر اور دوسرے مضامین‘‘ کے نام سے محمد ذاکر سابق پروفیسر جامعہ ملیہ نے مجیب صاحب کے منتخب انگریزی مضامین کا ترجمہ شائع کیا ہے۔
  • ’’دنیا کی کہانی‘‘ ان کی ریڈیو کےلئے لکھی گئی تقریروں کا مجموعہ ہے۔
  • ’’ہماری آزادی‘‘ مولانا آزاد پر ان کی انگریزی کتاب اور اس کا اردو ترجمہ بھی ایک کتاب ہے۔
  • ان کی دیگر اردو تصانیف اور ان کی انگریزی کتابوں کے اردو تراجم کی ایک طویل فہرست ہے: اس فہرست میں؛
  • ’تاریخ تمدنِ ہند‘،
  • ’تاریخ فلسفہ سیاسیات‘،
  • ’تعلیم اور روایتی قدریں‘ ،
  • ’غالب۔ منتخب کلام‘،
  • ’سیاسی فلسفہ‘،
  • ’’غالب ۔اردو کلام کا انتخاب‘‘
  • وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔

اعزازات

سن 1965 میں انھیں ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر پدم وبھوشن کا اعزاز ملا تھا۔

آخری ایام

محمد مجیب کا 83 برس کی عمر میں ۱۹۸۵ء میں انتقال ہوگیا۔