توبہ

0

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
مسلمان کمزور ہے نا چاہتے ہوئے بھی اس سے بہت سے گناہ سرزد ہو جاتے ہیں دن گزرتا ہے ناجانے کتنے ہی گناہ پلے بندھ جاتے ہیں۔ آنکھیں گناہ دیکھ رہیں بے حیائی کی شکل میں،کان گناہ سنتے ہیں موسیقی اور بُری باتوں کی شکل میں،زبان گناہ کرتی ہے جھوٹ اور توڑ دینے والے لفظوں کی شکل میں،دلوں کو زنگ لگ چکا اور من کالا ہو چکا ہے۔ جسم کے انگ انگ میں گناہ سرایت کر چکے۔ ہر لمحہ گناہوں میں لت پت، گزرنے والا ہر وقت گناہ میں گزر رہا۔

جو وقت آرہا ناجانے اس میں بھی کتنے ہی گناہ ہمارے نامہِ اعمال میں لکھےجائیں گے۔
کیونکر ہم اتنے گناہ کرتے ہیں؟؟آخر کیوں ہم اللّٰہ کی محبت اور شفقت کو بھلا بیٹھے ہیں؟؟ہم نے رسولِؐ خدااور صحابہ اکرامؓ کی ان گنت قربانیوں کو بھلایا۔ہم بھول گئے اپنے ربِ کریم کو۔ہم بھول گئے کہ اللّٰہ دیکھ رہا ہے اور اسکی جنت مہک رہی ہے۔ہمارے گناہوں کی نحوست اس قدر بڑھ گئی کہ ان گنت آفتوں اور بلاؤں نے ہماری زندگیوں پر ڈیرے جما لیے۔روز بروز مشکلات اور پریشانیاں بڑھتی گئیں۔مصیبتوں نے ہم پر گھیرے تنگ کر لیے۔میرے دوست اسکی وجہ اور کوئی نہیں بلکہ میں ہوں،آپ ہیں۔یہ سب اور کچھ نہیں بلکہ ہمارے گناہوں کی نحوست ہے۔ہمیں ہمارا رب روزانہ بلاتا رہا،روزانہ دن میں پانچ دفعہ اس نے ہمیں پکارا کہ میرے بندو آ جاؤ فلاح پا جاؤ گے،لیکن ہم نے کان نہ دھرے،ہم نے قرآنوں کو غلافوں میں بند کیا اور رکھ دیا اس پر مٹی کی اِک تہہ جمتی چلی گئی اور پھر قرآن کی بددعا ہمیں لگ گئی۔

ہم نے اپنی زندگی میں گناہوں کو اپنے رب کے حکم پر ترجیح دی۔ فوقیت دی ہم نے اپنے نفس کو
کس پر؟کس پر؟ ہاں ہاں اپنے رب پر اس رب پر جو ہم سے بہت ہی محبت کرتا ہے جس کی محبت اور عنایت کی کوئی انتہا نہیں جو فرماتا ہے:”اے انسان!تجھے کس چیز نے اپنے کرم کرنے والے رب کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا۔جس نے تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک بنایا پھر اعتدال والاکیا ۔جس صورت میں چاہا تجھے جوڑدیا”
(سورة الانفطار آیت:٦-٨)

کس قدر محبت اور شفقت سے ربِ کریم فرما رہا ٹھیک اسی طرح جب بچہ اپنی ماں کو بہت ستا رہا ہو ضد کر رہا اور اسکی ماں اسکی محبت میں بہت مجبور ہو۔اور پھر وہ شفقت سے کہے میرے بچے کیوں اتنا پریشان کرتے ہو کیا چیز تمہیں اس قدر پریشان کر رہی کيوں اتنا ستا رہے ہو؟ ہاں ہاں میرے رب کی محبت بھی بلکل ایسے ہی اک ماں کی طرح وہ فرما رہا اے میرے بندے کس چیز نے تمہیں اپنے کرم کرنے والے رب کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے؟ارے میں تو تمہارا رب ہوں تمہارا خیر خواہ ہوں۔کیوں میرے اور اپنے تعلق میں کھوٹ ڈالنے پر تُلے ہو؟ کیوں مجھ سے دور ہوتے چلے جا رہے ہو؟کیا میں نے تم سے تمہارا رزق چھین لیا؟تم دیکھتے نہیں کہ صبح و شام ہر شے میری تسبیح میں سرشار ہے لیکن تم نافرمانی پر اتر آئے ہو،پھر بھی کیا میں نے تم کو دھتکار کر پھینک دیا؟تم دیکھتے نہیں کہ تم سے آنے والی پہلی امتوں کے چہرے میں نے بگاڑ دیے کیا میں نے تمہارا بگاڑا؟کیا میں تم کو نواز نہیں رہا؟کیا میں تم کو عطا نہیں کر رہا؟وہ فرماتا ہے اے میرے بندے میں تو تجھ سے اک ماں سے ستر گناہ زیادہ محبت کرتا ہوں۔پھرکیوں تم نے مجھ سے امیدوں کو توڑ کر اور اوروں سے جوڑ لیا؟کیوں تم نے میرے سے تعلق توڑ کر اوروں سے جوڑنا چاہتےہو؟

میرے دوست ہم اس رب سے بےوفائی کر بیٹھےہیں جو ہمارا چاہنے والا ہے جو ہمارا خیر خواہ ہے۔جس نے کبھی ہمیں اپنے سے دور نہیں ہونے دیا۔جس نے جو مانگا جب بھی مانگا اس نے عطا کیا۔نہیں اس نے کبھی وہ عطا کیا جو ہمارے لئے باعثِ وبال ہو۔وہ بہت کریم ہے، محبت کرنے والا ہے۔ہمیشہ ہم پر دستِ شفقت رکھے ہوئے ہے۔
انسان گنہگار ہے، کمزور ہے گناہ ہو جاتے ہیں لیکن ان گناہوں پر توبہ بھی تو کرنی ہے۔بے شک توبہ کرنے والا اور اپنے رب سے معافی کا طلبگار انسان ہی کامیاب انسان ہے اور بہترین مسلمان ہے۔

رسولؐ اللّٰہ نے ارشاد فرمایا:
’’کل بني آدم خطاء وخیر الخطائین التوابون ‘‘۔(سنن الترمذي، کتاب صفۃ القیامۃ، رقم :۲۴۹۹) ترجمہ:’’ تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار توبہ کرنے والے ہیں ‘‘
وہ کریم ذات اور بخشنے والا مہربان ہے۔تم اک دفعہ مانگ کر تو دیکھو۔ندامت میں ڈوب کر دو آنسو بہا کر تو دیکھو۔وہ نہ سنے تب کہنا۔
مولانا رومی فرماتے ہیں:

قطرئہ اشکِ ندامت در سجود
ہمسری خون شہادت می نمود

“ندامت کے آنسوؤں کے وہ قطرے جو سجدہ میں گنہگاروں کی آنکھوں سے گرتے ہیں، اتنے قیمتی ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت ان کو شہیدوں کے خون کے برابر وزن کرتی ہے”
تم توبہ تو کرو۔تم قدم تو بڑھائو وہ تمہارا آگے بڑھ کر استقبال کرے گا۔وہ تمہیں ایسے ہی کر دے گا کہ جیسے آج ہی پیدا ہوئے ہو۔اللّٰہ تو توبہ کرنے والے کو پسند کرتا وہ کیوں تمہیں دھتکارے گا۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن اللّٰہ کی زمین،آسمان اور اسکے فرشتے اللّٰہ سے یہ نہ کہتے ہوں اے اللّٰہ تو حکم فرما ہم ان انسانوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑیں لیکن میرا اللّٰہ فرماتا ہے کہ نہیں نہیں بلکل نہیں! پھر فرشتے کہتے ہیں یا اللّٰہ تو تُو انکو پھر پکڑتا کیوں نہیں؟ یہ تو تیری کتنی ہی نافرمانی کر رہے۔اور کرتے جارہے ۔

اس پر میرا اللّٰہ فرماتا ہے:
اے میرے فرشتو! میں تو اپنے بندے کی توبہ کا انتظار کر رہا ہوں۔وہ تو انتظار کر رہا ہے ہمارا،پھر کیوں ہم نے اپنے رب سے اس قدر بے وفائی کی ہوئی ہے؟
کیوں ہم توبہ نہیں کر رہے؟
آخر ہم کس کا انتظار کر رہے ہیں؟ کائنات کا مالک ہے کائنات میں موجود کوئی بھی جان و بے جان اس کی قدرت سے باہر نہیں،خالق ہےاوروہ تمہارے انتظار میں ہے۔اس کی تو ساری کائنات تسبیح کر رہی،اسکے فرشتے جن کا تم شمار نہیں کر سکتے،صبح و شام اسکی عبادت میں لگے ہوئے،اسکو تمہاری عبادتوں کی ضرورت نہیں ہے۔یہ اس کی محبت ہے کہ وہ تمہارے انتظار میں ہے۔وہ تمہیں اپنے قریب چاہتا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ میرے بندے جن کو میں شعور دیا ہے وہ میری جنت کی زینت بنیں۔لیکن افسوس کہ ہم نے اس چار دن کی زندگی کو اس دائمی زندگی پر فوقیت دے رکھی ہے!ہائے افسوس کس قدر ظالم ہیں ہم لوگ کہ ہم اپنے اس قدر چاہنے والے رب کو بھلا بیٹھے۔میرے دوست دیر نہ کر خالقِ کل جہاں تیرے انتظار میں،تیرے استقبال کیلئے کھڑا ہے۔
پاکستان کے نامور مفتی مولانا محمد شفیع اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے:

ظالم ابھی ہے فرصتِ توبہ نہ دیر کر
وہ ابھی گرا نہیں جو گرا پھر سنبھل گیا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِک جگہ ارشاد فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ اپنے موٴمن بندہ کی توبہ سے اتنا خوش ہوتا ہے جیساکہ وہ سوار جس کی سواری کھانے، پانی کے ساتھ کسی چٹیل میدان میں کھوجائے اور وہ مایوس ہوکر ایک درخت کے نیچے سوجائے، جب آنکھ کھلے تو دیکھے کہ وہ سواری کھڑی ہے ۔ (صحیح مسلم)

دیکھو میرا اللّٰہ کس قدر اپنے بندے سے محبت کرتا ہے وہ ساری زندگی کے گناہوں کو نہیں دیکھ رہا بلکہ وہ ساری زندگی کے گناہوں کو بُھلا کر چند لمحوں کی توبہ کو اور ندامت میں ڈھوبے دو آنسوئوں کو دیکھ رہا ہے اُسے اسی دو آنسوئوں سے محبت ہے جو تم سجدے میں اپنے گناہوں کی ندامت میں،شرم میں ڈوب کر بہاؤگے۔

ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے نزدیک کوئی چیز دو قطروں سے زیادہ محبوب نہیں، ایک آنسو کا قطرہ جو اللہ کے خوف سے نکلا ہو اور دوسرا خون کا وہ قطرہ جو اللہ کے راستہ میں گراہوا۔
(مشکوٰة ، ص:۳۳۳)

وہ کبھی بھی نہیں کہے گا کہ ساری زندگی گناہ کر کے اب آ گیا ہے میرے دربار میں توبہ کرنے، جاجا نکل جا! اب کیا فائدہ تیری توبہ کا نہیں نہیں بلکہ وہ استقبال کرے گا۔
اللّٰہ فرماتا ہے کہ جو میرا بندہ مجھے منانے آتا ہے میں پہلے سے کھڑا ہو کر اسکا استقبال کرتا ہوں۔میرے بندہ آجا تیرا ہی تو انتظار تھا کیوں اتنی دیر لگائی ہے؟آجاآجا، کل جہاں کا مالک ہو کر وہ انتظار کر رہا یہ کیا ہے؟ یہ محبت ہے میری رب کی جو اسکی تیرے ساتھ ہے۔
اللّٰہ فرماتا ہے اے میرے بندے اتنے گناہ لے کر آ کہ تیرے گناہ آسمان کو چھونے لگ جائیں پھر دو آنسو بہا کر کہہ یااللّٰہ میری توبہ تو میں معاف کر دوں گا۔
توبہ ٹوٹ جائے تو پھر سے توبہ کرو پھر ٹوٹ جائے پھر سے توبہ کرو۔
خواجہ عزیز الحسن مجذوب کا جذبے میں ڈوبا ہوا کلام ہے:

“جو ناکام ہوتا رہے عمر بھر بھی
بہرحال کوشش تو عاشق نہ چھوڑے
یہ رشتہ محبت کا قائم ہی رکھے
جو سوبار ٹوٹے تو سوبار جوڑے”

بنی اسرائیل میں ایک نوجوان تھا جس نے نناوے قتل کئے اس نے ایک نیک بندے سے پوچھا کہ کیا اب میری توبہ قبول ہو جائے گی؟ اس نے کہا نہیں اب نہیں۔اس نے اس کو بھی قتل کر دیا سو قتل ہو گئے۔پھر ایک عالم سے پوچھا کہ کیا میری توبہ قبول ہو جائے گی؟ اس نے کہا ہاں لیکن شرط ہے کہ توبہ پکی ہو۔یہ شہر گندا ہے وہ دوسرے شہر چلاجا وہ نیک لوگوں کا ہے اس نے کہا بس میری توبہ قبول ہو جائے میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں اس نے توبہ کی نیت کی اور سامان باندھا سفر شروع کر دیا ابھی وہ راستے میں تھا کہ موت نے آن گھیرا اور وہ مر گیا۔جنت کا فرشتہ بھی آ گیا جہنم کا بھی آ گیا،جہنم والے نے کہا ہمارا مجرم ہے کیونکہ ابھی توبہ نہیں کی تھی پچھلی زندگی گناہوں سے بھری پڑی ہے،جنت کا فرشتہ بولا نہیں نہیں نیت ضروری ہے وہ نیت کر چکا تھا۔شہر سے نکل پڑا تھا۔یہ ہمارا مہمان ہے۔ اب اللّٰہ نے تیسرے فرشتے کو بھیجا کہ جائو فیصلہ کرو زمین ناپ لو اگر یہ اپنے شہر سے زیادہ قریب ہوا تو جہنمی ہے اگر یہ دوسرے شہر سے زیادہ قریب ہوا تو جنتی ہے۔وہ اپنے گھر سے ابھی قریب تھا۔اللّٰہ کی رحمت نے جوش پکڑا اللّٰہ نے زمین سے فرمایا اے زمین پھیل ،زمین پھیل گئی جب فاصلے کو ناپا گیا تو وہ دوسرے شہر سے زیادہ قریب نکلا۔فرمایا ہاں بھئی یہ اب ہمارا مہمان ہے جاؤجنت میں لے جاؤ۔

ترمذی کی اِک اور روایت ہے کہ بنی اسرائیل میں اِک شخص تھا کِفل وہ روزانہ رات کو بازار سے اِک نئی لڑکی لاتا اور اس کے ساتھ رات گزارتا،ایک دفعہ بہت سا مال خرچ کرکے ایک خوبصورت اور نوجوان عورت کو لایا وہ جب کمرے میں تھا تو وہ عورت رونے لگی تو کفل نے کہا روتی کیوں ہے؟ میں کوئی زبردستی کر کے تو نہیں لایا تمہاری تمہیں قیمت ادا کی ہے تو اس عورت نے کہا کفل! میں کوئی بازاری عورت نہیں ہوں عزت دار ہوں مجھے میری غربت نے مجبور کیا ہے کفل اسکی بات سُن کر رونے لگا اور کہنے لگا میری بہن! جس طرح سے آئی ہے جا عزت سے چلی جا میں بہت گندا اور گنہار انسان ہوں تیرے طفیل آج میں بھی توبہ کرتا ہوں۔جا چلی جا جو قیمت تجھے دی ہے جا اس سے اپنی ضروریات کو پورا کر۔اور میرے لئے دعا کر دینا کی اللّٰہ مجھے معاف کر دے۔وہ لڑکی ابھی گھر پہنچی تھی کہ کفل کو موت نے آگھیرا۔صبح لوگوں نے دیکھا کہ کفل کے گھر کے دروازے پر میرے رب نے سنہرے حروف میں لکھ دیا تھا “اے لوگو اللّٰہ نے کفل کو معاف کر دیا ہے” ارے دیکھو تو سہی اس کی پچھلی زندگی کو شراب اور زنا کے سوا جس کے پاس تھا کچھ نہیں۔ خدا کی قسم وہ جس حالت میں زندگی گزار رہا تھا وہ ایسے ہی چلا جاتا تو شاید اسے کوئی کندھا دینے والا نہ ملتا اسکا جنازہ پڑھنے اور پڑھانے والا کوئی نہ ملتا لیکن میرے اللّٰہ کی کریمی تو دیکھو پیارو! اس نے بھلا دیا اسکی پچھلی ساری زندگی کو اور توبہ کو قبول کر لیا۔

یہ تو موسٰیؑ کے امتی تھے ہم تو محمدؐ مصطفٰی کے امتی ہیں جو میرے رب کے محبوب ہیں۔ایسا پیارا نبیؐ کہ دنیا سے جا رہے تھے جبرائیل آ گئے فرمایا: یا رسول اللّٰہ اللّٰہ آپکے انتظار میں ہیں فرمانے لگے اے جبرائیل! جائو پہلے میرے اللّٰہ سے پوچھ کر آؤ کہ میرے بعد میری امت کا کیا بنے گا؟ اہلِ بیتؑ کا نہیں پوچھا، صحابہؓ کا نہیں پوچھا بلکہ امت کا پوچھا تھا۔ہاں ہاں یہ دنیا سے پردہ فرمانے کا وقت تھا۔پھر جبرائیلؑ نے آ کر پیغام دیا کہ یا رسولؐ اللّٰہ اللّٰہ فرما رہے ہیں کہ آپ ؐکے جانے کے بعد آپؐ کی امت کو تنہا نہیں چھوڑوں گا۔

میدانِ عرفات کی سخت دھوپ میں ۵ گھنٹے کا مسلسل وہ ایک سجدہ جس میں کچھ الفاظ ہی بار بار دھرائے جا رہے تھے
“اے اللّٰہ میری امت کو بخش دے،اے اللّٰہ میری امت کو بخش دے” قیامت کا سماں ہوگا ہر طرف نفسٙ نفسی کا عالم ہوگا۔ہر نبیؑ،ہر بندہ پکار رہا ہوگا یااللّٰہ آج میری جان بچا میری جان بچا! کہ اچانک اِک آواز بلند ہوگی “یا ربِ امتی،یا رب امتی” اے اللّٰہ میری امت کو معاف کردے،اے اللّٰہ میری امت کو معاف کر دے۔جب نظریں طواف کریں گی۔ میرے بھائی وہ کوئی اور نہیں بلکہ تمہارے اور میرے نبی محمدِؐ مصطفٰی ہونگے۔

کونسی امت؟ وہ جو چند نوٹوں پر بِک جاتی ہے؟وہ جس نے زنا بھی کیا ، جس نے ڈاکے بھی ڈالے،جس میں جھوٹ عام ہوچکا جس نے گناہوں میں کوئی کسر نہ چھوڑی!!!
کس کے پیروکار ہو؟کس نبی کے امتی ہو؟ کس چیز نے تمہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے؟ دیکھو تو سہی میرے دوست کہ تمہارا رب کس قدر مہربان ہے تمہارا نبیؐ کس قدر تم سے محبت رکھتا ہے۔کدھر جا رہے ہو؟کونسی منزل متعین کر رکھی ہے؟کس کو دھوکا دے رہے ہو؟سوچو تو اس روز کو جب تمہیں پکارا جائے گا فلاں بن فلاں کو بلایا جائے، ہاں بھئی دکھاؤ کیا لائے ہو؟زندگی گزار کر آئے ہو؟کیا منہ دکھائیں گے؟کیا جواب دیں گے؟

وہ نبیؐ جو اس دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے بھی تمہیں ہی اپنے رب سے مانگ گیا،تم نے کیا کیا اس ؐ کے ساتھ ہائے افسوس کہ بُھلا دیا سبھی کچھ!!!
ہمیں اپنے رب کو منانا ہے۔رونا ہے،توبہ کرنی ہے اس کے حکموں پر لبیک کہنا ہے۔چھوڑ دو اس کو ختم کر دوجو ہو گیا،بھول جاؤ پچھلا سب،توبہ کر لو اپنی پچھلی زندگی سے،جو گزر گئی لاعلمی میں سو گزر گئی اور شروعات کرو نئی زندگی کی۔
غالب کا شعر ہے:

کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالب
شرم تو تم کو نہیں آتی

مولانا شاہ محمد احمد الٰہ آبادی انکے اس شعر کی اصلاح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“میں اسی منہ سے جاؤں گا
شرم کو خاک میں ملاؤں گا
ان کو رو رو کہ مناؤں گے
اپنی بگڑی کو یوں بناؤں گا”
تو آؤ پھر آج توبہ کریں

اپنے روٹھے رب کو منائیں ندامت میں ڈوب کر شرم سے سرشار ہوکر اپنے گناہوں کا تصور رکھتے ہوئے اللّٰہ کی پاک بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں۔آؤآؤ آج سے اک نئی زندگی کا آغاز کریں۔
استغفراللّٰہ
استغفراللّٰہ
استغفراللّٰہ
ہاں ہاں اگر توبہ سچے دل سے کی ہے تو مبارک انشاءاللّٰہ ا للّٰہ قبول فرمائے گا۔

بقلم بندہِ ناچیز محمد عدنان مشتاق