مرزا غالب کی غزل گوئی

غالب کو اردو کے بڑے شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔فارسی شاعری میں بھی ان کا مرتبہ بلند ہے۔ ان کا طرز بیان سب سے جدا اور الگ ہے۔غالب اردو کے ہر دلعزیز شاعر ہیں۔ کچھ لوگ تو انہیں اردو کا عظیم ترین شاعر قرار دیتے ہیں۔غالب کی شاعرانہ عظمت کا بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ تیزی سے گزرتے ہوئے وقت نے انکے فن کو گردآلود کرنے کے بجائے اسے اور بھی نکھار دیا ہے۔ان کی شاعری کے کئی رنگ ہیں، شروع میں انہوں نے فارسی آمیز زبان استعمال کی لیکن بعد میں خالص اردو زبان استعمال کرنے لگے۔مزاج میں شوخی اور جدت تھی جس کی وجہ سے مشکل سے مشکل شعر کو خوبصورت بنایا۔وہ نہ کسی کے مقلد تھے اور نہ کسی کو سند کے طور پر تسلیم کرتے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے لیے الگ اور نئی راہ نکالی اور منفرد حیثیت حاصل کی۔غالب کی شاعری ایک ایسا لازوال اور انمول کارنامہ ہے جس کی مثال دنیا ئے اردو میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔یہ لافانی کارنامہ ہمیشہ کے لئے اردو ادب کا سرمایہ بن کر ہمارے پاس رہے گا،جس سے صرف اسی دور کو ہی نہیں واسطہ بلکہ آنے والی نسلیں بھی اس سے فیض حاصل کرتی رہیں گی۔غالب ایک عظیم شاعر اور بڑے فنکار ہیں جن کی شاعری لطافت فکر خیال سے عبارت ہے۔ان کی شاعری کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں۔

 فکری پہلو

غالب سے پہلے اردو غزل کی دنیا بہت محدود تھی۔حسن کے معاملات اور عشق کی واردات کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔غالب پہلے شاعر ہیں جنہوں نے سب سے پہلے زندگی کے حقیقی مسائل پر غور کیا اور انہیں اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔غالب کی عظمت کا بڑا راز بھی یہی ہے کہ انہوں نے اردو غزل کو ذہن دیا، سوچنا سکھایا اور اسے غوروفکر کی عادت ڈالی۔آل احمد سرور لکھتے ہیں:

“غالب سے پہلے اردو شاعری دل والوں کی دنیا تھی غالب نے اسے ذہن دیا اور ایک ایسی زبان دی جو فکر کی گرمی کا ساتھ دے سکے۔غالب نہ ہوتے تو اقبال بھی نہ ہوتے۔ غالب ہمارے لئے ایک شاعر نہیں بلکہ ذہنی فضا ہیں”

 تصوف

غالب اگرچہ عملی صوفی نہیں تھے لیکن ان کی شاعری فلسفۂ وحدت الوجود سے لبریز ہے۔مگر ان کا یہ عقیدہ بھی ہر جگہ برقرار نہیں رہتا۔بعض مقامات پر وہ تشکیک کا شکار ہوجاتے ہیں پھر عالم حیرت میں اللہ تعالی سے طرح طرح کے سوال کرتے ہیں۔

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر   یہ   ہنگامہ  اے   خدا   کیا  ہے

سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا  چیز   ہے ہوا   کیا   ہے

غالب کی سی بات پر مطمئن نہیں ہوتے وہ خدا کے بنائے ہوئے ذرّے ذرّے پر غور و فکر کرتے ہیں کو سوچتے ہیں کہ یہ کام یوں ہے، تو کیا یوں نہیں ہو سکتا؟ اگر یوں ہوتا تو کیا ہوتا؟

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

غالب کے یہاں فنا و بقا، فنا فی اللہ، حقیقت ہستی،انسان دوستی، ہمدردی اور دردمندی کا جذبہ ابھرتا ہے اور اس کی جڑھیں تصوف سے ہی پھوٹتی ہیں۔

 حسن و عشق

حسن و عشق کے متعلق جس قدر بلند پایا اشعار دیوان غالب میں ملتے ہیں اور حکمت عشق کی نسبت جو گہرائی ان کی نظر میں ہے اسکا اردو  کے کسی دوسرے شاعر کے یہاں ملنا محال ہے۔عام شعری روایت کے مطابق غالب بھی اپنی شاعری کا بیشتر مواد حسن و عشق سے ہی حاصل کرتے ہیں۔ہمیں غالب کی شاعری کے بیشتر حصہ پر جذبۂ عشق و محبت کی چھاپ نظر آتی ہے۔غالب حسن کی مختلف کیفیتوں اور عشق و محبت کی واردات کو اپنے محسوسات اور اپنی داخلیت کی مدد سے لازوال بنا دیتے ہیں۔وہ حسن سے متعلق سطحی بات نہیں کہتے،بلکہ انسان کی ذہنی اور جذباتی کیفیت،جسمانی تقاضوں اور اس کے فکر و شعور کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتے ہیں۔محبوب سے عجزونیاز، شوخی چھیڑچھاڑ، خوداری غرض یہ کہ تمام مضامین سمٹ آئے ہیں۔غالب نے ان تمام کیفیتوں کا اظہار جس طرح اپنے مخصوص لب و لہجے میں کیا ہے وہ غالب ہی کا حصہ ہے۔

کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم
میں معتقد فتنہ محشر نہ ہوا تھا

ترے سرو قامت سے اک قد آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں

جوۓ خون آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ دو شمعیں فروزاں ہو گئیں

 طنز و ظرافت

طنز و ظرافت مرزا غالب کی فطرت ثانیہ بن چکی تھی۔یہی وجہ ہے کہ غالب اپنے کلام میں جام سفال سے لے کر تصوف تک ہر چیز پر بڑی سنجیدگی اور پاکیزگی کے ساتھ ظریفانہ وار کرتے ہیں اور ان کا کلام ذہنی انبساط کا ایک اعلی نمونہ بن جاتا ہے۔ اسی لیے حالی نے انھیں “حیوان ظریف” اور ممتازحسین نے “نشاط کا شاعر” قرار دیا ہے۔

کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس ذود پشیماں کا پشیماں ہونا

 تصور غم

 کلام غالب کے بیشتر حصے پر ہمیں غم کا سایہ لہراتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ان کی شاعری میں ہمیں غم کی ایک ایسی لہر ملتی ہے جس کے سوتے غم ذات، غم عشق اور غم دوراں سے پھوٹتے ہیں۔غالب اگر چہ بظاہر ہمیں ہنستے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اس ہنسی کی تہہ میں اشکوں کا ایک سمندر پوشیدہ ہے۔جس میں غم ہستی بھی ہے اور غم نستی بھی،غم فراق بھی ہے اور غم وصال بھی۔ان کے یہاں فکر معاش، عشق بتاں اور یاد رفتگاں صرف ایک شاعرانہ احساس ہی نہیں ہے بلکہ یہ غالب کی زندگی کی سب سے بڑی حقیقتیں ہیں جس کے اثرات ہمیں ان کی پوری شاعری پر محسوس ہوتے ہیں۔

 تہہ داری

غالب کے اکثر اشعار میں مضامین کی تہہ داری پائی جاتی ہے یعنی کہ شعر ایک بار پڑھو مطلب کچھ اور ہوگا اور دوسری بار پڑھو کچھ اور نکلے گا۔

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا

اس طرح کلام غالب میں تہہ داری کے ساتھ ساتھ ایجازواختصار بھی پیدا ہوجاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

 مشکل پسندی اور جدت طرازی

غالب کی شاعری کا یہی مقام ہے جس پر اربابِ فن اعتراض کرتے رہے۔کلام غالب کی مشکل پسندی میں مشکل اور جدت الفاظ، پیچیدہ خیالات،جدت محاکات،تخیل کی بلندی، مضامین کی تہہ داری، تشبیہات و استعارات اور علامات و اشارات نے عام قارئین کے لئے مصیبت کے پہاڑ کھڑے کردیے۔دیوان غالب کا پہلا ہی شعر آج بھی دنیائے اردو کے لیے ایک معما اور ابہام بنا ہوا ہے جس کی نئی نئی پرتیں روزبروز کھولی جارہی ہیں۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

غالب اکثر اپنی مشکل پسندی پر فخر کیا کرتے تھے

آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

 انداز بیان

غالب کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا دلکش اور پر اثر انداز بیاں ہے۔ غالب کے اس انوکھے اور نرالے انداز بیاں میں سلاست، روانی، صفائی، سادگی، نازک خیالی،مشکل پسندی، معنی آفرینی، مضمون آفرینی اور جدت طرازی وغیرہ سب کچھ بدرجہ اتم موجود ہے۔اردو وہ اکثر اپنے طرز بیان پر بھی ناز کرتے تھے۔

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

غالب کی شاعری اردو کلاسکی شاعری کا وہ نقطہ عروج ہے جس کی آگے اس روایت میں مزید اضافہ کرنے کی گنجائش باقی نہ رہی اس بات کا علم خود غالب کو بھی تھا۔

منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا

آخر میں غالب کے کارناموں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔غالب کی کچھ کتابوں اور رسالوں کے نام درج ذیل ہیں۔


پرتوستان، دستنبو (1858)، قاطع برہان (1862)، درفش کادیانی،پنچ آہنگ، ثبد چین، گل رعنا، لطائف غیبی (1864)، دعاء صباح، عود ہندی (1868)، اردو معلی(1869)،مکاتیب غالب،رقعات غالب،خطوط غالب،نادرات غالب، نکات غالب، قادر نامہ، انشائیہ غالب۔دیوان غالب (غالب کے دیوان اردو میں 1802 اشعار ہیں۔ان کا یہ دیوان غالب کی زندگی میں 5 بار شائع ہوا)

  • غالب نے کل 11 مثنویاں لکھیں جن کے نام درج ذیل ہیں
  • باد مخالف، مثنوی ابر گوہر بار، مثنوی چراغ دیر، مثنوی درصفت انبہ، مثنوی دعائے صباح، مثنوی شان نبوت ولایت،
  • باد مخالف وغیرہ

غالب کے منتخب اردو دیوان میں کل چار قصیدے بھی ہیں جن میں ابتدائی 2 قصیدہ حضرت علی کی منقبت میں کوریا اور آخر کے دو قصیدہ بہادر شاہ ظفر کی مدح میں ہیں۔