ڈراما انار کلی کا فکری و فنی جائزہ پیش کیجیے۔

ادبی محفلCategory: اردو ادب معروضی سوالاتڈراما انار کلی کا فکری و فنی جائزہ پیش کیجیے۔
beingsajid Staff asked 1 سال ago
beingsajid Staff replied 1 سال ago

ڈرامہ انار کلی کی کہانی کا بنیادی خیال ، محبت اور سلطنت کے درمیان تصادم اور کشمکش پر مبنی ہے۔ اس طرح اس ڈرامے میں رومانیت ، رعب داب ، جلال و جمال اور بے پناہ قوت کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ لیکن درحقیقت محبت بذات خود ایک بڑی طاقت ہے۔ صرف نام کا ہیر پھیر ہے۔چنانچہ قوت اقتدار اور قوت جذبات کا ٹکرائو جب ہوتا ہے تو ہر طرف اداسی ہی اداسی اور سوگ ہی سوگ چھا جاتا ہے۔

مگر جہاں تک انار کلی کے پلاٹ کی تاریخی سند کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے یہ قصہ بے بنیادنظرآتا ہے ۔ وہ اس لئے کہ امتیاز علی تاج خود کہتے ہیں کہ :

” میرے ڈرامے کا تعلق محض روایات سے ہے بچپن سے نار کلی کی فرضی کہانی کے سنتے رہنے سے حسن و عشق، ناکامی و نامرادی کا جو ڈراما میرے تخیل نے مغلیہ حرم کے شان و شوکت میں دیکھا اس کا اظہار ہے۔“

بہر حال اگر اس ڈرامے کی تاریخی اہمیت سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انار کلی فنی عروج اور دلفریب ادبیت کاخوبصورت امتزاج ہے۔ خوبی زبان ، بندش الفاظ ، چست مکالمات اور برجستگی جیسے ڈرامائی لوازمات نے ا س تخلیق میں ایک شان او ر وقار اور سربلندی پیدا کی ہے۔آئیے ڈرامے کی فنی فکری خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں،

کردار نگاری:

انار کلی کے کرداروں میں ایسے اوصاف پائے جاتے ہیں جو اپنی خصوصیات کی بناءپر فن کے پیمانے پر بدرجہ اتم پورے اترتے ہیں۔ مثال کے طور پر اکبر ، سلیم اور انار کلی اس ڈرامے کے کلیدی کردار ہیں۔ دل آرام کا کردار بھی اہم ہے۔ علاوہ ازیں ثریا مہارانی ، بختیار، داروغہ زندان سیات، مروارید اور انار کلی کی بوڑھی ماں ایسے ضمنی کردار ہیں جو تذبذب ، تجسّس اور کشمکش کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مصنف کا کمال ہے کہ اس نے ان ضمنی اور چھوٹے کرداروں کو بھی اپنے زور قلم کے بل بوتے پر ڈرامہ انارکلی کے شاندار کردار بنا کر پیش کیا ہے۔تاج نے اپنے کرداروں کی سیرت اور صورت کی تصویر کشی کرتے وقت ایسا زور قلم اور ادبی شکوہ دکھایا ہے کہ اسٹیج پر ایسے کرداروں کا دکھانا ناممکن اور محال ہوگیا ہے۔ مثال کے طور پر ڈارمے کے نمایاں کردار انار کلی کا تعارف وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

” چمپئی رنگ میں اگر سرخی کی خفیف سی جھلک نہ ہو تو شائد بیمار سمجھی جائے خدوخال شعراءکے معیار حسن سے بہت مختلف ، اس کا چہرہ دیکھ کر ہر تخیل پسند کو پھولوں کا خیال ضرور آتا ہے۔“

کردار نگاری کے اعتبار سے ڈرامہ نگار نے ایسے ادبی اور فنی لوازمات کاخیال رکھا ہے کہ کسی کردار کے قول و دفعل میں تضاد کا کھٹکا بھی محسوس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ انار کلی میں کردار نگاری اوج ثریا کو چھو رہی ہے۔

اکبر اعظم:

اکبر کے سینے میں باپ کا دل ہے لیکن وہ اپنے ولی عہد سلیم کو پختہ عمل کا مالک اور شاہانہ جاہ و جلال کا پیکر دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ سلیم کو شیخو کی حیثیت سے بلاشبہ ٹوٹ کر پیار کرتا ہے لیکن ولی عہد کی حیثیت سے وہ اسے ملگ گیری اور جہاں بانی کے جوہر سے متصف دیکھنے کا آرزو مند ہے وہ یہ نہیں چاہتا کہ ولی عہد اپنی ایک ادنی کنیز کے سر پر محبت کا آنچل ڈالے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اکبر سلیم کی شادی کسی ایسی جگہ کرانا چاہتا ہے جہاں سلیم کے سےاسی ہاتھ مضبوط ہو سکیں۔

سلیم کا کردار:

سلیم انار کلی کا شیدائی تو ہے لیکن دل و جاں سے نہیں ایسا لگتا ہے کہ اس کے جسم میں گداز ہے لیکن دل اس دولت سے یکسر خالی ہے۔ بیشک وہ باتوں کے بے شمار گھوڑے دوڑاتا ہے مثال کے طور پر

”اللہ پھر یہ سہمی ہوئی محبت کب تک راز رہے گی۔ مہجور دل یونہی چپ چاپ دیکھا کرے گا۔“

سلیم کے آخری جملے نہ صرف سلیم کے مستقبل کے متعلق ممکنہ اندیشوں کا اظہار ہے بلکہ اس سے اس کی قلبی کیفیت اور فطرت کی جانب بھی ایک واضح اشارہ ملتا ہے کہ اسے محبت کے مقابلے میں شہنشاہی کی کوئی اہمیت معلوم نہیں ہوتی۔ آگے چل کر سلیم کی یہ گفتگو اس کے کردار کی وضاحت کرتی ہے۔

انار کلی:

جہاں تک انار کلی کا تعلق ہے وہ درحقیقت عشق و وفا اور فکر و فن کا ایک حسین و جمیل شاہکار ہے۔ وہ نہ تو زندگی سے خوف کھاتی ہے اور نہ ہی موت سے آنکھیں چراتی ہے۔ اسے اپنی رسوائی کا بھی ڈر نہیں ۔لیکن شہزادے کی رسوائی کے بارے میں فکر مندرہتی ہے اور اکبر اعظم کے رعب میں آخر سلیم کی بے وفائی کے شکوک و شبہات کا بھی شکار نظر آتی ہے۔ اس کے جذبہ عشق کے آگے جب موت بھی سر جھکادیتی ہے ۔ تو اکبر اسے دیوار میں چنوا دیتا ہے ۔ اس طرح یہ لافانی کردار تاریخ عالم میں زندہ جاوید ہو جاتا ہے۔ اور بعد کے لوگ انار کلی کے نام کو بطور ایک استعارہ محبت لیتے رہتے ہیں۔ اور ان کی وفا کی مثالیں بھی زبان زد عام ہو جاتی ہیں۔

دل آرام :

دلارام شہزادہ سلیم کی پہلی منظور نظر اور محل سرا کی خاص کنیز ہے۔ لیکن سلیم سے انار کلی کے تعلقات قائم ہونے کے بعد آتش رقابت سے بری طرح جل رہی ہے۔ وہ شہزادے پرآنچ نہیں آنے دینا چاہتی۔ مگر انار کلی کو بہر صورت تباہ کرنے پر ادھار کھائے بیٹھی ہے۔ اس کے کردار اور جذبہ رقابت کو ظاہر کرنے کے لئے تاج نے صرف ایک جملے سے کام لیا ہے۔ اس وقت دل آرام جشن نوروز کے لئے زبردست تیاری کر رہی ہے۔ اور سازشوں کے جال پھیلانے میں ہمہ تن مصروف ہے۔ کہ ایک واقف حال کنیز اس سے پوچھتی ہے۔

” پھر آخر کےا کرو گی؟دلا آرم جواب دیتی ہے (ناگن کی دم پر کوئی پائوں رکھ لے تو وہ کیا کرتی ہے۔

مکالمہ نگاری:

جہاں تک انار کلی کے مکالموں کا تعلق ہے تو یہ بھی بڑے جاندار اور پر وقار ہیں ۔ اس ڈرامے کا ہر کردار موقع و محل کے مطابق گفتگو کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انار کلی کے مکالمے کسی موقع پر بھی نہ تو ڈھیلے اور سست پڑتے ہیں اور نہ اپنی اہمیت و حیثیت سے محروم ہوتے ہیں۔ بلکہ ڈرامائی کیفیت سے ہلچل اور تجسّس پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ بعض ناقدین اس ڈرامے کی زبان پر اعتراض کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ ایسے اعتراضات معمولی معمولی خامیوں کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے۔ جبکہ ان خامیوں کے مقابلے میں انار کلی کی خوبیاں نقطہ عروج تک پہنچی ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں چستی مکالمات ، نزاکت الفاظ اور حسن و بیان اپنی مثال آپ ہے چنانچہ پروفیسر محمد سعید انار کلی کے مکالموں کے بارے میں کہتے ہیں کہ

” الفاظ میں شاعری ہے مگر تک بندی نہیں حرکات میں زندگی ہے مگر حقیقت نہیں، غرض جو لفظ ہے دلنشین اور جو حرکت ہے دلکش ہے۔“

مکالمہ نگاری کے سلسلے میں مصنف نے کرداروں کی نفسیات اور ان کی ذہنی سطح کا بطور خاص خیال رکھا ہے۔ لیکن اس ادیبانہ و فنکارانہ تدبیر گری کے باوجود وقتاً فوقتاً انارکلی اعتراضات کی زد میں آتی رہی۔

مثلاً پروفیسر عبدالسلام کہتے ہیں کہ

” اس ڈرامے کی ایک اہم کمی اور خامی خود کلامی کا افراط ہے“

پروفیسر عبدالسلام نے ڈرامہ انار کلی میں خود کلامی پر اعتراض کیا ہے جبکہ ایک دوسرے نقاد ڈاکٹر حنیف فوق اس خود کلامی کے سلسلے میں یوں فرماتے ہیں :

” تاج نے خود کلامی کو خلاقانہ طور پر استعمال کیا ہے اور اس کے ذریعے جیتے جاگتے پیکر تراشے ہیں۔“

درحقیت انار کلی میں خود کلامی کوئی فالتو چیز محسوس نہیں ہوتی۔ ڈرامہ نگار نے اسے موقع و محل کے مطابق پیش کیا ہے۔ جس کی وجہ سے اس ڈرامے میں خود کلامی خامی کے بجائے خوبی اور حسن معلوم ہوتی ہے۔ ایک کامیاب مکالمہ نگار کی حیثیت سے سید تاج اپنے کرداروں کے عادات و اطوار ، ان کے مزاج اور سوچ سے گہری وقفیت رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کے مکالموں میں ہر کردار اپنی انفرادیت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور اس کی مخصوص حالت آخر دم تک برقرار رہتی ہے۔

منظر نگاری:

تاج ہر منظر کی ایسی تصویر کشی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ انار کلی کی عبارت فن اور خیال کا ایک بے مثال مرقع بن گئی ہے۔ وہ جس منظر کو پیش کرتے ہیں اس کی ہوبہو تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ مثلاً سلیم کے محل کا منظر اس طرح پیش کرتے ہیں۔

” گھنے پیڑ وں کے طویل سلسلے میں کھجوروں کے کم بلند اور ساکت درخت کالے کالے نظرآرہے تھے راوی ان دور کی رنگینیوں کو اپنے دامن میں قلعے کی دیوار تک لانے کی کوشش کر رہا ہے۔“

منظر کشی کے لحاظ سے مندرجہ بالا منظر بے شک لاجواب ہے لیکن درحقیقت فن ڈرامہ نگاری کے حوالے سے یہی منظر اسٹیج ڈرامے کا نقص بن جاتا ہے۔ اسٹیج پر نہ تو گھنے درختوں کے طویل سلسلے اگائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی دریائے راوی کو اسٹیج پر سے گزارنا ممکن ہے۔ لیکن اس طرح کے حسین و جمیل اور جیتے جاگتے مناظر نے انارکلی کی ادبی چاشنی کو دوبالا کر تے ہوئے اس کے حسن کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔

اسلوب:۔ بلاشبہ انار کلی میں زبان و بیان کا کہیں کہیں جھول ملتا ہے۔ مثلاً انار کلی کی قید کے بعد اکبر کا دلآرام کو طلب کرے پوچھنا کہ ”لڑکی تجھے شیخو اور انار کلی کے کیا تعلقات معلوم ہیں“ حالانکہ شیخو اور انارکلی کے آپس میں تعلقات کے متعلق سوال پوچھ رہے تھے۔ لیکن الفاظ سے معنوں کاخاص پتہ نہیں چلتا ۔ عین ممکن ہے سےد تاج نے اکبر کے ذہن و قلب میں پائی جانے والی زبردست ہلچل دکھانے کے لئے جان بوجھ کر کیا ہو ۔ بہر حال ایسے مواقع بہت کم ہیں۔ بحیثیت مجموعی ان کے مکالموں میں چستی ، برجستگی ، لطافت بیان اور حسن کلام کی خو ش کن مثالیں بکثرت نظرآتی ہیں ۔ بقول پروفیسر مرزا محمد سعید،

”انار کلی کے مصنف نے مناظر کو اپنے موضوع کا ہم پلہ بنانے کی انتہائی کوشش کی ہے۔اور ہر ایک منظر میں اشخاص ڈرامہ کی حرکات و سکنات ،بات چیت ،تراش خراش اور منظر کی عمومی کیفیت کے عین مطابق ہے۔“

فکری تجزیہ:

اس ڈرامے میں ڈرامہ نگار نے شہزادے اور کنیز کے خیالات اور جذبات کو محبت کو ایک ہی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ اکبر اگر شہزادے اور کنیز کی محبت کا مخالف ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غربت اور بے بسی کو ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ سماج میں غریب انسان کی پر خلوص اور لازوال محبت کو بھی نفرت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکبر کے خیالات مادہ پرستی پر مبنی ہیں۔ چنانچہ و ہ انار کلی کی عظیم محبت کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے ادنیٰ کنیز سے زیادہ وقعت نہیں دیتا۔ لہٰذا ڈاکٹر حنیف فوق کی رائے بجا ہے کہ،

” امتیاز علی تاج کی بہت بڑی جیت یہی ہے کہ انہوں نے انسانی جذبات کو ان کے سماج اور ماحول سے منقطع کرکے پیش نہیں کیا۔ اس طور پر انار کلی حقیقت نگاری کا اپنا ایک نیا معیار قائم کرتی ہے۔ جواب تک اردو ڈراموں میں نہیں ملتا۔“

اس میں شک نہیں کہ تاج ایک خاص حوالے سے گزرے ہوئے زمانے کی ترجمانی کر جاتے ہیں لیکن ذرا غور کیا جائے تو جذباتی ، نفسیاتی اور معاشرتی حوالوں سے زندگی آج بھی اس ڈگر پر چل رہی ہے جس پر کئی صدیاں پہلے تھی۔ اس لئے کہ آج بھی وہی مادہ پرستی ، شان و شوکت کی پاسداری اور طبقاتی اونچ نیچ کی گرم بازاری ہے۔ اس اعتبار سے امتیاز علی تاج کے قلم کو بلاشبہ عصر حاضر کا ترجمان کہہ سکتے ہیں۔