Advertisement
Advertisement

اورنگزیب کے فتح دکن کے بعد وہاں ایک قسم کی سیاسی اور سماجی زوال کا آغاز ہوا لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ہوا کہ دکن شمال کی اور شمال دکن کی روایات سے متاثر ہوا۔یہ تخریب اردو زبان و ادب کے لئے لیے نیک فال ثابت ہوئی۔ شمال کے سیاسی تسلط کے بعد وہاں فارسی کی اہمیت بڑھ گئی۔ اس کے باوجود وہاں اردو زبان و ادب کی اہمیت اپنی جگہ برقرار رہی۔ کیونکہ فارسی ایک مخصوص طبقہ کی نمائندگی کرتی تھی اور اردو عوام کی۔لیکن فارسی کے مخصوص طبقہ کے لیے بھی اردو افادیت کا درجہ رکھتی تھی۔

Advertisement

پھر جب دکن میں تصوف کی شمع روشن ہوئی تو اردو شاعری کی نغمگی نے اہل دلی کو مسحور کرنا شروع کر دیا۔اس دور میں ولی نے اردو شاعری کا علم بلند کیا اور اسے اپنے کمال فن سے عروج پر پہنچا دیا۔اس کی وجہ سے مولانا محمد حسین آزاد نے انہیں اردو شاعری کا باوا آدم قرار دیا۔ بعض حضرات نے انہیں میرؔ کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔ یہ موازنہ کسی طرح مناسب نہیں اس لئے کہ میرؔ شاعر یاسیات تھے اور ولیؔ شاعر نشاط۔ ڈاکٹر جمیل جالبی ولیؔ کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

“ولی سے پہلے کے شعراء بھی فارسی عربی شعر و ادب کی اصناف سے واقف تھے مگر ولی ان اصناف کو اردو میں منتقل کرتے ہوئے ان کی بنیادوں تک پہنچ گیا اور انہیں ریختہ کا جز بنا دیا۔ وہ ایک باشعور شاعر تھا اور اس سطح پر اپنے سب پیش روں سے آگے تھا۔اس نے مزاج ریختہ کے مطابق فارسی اور عربی سے مناسب بحور تلاش کیں اور انہیں اردو کے قالب میں ڈھال دیا۔ ساتھ ساتھ انتخاب الفاظ سے اردو شاعری کا مزاج مقرر کیا۔نہ صرف فارسی تراکیب کو اپنایا بلکہ نئی تراکیب تراش کر اردو زبان کو ایک نیا رنگ بھی دیا۔ جدید اصطلاح میں یوں کہنا چاہئے، فنکارانہ حیثیت سے ولی سے پہلے کے شعراء ‘رومانوی’ تھے۔ولی پہلا شخص ہے جس کے شاعرانہ مزاج کو ‘کلاسیکل’ کہا جاسکتا ہے۔ اس کی تخلیقی قوت اور ذہنی فطرت بھی داد کے قابل ہے۔ اس نے جو کچھ کہا وہ اسی طرح قبول کرلیا گیا جیسے سب لوگ اسی کی تلاش میں تھے۔۔۔۔۔ولی اپنی متوازن طبیعت سے فارسی، دکنی اور شمالی زبان کو اس طرح ملا کر ایک کر دیتا ہے کہ وہ علاقائی سطح سے بلند ہو کر ہمہ گیر ہو جاتی ہے”

Advertisement

اس طرح ولی نے اردو شاعری کو جو موڑ دیا اس نے اسے مقامی ہونے کی بجائے ہمہ گیریت سے متصف کردیا اور شاعری کو ولی کی یہ بہت بڑی دین ہے۔

Advertisement

پہلے ولیؔ کی غزل کا موضوع صرف “سخن باز نان گفتن” یعنی عورتوں سے باتیں کرنا تھا۔ ولی نے اسی میں رندگی کے تجربات اور داخلیت کو داخل کرکے اسے پوری زندگی پر پھیلا دیا اور اسے ایسا روپ عطا کیا کہ اردو نے فارسی کی جگہ لے لی۔ اگرچہ ولی کے یہاں جذبات و احساسات اور واردات قلبیہ کا اظہار بہت کم ہے لیکن یہ ضرور ہے اس میں سے نسوانیت اور داخلیت کا عنصر بڑی حد تک خارج ہوگیا۔ اس کے ساتھ انھوں نے قدیم روایات کے بہترین اجزاء کو اپنا کر اس میں نئے امکانات بھر دیے۔

ولیؔ کی شاعری میں ایک خاص بات یہ پائی جاتی ہے کہ انہوں نے غزل کے لب و لہجہ کو سادگی سے متصف کیا۔ بعض بعض اشعار میں تو سہل ممنع کی کیفیت پائی جاتی ہے۔کہیں کہیں یہ سادگی مکالمے کا روپ دھارن کر لیتی ہے۔ انہوں نے صنائع بدائع سے کام لیا ہے تو بھی اثر تاثیر کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔صنف ابہام کا استعمال ان کے یہاں خاص طور سے ملتا ہے لیکن یہ صنف ان کے یہاں لطف دیتی ہے۔

Advertisement

ایک خاص بات ولی کے یہاں یہ ملتی ہے کہ ان کی شاعری صرف غزل تک محدود نہیں۔ انہوں نے قصیدے، قطعات، مثنوی وغیرہ کئی اصناف سخن پر طبع آزمائی کی اور ان کی جہتوں میں تبدیلی کی۔ لیکن خصوصی طور پر ان کا مزاج غزل کے لیے موزوں تھا اور ان کے فن کے اصلی جوہر اسی میں کھلے ہیں۔ ذیل میں ان کے کچھ اشعارملاحظہ فرمائیں۔

دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا 
ہے مطالعہ مطلعِ انوار کا
اے ولی دل کو آپ کرتی ہے 
نگہ چشم شرمگیں کی ادا
غمزۂ شوخ نے بہ نیم نگاہ 
کام عشاق کا تمام کیا
جن نے دیکھا ہے تجھ نگاہ کی تیغ
پھر کے جینا اسے محال ہوا
بے وفائی نہ کر خدا سوں ڈر
جگ ہنسائی نہ کر خدا سوں ڈر

Advertisement