محمد حسین آزاد کی تنقید نگاری

0

اردو تنقید کے نظریہ سازوں میں ایک نام محمد حسین آزاد کا بھی ہے۔تنقید کے بنیادی مسائل کے بارے میں انہوں نے کم لکھا مگر سب سے پہلے لکھا اس لیے اولیت کا تاج انہی کے سر پر رکھا جانا چاہیے۔یہ بات حالی کے ‘مقدمہ شعروشاعری‘ سے بہت پہلے یعنی ١٨٦٧ء کی ہے کہ آزاد نے شاعری پر ایک لیکچر دیا اور کئی اہم مسائل پر روشنی ڈالی۔

اس لکچر (نظم اور کلام موزوں کے باب میں خیالات) کے ساتھ “مقدمہ نظم آزاد، آب حیات اور سخندان فارس” کا مطالعہ کیجیے تو آزاد کے تنقیدی خیالات واضح ہوجاتے ہیں۔ان خیالات میں مشرق اور مغرب دونوں کی جھلک نظر آتی ہے۔مشرقی ادبیات کا مطالعہ انہوں نے براہ راست کیا تھا،مغربی نظریات سے بالواسطہ فیض اٹھایا تھا۔آزاد نے دہلی کالج میں تعلیم پائی تھی اور کالج کے اساتذہ کی صحبتوں سے فیض یاب ہوئے تھے۔اسی لیے ان کی تنقید میں بعض جگہ تضاد نظر آتا ہے۔کبھی مشرق کی طرف جھکتے ہیں اور کبھی مغرب سے متاثر نظر آتے ہیں۔

شاعری کے بارے میں انہوںنے جو رائیں دی ہیں ان میں یکسانیت نہیں ہے۔شعر گوئی ان کے نزدیک کوئی شعوری عمل نہیں،کسی غیبی پراسرار قوت کی کارفرمائی ہے۔فرماتے ہیں”شعر ایک پرتو روح القدس کا اور فیضان رحمت الہی کا ہے کے اہل دل کی طبعیت پر نزول کرتا ہے”شعر کو وہ خیالی باتوں کا مجموعہ اور گلزار فصاحت کا پھول بتاتے ہیں۔

ظاہر ہے یہ ادب کا مشرقی نظریہ ہے لیکن یہ بھی فرماتے ہیں کہ شعر میں لا یعنی باتیں نہیں ہوتیں،شعر علم کا عطر ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شعر وہ قوت ہے کہ قوموں کی قسمت کو پلٹ دے۔گویا وہ شعر کی افادیت اور مقصدیت کے قائل ہیں۔یہ رائے کچھ تو مغربی نظریات سے آگاہی کا عطیہ ہے اور کچھ سرسید کے خیالات سے شناسائی کا فیضان ہے۔

اردو شاعری کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے جب وہ اس کی خامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو یہاں بھی سر سید کے افکار کا عکس نظر آتا ہے۔ملاحظہ ہو:

“اردو شاعری چند بے موقع احاطوں میں گھر کر محبوس ہوگئی ہے۔وہ کیا؟مضامین عاشقانہ ہیں جس میں وصل کا کچھ لطف،بہت سے حسرت و ارمان اور اس سے زیادہ ہجر کا رونا۔شراب، ساقی، بہار، خزاں، فلک کی شکایت اور اقبال مندوں کی خوشامد ہے۔یہ مطالب بھی خیالی ہوتے ہیں اور بعض واقعے ایسے پیچیدہ اور دور دور کے استعاروں میں ہوتے ہیں کہ عقل کام نہیں کرتی۔وہ اسے خیال بندی اور نازک خیالی کہتے ہیں اور فخر کی مونچھوں پر تاؤ دیتے ہیں۔افسوس یہ ہے کہ ان محدود دائروں سے ذرا بھی نکلنا چاہیں تو قدم نہیں اٹھا سکتے”

اس عبارت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں وہ شعر و ادب میں زبردست تبدیلی کے خواہاں تھے اور رہنمائی کیلئے ان کی نظر بھی انگریزی ادب کی طرف اٹھتی تھی۔کہتے ہیں:

“تمہارے بزرگ اور تم ہمیشہ سے نئے انداز کے موجد رہے ہو مگر نئے انداز کے فخلعت و زیور جو آج کے مناسب حال ہیں وہ انگریزی صندوقوں میں بند ہیں اور ہمارے پہلو میں دھرے ہیں مگر ہمیں خبر نہیں۔ہاں ان صندوقوں کی کنجی ہمارے ہم وطن انگریزی دانوں کے پاس ہے”

مولانا آزاد ایک اور بات بہت پتے کی کہتے ہیں۔ان کی صلاح ہے کہ ہمارے شاعر ہندی بھاشا کی طرف متوجہ ہوں اور ہندی شاعری کی طرح بےجا مبالغہ آرائی سے دامن بچاتے ہوئے جذبات کی سچی تصویر کھیچنا سیکھیں۔اردو شاعر سے انہیں بجا شکایت ہے کہ نرگس، نسرین، نسترن، اور سروشمشاد جیسے ان دیکھے پھولوں اور پودوں کے نام تو اسے ازبر ہیں مگر بیلا، موتیا، چمپا، چنبیلی اور گلاب سے وہ بے خبر ہے جو عجب نہیں اس کے اپنے آنگن میں مہکتے ہوں۔سیحوں دجلاوفرات کا تو وہ ذکر کرتا ہے مگر گنگا،جمنا کے نام اسے یاد نہیں آتے۔

آزاد کا ایک اور کارنامہ قابل ذکر ہے۔ انہوں نے اردو شاعری کی اصلاح کے لیے صرف مشورے ہی نہیں دیے بلکہ لاہور میں ایک مجلسِ مشاعرہ کی بنیاد ڈال کر اس سلسلے میں عملی خدمات انجام دیں۔اس محفل مشاعرہ نے بہت جلد نیچرل شاعری کا ایک مختصر سا ذخیرہ بطور نمونہ پیش کردیا۔حالی نے بیچند مشاعروں میں شرکت کی اور بعض نظمیں لکھیں۔سرسید نے آزاد کی اس عملی کوشش کو بہت سراہا اور حوصلہ افزائی کی۔

کلیم الدین احمد نے لکھا ہے:
“آزاد میں تنقید کا مادّہ بالکل نہیں تھا”

یہ رائے تو انتہا پسندانہ ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ آزاد کی عملی تنقید نقائص سے خالی نہیں۔آزاد نکتہ داں اور سخن فہم تھے۔تنقید کی زبردست صلاحیت بھی رکھتے تھے مگر دو چیزوں نے ان کی تنقیدی صلاحیت کو زبردست نقصان پہنچایا۔یہ تھی تعصب و طرفداری اور انشاپردازی۔

آزاد کی جانبداری کا یہ حال ہے کہ ‘آب حیات‘ کے پہلے ایڈیشن میں مومن کو یکسر نظر انداز کر گئے۔مگر دوسرے ایڈیشن میں آخر کار انہیں شامل کرنا ہی پڑا۔ظاہر ہے اہل نظر نے اس صریخ ناانصافی پر آزاد کی گرفت کی ہوگی۔غالب کی آزاد کے استاد ذوق سے چشمک تھی۔

غالب کو نظر انداز کرنا تو آسان تھا نہیں ان کا ذکر کیا اور اس طرح کیا کے پہلی نظر میں تعریف معلوم ہوتی ہے مگر غور کیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی شاعری کے عیب گنا رہے ہیں۔اسی کو ‘ہجو ملیح’کہتے ہیں۔وہ کر رنگ سیاہ تھا اور 9 دفعہ  چیچک نکل چکی تھی۔چہرے پر داغ ہی داغ تھے مگر فرماتے ہیں کہ یہ داغ کچھ ایسی موزونی سے واقع ہوئے تھے کہ چمکتے تھے اور بہار دکھاتے تھے۔یہ تھا عقیدت کا خال مگر تنقید میں اس کی گنجائش نہیں۔یہاں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا ہوتا ہے۔آزاد اکثر موقعوں پر انصاف کرنے میں ناکام رہے۔

انشاپردازی میں آزاد کو وہ کمال حاصل ہے کہ آج تک کوئی ان کے رتبے کو نہیں پہنچ سکا۔نمونے کے طور پر یہاں ‘آب حیات’ سے چند سطریں پیش کی جاتی ہیں:

“اس مشاعرے میں ان صاحب کمالوں کی آمد آمد ہے جن کے پاانداز میں فصاحت آنکھیں بچھاتی ہے اور بلاغت قدموں میں لوٹی جاتی ہے…. تم دیکھنا وہ بلندی کے مضمون نہ لائیں گے،آسمان سے تارے اتاریں گے،قدر دانوں سے فقط داد نہ لیں گے،پرستش کرائیں گے۔”

مولانا کے اسی انداز بیان کو دیکھ کر علامہ شبلی نے فرمایا تھا“وہ گپ بھی ہانک دے تو وحی معلوم ہوتی ہے“آزاد سے تحقیقی غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔انہوں نے بعض ایسے واقعات قلم بند کردیے ہیں جنہیں تحقیق نے جھٹلا دیا مگر ان کے جادو نگار قلم نے جو کچھ لکھ دیا وہ دلوں سے محو نہ ہوسکا مگر یہ بھی تنقید کی خامی ہے خوبی نہیں۔لیکن ان کوتاہیوں کے باوجود اردو تنقید میں مولانا محمد حسین ازاد کی اہمیت مسلم ہے۔