اردو، لکھنوی اردو اور پاکستانی اردو

زبان ایک سماجی عمل کا نام ھے ادب بھی زبان کے توسط سے ایک جمالیاتی سماجی سرگرمی ھے۔صدیاں ھوئےاردو زبان مغل عہد میں برصغیر کی لنگوا فرینکا ( Lingua Franca) کے طور پر اپنی جائے پیدائش اترپردیش و دھلی سے باھر نکل کر پورے برصغیر میں پھیل چکی ھے۔پاکستان میں تو اسے قومی و تعلیمی زبان کا مرتبہ ایک صدی سے حاصل ھے ظاھر ھے اردو پاکستان کے کسی بھی صوبے کی مقامی یا مادری زبان نہیں ھے لیکن اقبال، راشد، فیض اور قاسمی سے لے کر شہر شہر گلی گلی سیکڑوں اردو شعرا و شاعرات موجود ھیں بلکہ شاعری ھی پر کیا موقوف ھر شہراور قصبے میں افسانہ اور ناول لکھنے والے بھی مل جاتے ھیں جو کہ اس بات کا ثبوت ھےکہ اس زبان کو ان لوگوں نےدل و جان سے اپنایا ھے۔

مگر ایک دو صدیوں کے اس سماجی تعامل سے زبان میں اخذوقبول کا سلسلہ بھی جاری رھا جس نے اردو کے لکھنو ودھلی کے روزمرہ میں تبدیلیاں بھی پیدا کیں۔مقامی قومی زبانوں نے اردو پر ھمہ پہلو اثرات مرتب کئے الفاظ محاورے روزمرہ سے لے کر اصناف سخن تک میں تبدیلیاں ائیں اردو کی یہ نئی پاکسانی تشکیل” پاکستانی اردو” ھے جس میں پنجابی سرائیکی سندھی پشتو بلوچی براھوی ھندکو پوٹھوہاری اور یگر قومی زبانوں کے اثرات واضح ھیں۔

اب کوئی دھلی یا لکھنو کا نام نہاد اھل زبان زبان کی نشو ونما(Enrichment) کو رد کرکے یہ کہے کہ یہ تو غلط اردو ھے یا غیر فصیح اردو ھے تو اس خدمت میں عرض ھے کہ یہ نہ نوابوں کا لکھنو ھے نہ مغلوں کی دھلی ( اب تو وھاں بھی اردو کا برا حال ھے) یہ پاکستان ھے اور یہ اردو کی نئی تشکیل پاکستانی اردو ھے اور یہ فصیح بھی ھے اور درست بھی۔