اردو ڈرامے میں نئے رجحانات

اردو ڈرامے میں نئے رجحانات

تاریخ ادبیات عالم میں ڈرامے کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اردو ادب میں بھی ڈرامہ نگاری کی ایک شاندار روایت رہی ہے اور اس روایت کو مستحکم کرنے میں ”پارسی تھیٹر“ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ امانت لکھنوی کی ”اندرسبھا“ نے اردو ڈرامے کی بنیاد رکھی اور پارسی تھیٹر کمپنیوں میں کام کرنے والے ڈرامہ نگاروں نے اس بنیاد پر اپنے اپنے طرز کے محل تعمیر کیے۔ پارسی اسٹیج کی اردو کو سب سے بڑی دین آغا حشر کاشمیری ہیں۔ اس کے بعد امتیاز علی تاج سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ بیسویں صدی کے ڈرامہ نگاروں تک پہنچتا ہے اور آج بھی کسی نہ کسی صورت میں اردو ڈرامہ نگاری کی یہ روایت پر قرار ہے۔

ہندوستان میں ڈرامے کی ابتدا ”رگ وید“ میں ملتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم ہندوستان میں دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کو سجا کر جلوس کی شکل میں لے کر چلایا جاتا تھا اور اس میں لڑکیاں دیوتاؤں کے کارناموں کا بیان کرتے ہوئے گیت گاتی تھیں اور اپنے ہاتھوں کے ہالے اور پیروں کو آگے پیچھے کر کے رقص کیا کرتی تھیں، یہیں سے ڈرامہ کی ابتدا ہوتی ہے۔ یہ زمانہ رگ وید کی تصنیف سے 600 قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ اس کے بعد سنسکرت ڈراموں کی ابتدا ہوتی ہے سنسکرت ڈراموں کا یہ دور 1100 عیسوی تک اختتام پذیر ہو گیا۔ اس کے بعد عوامی ڈرامائی روایات کا دور شروع ہوتا ہے جس کے تحت رام لیلا، راس لیلا، بھانڈوں کی نقلیں، بھگت باز، نوٹنگی سنگیت اور کٹھ پتلیوں کا کھیل جیسے تماشوں کی روایت قائم ہوئی۔ انہی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے نواب واجد علی شاہ کو رہس کی تحریک ملی اور اردو کا پہلا ڈرامہ ”رادھا کنھیا کا قصہ“ منظر عام پر آیا۔ حالانکہ اردو کے اول ڈرامہ کو لے کر ناقدین و محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

شاہی رہس کی طرز پر امانت کو ”اندر سبھا“ لکھنے کی ترغیب ملی اور اس کے ساتھ ہی اردو کا پہلا عوامی ڈرامہ ”اندر سبھا“ عوامی روایات کے ساتھ ناظرین کے درمیان بہت مقبول ہوا۔ ”اندر سبھا“سے اردو ڈرامے کا باقاعدہ اغاز ہوتا ہے جو مغربی بنگال سے ہوتا ہوا ممبئی پہنچتا ہے۔ ممبئی میں اردو ڈرامہ نگاری کو بہت فروغ ہوا۔ ممبئی میں پارسی تھیٹر سے منسلک ہو کر جن ڈرامہ نگاروں نے اردو ڈرامے کو فروغ دیا ان میں محمود میاں رونق، محمد الف خاں حباب، حافظ محمد عبداللہ، مہدی حسن احسن لکھنوی اور آغا خشر کاشمیری قابل ذکر ہیں۔ آغا حشر نے سماجی اصلاح کے لیے بھی ڈرامے لکھے اور ڈرامہ میں ان کا یہ کارنامہ اہمیت کا حامل ہے۔ 1930 عیسوی تک پارسی تھیٹر ختم ہونے لگا لیکن پھر بھی ڈرامہ اسٹیج کرنے کی روایت قائم رہی۔

تجارتی اسٹیج کے اختتام کے ساتھ ہی اردو میں ادبی ڈراموں کا اغاز ہوا جس کے تحت اردو ڈرامہ نگاروں نے زمینی حقائق کو ڈرامہ میں جگہ دینی شروع کر دی۔ اس ضمن میں پریم چند کا ”کربلا“ ، عبدالماجد دریا آبادی کا ”زود پشیماں “ ، پنڈت برج موہن کا ”راج دلاری“ اور چکبست کا ”کملا“ وغیرہ میں حقیقت پسندی کی ابتدائی شکلیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان ڈراموں کی زبان بھی ادبی اور شائستہ ہے، ان سے اردو ادب کو کافی فروغ حاصل ہوا۔

اس کے بعد جدید ڈرامے کا اغاز ہوتا ہے جس کے تحت امتیاز علی تاج کے ڈرامہ ”انارکلی“ کو اردو کا پہلا جدید ڈرامہ مانا جاتا ہے۔ اس ڈرامے کی سب سے بڑی خوبی اس کا تسلسل اور جدید ڈرامائی تکنیک کا استعمال ہے۔ جدید ڈرامے کی اقسام میں ریڈیو ڈرامہ، یک بابی ڈرامہ، نکڑ ناٹک، ٹیلی ویژن ڈرامہ اور کہانیوں کا منچن شامل ہیں۔ یہ تمام اقسام جدید ڈراموں کو نیا رنگ و آہنگ عطا کرتی ہیں۔

جدید دور میں انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں تبدیلی آئی ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشرتی اور اخلاقی قدروں میں بھی تبدیلی صاف دیکھنے کو ملتی ہے۔ اردو ڈرامہ نگاری میں بھی اس سطح پر ایک انقلابی تبدیلی رونما ہوئی۔ 1947 میں ملک آزاد ہوا اور تقسیم ہند کے سانحہ سے پورے ملک میں غم کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ہزاروں بے گناہوں کا خون بہایا گیا، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا، ملک میں کئی طرح کے مسائل کھڑے ہو چکے تھے، جس میں زمینداروں کا ظلم، ہندو مسلم نفرت، دولت مند اور غریب طبقہ کا بٹوارا ، بجلی و پانی کی قلت اور عورتوں کی تعلیم جیسے مسائل تھے۔ ان سب کا اثر ادب کی دوسری اصناف کے ساتھ ساتھ اردو ڈراما پر بھی پڑا۔

آزادی کے بعد اردو ڈراما نگاروں میں دو قسم کے رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک تو ترقی پسند نظریہ کے تحت ڈرامے لکھ رہے تھے، دوسرے ڈراما نگار وہ تھے جو روایتی موضوعات اور جدید اسالیب کے ساتھ ڈرامے تخلیق کر رہے تھے۔ اس طرح 1947 کے بعد کا زمانہ اردو ڈرامے کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اردو ڈرامے نے یہاں سے فنی و تکنیکی اعتبار سے کافی پیش رفت کی۔ اس دور کے ڈراموں میں ترقی پسندی کی گونج سنائی دیتی ہے اور جدید یورپی ڈراموں کی پیروی بھی دکھائی دیتی ہے۔ ان ڈراما نگاروں میں فضل الرحمن، شوکت تھانوی، ممتاز مفتی، محمد مجیب، اوپندر ناتھ اشک، اشتیاق حسین قریشی، صالحہ عابد حسین، حبیب تنویر ، قدسیہ زیدی، مرزا ادیب اور کرتار سنگھ دگل وغیرہ اہم ہیں جنہوں نے آزادی کے بعد اردو ڈراما نگاری میں جدید رجحانات کو فروغ دیا۔

1970 کے بعد سے اردو ڈراما میں ”ایپیک تھیٹر “ اور حقیقت پسندی کے رجحان کے ساتھ ”ابسر تھیٹر“ کے اثرات دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ڈراما میں سماجی موضوعات کے ساتھ انسان کی ذاتی زندگی کے متعلق موضوعات و مسائل بھی کثرت سے ملتے ہیں۔ تاریخی موضوعات، سماجی مسائل، سیاسی نشیب و فراز ، فرقہ واریت، تعصب، تنگ نظری، مذہبی تعصب، طبقہ واریت، مزاحیہ اور طنزیہ ڈرامے جدید ڈراموں کی شناخت ہیں۔ اس دوران عالمی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو بہت سارے ایسے واقعات درپیش آئے جنہوں نے ادب کو متاثر کیا۔ ہندوستان میں بھی بہت سارے ایسے واقعات وقوع پذیر ہوئے جنہوں نے انسانیت کو بہت گہرائی سے متاثر کیا، ان میں 1971 کی جنگ جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہوئی، اس کے بعد 1975 میں ہندوستان میں ایمرجنسی نافذ کی گئی جس کا گہرا اثر عوام پر پڑا۔ مشرقی بنگال کا ایک خود مختیار ملک بن کر ابھرنا اور اندرا گاندھی کا قتل بھی بڑا واقعہ رہا۔ اس کے بعد 1992 میں بابری مسجد کی شہادت نے ہندو مسلم فساد کو جنم دیا۔ انہی سیاسی اتھل بتھل کے ساتھ ادبی دنیا میں بھی نئے نئے رجحانات اور تحریکیں وجود میں آرہی تھیں۔ غرض یہ کہ ان مختلف رجحانات اور تحریکات نے اردو ادب پر بھی اثرات مرتب کیے اور ان کے اثرات اردو ڈراما نگاری پر بھی مرتب ہوئے۔

آج 21ویں صدی میں بھی اردو ڈرامہ کی رفتار تھمی نہیں ہے بلکہ مسلسل ڈرامے لکھے جا رہے ہیں اسٹیج بھی ہو رہے ہیں اور شائع بھی ہو رہے ہیں۔ رفعت شمیم، جاوید صدیقی، ایم مبین، شاہد انور، اقبال نیازی، اسلم پرویز، صادقہ نواب سحر، نوشاد رضا، خورشید خواب اور صالحہ صدیقی وغیرہ نے اردو ادب کے دامن کو آج بھی ڈراموں سے خالی نہیں ہونے دیا ہے۔ اس ضمن میں اقبال نیازی کا ڈراما ” اور کتنے جلیاں والا باغ“ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مذکورہ ڈرامہ میں انہوں نے بابری مسجد کا فساد، کشمیر کا معاملہ، لڑکیوں سے چھیڑ خانی، خالستان کی مانگ، مزدور یونین کی ہڑتال، راہگیروں کا رویہ، قتل و غارت گری جیسے موضوعات کو اس میں پیش کیا ہے۔ ان ڈرامہ نگاروں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج اردو ڈرامہ میں سماج سے جڑے ہر طرح کے مسائل کو پیش کر کے قارئین و ناظرین کے علم میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔