ہمارا میڈیا

ابن عبد ربہ اندلسی نے، اپنے شہرۂ آفاق ادبی شاہ کار،”العقد الفرید“ میں ایک دل چسپ قصہ نقل کیا ہے، کہتے ہیں کہ بنو کلاب کے ایک شخص نے، کسی دوشیزہ کو پیغامِ نسبت بھجوایا، مخطوبہ کی والدہ کو امید وارکا جائزہ منظور ہوا، سلسلہ جنبانی ایک معروف اور پیشہ ور میڈیا، یعنی بزرگ ثالث (بچولیا) کے واسطے سے ہوئی تھی، نوجوان کی آمد سے قبل، دوشیزہ کی والدہ نے، بعض ابتدائی معلومات حاصل کیں اور پختہ کار میڈیا نے، ان کی خوب خوب تشفی کی؛ چناں چہ زبان کے بارے میں استفسار پر بتایا گیا کہ وہ قوم کا خطیب اور ترجمان ہے، شجاعت کی نسبت سوال پر اس نے کہا کہ پڑوس اور خاندان کے تحفظ کی ذمہ داری اسی کے دوش پر ہے، سخاوت کے سوال پر اس کو قوم کی بہار سے تعبیر کیا۔

اسی اثنا میں نوجوان آتا ہوا نظر آیا، میڈیا فوراً گویا ہوا: واہ!کیا چلتا ہے؟ نہ کجی نہ ضعف، نوجوان نے قریب آکر سلام کیا، تو میڈیا کہتا ہے: واہ! کیا سلام کیا ہے، نہ شور وشغب، نہ کانا پھوسی، وہ بیٹھا، تو میڈیا پھر گویا ہوا: بہ خدا! کیا بیٹھا ہے! نہ نزدیک نہ دور، اتنے میں نوجوان نے پہلو بدلا اور سوئے اتفاق کہ اس عمل کے دوران علانیہ ریح خارج ہوگئی، بے حیا میڈیا ہنوز مستعد تھا، کہتا ہے: ماأحسن واللہ ما ضرط! بہ خدا کیا خوب ریح خارج کی ہے! بالکل معتدل، نہ بہت بلند نہ پست، یہ سن کر نوجوان پانی پانی ہوگیا اور اسی شرم ساری میں اٹھ کر چلا گیا؛ لیکن میڈیا مایوس نہیں ہوا، بوڑھا کہنے لگا: بہ خدا! اٹھنے کا انداز کیا ہی خوب ہے! نہ تیز گامی نہ سست روی؛ آخرش دلہن کی ماں کا صبر ٹوٹا، وہ کہنے لگی: بس کرو، اب اگر اس نے اپنے کپڑوں میں پاخانہ کردیا، تو بھی ہمیں رشتہ قبول ہوگا، آپ جان بخشیں۔ (العقد الفرید: 54/3، نسخہء شاملہ)

یہ ہمارے میڈیا کی تصویر ہے؛ زرعی قوانین کی منسوخی کے بعد، میڈیا کا دل چسپ تماشا جاری ہے، ہم ایسے تاریخی لمحات کے شاہد ہیں، جو خال خال ہی رونما ہوتے ہیں، جس فیصلہ کی حقانیت کا دیوہیکل محل، پاور فل میڈیا ہاؤس نے، ایک سال میں تعمیر کیا تھا، اس کے یک لخت انہدام کا نظارہ، بالیقین ایک یاد گار موقع ہے۔

یہ بازیگری ہمیں حیا کی اہمیت پر متنبہ کرتی ہے، کوئی وجہ ہے کہ اسلام نے حیا کو ایمان کے ساتھ، گہرے طور پر وابستہ کیا ہے! سچ ہے کہ ایک بار آپ آبرو باختہ ہو جائیں، پھر آپ کی زبان روکنے کے لیے، کوئی دیوار نمودار نہیں ہوگی۔

محمد فہیم الدین بجنورى استاد حدیث وادب دارالعلوم دیوبند