Advertisement
Advertisement
دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائے گا
سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائے گا
Advertisement
تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط
الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا
اے دل رضائے غیر ہے شرط رضائےدوست
زنہار بار عشق اٹھایا نہ جائے گا
Advertisement
دیکھی ہیں ایسی انکی بہت مہربانیاں
اب ہم سے منھ موت کے جایا نہ جائے گا
Advertisement
مے تند، ظرف حوصلہ، اہل بزم تنگ
ساقی سے جام بھر کے پلایا نہ جائے گا
راضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی مگر
دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائے گا
Advertisement
کیوں چھیڑتے ہو ذکر نہ ملنے کا رات گئے
پوچھیں گے ہم سبب تو بتایا نہ جائے گا
بگڑیں نہ بات بات پہ کیوں جانتے ہیں وہ
ہم وہ نہیں کہ ہم کو منایا نہ جائے گا
جھگڑوں میں اہل دیں کے نہ حالی پڑیں بس آپ
قصہ حضور سے یہ چکایا نہ جائے گا
Advertisement
Advertisement