الطاف حسین حالی کی غزل گوئی

مولانا حالی اردو ادب کی ان نامور شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی تخلیقات سے ادب پر نہایت دوررس اثرات مرتب کیے۔ وہ اردو کے پہلے باقاعدہ نقاد، مشہور سوانح نگار، اور اردو شاعری کو نئی روایت سے روشناس کروانے کے حوالے سے خاصے معروف ہیں۔

مولانا الطاف حسین حالی نے اردو ادب کو کئی حیثیتوں سے متاثر کیا۔ وہ اردو ادب کی تاریخ میں پہلے ادیب ہیں جو جتنے بڑے نثر نگار ہیں اتنے ہی بڑے شاعر بھی ہیں۔ حالی شاعری کا فطر ی ذوق رکھتے تھے اور فطری میلان کے تحت ہی شعر کہتے تھے۔

انہوں نے جس زمانے میں غزل گوئی کا آغاز کیا اس زمانے کے ماحول پر شاعری غالب تھی۔ چنانچہ حالی نے بھی شاعری کی اور 116 غزلوں پر مشتمل مختصر دیوان 1993ء میں شائع کیا۔ ان غزلوں میں سے ۲۹ غزلیں ایسی ہیں جن پر’’ ق‘‘ لکھا ہوا ہے اس طرح قدیم غزیوں کی تعداد ۲۹ ہے اور جدید غزلیں ۸۷ ہیں۔

حالی کی غزل گوئی کا سلسلہ تقریباً چالیس برسوں پر محیط ہے۔ حالی کی غزل میں موضوعات کا تنوع نظر آتا ہے سیاسی حالات ، اخلاقی و عمرانی تصورات ، قوم کی بربادی پر نوحہ اور قومی تعمیر نو کا جذبہ ان کی غزلوں میں نمایاں ہے۔ حالی قدیم اسلوب کو بدستور قائم رکھتے ہوئے زبان و بیان کے اسالیب میں بتدریج اضافوں کے حامی ہیں۔

حالی کے زمانے میں غالب مومن اور شیفتہ جیسے نقہ بند اور بڑے شعراء موجود تھے۔حالی کے دیوان میں موجود غزلوں میں ہمیں میر، غالب، مومن اور شیفتہ کا رنگ بھی دکھائی دیتا ہے۔ بقول صالحہ عابد حسین:

’’ انھوں نے اپنے روحانی استادوں اور زندہ استادوں سے اپنی طبیعت اور صلاحیت کے مطابق استفادہ کیا تھا۔میر سے درد دل لیا،اور درد سے تصوف کی چاشنی۔غالب سے حسن تخیل، ندرت فکر اور شوخی گفتار سیکھی اورسعدی سے بیان کی سادگی اورمعنی کی گہرائی ۔شیفتہ سے’’ سیدھی سچی باتوں کو محض حسن بیان سے دلفریب بنانے ‘‘کا فن ۔ اور ان سب کی ترکیب سے حالی کی غزل کا ہیولیٰ تیار ہوا‘‘
(صالحہ عابد حسین،یاد گار حالی۔ص۱۳۴)

کیونکہ وہ غالب اور شیفتہ کے شاگرد رہے۔ حالی کہتے ہیں:

حالی سخن میں شیفتہ سے مستفید ہے
غالب کا معتقد ہے، مقلد ہے میر کا

حالی غالب جیسے سخت جدت پسند شاعر کے شاگرد جبکہ سرسید کی اصلاحی تحریک سے وابستہ تھے۔ غالباً اسی بنا پر حالی نے غزل میں نیا رنگ اختیار کیا۔ اور موضوعات کے حوالے سے غزل کو نئی جہت سے روشناس کرایا۔

ان کا اسلوب اگرچہ قدیم مگر وہ غزل میں اس وقت کی تیزی سے بدلتے سیاسی و سماجی حالات، افراتفری، قوم کی ابتری، اور انگریز سامراجی نظام کے حوالے سے اشاروں، کنایوں اور علامتوں میں بات کرتے ہیں۔ حالی حوالے سے معروف ہیں کہ غزل کی محدود دنیا کو سماجی موضوعات عطا کرکے اسے وسعت عطا کی۔ حالی کا لب و لہجہ شائستہ اور مہذب رہتا ہے۔

برق منڈلاتی ہے اب کس چیز پر
ٹڈیاں کب کی گئی کھیتی کو چاٹ
روسی ہوں یا تا تاری کیا ہم کو ستائیں گے
دیکھا ہے ہم نے برسوں لطف و کرم تمہارا

حالی کا فن پختہ ہے مگر بیان سادگی، نرمی، پاکیزگی اور شائستگی سے کرتے ہیں۔ رشید احمد صدیقی حالی کی غزلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”حالی کی غزلوں میں جذبات کی جیسی شائستگی، لہجہ کی نرمی، خیال کی بلندی، پاکیزگی، بیان کی سادگی اور فن کی پختگی ہے۔ اور شاعری و نزاکت کا جیسا امتزاج ملتا ہے مجموعی طور پر کسی اور غزل گو کہ یہاں مشکل سے نظر آئے گا“۔

حالی زندگی کے مسائل اور عشق کے فلسفے کو نہایت ہی سادگی اور عام انداز میں بیان کرتے ہیں۔ وہ انتہائی سنجیدہ مسائل کو سہل ممتنع بنا دیتے ہیں۔

وہ امید کیا جس کی ہو انتہا
وہ وعدہ نہیں جو وفا ہو گیا

دیر و حرم کو تیرے فسانوں سے بھر دیا
اپنے رقیب آپ رہے ہم جہاں رہے

رنج کیا کیا ہیں ایک جان کے ساتھ
زندگی موت ہے حیات نہیں

جلتے ہیں جبر ئیل کے شہپر جہاں
بے پر وں کی وہاں رسائی ہوچکی

خالق جہاں سوز و گداز بھی ہے درد مندی اور توازن بھی ہے۔

غم دل نے رسوا کیا ہم کو آخر
بنائی بہت شادمانی کی صورت
رنج اور رنج بھی تنہائی کا
وقت پہنچا میری رسوائی کا

حالی کی غزل میں غالب کی طرح واعظ و شیخ و ناسخ پر طنز نظر آتا ہے:

مان لیجئے شیخ جو دعویٰ کریں
ایک بزرگ دین کو ہم جھٹلائیں کیا

حالی سہل ممتنع کے انداز میں پیچیدہ مسئلوں اور فلسفوں کو نہایت سادگی سے بیان کرتے ہیں:

رنج کیا کیا ہے ایک جان کے ساتھ
زندگی موت ہے، حیات نہیں

حالی کی غزل گوئی کے ایک انفرادیت ان کے ہاں مسلسل غزل کا ملنا ہے۔ عموماً غزل کے ہر شعر میں مختلف مفاہیم بیان کیے جاتے ہیں مگر حالی کے ہاں پوری غزل میں ایک ہی موضوع کے مختلف متعلقات کا ذکر ہوتا ہے اس حوالے سے ان کی ایک غزل جس میں دلی کا نوحہ پڑھتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں:

کوچ کر گئے دلی سے تیرے قدر شناس
قدر یاں رہ کر اب اپنی نہ گنوانا ہرگز
تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز
رات آخر ہوئی اور بزم ہوئی زیر و زیر
اب نہ دیکھو گے کبھی لطف شبانہ ہرگز

حالی دراصل ایک درد مند انسان تھے وہ اس وقت کے بدلتے سیاسی سماجی حالات سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے اور وہ ان تمام حالات و واقعات کو پوری سچائی سے مگر نئے پن اور جدت سے پیش کرتے ہیں۔ انگریزی نظام کے اثرات ظلم و ستم اور معاشرتی عدم مساوات کے حوالے سے کہتے ہیں۔

درد اور درد کی ہے سب کے دوا ایک ہی شخص
یاں ہے جلادو مسیحا بخدا ایک ہی شخص
قافلے گزریں وہاں کیونکر سلامت واعظ
وہ جہاں راہزن و راہنما ایک ہی شخص

حالی اس حوالے سے منفرد ہیں کہ اردو غزل کو روایتی گل و بلبل اور حسن و عشق کے جھوٹے قصوں سے نکال کر حقیقت پسندی کی طرف مائل کیا۔ حالی اس صورتحال کو بخوبی سمجھتے ہیں اسی لئے وہ کہتے ہیں:

مال ہے نایاب پر گاہک ہیں اکثر بے خبر
شہر میں خالی نے کھولی ہے دکان سب سے الگ

حالی اپنے کلام کے انفرادی تندرج تحت سے واقف ہیں اور یہ احساس برتری ان کے اشعار میں دکھائی دیتی ہے۔

لذت تیرے کلام میں آئی کہاں سے یہ
پوچھیں گے یہ حالی جادو بیاں سے ہم

ڈاکٹر سیدعبداللہ اپنی مشہور ترین کتاب”ولی سے اقبال تک“ میں کہتے ہیں
” حالی اپنے پیش روؤں اور معاصروں سے الگ ہیں کہ انہوں نے غزل کے موضوعات کے سابقہ حد بندی توڑ ڈالی اور سماجی اور قومی خیالات کو غزل میں داخل کیا۔

حالی کے یہاں پوری غزلیں اے شیخ، اے واعظ اور اے زاہد کے نام سے موجود ہیں:

کہیں خوف اور کہیں غالب ہے رجا اے زاہد
تیرا قبلہ ہے جدا میرا جدا اے زاہد
میں تو سوبار ملوں دل نہیں ملتا تم سے
تو ہی کہہ اس میں ہے کیا، مری خطا اے زاہد
ریا کو صدق سے ہے جام مئے بدل دیتا
تمھیں بھی ہے کوئی یاد ایسی کیمیا اے شیخ
غرور فقر غرور غنا میں فرق ہے کیا
تجھی پہ رکھتے ہیں ہم منحصر بتا اے شیخ

حالی ؔ نے اپنی غزلوں میں ایسے الفاظ بھی استعمال کے جو غزل کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں سمجھے جاتے تھے۔علاوہ ازیں ہندوستانی تلمیحات اور ہندی الفاظ کے ساتھ ساتھ بول چال کے ٹھیٹ الفاظ اور محاورات نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کر کے غزل کے دامن کو وسعت بخشی۔