ہندوستان میں ریڈیو کا آغاز و ارتقاء

انیسویں صدی کے آخر میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں بڑی سرعت کے ساتھ انقلاب آیا۔ ترسیلی نظام میں بھی حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔یہ وہ یہ وہ زمانہ ہے جب یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے خدوخال واضح ہو چکے تھے اور زندگی کے ہر شعبے میں ایک حد تک انقلاب آفریں تبدیلیاں آ چکی تھیں ۔اس نے پورے طور پر ترقی کی راہیں کھول دیں اور سائنسی ایجادات نے انسان کی زندگی کو بہت حد تک بدل دیا ۔ برقی ٹیلی گراف 1884 ٹیلی فون 1876 اور وائرلیس 1896 جیسی ایجادات اسی سلسلے کی کڑی ہیں ۔اس کی اگلی کڑی کے طور پر ریڈیو 1906 کی ایجاد ہے جس نے ہمارے ترسیلی نظام میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔

ریڈیو کے ارتقائی سفر اور اس کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ریڈیو کی موجودہ شکل مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد وجود میں آئی ۔ریڈیو کی ایجاد وائرس کی تاریخ سے وابستہ ہے۔ وائرلیس نے ہی ریڈیو کو نئی زمین فراہم کی۔ بقول محمد شاہد حسین :

”وائیرلس کی ایجاد ایک ایسی ااہم اور بنیادی ایجاد ٹھیک ہے جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ترسیل، زمین کی پستیوں سے اٹھ کر آسمانی بلندیوں کو چھونے لگی بلکہ اس کی وجہ سے ریڈیو، ٹرانسسٹر ،ٹیلی ویژن، اور سیٹلائٹ ترسیل ممکن ہوسکی۔“

1896 میں اٹلی کے ایک جوان سال سائنسدان مارکونی 1937۔ 1874نے لندن میں وائرس کو دنیا سے متعارف کرایا اس نے لندن میں جو تجربات کیے ان کے نتیجے میں ترسیلی سگنل کا دائرہ کار صرف سوگ تک محدود تھا۔ جس کے ذریعے صرف اشارے کی ترسیل ممکن تھی۔ ابھی تک الفاظ کی ترسیل میں کامیابی نہیں ملی تھی۔ وایرلس اپنی ممکن صورت میں موجود نہیں تھا اس کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوا جب جہاز رانی کی تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ پیش آیا ۔یہ جہاذ ٹائٹینک 15اپریل1912برف کے پہاڑ سے ٹکرا کر غرق ہو گیا ۔اس حادثے کے بعد پوری دنیا کو اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس کے ذریعے دنیا کے مختلف حصوں میں رہنے والے ایک دوسرے سے رابطہ قائم کر سکیں۔ اس سلسلے میں مارک نے تجربات کیے جن کے نتیجے میں برقی لہروں کی دریافت ہوئی اور ترسیل و نشریات کے نئے دور کا آغاز ممکن ہو سکا۔

بعض محققین مارکونی کو نشریات کی تاریخ الگ رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق چند برسوں کے تجربے سے کوئی ارادہ وجود میں نہیں آتی بلکہ اس کے پس منظر میں تجربات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہوتا ہے۔ مارکونی نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ اس نے ماقبل کی ایجادات اور تجربات کی بکھری ہوئ کڑیوں کو جوڑنے انہیں ایک نئی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔ اور دوسرے سائنسدانوں کے تجربات اور ان کی ایجادات سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا ہے کیونکہ کوئی بھی ایجاد کسی ایک شخص کے رہین منت نہیں ہوا کرتی تھی جیسا کہ خود مارکونی نے لکھا ہے:

”کوئی بھی ایجاد نہ صرف نظریاتی طور پر بلکہ تجرباتی طور پر بھی کسی ایک شخص کی رہین منت نہیں ہوتی میں نے سابقہ معلومات حاصل کیں اور پہلے سے قائم کیے گئے اصولوں اور نظریات پر کام کیا میں نے سوائے ہو Howe واٹ Watt اڈیسن Edison اسٹیفن سن اور دوسرے موجدوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی ہے بذات خود کچھ نہیں کیا۔“

اس طرح مارکونی نے مختلف تجربات کو یکجا کرکے ترسیل و نشریات کے لئے راہ ہموار کیں۔ اس بنا پر مارکونی کو ریڈیو کا موجد نہیں تو نشریات کا پیش رو ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔ریڈیو کی ایجاد کا سہرا کس کے سر ہے یہ ایسا مسئلہ ہے جس کی تصدیق و توثیق کے لیے شواہد کی ضرورت ہوگی ۔ظاہر ہے اس سے متعلق ابتدائی معلومات کی فراہمی اور ان کی تصدیق ناممکن حد تک مشکل ہے۔

ریڈیو نشریات کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟اس سلسلے میں اختلافات ہیں۔لیکن یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ اس شعبے میں امریکہ کو دوسرے ممالک پر فوقیت حاصل ہے دراصل دنیا میں جب بھی کوئی ایجاد یا دریافت سامنے آتی ہے تو سب سے پہلے اس کا فائدہ ترقی یافتہ ممالک کو ہوتا ہے ۔1906میں رینالڈ اے فیسنڈنReignald A Fessenden نے برنٹ راک ماس کے اپنے نجی تجرباتی اسٹیشن سے کرسمس کی شام کو ایک پروگرام نشر کیا جس سے اولین ریڈیو پروگرام کی حیثیت حاصل ہے لیکن باقاعدہ نشریات کا آغاز نومبر 1920کو St.Pittsburg کے KDKA اسٹیشن سے ہو جس کا ذکر کرتے ہوئے Asa Briggs نے لکھا ہے:
”امریکا میں 1920میںKDKA ریڈیو اسٹیشن سے باقاعدہ نشریات کا آغاز ہوا دوسری طرف مارکونی کمپنی نے اپنی نشریات کا آغاز Chelmsford’s سے کیا۔“

1920سے باقاعدہ نشریاتی دور کا آغاز ہوا اس ریڈیو اسٹیشن کی مقبولیت اور افادیت نے مزید اسٹیشنوں کے قیام کی تاریخ پیدا کی جس کے نتیجے میں1921 کےاوا خرتک امریکہ میں 8 ریڈیو اسٹیشن قائم ہو چکے تھے
امریکہ کے برعکس برطانیہ میں نشریات پر ابتدا سے ہی برطانوی پوسٹ آفس کا اقتدار قائم رہا پہلی جنگ عظیم1918-1914 کے بعد دوسرے مغربی ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی نشریات کے تجارتی امکانات پیدا ہونا شروع ہوگئے مارکونی کمپنی نے 1919میں آئرلینڈ پھر اس کے بعد چیمس فورڈ chelmesfordمیں تجرباتی ریڈیو اسٹیشن قائم کیے برطانیہ 11 مئ1922 میں کو پہلا باقاعدہ پروگرام نشر کیا گیا اسی سال اسی سال برٹش براڈکاسٹنگ کمپنی قائم ہوئی اور یکم جنوری 1927 کو یہ کمپنی کارپوریشن میں تبدیل ہو گئی جس کے بعد برطانیہ میں عوامی نشریات کا آغاز ہوا۔

ہندوستان میں ریڈیو نشریات کا آغاز اس وقت ہوا جب بمبئی کے گورنر سر جارج الائیڈ کی فرمائش پر ٹائمز آف انڈیا نے20 اگست 1921 کو اپنے بمبئی آفس سے پوسٹ این ٹیلیگراف محکمہ کے اشتراک سے موسیقی کا ایک خصوصی پروگرام نشر کیا جس سے بمبئی سے تقریبأ دو سو کلومیٹر دور پونا میں سرجارج لائیڈ نے بہ ذات خود سنا ہندوستان میں یہ پہلا تجرباتی مظاہرہ تھا اس کے بعد ہی یہاں ریڈیو نشریات کا سلسلہ قائم ہوا ۔
دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی نشریات کی ابتدا شوقیہ ریڈیو کلبوں سے ہوئی ابتدائی زمانے میں ان شوقیا کلبوں نے اہم رول ادا کیا اور باقاعدہ نشریات کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد بھی ان کی سرگرمیاں جاری رہیں نومبر 1923 میں انڈین Indian Managing Director کے State And Eastern Agency Limited ایف۔ آئی روشر نے ریڈیو کلب آف بنگال کے تعاون سے اپنی نشریات کا آغاز کیا بمبئی میں بمبئی ریڈیو کلب کے نام سے ایک دوسری سروس کا آغاز ہوا جون میں ہوا جس کی تفصیل یہ ہے:

1922میںF.Rosher منیجنگ ڈائریکٹر آف انڈین اسٹیٹ ایسٹرن ایجنسی لمیٹیٹڈ میں گورنمنٹ کو ہندوستان میں ایک نشریاتی ادارہ قائم کرنے کی درخواست دی اس درخواست پر فیصلہ کرنے کے لیے دہلی میں ایک کانفرنس ہوئی اور کچھ مہینوں بعد انہیں اس کی اجازت مل گئی لہذا انہوں نے ریڈیو کلب آف بنگال کے ساتھ مل کر کلکتہ میں ایک نشریاتی اسٹیشن قائم کیا جس کا پہلا پروگرام نومبر 1923کو نشر ہوا ایسا ہی ایک نشریاتی ادارہ 1924 میں ممبئی ریڈیو کلب کے نام سے بمبئی شروع ہوا۔

16 مئی 1924کو مدراس پریسی ڈینسی ریڈیو کلب کی بنیاد رکھی گئ اور 31 جولائی سے نشریات کا آغاز ہوا لیکن مالی پریشانیوں کے سبب اکتوبر 1927میں اسے بند کر دینا کا انجام بھی کم و بیش یہی ہوا۔

1927میں ہی انڈین براڈکاسٹنگ کمپنی کا قیام عمل میں آیا کمپنی کا چیئرمین سردار ابراہیم رحمہ اللہ کو بنایا گیا کمپنی کے زیرنگرانی دو ریڈیو اسٹیشن بمبئی اور کلکتہ میں قائم کیے گئے 23 جولائی 1927 کو وائسرائے لارڈ ارون میں ممبئی ریڈیو اسٹیشن کا افتتاح کیا ایک ماہ بعد 26 اگست کو کلکتہ ریڈیو اسٹیشن کا افتتاح بنگال کے گورنر Sir Stenley Jackson کے خاتون عمل میں آیا مگر 1930 تک آتے آتے یہ کمپنی بھی مالی بحران کا شکار ہوگئی اور اپنے سفر کے تین سال مکمل کیے بغیر بند ہوگئی۔

یکم اپریل 1930 سے حکومت ہند نے ریڈیو نشریات کا نظام اپنے ذمے لے لیا اور اسے انڈین اسٹیٹ براڈ کاسٹنگ سروس کا نام دے کر محکمہ صنعت و خرفت کے حوالے کردیا۔لیکن زبردست مالی دشواریوں کے سبب دو سال کے اندر ہی حکومت نے اس ادارے کو بند کرنے کا فیصلہ کرلیا اس فیصلے کے خلاف عوامی احتجاج شروع ہو گیا جس کے دباؤ میں حکومت نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے دوبارہ نشریاتی سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے حکومت نے ریڈیو آلات پر برآمدی محصول 50 فیصد بڑھا دیا نشریات کے اخراجات کو کم کیا گیا اور کسٹم آمدنی دوگنی ہوگئی۔

انڈین اسٹیٹ براڈ کاسٹنگ سروس کے وجود میں آنے کے بعد نشریات کے تجرباتی اور عبوری دور کا اختتام ہوا اس ادارے کے تعلق سے حکومت نے سنجیدہ اقدامات بھی کیے یکم جنوری 1934 کو انڈین وائرلیس ٹیلی گراف ایکٹ نافذ ہوا اس ایکٹ سے قبل یہ قانون تھا کہ لائیسنس کے بغیر ریڈیو پر کھا تو جا سکتا تھا لیکن سنا نہیں جا سکتا تھا مگر اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد لائسنس کے بغیر ریڈیو سیٹ رکھنا بھی غیر قانونی قرار دیا گیا لہذا اس کا خاطر خواہ اثر یہ ہوا کہ 31 دسمبر 1933 تک ریڈیو لائسنس کی تعداد 10,872 تھی جو بڑھ ک,ر16,179 ہوگی حکومت نے ان تبدیلیوں کو محسوس کرتے ہوئے اندرون ملک نشریات کے فروغ کے لیے منصوبے بنانے شروع کیے دلی میں ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا حکومت ذہنی طور پر اس بات کے لئے تیار تھی کہ اندرون ملک نشریات کی مستحکم کرنے کے لئے عارضی طور پر بی بی سیBBC کے تجربے کا افراد کی خدمات حاصل کی جائیں لہذا 30 اگست 1935 کو بی بی سی کے تجربے کا براڈکاسٹر لائینل فیلڈن Lionel Fielden کی تقرری ہندوستان کے پہلے براڈکاسٹنگ کنٹرولر کے عہدے پر ہوئی جس کی خاطر خواہ اثرات مرتب ہوئے فیلڈن ایک قابل افسر تھا ہندوستان کی نشریاتی ترقی میں اس کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔

ہندوستان میں اب ریڈیو نشریات کا ایک باقاعدہ ادارہ وجود میں آگیا اس کی ترویج و ترقی کے لیے حکومت نے 20 لاکھ روپے منظور کیے اب نشریات کے میدان میں خصوصی توجہ دی جانے لگی دلی میں کلو واٹ کا میڈیم ویو ٹرانسمیٹر لگایا گیا جس سے یکم جنوری 1936 کو پہلا پروگرام نشر ہوا اسی سال 8 جون کو انڈین اسٹیٹ براڈکاسٹنگ سروس ISBS کا نام بدل کر کے اسے آل انڈیا ریڈیو کا نام دیا گیا۔

دراصل فیلڈن کو اس ادارے کا نام بالخصوص اس کا مخفف ISBS پسند نہیں تھا اس کا خیال تھا کہ نام آسان اور دلکش ہونا چاہیے لہذا اس کی کوشش کے نتیجے میں اس ادارے کو آل انڈیا ریڈیو کا نام دیا گیا جس کا محفف آسان ہونے کے ساتھ جمالیاتی دلکشی بھی رکھتا تھا اس میں اتنی کشش تھی کہ جلد ہی زبان زد عام و خاص بن گیا فیلڈن نے اپنی خود نوشت میں اس کہانی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

”میں نے وائسرائے کی ایک ضیافت میں شرکت کے بعد Lord Linlithgow سے رجوع کیا اور بڑی صفائی سے یہ کہا کہ مجھے ان کے مشورے کی ضرورت ہے وہ اس طرح کی تمہید پر عام طور سے اچھا ردعمل ظاہر کرتے تھے میں نے کہا کہ مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ انہیں میرے اس بات سے پورا اتفاق ہے کہ ISBS کا نام مناسب نہیں ہے انہوں نے تھوڑے سے توقف کے بعد اپنے لمبے سر کو نہایت ہی دانشمندی کے ساتھ لایا ہاں یہ ایک بہت بڑا ٹائٹل ہے میں نے کہا کہ اس سلسلے میں لفظ براڈ کاسٹ کا استعمال بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ اس طرح تمام ہندوستانیوں کو لفظ براڈکاسٹ کا استعمال کرنا پڑے گا اور اس میں لفظ براڈ ایسا ہے جس کا صحیح تلفظ نہیں کر سکتے لیکن میری مشکل یہ ہے کہ میں اس کے کسی دوسرے متبادل نام کے بارے میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا کیا وہ اس سلسلے میں مدد کریں گے میرا یہ بھی کہنا تھا کہ ہندوستانی ریاست ایک ایسی اصطلاح ہے جو خود ان کے علم کے مطابق تھی اور 1935 کے ایکٹ سے مناسبت نہیں رکھتی اس لیے یہ نام ایک طرح سے عمومی نوعیت کا ہونا چاہیے وہ اس گفتگو میں بڑی دلچسپی کے ساتھ شریک ہوں گے آل انڈیا اس پر میں نے اپنی حیرت اور احساس ستائش کا اظہار کیا واقعی بہت اچھی بات ہے یہ اعلی چیز ہے لیکن براڈکاسٹنگ ہرگز نہیں پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد انہوں نے مشورہ دیا ریڈیو تو میں نے کہا واقعی بہت اچھا بہت خوبصورت مخففات ہیں وائسرائے نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی اپنی تشریح ہے اور یہ کہ اب کوئی پریشانی نہیں ہوگی میرے بتائے ہوئے اس نام کو ضرور استعمال کرنا ہوگا اس طرح آل انڈیا ریڈیو کا نام پڑا۔ انیس سو چھتیس میں انڈین اسٹیٹ براڈکاسٹنگ سروس کا نام تبدیل ہو کر آل انڈیا ریڈیو ہوگیا اور اب نام سے معروف ہے۔“

ہندوستانی نشریات کی تاریخ میں 1936 کو بڑی اہمیت حاصل ہے یکم جنوری 1936 ریڈیو پروگرام سے متعلق رسالہ آواز کی اشاعت شروع ہوئی اس کے پہلے مدیر مشہور ترقی پسند شاعر اسرارالحق مجاز بنائے گئے رسالے کا نام بھی انھیں کا تجویز کردہ تھا اٹھارہ سو ستاسی میں اسے بند کر دیا گیا پہلے یہ رسالہ اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں شائع ہوتا تھا لیکن بعد میں ہندی رسالہ کا نام سا رنگ کر دیا گیا 1927سے 1935 تک ریڈیو کی طرف سے ایک انگریزی رسالہ The Indian Radio Times کے نام سے بھی شائع ہوا تھا 1936 میں اسے Indian Listener کا نام دے دیا گیا یہ جون 1958 تک شائع ہوتا رہا پھر 19588 میں Indian Listener اور سارنگ دونوں کو ضم کرکے ایک رسالہ شائع ہوا جس کا نام آکاش وانی رکھا گیا۔

فیلڈن کی نگرانی میں آل انڈیا ریڈیو کی روز بروز ترقی ہوتی گئی نت نئے تجربے کیے گئے 1937 میں انڈیا اسٹیشن ڈائریکٹروں کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی اور اسی سال کے آخر میں دلی میں ملک کا پہلا شارٹ ویو10.KW ٹرانسمیٹر نصب ہوا اس سے پہلے صرف میڈیم ویو ٹرانسمیٹر تھے شارٹ ویو سے یہ سہولیات میسر آگئی کہ دلی ریڈیو اسٹیشن کے پروگرام ریلے کرنے لگا اور بمبئی ریڈیو اسٹیشن کا پروگرام دلی ریڈیو اسٹیشن ریلے کرنے لگا اس کے ساتھ ہی پشاور لاہور لکھنؤ اور مدراس سے بھی میڈیم ویو ٹرانسمیٹر پر براڈکاسٹنگ کی شروعات ہوگی ۔
دوسری جنگ عظیم1945/ 1939 نے ریڈیو نشریات کی اہمیت میں مزید اضافہ کیا جنگ کی شدت اور وسعت کے ساتھ ساتھ نشریات کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا چلا گیا اور کئی ہندوستانی زبانوں میں نشریات کا سلسلہ شروع ہو گیا اسی دوران 1939 میں آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہونے والے پروگرام کو ہندوستان کے باہر بھی سنا جانے لگا اور external service division کا وجود عمل میں آیا اسی سال ما نیٹرنگ سروس شروع ہوئی جو بعد میں آل انڈیا ریڈیو میں ضم ہو گئی 1940 میں جب جرمنی نے معتدد ہندوستانی زبانوں میں نشریات کا سلسلہ شروع کیا تو بی بی سی کو بھی ہندوستانی زبانوں میں اپنے نشریاتی پروگرام کا آغاز کرنا پڑا اسی دوران اپریل 1940 میں آل انڈیا ریڈیو سے فیلڈن کا معاہدہ ختم ہوگیا اور وہ بی بی سی واپسی چلے گے اس کے بعد آل انڈیا ریڈیو کی ذمہ داری احمد شاہ بخاری کے حصے میں آئیں جنہیں اردو ادب کی دنیا میں پطرس بخاری کے نام سے شہرت حاصل ہے پطرس بخاری آل انڈیا ریڈیو کے پہلے ہندوستانی براڈکاسٹنگ کنٹرولر تھے 1943 میں کنٹرولر کی جگہ ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ قائم کیا گیا تو انہیں اس عہدے سے متعین کیا گیا۔

24 دسمبر 1941 ہندوستانی ریڈیو نشریات کی تاریخ میں ایک یادگار دن ہے ابھی تک آل انڈیا ریڈیو محکمہ صنعت و حرفت کی نگرانی میں چل رہا تھا اسی دن محکمہ اطلاعات و نشریات وجود میں آیا اور ریڈیو کی تمام سرگرمیاں اس کے ماتحت ہوگی آزادی کے بعد اس محکمہ کو وزارت میں تبدیل کر دیا گیا۔

جس زمانے میں ہندوستان میں نشریات کا آغاز ہو رہا تھا انگریزی عمل داری کے علاوہ کچھ خود مختار ریاستیں بھی موجود تھی ان ریاستوں میں بھی ریڈیو نشریات کی سرگرمیاں شروع ہوچکی تھی ریاست میسور کے پروفیسر گوپالا سوامی نے 10 دسمبر 1935 کو آکاش وانی کے نام سے ریڈیو اسٹیشن قائم کیا بعد میں ہندوستان کے پورے نشریاتی نظام کو ہی آکاش وانی کے نام سے منسوب کر دیا 1939 میں گائکوارڈ نے بڑودہ ریڈیو اسٹیشن قائم کیا اسی زمانے میں نظام حیدرآباد کی نگرانی میں حیدرآباد اور اورنگ آباد میں بھی ریڈیو اسٹیشن قائم کیے گئے اسی سال تروندرم میں بھی ایک ریڈیو سٹیشن قائم ہوا آزادی کے بعد ریاستوں کے الحاق کے باعث تمام ریڈیو اسٹیشن ال انڈیا ریڈیو کا حصہ بن گئے۔

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے ساتھ ہی ملک میں زبردست سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوگیا آزادی کے ساتھ ہمیں تقسیم کا زخم بھی سہنا پڑا لیکن دنیا کے نقشے پر ہندوستان سے علیحدہ ایک دوسری مملکت کا قیام عمل میں آچکا تھا جس سے تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا آزادی سے قبل ملک میں چودہ ریڈیو اسٹیشن قائم تھے جن میں 9 کا انتظام آل انڈیا ریڈیو خود کر کرتا تھا اور باقی پانچ اسٹیشن ریاستوں کی زیر سرپرستی کام کر رہے تھے تقسیم کے نتیجے میں ریڈیو اسٹیشنوں کے بٹوارے کا مطالعہ بھی کھڑا ہوا جغرافیائی حدود کے اعتبار سے بمبئی کلکتہ دلی مدارس لکھنؤ اور ترچنا پلی چھ ریڈیو اسٹیشن ہندوستان کے پاس رہے لاہور پشاور اور ڈھاکہ کے تین اسٹیشن پاکستان کے حصے میں چلے گئے ریاستوں کی زیر سرپرستی چل رہے پانچ ریڈیو اسٹیشن میسور بڑودہ حیدرآباد اورنگ آباد اور تروندرم ان ریاستوں کے الحاق کے ساتھ ہندوستان کی نگرانی میں آگئے۔

ہندوستان میں نشریات کی باقاعدہ ابتدا بہت بعد میں ہوئی انگلستان میں 1920 کے دوران شریعت کے لیے اچھی فضا تیار ہو چکی تھی پورے سماج پر نشریات کے صحتمند اثرات مرتب ہو رہے تھے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہندستان میں بھی نشریات کو فروغ ملتا مگر نشریات کے لیے مناسب ماحول پیدا نہ ہوسکا جے۔ سی ۔ڈبلیو ۔ریتھJ.C.W.Reith برٹش براڈکاسٹنگ کمپنی کے منیجر تھے اور بعد میں جب کمپنی کارپوریشن میں تبدیل ہوگئی تو اس کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے انہوں نے ہندوستان میں نشریات کے فروغ میں اہم حصہ لیا وہ انگلینڈ میں رہ کر ہی ہندوستان میں نشریات کا جال پھیلانا چاہتے تھے مگر 69 خواں کامیابی نصیب نہ ہوئی انھوں نے اپنی ڈائری انٹو دی ونڈ into the wind میں لکھا کہ اگر ہندوستان میں 1936میں نشریات کی ابتدا ہوجاتی تو مستقبل میں اس کی راہیں درخشاں ہوئی۔

ہندوستان میں انیس سو چھتیس(1936) میں انڈین براڈکاسٹنگ کمپنی قائم ہوئی 23 جولائی 1936 کو لارڈ ارون نے بمبئی ریڈیو اسٹیشن کا افتتاح کیا اسی سال 26اگستکو کلکتہ ریڈیو سٹیشن بھی قائم ہو گیا انڈین براڈکاسٹنگ کمپنی نے ہندوستان میں نشریات کے وسیع امکانات کو پوری طرح اندازہ نہیں لگایا اس کے علاوہ تکنیکی سہولتوں کی کمی عملہ کی نااہلی اور سرمایہ کی قلت کی وجہ سے یکم مارچ 1930 کو یہ کمپنی دیوالیہ ہوگئی ہندوستان میں نشریات کے چالیس سال پورے ہونے پر نیوز سروس ڈویژن New Service Division نے ایک ریڈیو فیچر (نشریات کے چالیس سال) نشر کیا تھااس کی ہدایت کاری کے فرائض شر د ینر سا نیال نے انجام دیے تھے فیچر میں کہا گیا تھا کہ کمپنی کے دیوالیہ ہو جانے کے بعد انڈین براڈ کاسٹنگ سروس وجود میں آئی اور حقیقی معنوں میں ہندوستان میں نشریات کا آغاز انیس سو پینتیس میں ہوا جب مارچ میں نشریات کے نگران کا دفتر قائم ہوا اور پانچ ماہ بعد بی بی سی کے لیونیل فلیڈن Lionel Fieldon ہندوستان آئے اور اس نشری محکمہ کے نگران مقرر ہوئے حکومت نشریات کو فروغ دینے کے لیے بیس لاکھ روپیہ منظور کیا اس کے برخلاف جی۔ سی ۔ اوستھی G.C Awasthy جو ہندوستان میں نشریات کے مصنف اور آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ رہ چکے تھے انہوں نے اپنی نشری تقریر نشریات کے چالیس سال میں 1932کو بڑی اہمیت دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمپنی کے دو اہلیہ ہو جانے کے بعد جس وقت ہندوستان میں نشریات دم توڑ رہی تھی اسی وقت ہندوستان میں برٹش حکومت نے روشن خیال طبقہ اور تاجروں کے دباؤ میں آ کر یہ فیصلہ کیا کہ دونوں نشری مرکزوں کو دو سال کے لیے تجرباتی طور پر چلایا جائے اسے انڈین براڈ کاسٹنگ سروس کا نام نہیں دیا گیا تھا دوسرے ہندوستان میں نشریات کی ترقی کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ شریعت کو اس وقت ترقی ملی جب دسمبر 1932 میں بی بی سی نے اپنی امپائر سروس شروع کی اور ہندوستان میں مقیم یورپین نے آٹھ ہزار سے زیادہ ریڈیو خریدے تو حکومت نے طے کیا کہ حکومت کی سرپرستی میں نشریات کو برقرار رکھا جائے اس کے علاوہ اوستھی بی فیلڈن کی آمد کو اور ان کی کوششوں کو نشریات کی ترقی میں نیک فال قرار دیتے ہیں اور ان کی اعلی تنظیمیں اور فنکارانہ صلاحیتوں کے قائل ہیں یا کمار 1936 کو دہلی میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا اور یہ فیلڈن ہی تھے جنہوں نے ہندوستان کی اس نوخیز نشری تنظیم کو نہ صرف انڈیا ریڈیو کا نام دیا بلکہ ایک اچھا نشری منصوبہ بھی دیا۔

غرض ہندوستان میں نشریات کی بنیاد پر چکی تھی اور ریتھ کی کوشش جاری تھی اور فیلڈن کو ہندوستان بھیج چکے تھے اب انہوں نے انڈیا آفس اور ہندوستان کے وائسرائے پر دباؤ ڈالا کہ نشریات کو سنجیدگی سے ترقی دی جائے انہوں نے لارڈ ولنگlord willington کو ایک میمورنڈم پیش کیا اور لارڈ ولنگٹن کو اقرار کرنا پڑا ایگز یکیسٹیو کونسل کہ کسی بھی فرد نے نشریات کو اہمیت نہیں دی ریتھ نے صرف یہی دم نہیں لیا بلکہ جب قانون حکومت ہند Government of India Act1935 تیار کیا جارہا تھا انہوں نے نشریات کو صوبجاتی سرپرستی کی جگہ مرکز کی سرپرستی دلائی ریتھ کا یہ بڑا کارنامہ تھا اگر نشریات کو مرکز کی سرپرستی حاصل نہ ہوتی تو ہندوستان میں نشریات کا مستقبل دھندلا ہوتا۔

انڈین براڈکاسٹنگ کمپنی کمپنی سے سروس اور پھر یہ سروس آل انڈیا ریڈیو میں منتقل ہو گئیں اور اس سے مرکز کی سرپرستی حاصل ہو گئی ہندوستان میں نشریات کی تاریخ کی یہی ادوار ہیں اہمیت نہیں رکھتے ہمارے ملک میں کہنے کو تو نشریات کی باقاعدہ ابتدا 1927 میں ہوئی مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کمپنی کے وجود سے قبل ہندوستان میں نشریات سے ناآشنا تھا دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی نصیحت کی ابتدا شوقیہ ریڈیو کلبوں سے ہوئی 14 مئی 1926 کو مدراس پرسیڈینسی کلب قائم ہوا اور ملکی غیر ملکی موسیقی کہانیوں اور درسی سبق نشر کیے جانے لگے اسی قسم کے کلب لاہور پشاور الہ آباد اور دہرادون میں بھی قائم ہوئے ہندوستان کی کئی ریاستوں مثلا محصور بڑودہ حیدرآباد اورنگ آباد کرین ٹریو ینڈرم میں بھی شوقیہ ریڈیو کلب موجود تھے اس وقت ان شوقیہ ریڈیو کلبوں نے نہ صرف عوام کی ضرورتوں کو کسی حد تک پورا کیا بلکہ نشریات کے لیے فضا ہموار کی۔

پہلی جنگ عظیم نے نشریات کو بہت ترقی دی نشریات کا پروپیگنڈے سے تعلق جڑ چکا تھا عوام نشریات کی اہمیت اور افادیت کے قائل ہو گئے تھے اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں نہ صرف یورپ بلکہ ہندوستان میں نشریات نے زبردست ترقی کی 1939 میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی ہٹلر کے سامنے یورپ کی سرزمین سمٹتی جا رہی تھی ہندوستان جنگ کے میدان سے بہت دور تھا مگر وہ بھی جنگ کی آگ سے محفوظ نہ رہ سکا.یکم اکتوبر 1939 کو غیرملکی سروس شروع ہوئی اور اس کا آغاز عربی سے ہوا 41 زبانوں میں ہمارے ٹرانسمیٹر دن رات ہندوستان اور اس کے تصورات کا اظہار کرتے رہتے جنگ کے پانچ سال گزر گئے امن بحال ہوا مگر ہندوستان کے اپنے مسائل تھے حالات واضح نہ تھے جنگ آزادی روز بہ روز تیز ہوتی جا رہی تھی ۔

آخر وہ وقت آیا کہ ماؤنٹ بیٹن پلان تیار ہوا اور 3 جولائی 1947کوال انڈیا ریڈیو سے ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کے قیام کا اعلان کیا گیا وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن پنڈت نہرو فٹ اور مسٹر جناح نے تقریریں نشر کی ہندوستان میں 1947 میں 14 ریڈیو اسٹیشن قائم تھے جن میں سے 9 کا انتظام آل انڈیا ریڈیو کرتا تھا اور باقی پانچ ریاستوں کی سرپرستی میں تھے تقسیم ہند کے بعد ال انڈیا ریڈیو کے چھےنشری مرکز ہندوستان میں اور تین نشری مرکز پاکستان میں ملے ریاستی نشریاتی مرکز بعد میں اپنے اپنے ملک کے نشری تنظیم کا حصہ بن گئے۔

‌ریڈیو اور ٹیلی ویژن:

نشریات کے نقاد ٹیلی ویژن کو نشریات میں ایک بہترین اضافہ قرار دیتے ہیں ٹیلی ویژن کا اثر ریڈیو سے پانچ گنا زیادہ کہا جاتا ہے ٹیلی ویژن دیکھتے وقت کوئی اور کام کرنا ممکن نہیں ٹیلی ویژن کی تصویریں ہماری تمام تر توجہ کو اپنی طرف مبذول کرتی ہیں جب ملکی اور غیر ملکی واقعات سکرین پر سادی اور رنگ برنگی تصویروں میں ظاہر ہوتے ہیں تو ہمارے دلچسپی اور مسرت میں اضافہ ہوتا ہے رو جرمین ویل نے تصویروں کے ذریعے خبروں اور واقعات کی ترسیل کو انسانی تاریخ میں روشن باب کا اضافہ کیا ہے ان کے خیال میں تصویروں کی زبانی علم آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے اگر دیکھنا اور سمجھنا دو مختلف چیزیں ہیں مگر روجرمین وئل نے ریڈیو کی سرعت تیزی اور کم مصارف کا اقرار کیا ہے بہت سی چیزیں سننے کے لیے اور صرف سننے کے لیے ہوتی ہیں اور اگر ریڈیو کو ٹیلی ویژن کی وجہ سے فراموش کر دیا جائے تو صحت نقصان ہوگا ساتھ ہی جہاں ٹیلی ویژن کو گہرے تاثر اور نظر کا فائدہ ہے وہاں ٹیلی ویژن کے لیے ضروری ہے کہ وہ ترسیل میں فنی اور تکنیکی مہارت کا مستقل استعمال کرے ورنہ وہ دماغ جو لطیف سے لطیف احساسات کو قبول کرکے پرواز کر کے لیے تیار رہتا ہے بے عملی اور بے حسی کا شکار ہوجاتا ہے اسی لئے جیرالڈ منے لکھا ہے لرسن:
”اگر نظری وسیلہ visual media کو اختیاط سے استعمال نہیں کیا گیا تو وہ ضرورت سے زیادہ معلومات فراہم کر لے گا نتیجہ یہ ہو گا کہ ناظر منظر سے کوئی گہرا تاثر حاصل نہیں کرے گا اس کے بجائے جانے پہچانے حالات اور جانے پہچانے انداز پیشکش سے اس کا دماغ آرام کرنے لگے گا اور وہ کسی بھی عمل کو قبول نہیں کرتا ہے۔“

ٹیلی ویژن کی آمد پر خیال پیدا ہوتا تھا کہ ریڈیو بھی چند سالوں میں آثار قدیمہ کی چیز ہو جائے گا اور جس طرح بولتی فلموں کے رواج کے بعد خاموش فلموں کا نظر انداز کر دیا گیا اسی طرح ریڈیو کو بھی فراموش کر دیا جائے گا امریکہ انگلینڈ وغیرہ جہاں ٹیلی ویژن نے کافی ترقی کی تھی 1950 تک اندازہ لگایا گیا کہ ریڈیو مزید ترقی کر رہا ہے 1964میں ریچرڈ ایل ٹوہن Richard L Tohin جو سٹرڈے ایوننگ saturday evening کے خبررسانی کے ایڈیٹر تھے انہوں نے اقرار کیا کہ ریڈیو عجیب و غریب طریقے سے واپس آ رہا ہے اس کی کئی وجوہات تھیں ولیم ایل ریورس William L Reverse کا خیال تھا کہ چند واقعات کی بنیاد پر کوئی کلیہ تو نہیں بنایا جاسکتا مگر ریڈیو نے سماج کے تیئں جو نقطہ نظر بدلہ ہے وہ ریڈیو کی واپسی اور ترقی کا خاص سبب ہے ڈرامہ نشریات کے ساتھ جب عوامی معاملات واقعات اور خبروں کی اہمیت ملی ریڈیو مراکز نے مرکزی نشریات سے کم کام لیا اور مقامی اداروں کی حیثیت اختیار کی اور خصوصی سامعین کی ضرورت پر خاص توجہ دی تو ریڈیو کی اہمیت و افادیت اور مانگ میں قابل قدر اضافہ ہوا نقطہ نظر کی اس تبدیلی نے ریڈیو کو گمنامی سے بچالیا اور گلہرر رپورٹ Gallaher Report کی صداقت ثابت ہوئی کہ نقطہ نظر کی تبدیلی نے ریڈیو کو بچا لیا۔

ٹیلی ویژن کی ترقی کی ابھی کی منزلیں طے کرنا ہی بڑا اسکرین رنگ تیسری سمت Third Dimension اور سفری کیمرے Portable Cameras اور سیٹلائٹ ترسیل Satelite Communication کو حاصل کرکے ہی ٹیلی ویژن وسیع ترسیل کے کام آ سکتا ہے۔

ابھی تک ٹیلی ویژن صرف محدود پیمانے پر ضروریات پوری کر رہا ہے زبان ایک دوسرا اہم مسئلہ ہے خبروں کی نشریات Telecast کی راہ میں نقشے چاٹ ساکن تصویریں Still pictures اور انٹرویو کے مسائل حاصل ہوتے ہیں وقت کے اعتبار سے ٹیلی ویژن ڈاکومنٹری ریڈیو ڈاکومنٹری کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

ماس میڈیا کے ماہرین اس حقیقت پر متفق ہیں کے ماس میڈیا سے ملک کی ترقی اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے عظیم کام لیا جا سکتا ہے اور وہ جرمین ویل نے اس شعبے کا اظہار بھی کیا تھا کہ اگر ان کا مناسب استعمال نہیں کیا گیا تو وہ ان کی ماؤں کو چاٹ جائیں گے جنہوں نے انہیں وجود بخشا تھا ماس میڈیا کے مختلف اجزاء کی اپنی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہیں ان میں تضاد سے زیادہ مماثلت کے پہلو میں پائے جاتے ہیں بیسل رائٹ Besil Wright نے توقع ظاہر کی تھی کہ مزید تکنیکی ترقی اور اصطلاحات سے ان میں مماثلت پیدا ہونے کی کوئی امید ہے یہ اجزاء اگرچہ ایک دوسرے سے مقابلہ بھی کرتے ہیں مگر وہ ایک دوسرے سے اشتراک بھی کرتے ہیں سہارا بھی دیتے ہیں 1954میں انگلینڈ میں برسٹل یونیورسٹی میں یونیورسٹی فلم ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے تعلق پر سمپوزیم منعقد ہوا تو ڈاکٹر ایم ایم لوس Dr.M.M.Lewis جو ناٹنگ ہیم Nottingham یونیورسٹی کے تعلیمی ادارے کے ڈائریکٹر تھے انہوں نے لاسن Lawson جو انسپکٹر آپ اسکولس Inspector of Schools تھے ان کے حوالے سے کہنا تھا کہ ہم اس عہد میں داخل ہوگئے ہیں جب ایک میڈیم دوسرے میڈیم کی تشریح اور تائید کرتا ہے اور ولیم ایل ریورس نے اخبار میگزین ریڈیو ٹیلی ویژن کتاب نیوز لیٹر پر فلم کے بارے میں کہا ہے کہ یہ تمام اجزاء ایک دوسرے کا بدل نہیں بلکہ ایک دوسرے کے اثرات میں تکمیل اور اضافہ کا کام کرتے ہیں وہ یکساں ہیں اور معلومات مہیا کرتے ہیں اُس نے لکھا تھا:-
”وہ ماس میڈیا مزاج میں یکساں ہیں اور اخبارات رسائل ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی طرح ہم کو اطلاعات اور رائے عامہ سے خبردار رکھتے ہیں اور ان سے جمہوریت زندہ رہتی اور پروان چڑھتی ہے۔“

تحریر ارشد محمود ملک ( مقالہ برائے ایم-اے- اردو