ماں کی یاد

جب میں لفظ “امی” سنتی ہوں تو چونک جاتی ہوں۔ ایسا لگتا ہے یہ لفظ کبھی میرے لیے بھی شناسا تھا۔۔۔کبھی اس لفظ کو بارہا میں نے بھی اپنی زبان سے ادا کیا تھا۔ لیکن آج جب میں اس لفظ کو بولنے کی کوشش کرتی ہوں تو رک جاتی ہوں ، ہونٹ لڑکھڑانے لگتے ہیں، زبان ساتھ نہیں دیتی، ذہن ودماغ میں ہلچل مچنے لگتی ہے۔ میرے اوپر سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔۔۔

ابھی بھی یہ لفظ بارہا میری زبان سے نکلتے ہیں لیکن میں جس طرح پہلے بولا کرتی تھی اب بول نہیں پاتی ہوں۔کبھی خالہ، کبھی آنٹی، کبھی تائی غرض کہ جو بھی ہے سب کو میں لفظ “امی”سے مخاطب کرنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن مجھے ایسا لگتا ہے میری زبان سے لفظ” امی”صحیح سے ادا نہیں ہو رہا ہے۔۔

آخر کیوں!
یہ سوال میں بارہا خود سے کرتی ہوں لیکن مجھے تشفی بخش جواب نہیں ملتا ہے۔۔۔اے خدا میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ کیا ہم بہن بھائیوں کو ماں کی ضرورت نہیں تھی؟ کیا ہم اپنی ماں کا فرض ادا نہیں کر سکتے تھے؟
کیا ہم سے کوئی غلطی ہوئی تھی جو امی ہم سب سے ناراض ہوکر گھر چھوڑ کر قبرستان میں لیٹی ہیں۔جہاں سے ان کی صدائیں بھی نہیں آتی ہیں۔۔۔

جب کوئی ماں اپنے بچے کو پیار سے پکارتی ہے تو ہمارے بھی کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔کبھی ہماری امی بھی مجھے اور بھائیوں کو ایسے ہی پکارا کرتی تھیں۔ کیا میری امی کا جانا ضروری تھا؟ کیا ہمیں ماں کی ضرورت نہیں تھی اور بچوں کی طرح؟ کیا ہمارا دل نہیں کرتا کہ ہم سب بھی اپنی ماں کے ساتھ رہتے جیسے اور بچے رہتے ہیں؟

امی آپ ہم سب سے ناراض کیوں ہو گئیں؟ ہم آپ کو تنگ نہیں کرتے آپ جو کہتیں وہی کرتے۔ اے خدا تو ہمارا سب کچھ لے لے بس ہمیں ہماری ماں لوٹا دے۔۔۔نہیں چاہیے مجھے یہ کھلونے یہ سجاوٹ کے سامان۔۔۔۔مجھے میری امی چاہیے ۔۔۔۔۔آج یہ سب مل کر امی کی کمی کو پورا نہیں کر سکتے اور ہماری ایک اکیلی امی سب کی کمی پوری کر دیتی تھیں۔

سنا ہے نانی بھی امی کو بچپن میں چھوڑ کر چلی گئی تھی وہاں جہاں سے کوئی نہیں آتا۔ اس لیے امی بھی ہم سب کو چھوڑ کر چلی گئیں اپنی امی سے ملنے۔ اے خدا! کیا یہ ضروری تھا کہ نانی چلی گئی تھیں تو امی بھی چلی جاتیں؟

اے خدا! تو سب دیکھ رہا ہے۔ آخر ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔ تونے مجھ سے میرا پاپا بھی لے لیا۔ پاپا امی کی کمی کو دو سال بھی برداشت نہیں کر سکے اور وہ بھی ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے امی سے ملنے۔۔۔آخر ایسا کیوں! تو میرے اپنوں سے قبرستان سجا رہا ہے اور ہمارے گھر میں تاریکی پھیلا رہا ہے۔ اے خدا تجھے سب سے زیادہ نانی پسند تھیں تونے انہیں بھی بلا لیا پھر امی کی ماں کی کمی کو پورا کرنے والے دادا دادی کو بھی بلا لیا پھر امی کا کوئی سہارا نہیں تھا تو اسے بھی پھر پاپا کو بھی۔

اے خدا! کیا یہ ضروری تھا کہ جو میری امی کے ساتھ ہوا وہی ہم سب کے ساتھ ہو؟ لوگ امی کو یتیم کہتے تھے اب ہمیں یتیم کہتے ہیں۔
کیا یہ یتیم لفظ ہمارے لیے تاریخ بن گیا ہے جسے وقفے وقفے کے ساتھ دہرایا جا رہا ہے۔۔۔
اے خدا! تونے امی کو لے لیا۔۔۔۔ہم سہ رہے ہیں۔۔تونے پاپا کو بھی بلا لیا ہم سہ رہے ہیں۔۔۔۔ لیکن اے خدا میری ایک التجا ہے،ایک فریاد ہے یہ لفظ یتیم صرف ہم سب بہن بھائیوں پر ہی وقف کر دے۔۔۔
اے خدا اب تو کسی بچے سے اس کے والدین کو دور نہ کرنا ۔۔اے خدا تو ساری خوشیاں لے لینا لیکن ماں کو بچے سے جدا نہ کرنا۔۔

اے خدا ہم بچے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ہمیں عقل وشعور نہیں ہے ابھی کیا سمجھ آئے گا جب بڑا ہوگا تو والدین کی کمی محسوس ہوگی۔۔۔لیکن انہیں کیا پتہ بڑوں سے زیادہ بچوں کو ماں کے آغوش کی ضرورت ہوتی ہے۔باپ کے شفقت کی ضرورت ہوتی ہے۔۔بڑوں کا تو نہیں پتہ لیکن ابھی ہم سب جس طرح پاپا امی کی کمی کو محسوس کرتے ہیں وہ دنیا کی کوئی زبان بیان نہیں کر سکتی۔۔۔کوئی قلم اس محسوسات کو رقم نہیں کر سکتا ،کوئی ادیب ہماری کہانی کو رقم نہیں کر سکتا۔۔۔۔اس کے ہاتھ کانپ جائیں گے، زبان لڑکھڑا پڑیگی، قلم خاموش ہو جائے گی،ورق بھیگ جائیں گے ، آنسوؤں کے سیلاب سے۔ قصے بہت موجود ہونگے کتابوں میں لیکن ہماری کہانی سب سے جدا ہے۔

ہماری کہانی سننے والوں کے آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے ہیں۔ لوگ افسوس کرتے ہیں لیکن ہمارا دل فریاد کرتا ہے اے خدا ہمارے ساتھ جو ہوا۔ راہ بھی تو ہی دکھائے گا۔۔۔۔
لیکن اب کسی بچے سے اس کی ماں کے آغوش سے، آنچل کے سائے سے۔، اپ کے شفقت بھرے سایہ دار درخت کی چھاؤں سے کبھی دور مت کرنا۔اے خدا ہماری فریاد سن لینا اب ہمارے اندر ہمت نہیں سننے کی کہ بنا ماں باپ کا بچہ ہے۔

اے خدا! دنیا کی ساری دولت ہو جب ماں ہی نہ ہو تو کیا فائدہ۔ کھلونوں سے دل نہیں بہلتا ہے، دلاسے سے سکون نہیں ملتا ہے،
سب کے پیار سے امی کی کمی دور نہیں ہوتی ہے۔ اگر یہ سب نہ ہوتا صرف ماں ہوتی تو ساری کمی پوری ہو جاتی!

اے خدا!
روؤں،چینخوں،چلاؤں کہ فریاد کروں۔ کھیلوں کودوں کہ گوشہ نشینی اختیار کروں، اپنا دکھ درد ،حال دل سناؤں کہ خاموش رہوں۔ بس دل یہی خواہش کرتا ہے کہ زور زور سے چلاؤں ماں ماں۔۔۔اور امی دوڑتی ہوئی آئے گلے سے لگا کر کہے تم سب سے زیادہ میں تمہیں یاد کرتی تھی،خدا سے فریاد کرتی تھی کہ اے خدا! میرے بچے بھی تڑپ رہے میری یاد میں مجھ کو ان سے دور نہ کر میرے بچے بیٹھے ہیں میری آس میں۔۔۔

لیکن سب کہتے ہیں “امی” کو خدا نے اپنے پاس بلا لیا ہے۔جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ کچھ دن تو یہی آس تھی ماں واپس آئے گی۔
بھائ کہتا تھا ماں ڈاکٹر کے پاس گئی ہے ہمارے لیے کھلونے اور کپڑے لیکر آئے گی لیکن وہ بھی اب سمجھ گیا ہے۔جب میں امی امی پکار کر روتی ہوں تو کہتا ہے ” امی تو اللہ تعالیٰ کے پاس چلی گئی اب نہیں آۓ گی۔۔۔”

ماں جب رہتی ہے تو وقت بڑا بھی کر دے لیکن ماں کے نظر میں بچے ہی رہتے ہیں۔ لیکن ہمیں وقت نے عمر سے پہلے بڑا کر دیا ہے۔ اب ہم بھی سمجھنے لگے ہیں کہ امی واپس نہیں آئے گی۔۔۔پاپا نے بھی بہت پکارا تھا امی کو لیکن امی واپس نہیں آئیں۔ پھر پاپا ہم سب کو چھوڑ کر خود امی سے ملنے چلے گئے۔

یہ وقت بڑا ظالم ہے اپنوں کو چھین کر اپنوں سے دور کرکے زخم بھی دیتا ہے اور زخم پر ہاتھ رکھ کرمرحم بھی لگا دیتا ہے۔

“جو کہوں تو ختم نہ ہو سکے،جو کروں تو بیان نہ ہوسکے
سلسلہ یہ دراز کا کہیں زندگی سے دراز ہے۔۔۔۔۔۔۔”

اے خدا!
میرا ایک سوال ہے کیا تو ہم سب کے توسط سے دنیا کو کوئی پیغام دینا چاہتا ہے۔۔۔۔؟
“میرے بھانجوں کا فریاد میری تحریر کے شکل میں۔۔۔۔۔”

الحمداللہ میرے پاس ماں موجود ہے لیکن میں بارہا ماں کی کمی محسوس کرتی ہوں جب میں بچے کی تڑپ دیکھتی ہوں تو پتہ نہیں کیوں ایسا لگتا ہے کہ میری ماں نہیں ہے۔۔۔جب میں بچوں کی جگہ خود کو رکھ کر دیکھتی ہوں تو میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے اور اس میں پیاری باجی کا چہرہ دھندلا دھندلا کسی سوچوں میں گم نظر آتا ہے۔
یہ کہانی نہیں بلکہ حقیقت بیانی کو میں بارہا رقم کرنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن میں ناکام رہتی ہوں۔ میری زبان ہل نہیں پاتی، ہاتھ کانپ جاتے ہیں، اندر سے ایک صدا آتی ہے کہ یہ کوئی افسانہ نہیں جسے تو تحریری شکل دے سکے گی یہ تو خود رقم ہو گیا ہے بچوں کی زندگی کے ساتھ جسے رہتی دنیا کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔۔۔