دستِ مسیحا کی منتظر آنکھیں!

0

امی بھوک لگی ہے کھانا دے دو، نور بھوک سے بلکتے ہوئے بولی۔
بیٹا آپ کے بابا کھانا لینے گئے ہیں ابھی سو جاؤ اُٹھ کر کھا لینا!
جنت نے نور کو بہلاتے ہوئے کہا…..
کرفیو کو نافذ ہوئے آج بارہواں روز تھا۔
یہ کشمیر ہے جسے جنت نظیر کہا گیا ہے جو آج آگ کے آلاو میں جل رہا ہے۔

جنت کا شوہر عبدالحق مزدوری کرتا تھا دن بھر جو کماتا اس سے اپنے بچوں کا پیٹ بھرتا۔ ویسے تو دونوں تنگی میں بھی اللّٰہ کا شکر ادا کرتے تھے مگر آئے روز کے کرفیو نے بھرم کا پردہ چاک کر دیا تھا۔ ساتھ ہی جان کا خوف سکون کا سانس نہیں لینے دیتا تھا۔
ساتھ والے گھر سے رونے کی آوازوں نے جنت کو بے چین کر دیا۔ بھارتی فوجیوں نے گھر میں گھس کر موسیٰ کو بےدردی سے شہید کردیا جو اپنے والدین کا اکلوتا سہارا تھا۔
والدین کی آہ و بقا نے وادی میں قیامتِ صغریٰ کا سماں باندھ دیا جو بے بسی میں کہ رہے تھے :

“اے اللّٰہ! تیرے پیارے نبی کا فرمان ہے کہ
تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہ کیسے مسلمان بھائی ہیں جن کے بھائی بے دردی سے شہید کیے جا رہے ہیں ، لیکن کوئی مدد کو نہیں آتا”
جنت نے اپنے آنسو پونچتے ہوئے سوچا!
شام کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے لیکن عبدالحق کچھ پتا نا تھا۔ جنت کا پریشانی سے بُرا حال تھا۔
نور بھوک سے نڈھال تھی۔ آج تیسرا دن تھا گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔
دو دن تو بکری کے دودھ سے گزارا کیا لیکن کب تک؟بکری بھی بھوک سے نڈھال تھی۔
کرفیو کی وجہ سے گھر سے نکلنا تک محال تھا۔
عبدالحق چوری چھپے گھر سے نکلتا ہے کہ شائد کھانے کا کچھ بندوبست ہو جائے!
یہاں تک کہ انتظار کرتے کرتے رات کا اندھیرا آسمان پر چھا گیا۔ اب تو سہی معنوں میں جنت کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
بھارتی فوجیوں کے کیمپ سے آنے والی درد ناک چینخیں دلوں کو دہلا رہی تھیں۔
ہاں.. اب بتاؤ چاہیے آزادی؟؟

بھارتی فوجی نے عبدالحق کو الیکٹرک کرنٹ کا جھٹکا دیا۔
سالے آزادی مانگتے ہیں عبرت کا نشان بنا دوں گا سب کو، فوجی نے نشے سے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں کہا۔
لیکن اس لمحے بھی عبدالحق کے ذہن میں یہی خیال تھا کہ اس کی بیٹی بھوکی ہے۔
مار دو سالے کو تاکہ آئندہ کوئی آزادی کا نام نہ لے سکے۔ افسر نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
اِدھر گولی چلی اُدھر عبدالحق نے کلمہ شہادت بلند کیا اور اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔
امی اب تو کھانا دے دو نا۔ دیکھو! اب تو میں نے نیند بھی پوری کرلی
نور نے نقاہت زدہ آواز میں کہا۔
جنت کا پریشانی سے بُرا حال تھا۔

ادھر بھوک کی وجہ سے نور پر نیم غشی طاری ہو گئی۔ آخر کار نور کو بہلاتے بہلاتے صبح ہو گئی۔
صبح کیا آئی, اپنے ساتھ عبد الحق کی شہادت کی خبر لائی۔
وادی میں کہرام مچ گیا۔ جنت تو اپنے ہوش وحواس میں ہی نہ رہی۔
گاؤں کے لوگوں نے عبدالحق کی تدفین کی۔ جنازے کے بعد احتجاجی مظاہرہ رکھا گیا۔ سبھی کے لبوں پر یہی بات تھی کہ
عبدالحق نے تو اپنی جان دے کر شہادت جیسا رُتبہ پالیا لیکن ظُلم و ستم کا یہ سلسلہ آخر کب تک؟؟
اے اللّٰہ!! ہر فرعون کے دور میں تو نے موسیٰ بھیجا تو اب کافروں کو اتنی مہلت کیوں؟؟
اے اللہ ہماری مدد فرما۔
بھوک، پیاس اور جارہیت کے بعد کشمیری اب بھی پُرعزم ہیں کیوں کہ مسلمان شہادت کو عظیم رتبہ سمجھتے ہیں۔ ان کے عظائم کے آگے بھارتی فوجی ناکام و نامراد ہو کر کشمیر سے نکلیں گے۔ انشاءاللہ

کشمیر آزاد ہو گا اور ضرور ہو گا۔
پھر کوئی بُرحان وانی اُٹھے گا۔
کلمہ ِحق بلند کرے گا اور کشمیر کو کافروں کے شکنجے سے آزاد کروائے گا۔؟
ہاں ضرور انشااللّٰہ🤲