دل کی بات

0

مائرہ ایک گاوں میں رہنے والی زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی وہ پڑھائی کے سلسے میں گاوں سے لاہور گی اس کہ والدین روائتی زمیندار خاندانوں کی طرح اقدار اور مذہبی رجحانات کا خیال رکھنے والے تھے ۔ اور ہاسٹل کی بجائے لاہور میں گھر لے کر دیا جس میں مائرہ اور اس کے بھائی رہتے تھے۔ مائرہ نے سائیکالوجی کے ڈیپارٹمنٹ میں اپنا داخلہ کرا جوکہ گاوں کے قریب والے شہر کی یونی ورسٹی سے ٹرانسفر تھا جو کہ لاہور کی نامور پرائیویٹ یونی ورسٹی تھی ۔ لاہور میں اس یونی ورسٹی کے بلڈنگ اور رونق اور ماڈرن ہونے کے بہت سے چرچے تھے۔

مائرہ کو یونیورسٹی کے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے میں شروع میں کافی مشکل پیش آئیں۔ شروع میں اس کا دل بہت زیادہ نہیں لگتا تھا۔ چند لڑکیوں کے ساتھ اس کا بول چال تھا جوکہ روائتی چال ڈھال والی تھیں چند مہینوں کے بعد وہ یونیورسٹی کے ماحول میں ایڈجسٹ ہو گی ۔ اس نے گاوں کے اور لاہور کے ماحول کے مابین فرق کو قبول کرنا شروع کر دیا کیونکہ دونوں ماحول میں لباس کا تو فرق تھا لیکن لوگوں کی اکثریت روائتی سوچ والی تھی ۔یونیورسٹی کے ہر سمیسٹر میں اس نے نوٹ کیا کہ اس نے خود میں مثبت بدلاو محسوس کیا وہ لوگوں پر ججمنٹ نہیں دیتی تھی بلکہ ہر کسی کے مختلف نظریات، احساسات ، سوچ ، سوچ اور روایات کو قبول کرنا شروع کر دیا۔

وہ بڑے اچھے مزاج والی اور دوسروں کی مدد کرنے والی لڑکی تھی۔ اس کا یونیورسٹی میں چھٹا سمیسڑ تھا۔ اور مضمون کی کلاس کا پہلا دن تھا ۔ ایک فی میل ٹیچر جو اس کو سب سے مختلف لگی ۔ اس نے تعارف لیتے ہوئے سب کا نام پوچھا مائرہ نے بھی اپنا تعارف کروایا۔ ٹیچر کے چہرے پر مسلسل مسکراہٹ تھی جس کو دیکھ کر مائرہ بہت متاثر ہوئی کہ واقعی یہ ٹیچر س قدر خوبیوں کا مجموعہ ہے جس کے چہرے پر تمام وقت مسکراہٹ رہتی ہے۔

روز کی کلاس میں مائرہ لیکچر سے زیادہ اس ٹیچر کے انداز بیان اور اس کی شخصیت پر غور کرنے لگی اسکو وہ بہت بجلی اور خوش مزاج لگی ۔ کیونکہ وہ اکثر مزاج کے لہجے میں بات کرتی تھی ۔ مائرہ کو وہ مخاطب کرتی تھیں ۔ لیکن وہ خاموش طبع ہونے کی وجہ سے زیادہ تر خاموش رہتی تھی ۔ ٹیچر نے ایک دو بار اس کا ڈسپلن کا خیال رکھنے کی کافی تعریف کی اس کہ چند دنوں بعد مڈ کا امتحان ہوا اور اس کہ بعد مائرہ کو محسوس نے کیا ۔ ٹیچر اپنی تعریف اور ذاتی مثالیں کافی دیتی تھی ۔ اور مائرہ نے محسوس کیا کہ وہ تھوڑی سی خود پسند محسوس ہوئی۔ لیکن مائرہ کہ دل میں اس کی کافی عزت تھی اور اس کی تمام باتیں بڑے غور سے سنتی تھی۔ وہ سٹوڈنٹس کے ساتھ کافی گھل مل جاتی تھی۔

سمیسٹر کے بعد گروپ میں رزلٹ شئیر کرتے ہوئے کلاس کی CR نے کافی افسوس کا اظہار کیا کہ ٹیچر نے کافی گندے مارکس دیئے ہیں اور کہنے پر کافی ڈانٹا کہ آپ کی پر فارمنس کے ہی نمبر ہیں۔ جس پر گروپ میں تمام کلاس فیلو ز نے کافی برے کمنٹس دیئے کہ یہ بوڑھی ہو گی ہے اور تمام رنجش ہم پر نکال رہی ہے لیکن مائرہ خاموش رہی کیونکہ اس کے دل میں اس کا بہت احترام تھا۔ اس کی تربیت بھی ایک اچھے گھرانے میں ہوئی ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ خاموش رہی۔

اس کے بعد سمرز کی بریک میں وہ آفس گی اور ٹیچر سے السلام کیا اس نے چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ اس کا جواب دیا ۔ اور مائرہ نے اس کو چاکلیٹ دی۔ ٹیچر نے رکھ لی اور اگلے سمیسٹر میں وہی ٹیچر نے اگلا سبجیکٹ لیا ۔ تو وہ ٹیچر نے پورا سمیسٹر پڑھایا۔ اس کے بعد آخری سمیسٹر تھا اور مائرہ نے کچھ گفٹ خریدے اور ٹیچر کہ دفتر میں ایک نوٹ لکھ کر ساتھ میں وہ گفٹ رکھ دیے جبکہ ٹیچر دفتر میں موجود نہ تھیں اس کے بعد شام میں جاتے ہوئے ٹیچر نے مائرہ کو آواز دی اس نے مڑ کر دیکھا کہ آواز کہاں سے آرہی ہے پھر اسے پتہ چلا کہ گاڑی سے آواز آئی ہے وہ گاڑی کہ قریب ہوئیں تو اس کی ٹیچر گاڑی میں تھیں۔

ٹیچر نے مسکراتے ہوئے بولا کہ یہ دیکھو آپ کی دی ہوئی چیزیں میرے ساتھ جا رہی ہیں اور ساتھ ہی بولا کہ اگلے دن مجھے آپ آفس میں ملنا جیسے ہی اس نے یہ الفاظ بولے تو ان الفاظ کہ ساتھ ہی اس کا رویہ تھوڑا مائرہ کو سخت محسوس ہوا ۔ پھر چند ایک باتیں کرنے کہ بعد ٹیچر نے مائرہ کو جانے کا بولا ۔ لیکن مائرہ ایک تجسس میں اس ٹیچر کی کار پارکنگ میں دیکھتی تھی اس کا دو سے چار دن پتہ کرنے پر گارڈ نے نوٹ کیا اور اس ٹیچر کو بتا دیا۔

ٹیچر نے مائرہ کو اپنے آفس میں بلا کر بے عزت کیا اور اس کی دی ہوئی عزت کی بے قدری کرتے ہوئے اس کو بولا کہ تم میرا پتہ کیوں کرتی ہو۔ جس پر مائرہ کو بے حد افسوس ہوا اور مائرہ نے یہ کہہ کر اس کا دفتر چھوڑ دیا کی میں اس سے زیادہ نہیں گر سکتی۔ اپنی نظر میں اس کا جھوٹا مسکراتا چہرہ اور اصل چہرہ اب مائرہ کہ سامنے تھا ۔ اور اس کو معلوم ہوا کہ دنیا میں کیسے کیسے لوگ موجود ہیں۔

تحریر فاطمہ وٹو