ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

0
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا
جمالِ یار نے منھ اس کا خوب لال کیا
غضب آنکھیں ، ستم ابرو ، عجب منہ کی صفائی ہے
خدا نے اپنے ہاتھوں سے تری صورت بنائی ہے
ہوگا کسی دیوار کے سایہ میں میرؔ
کیا کام محبت سے اُس آرام طلب کو
دلِ پر خوں کی اک گلابی سے
عمر بھر ہم رہے شرابی سے