ناول فسانہ آزاد کا خلاصہ | Novel Fasana e Azad Summary

0

ناول : فسانہ آزاد

مصنف : پنڈت رتن ناتھ سرشار

فسانہ آزاد  ایک اردو ناول ہے جو کئی برس پہلے لکھنؤ کے ایک اخبار میں شائع ہوا تھا۔ یہ ایک قسط وار ناول تھا اور اپنے وقت کا مقبول ترین ناول تھا، جو اردو کے ایک بہترین ادیب پنڈت رتن ناتھ سرشار لکھا کرتے تھے۔ یہ ناول ایک سال تک شائع ہوتا رہا اور ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ بعد میں اس ناول کو کتابی شکل دی گئی۔

فسانہ آزاد  کے اہم کردار میاں آزاد ہیں جو کے ایک عالم فاضل شخص ہیں۔ ہر مضمون میں ان کی معلومات حیران کن تھی۔ وہ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت طاقت ور بھی تھے، بڑے بڑے پہلوان بھی ان سے ڈرتے تھے۔ شہسوار ، تیراکی، شاعری  کیا چیز تھی جو وہ نہیں کرسکتے تھے۔ آسان لفظوں میں کہا جائے تو وہ ہر فن مولا شخص تھے۔

اس ناول کا دوسرا اہم شخص خوجی ہے جو اصل میں اس کہانی کا دلچسپ کردار ہے۔ پتلے دبلے کمزور آدمی، افہیم کے رسیا اتنے کے اگر ایک دن افہیم نہ ملے تو  ان کی جان نکلنے لگتی تھی۔ یوں تو وہ کمزور تھے،  ان میں کسی سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں تھی مگر ہر کسی سے لڑتے رہتے تھے، مار کھا لیتے مگر باز نہیں آتے۔ خوجی اور میاں آزاد کی ملاقات ایک نواب کے یہاں ہوتی ہے پھر وہ دونوں دوست بن جاتے ہیں۔ کسی شہر کی ایک خوبصورت اور پڑھی لکھی لڑکی سے آزاد میاں کی ملاقات ہوتی ہے۔ آزاد اس کو شادی کا پیغام دیتے ہیں مگر وہ شرط رکھتی ہے کہ ترکی جاؤ اور ترکوں کے ساتھ مل کر روس کے خلاف جہاد کرو اگر تم فاتح ٹھہرے تو ہم شادی کر لیں گے۔ آزاد اس شرط کو سنتے ہی خوجی کے ترکی روانہ ہوجاتے ہیں۔ فسانہ آزاد دراصل اس سفر میں پیش حالات و واقعات کی داستان ہے۔

سفر کے دوران ہی وہ ایک شخص سے چھوٹے عامل کا قصہ سن کر اس کو دیکھنے جمل دی پور چلے جاتے ہیں۔ وہاں عامل مجموعے میں اپنی طاقت کی شیخیاں بھگار رہا ہوتا ہے۔ ایک ہاتھ مار کر پہلوان کو پلٹ ڈالتا ہے اور اکڑ کر کہتا ہے : ”ہے کوئی جو آزمائے زور۔“ یہ سن کر آزاد میاں لنگوٹ کس کر میدان میں اتر جاتے ہیں اور چٹ سے قلانچ مار کر عامل کو چاروں شانے چت کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں ”بتا کاٹ لو ناک، کتر لوں کان۔“

یہ منظر دیکھ کر گاؤں والوں کے سامنے عامل کے بجائے آزاد میاں کی واہ واہ ہوجاتی ہے۔ عامل کو چت کرنے کے بعد آزاد میاں پھر سے شہر گھومنے لگتے ہیں کہ ان کا ٹکراؤ ایک بانکا سے ہوجاتا ہے۔ اس بانکے کو اپنے بانکا ہونے پر بہت مان ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے کوئی بھی صندلی سوٹ نہیں پہن سکتا تھا لیکن آزاد میاں اگلے ہی دن صندلی سوٹ اور ٹوپی پہنے بازار میں تشریف لے آتے ہیں۔ یہ بات جوں ہی بانکے کو پتہ لگتی ہے وہ چلا آتا ہے اور کہتا ہے :  ”اتار صندلی ٹوپی گستاخ۔“ یہ سنتے ہی آزاد میاں اس بانکے کے سر سے ہی ٹوپی اتار کر اسے رہگزر درزی کی ٹوپی پہنا دیتے ہیں۔ یہ دیکھ کر لوگوں کی گھگھیاں بندھ جاتی ہیں۔

ایک دن آزاد منادی کرواتے ہیں کہ صبح میں اپنے فن کے کرتب دیکھاؤں گا اور لوگوں کو طرح طرح کے کرتب دیکھاتے ہیں۔ یوں نواب صاحب کے دربار میں بیٹھے ایک مصاحب نے کہا ”ایک عالم شہر سے آیا ہے۔ کہتا ہے ساری کتابیں چاٹ گیا ہوں، سچ کو جھوٹ کرسکتا ہوں۔ مگر وہ خدا کو نہیں مانتا، پکا ملحد اور منکر ہے۔“ آزاد میاں کے دل میں مصاحب کی بات سن کر عالم سے ملنے کا خیال  پیدا ہوتا ہے، نواب صاحب عالم کو دربار میں بلواتے ہیں۔ عالم اور آزاد میاں آمنے سامنے آجاتے ہیں۔

عالم کہتا ہے میرے تین سوالوں کے جواب دے کر مجھے مطمئن کرو۔ پہلا سوال ہے اگر خدا ہے تو ہمیں نظر کیوں نہیں آتا ؟ دوسرا سوال یہ کہ شیطان کو آگ سے بنایا گیا ہے اور اسے دوزخ میں جلایا جائے گا۔ واہ واہ بھلا آگ کی بنی چیز کو آگ کا کیا ڈر؟ اس سزا کا اس کو کیا خوف؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ جو کرتا ہے اللہ کرتا ہے پھر انسان کا کیا قصور؟ عالم کے مشکل ترین سوال سن کر چاروں جانب سناٹا چھا جاتا ہے۔ آزاد میاں اس کے سوال سن کر ایک مٹی کا ڈھیلا کھینچ کر اس منکر کی کھوپڑی پر مارتے ہیں۔ عالم چلاتے ہوئے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے تجھے سوالوں کے جواب نہیں آتے تو تُو مارنے پر اتر آیا ہے۔

نواب صاحب بھی آزاد سے اس حرکت کی وجہ دریافت کرتے ہیں۔ آزاد میاں کہتے ہیں میں نے تو تینوں سوالوں کا جواب دیا ہے۔ اگر یہ قدردان ہوتا تو مجھے گلے سے لگا لیتا۔ اس کا پہلا سوال تھا کہ خدا ہے تو ہمیں نظر کیوں نہیں آتا؟ اس بات کا جواب یہ ہے کہ اگر اس ڈھیلے سے ان کو چوٹ لگی تو چوٹ ہمیں نظر کیوں نہیں آرہی؟
اس نے کہا کہ شیطان کو دوزخ میں جلانا بےکار ہے، کیونکہ وہ خود آگ کا بنا ہوا ہے۔ تو میرا جواب یہ ہے کہ یہ بھی تو مٹی کا بنا ہوا ہے، اس کی کھوپڑی بھی مٹی کی بنی ہوئی ہے پھر یہ مٹی کا ڈھیلا لگنے پر کیوں بھنا گیا؟ پھر اس کا تیسرا سوال تھا کہ جو کرتا ہے اللہ کرتا ہے تو انسان قصور وار کیسے ہوا؟ پھر اسے ڈھیلا مارنے کا قصور وار مجھے کیوں ٹہرایا جارہا ہے؟ آزاد کے جواب سن کر سب دنگ رہ جاتے ہیں اور ان کی واہ واہ ہوتی ہے۔

آزاد دورانِ سفر بیمار پڑجاتے ہیں۔ بہت کوششوں کے بعد حالت بہتر ہونے پر دوبارہ سفر شروع کرتے ہیں اور لکھنؤ جا پہنچتے ہیں۔ لکھنؤ میں آزاد کا نواب صاحب کے دربار میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ روز ہی الگ الگ موضوعات پر بحث کی جاتی ہے۔ آزاد خوجی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے بڑا لطف حاصل کرتے ہیں اور سفر کرتے کرتے ہر جگہ اپنے کارناموں کی فہرست میں اضافہ کرتے جاتے ہیں۔ آخر کار وہ سمندر کے راستے ترکی کے سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ ان کے ساتھ خوجی بھی سفر کا ارادہ رکھتا ہے لیکن پانی دیکھ کر گھبرا جاتا ہے اور سفر کرنے سے انکار کردیتا ہے۔

آزاد میاں خوجی کی حماقتوں سے ذرا گھبرائے ہوئے ہوتے ہیں لیکن مرزا صاحب کے ساتھ مل کر سوچتے ہیں کہ خوجی کو افہیم پلا کر بے ہوش کردیتے ہیں اور چارپائی پر ڈال کر جہاز میں لے جاتے ہیں۔ اسی طریقے پر عمل کر کے خوجی کو بھی جہاز میں سوار کردیا جاتا ہے۔ دورانِ سفر کپتان کی جانب سے آندھی آنے کی اطلاع ملتی ہے۔ خبر سنتے ہیں ہر طرف شور و غل مچ جاتا ہے۔ آندھی کا زور دیکھ کر مسافروں کو حفاظتی کشتیوں میں سوار کیا جاتا ہے۔ آزاد اپنی بہادری اور شجاعت سے لوگوں کو کشتیوں میں سوار کرتے ہیں۔

ان لوگوں کو قریب ہی ایک جزیرہ نظر آتا ہے جہاں لوگ مشعلیں روشن کئے کھڑے ہوتے ہیں تاکہ مسافروں کو جزیرے کی خبر مل سکے۔ آزاد سب کی ہمت بندھاتے ہیں اور کہتے ہیں طوفان کی زد میں بڑے بڑے پہاڑ آجاتے ہیں لیکن گھاس ہمیشہ بچ جاتی ہے۔ آندھی کے سامنے جہاز کھڑا نہ رہ سکا لیکن یہ کشتیاں بچ جائیں گی۔ غرض بہت سی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد کشتیاں جزیرے تک پہنچ جاتی ہیں اور وہاں کے لوگ اپنی حیثیت کے مطابق ان مسافروں کو خیر مقدم کہتے ہیں۔

                        اگلی صبح آزاد میاں وہاں سے روانہ ہو کر قسطنطنیہ پہنچتے ہیں۔ وہاں آزاد کو وزیرِ جنگ کے دوست کی بیٹی مئیڈا ملتی ہے جو انہیں شادی کا پیغام دیتی ہے۔ آزاد اسے انکار کرتے ہیں تو وزیرِ جنگ کو یہ کہہ کر کہ آزاد روس والوں کے جاسوس ہیں، آزاد کے خلاف کردیتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ آزاد کو قید بھی کروادیتی ہے۔ کئی ماہ قید میں رہنے کے بعد ان کے حوالے سے تحقیقات کی جاتی ہے تو سب جو علم ہوتا ہے کہ آزاد میاں بےقصور ہیں۔ مئیڈا کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور وہ اپنے ضمیر کی آواز سن کر آزاد صاحب سے معافی مانگ لیتی ہے۔

کئی ماہ کی قید کے بعد آزاد میاں کو رہائی نصیب ہوتی ہے اور وہ ترکی کے رجمنٹ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے رجمنٹ کے ساتھ مختلف مقامات پر پڑاؤ ڈالتے ہیں۔ مقابلہ سخت ہوتا جاتا ہے کہ ایک روز روسی دھوکے سے دونوں جانب سے حملہ کردیتے ہیں لیکن ترکیوں کے سامنے ٹِک نہیں پاتے اور انھیں میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے۔ بلآخر آزاد میاں اس لڑکی حسن آرا کو تار کے ذریعے فتح یابی کی خبر سناتے ہیں۔

                            جنگ جیتنے کے بعد آزاد ہندوستان لوٹ جاتے ہیں۔ مس کلئریسا اور مئیڈا بھی ان کے ساتھ ہندوستان آتی ہیں اور انھیں یہاں کے سادہ لوگ اس قدر پسند آتے ہیں کہ وہ اپنی پوری زندگی یہاں کی ان پڑھ عورتوں کو تعلیم دینے کے لیے وقف کردیتی ہیں۔ آزاد میاں حسن آراء کی شرط پوری کرچکے ہوتے ہیں اس لیے ان دونوں کی دھوم دھام سے شادی ہوجاتی ہے۔

از تحریر ہادی خان (پاکستان)