طلاق شدہ لڑکی (ناولٹ)

0

فجر کی اذان کے ساتھ ایک نئے دن کا آغاز ہو رہا تھا اور سلمان آج بھی ہمیشہ کی طرح تھکاوٹ کی وجہ سے محوِ خواب تھا۔

سلمان…….سلمان……!!

پاس آتی آواز نے اچانک اس کی نیند میں خلل پیدا کیا
یہ آواز اس انسان کی تھی جس کی آواز سننے کے لیے وہ اپنا سب کچھ نچھاور کر سکتا تھا

یہ آواز مریم کی تھی…..!!
جس سے وہ بے انتہا محبت کرتا تھا۔
وہ بیوی کے روپ میں اس کے لیے کل کائنات تھی مریم کے آنے سے اس کی زندگی مکمل ہو گئی تھی. ماں کے بعد اگر کوئی سلمان کی محبت کی حکمراں تھی تو وہ بیشک مریم ہی تھی۔

ارے آپ ابھی تک اُٹھے نہیں…!!
فجر کی اذان ہو رہی ہے آپ کو نماز نہیں پڑھنی…؟؟
مریم کے لہجے میں حیرانگی تھی..
کیوں کے روز تو وہ خود اسے نماز کے لئے جگاتا تھا اور آج معاملہ اُلٹ تھا۔

سلمان آنکھ مسلتا ہوا اٹھا اور اس نے مریم سے کہا آپ چلئے میں وضو کر کے آتا ہوں

مریم نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا میں کروا دیتی ہوں آپ کو وضو……….

سلمان کے لاکھ منع کرنے کے باوجود مریم نہیں مانی اور پانی سے اپنی زندگی کے سب سے قیمتی تحفے کو پاک کرنے لگی اس نے بہت ہی پیار سے سلمان کو وضو کروایا اور جائے نماز بچھاکر اپنے سرتاج کی قیادت میں نماز ادا کرنے لگی
یہ اس کی زندگی کی وہ نماز تھی جو خود رب نے اسے تحفے میں بخشی تھی۔

بےلوث محبت کرنے والا شوہر اور اس کے ساتھ نماز کی شکل میں اپنے اس رب کا شکرانا تھا جس نے اسے سلمان جیسے سے بے انتہا محبت اور عزت کرنے والا شوہر بخشا تھا

ایک سکوت سے بھری ہوئے صبح, جائے نماز, فجر کی نماز اور رب سے کلام یہ سلمان کے لیے زندگی کے سب سے بہترین لمحوں میں سے ایک لمحہ تھا.

نماز کے اختتام پر دونوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور رب سے اپنے بہتر مستقبل کے لئے دعائیں کرنے لگے
جیسے ہی سلمان نے اپنے ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرا…
مریم نے تجسّس بھرے انداز میں سوال کیا…

کیا مانگا آپ نے اپنی دعاؤں میں…؟؟؟ مجھے….؟؟؟
سوال پوچھتے ہی ہلکی سی مگر شرم سے لبریز مسکراہٹ نے اسے آگھیرا تھا.

وہ تو پہلے ہی اس کی ہوچکی تھی نکاح کے بعد سلمان کی بےلوث محبت کی اکلوتی وارث
پر عورت کا یہ المیہ ہے کہ وہ اظہار چاہتی ہے.
مریم کے سوال نے سلمان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھیر دی تھی
اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
مریم مانگی وہ چیز جاتی ہے جو لاحاصل ہوں آپ تو میری زندگی گا شامل حال ہیں
میری زندگی کا وہ اثاثہ جسے میں کبھی کھونا نہیں چاہوں گا آپ مجھے کبھی تنہا تو نہیں چھوڑیں گی نا…..

بالکل بھی نہیں
مرنے کے بعد بھی نہیں
ابھی سے آپ مجھ سے پیچھا چھڑانے میں لگے ہیں
مریم نے مزاحیہ انداز میں جواب دیا.
اور دونوں کچھ دیر تک یوں ہی مسکراتے رہے.

_________________

سلمان……!!
کہاں ہو بیٹا تم…..؟؟؟
کچن سے نکلتی ماں کی آواز کو اس کے لَختِ جگر کی تلاش تھی….سلمان اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا….اسکے والد کے انتقال کے بعد پورے گھر میں بس تین فرد ہی رہ گئے تھے.
ماں کی آواز سنتے ہی سلمان کو جیسے ایک دھچکا سا لگا…..
ایک ہی لمحے میں وہ سارے پل جو وہ ابھی اپنی مریم کے ساتھ گزار رہا تھا اس طرح بکھر گئے جیسے کسی کے ہاتھ میں بہت ہی قیمتی شیشے کا گلاس ہو اور اچانک کسی دھکے سے گر کر چکنا چور ہو جائے…

بیٹا کب تک اپنی زندگی اسی طرح عذاب میں گزارتے رہو گے…؟؟ تم صرف پچسس سال کے ہو پوری زندگی تمہارے استقبال میں کھڑی ہے..
اور تم ابھی تک مریم کے غم سے نہیں نکل پائے ہو…مجھ سے اب تمہاری یہ حالت نہیں دیکھی جاتی….
اپنا نہ سہی بیٹا کم از کم اپنی ماں کا تو کچھ خیال کر لو….
سلمان کی ماں کے لہجے میں فکر و غم نمایا طور پر جھلک رہے تھے

مگر سلمان شاید مریم کی جگہ کسی اور کو کبھی نہیں دیکھ سکتا تھا
ایک طرف مریم کی محبت اور اس کی یادیں تھیں اور ایک طرف ماں کی ممتا اور اس کا پیار…
وہ اپنی ماں کو بھی اس حال میں نہیں دیکھ سکتا تھا
اج وہ زندگی کے ایک ایسے مرحلے پر تھا تھا جہاں سے وہ نہ ہی آگے جاسکتا تھا اور نہ ہی پیچھے کو قدم اٹھا سکتا تھا…
ایسی حالت میں اس نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا اور خاموشی سے وہاں سے اٹھ کر چلا گیا..

روز کی طرح آج بھی وہ آفس کے لئے نکل رہا تھا……مریم کی وفات نے اُسے ہر چیز سے بیگانہ کر دیا تھا…..وہ ہر وقت اپنی الگ ہی دنیا میں کھویا رہتا….
ابھی کچھ ماہ ہی تو گزرے تھے جب وہ اپنی جان سے عزیز مریم کو دلہن بنا کر گھر لایا تھا…کتنے سپنے تھے جو اس کی ان آنکھوں نے دیکھ رکھے تھے….جو اب کسی کو بھی دیکھنا پسند نہیں کرتی تھی…

ناشتے کے ٹیبل پر اسکی ماں اور بہن دونوں اس کا انتظار کر رہے تھے..
مگر وہ تو اپنی ہی دھن میں وہاں سے گزرتا چلا جا رہا تھا…

بیٹا ناشتہ تو کرتے جاؤ….
میں نے تمہارے پسند کی چیزیں بنائی ہیں ساری….
التجائیہ لہجے میں اس کی ماں نے اسے خود کی طرف متوجہ کروایا تھا.

مجھے ابھی بھوک نہی ہے….
ایسا کریں آپ دونوں کھا لیں…
میں آفس میں ہی کھا لوں گا کچھ….
سلمان نے فوراً جواب دیتے ہوئے دروازے کا رُخ کیا اور سلام کرتا ہوا وہاں سے نکل گیا…

آخر کیا ہو گیا ہے امّی بھائی کو…؟؟
وہ تو ایسے بلکل بھی نہیں تھے پہلے…؟؟
انعم نے بہت ہی حیرانگی بھرے انداز میں یہ سوال کیا تھا…

دیوانہ ہو گیا ہے تمہارا بھائی..وہ بھی اس لڑکی کے لئے جو اس دنیا کو اور ہم سب کو چھوڑ کے جا چکی ہے….
ماں ماتھا پیٹتے ہوئے انعم کی باتوں کا جواب دیا تھا…

وہ مزید اپنی ماں کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی…ہاں مگر اسکے بھائی کا رؤیہ اسے خل بھی بہت رہا تھا…مگر وہ کچھ اور کہتی تو یقیناً اس کی امّی کے آنکھو ں سے آنسوں بہنے شروع ہو جاتے….

ناشتہ ٹھنڈا ہو جائے گا….چلیں بسم اللہ کرتے ہیں…
اس نے بات گھماتے ہوئے کہا….

————————————-

ابھی وہ دونوں ٹیبل سے اٹھی ہی تھیں کے اچانک ڈور بیل کی آواز نے انہیں اپنی جانب متوجہ کروایا….
اس وقت کون آیا ہوگا….؟؟
ماں نے تجسس بھرے انداز میں کہا

میں دیکھ آتی ہوں…انعم نے کہا

اسنے جیسے ہی دروازہ کھولا….سامنے انکی پڑوسن راشدہ جلوہ افروز تھیں..

اسلام علیکم خالہ….کہے کیسے آنا ہوا؟؟
انعم نے سوال کیا.

وہ انعم بیٹی بس کچھ عدد ٹماٹر کی حاجت تھی…تو سوچا ایک بار یہاں بھی دیکھ لوں…اب پڑوسی ہی پڑوسی کے کام آئے گا نا…؟؟ اور تم سب تو پھر اپنے ہو ہمارے…
سامنے کھڑی پڑوسن نے آنے کا مقصد ظاہر کیا تھا….
جب کے چیزیں مانگنا تو صرف بہانا ہوتا تھا انہے تو بس یہاں وہاں کی باتیں کرنی ہوتی تھیں…

کون ہے انعم…؟؟ ماں نے سوال کیا..

راشدہ آنٹی ہیں…انعم نے جواب دیا

اندر بلا لو انہے…

اسلام علیکم باجی….
اندر داخل ہوتے ہوئے راشدہ نے سلام کیا

وعلیکم السلام..!!
بیٹھو راشدہ….کہو کیا حال ہیں…؟؟ کیسے آنا ہوا..

یہاں سے گزر رہی تھی تو سوچا آپ سے ملتی چلوں…… خیٔر خیٔریت بھی لے لونگی…راشدہ نے چالکی سے جواب دیا.

اچھا کیا آگئی…میں بھی کچھ باتیں کر لوں گی…اکیلی سی ہو گئی ہوں اتنے بڑے گھر میں…

تو اپنے سلمان کی دوسری شادی کیوں نہیں کروا دیتی…؟؟ میں تو کب سے کہہ رہی ہوں جو ہوا وہ اللہ کی مرضی تھی کب تک تم سب مریم کا غم لیکر بیٹھے رہو گے….راشدہ نے آج بھی وہی بات دہرائی تھی جو وہ ہمیشہ سے کہتی آئی تھی.
راشدہ کی نظر بہت پہلے سے ہی سلمان اور اس کے عالیشان گھر پہ تھی…جو سلمان کے ابّو کے انتقال کے بعد اب اس کی وراثت میں تھا….وہ تو بہت پہلے سے ہی سلمان کی شادی اپنی بہٹی رفعت سے کروانا چاہتی تھی……..

میں کیسے سمجھاؤں اسے راشدہ…؟؟
میں تو اسے بول بول کر تھک گئی ہوں…
بیٹا کب تک اپنی زندگی برباد کرتے رہے گے…؟؟
دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتے..؟؟
مگر وہ میری سنے تب نا….!!
سلمان کی ماں نے پریشانی ظاہر کرتے ہوئے راشدہ کو سارا احوال سنا دیا..

ایسے کیسے نہی مانتا وہ آپ کی بات باجی…؟؟
آپ تو ماں ہیں اسکی…!!
راشدہ نے حیرانگی سے پوچھا….

میں تو ہر روز ہی اسے کہتی ہوں پر وہ تو دوسرے نکاح کی بات پر جیسے انجان سا بن جاتا ہے….
ماں نے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے راشدہ کو بتایا تھا..

ایسے کیسے نہی سنتا….؟؟
میرا بھی بیٹا ہے مجھ سے اجازت طلب کئے بنا وہ سانس بھی نہی لیتا….!!
راشدہ نے شیخی بگھاڑتے ہوئے کہا.

ٹھیک ہے آج ایک بار پھر قسمت آزما کے دیکھتی ہوں…
وہ آفس سے آ جائے پھر بات کرتی ہوں اس کے ساتھ…
سلمان کی ماں نے آہ بھرتے ہوئے کہا

ٹھیک ہے باجی تو میں کل آتی ہوں…
مجھے بتانا آپ کے آپ کامیاب ہو پائی یہ نہیں…
راشدہ یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی..

رفعت سے کہنا خالا نے یاد کیا ہے…سلمان کی ماں نے راشدہ کو رخصت کرتے ہوئے کہا..

جی انشاءاللہ ضرور….راشدہ نے کہا اور وہ وہاں سے چلی گئیں…

آج پھر وہ آفس سے لیٹ گھر پہنچا تھا….ایسا نہیں تھا کے وہ آفس میں اؤر ٹائم کرتا تھا…آفس سے نکلنے کے بعد وہ کہا جاتا تھا…کیا کرتا تھا…یے تو بس خدا اور خود سلمان ہی جانتے تھے….!!

آؤ بیٹا آ گئے تم…کہاں اتنا وقت لگا دیتے ہو..؟؟
ہم دونوں کب سے تمہارا انتظار کر رہے تھے..
مجھے تم سے کچھ بات بھی کرنی ہے….
ماں نے تفکّرانہ لہجے میں بیٹے کو مخاطب کیا تھا.

جی میں سُن رہا ہوں….
سلمان نے جوتے سائیڈ میں رکھتے ہوئے بہت ہی بے پروا انداز میں جواب دیا .

یہاں آؤ میرے پاس بیٹھو پہلے…..
ماں نے اُسے خود کے پاس بیٹھنے کا اشارہ دیا.

جی کہہ کیا کہنا چاہتی ہیں آپ…
سلمان نے انجان بنتے ہوئے پوچھا …جب کے وہ بھی جانتا تھا کے اس کی امّی کا اب ایک ہی مقصد اور ایک ہی موضوع رہ گیا تھا…وہ تھا اس کا دوسرا نکاح کرانا..

بیٹا کب تک یونہی خود کو اور ہم سب کو تکلیف دیتے رہوگے…؟؟ آخر کیا مسئلہ ہو جائے گا اگر تم دوسرا نکاح کر لوگے تو….؟؟
ماں کے لہجے میں پریشانی صاف عیاں ہو رہی تھی.

میں نے پہلے بھی آپ سے کئی بار کہا ہے کے مجھے اس تعلق سے کوئی بات نہی کرنی.
سلمان نے ہمیشہ کی طرح وہی ملے جلے لفظوں کا استعمال کیا تھا جو وہ اکثر نکاح کی بات پر کیا کرتا تھا.

مگر بیٹا ابھی تمہاری عمر ہی کتنی ہے…صرف پچیس سال کے تو ہو تم…تم میں ہر وہ قابلیت موجود ہے جو ایک لڑکی اپنے شوہر میں دیکھنا چاہتی ہے…..بہت سے لوگ ہیں جو ابھی بھی ہم سے خوشی خوشی رشتہ جوڑنے کو تیار ہیں..
تم دوباہ سے اپنی ایک خوشحال زندگی کی طرف گامزن ہو سکتے ہو…زندگی ہر کسی کو تو دوسرا موقعہ نہی دیتی نہ بیٹا..؟؟
اور…تم خود سوچ کر دیکھو…کیا مریم تمہیں اس حال میں دیکھ کر خوش ہو رہی ہو گی..؟؟
کیا وہ نہی چاہے گی کہ تم ایک بہتر زندگی کی شروعات کرو…؟؟ وہ اگر ہوتی تو کیا تمہیں اس حال میں دیکھ سکتی تھی…؟؟
زاہدہ بیگم نے اس بار پوری کوشش کی تھی…انہیں کسی بھی طرح اپنے بیٹے کو دوسرے نکاح کے لیے راضی کرنا تھا.

وہ اگر ہوتی تو میرا یہ حال ہی نہ ہوا ہوتا…
سلمان نے غمگین لہجے میں مریم کو یاد کرتے ہوئے کہا.

بیٹا میں تمہاری دشمن نہی ہوں…ذندگی جب تک ہے بس اپنے بچوں کو بحال دیکھنا چاہتی ہوں…
اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ چند محبت بھرے لمحات جینا چاہتی ہوں…
پر اب تو لگتا ہے میری یہ تمنا قبر تک میرے ساتھ چلی جائے گی…
زاہدہ بیگم اب نا امید ہو چکی تھیں…افسردگی صاف دیکھی جا سکتی تھی انکے چہرے پے…

ٹھیک ہے….اگر آپ چاہتی ہیں کے میں دوسرا نکاح کر لوں تو صرف آپ کے لئے میں یہ بھی کرلوں گا….
مگر……!!
پہلے آپ کو انعم کو وداع کرنا ہوگا…اسکی بھی اب شادی کی عمر ہوچکی ہے…اور میرے لئے میری خوشی سے بڑھ کر میری بہن کی خوشی ہے…
بالآخر وہ نکاح کے لئے مان تو گیا تھا…پر اسنے اپنی ماں کے سامنے ایک شرط رکھ دی تھی.

اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے….بیٹا تم نے مجھے آج میری زندگی کی بہت بڑی خوشی دی ہے…
ہم انعم کے لئے بہت اچھا اور مناسب رشتہ تلاش کر لینگے اور پھر تمہارا نکاح بھی تو کرنا ہے…
زاہدہ بیگم خوشی سے عش عش ہو اٹھی تھیں.

کوئی ہے گھر میں….؟؟؟؟
روز کی طرح آج پھر راشدہ بیگم دنیا جہان کی باتیں لے کر سلمان کے گھر دستک دے چکی تھیں..
آئیں نا بہن….زہدہ بیگم نے مسکراتے چہرے کے ساتھ راشدہ بیگم کا استقبال کیا.
بتائیں کیا حال ہیں…؟؟
اور….اور سلمان کا کیا بنا…؟؟؟
منا پائیں آپ اسے…؟؟
راشدہ بیگم نے سیدھے سوالوں کی بؤچھار کردی.
جی اللہ پاک کا بڑا فضل و کرم ہے.
اور سلمان بھی بلآخر مان ہی گیا ہے..
پر……..!!!
زاہدہ بیگم کہتے کہتے رُک سی گئیں.
پر….پر کیا باجی…..راشدہ بیگم نے حیرت زدہ انداز میں پوچھا.
اصل میں وہ نکاح کے لئے مان تو گیا ہے….پر وہ چاہتا ہے کے پہلے انعم کا نکاح ہو. زاہدہ بیگم نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا.
اوہ…..!!!
یہ تو واقعی بہت اچھی بات ہے باجی…..راشدہ بیگم نے خوش ہوتے ہوئے کہا.
ہے تو سہی پر آپ بھی جانتی ہیں آج کل اچھے رشتوں کی کتنی قلت ہے معاشرے میں…زاہدہ بیگم نے فکریہ لہجے میں اپنی بات ظاہر کی.
آپ کی فکر کرتی ہیں….آپ کی یہ بہن ہے نا ایک سے بڑھ کر ایک رشتے لیکر آئے گی اپنی انعم کے لئے. اور اپنی انعم کو تو کوئی لڑکا نا نہی کہے گا….پڑھی لکھی خوبصورت اور خوبصیرت لڑکی ہے ہماری….ماشاء اللہ….راشدہ بیگم نے زاہدہ بیگم کو مطمئن کرتے ہوئے کہا……
اللہ کا ہم پر واقعی خصوصی کرم ہے تب ہی آپ جیسی پڑوسن نصیب ہوئی ہمیں…جو ایک سگی بہن سے بھی بڑھ کر ہے ہمارے لئے….زاہدہ بیگم متشکرانہ لہجے میں کہا.
نہی نہی اب ایسی بھی کوئی بات نہی آپ کی صورت میں اللہ نے مجھے بڑی بہن سے نوازا ہے…راشدہ بیگم نے کہا…
اچھا باجی اب اجازت دیں…
انعم کے لئے رشتے بھی تو تلاشنے ہیں…رشدہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا..
جی جی اللہ آپ کو اپنی امان میں رکھے..زاہدہ بیگم نے دعائیہ الفاظ کے ساتھ راشدہ بیگم کو الوداع کیا.

———————————-

آج صبح سے ہی گھر میں مہمانوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا…
آج انعم کی وداعی ہونی تھی…
گھر میں خوشی کا ماحول لگا ہوا تھا…
گھر کو پھولوں اور رنگ برنگی لائٹوں سے بہت خوبصورتی اور نفاست کے ساتھ سجایا گیا تھا….
پورا گھر جگمگا رہا تھا…
مہمانوں اور رشتے داروں سے گھر بھرا ہوا تھا…
ہوتا بھی کیوں نا…!!
سلمان کی اکلوتی بہن کا جو نکاح تھا..
ندیم…..بیٹا زرا یہاں آنا…..زاہدہ بیگم نے ندیم کو پکارہ جو پاس ہی اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا شربت کے گھونٹ لے رہا تھا وہ سلمان کی آفس میں ہی ملازم تھا اور سلمان کا قریبی بھی.
آنٹی سر کو تو یہی ہونا چاہیے…وہ ہم سے پہلے آفس چھوڑ چکے تھے…..ندیم نے بتایا.
اللہ خئیر کرے آج اس لڑکے کی چھوٹی بہن وداع ہونے والی ہے اور جناب کا آج بھی کوئی اتا پتا نہی ہے…زاہدہ بیگم نے ماتھے پے ہاتھ مارتے ہوئے کہا.
آنٹی آپ فکر نا کریں ہو سکتا ہے سر کچھ کام سے باہر گئے ہوں اب شادی کا گھر ہے سو طرح کے کام ہوتے ہیں…اور سر اپنے کام کسی کو بتانے کی بجائے خود کرنا پسند کرتے ہیں..میں انہے ابھی کال لگا کر پوچھ لیتا ہوں کہ وہ کہاں ہیں. ندیم نے کہا…
کوئی فائدہ نہی بیٹا….میں نے وہ بھی کر کے دیکھ لیا فون بند ہے اسکا…تب ہی تمہارے پاس آئی کے شاید تمہیں کچھ پتا ہو….پتا نہی کہاں چلا گیا اچانک…..زاہدہ بیگم نے پریشان ہوتے ہوئے کہا…
سر آجائیں گے آنٹی…آپ فکر نا کریں…ندیم نے زاہدہ بیگم کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا..اور وہاں سے چلا گیا.

———————————————-

صاحب……!! صاحب……!!!
رات کے آٹھ بج چکے ہیں…..مجھے گیٹ بند کر کے اپنے گھر جانا ہے……یہ کریم دین تھا جو قبرستان کی رکھوالی کیا کرتا تھا…صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک اسکی ڈیوٹی ہوتی تھی.
روز کی طرح آج بھی وہ قبرستان آیا تھا…پر ہمیشہ وہ وہاں کچھ دیر اپنی مریم سے بات کر کے سات بجے تک روانہ ہو جاتا تھا…..
آج تو اسے یہ بھی خیال نا رہا کے اسکی بہن کا نکاح ہے.
اسکا وجود صرف نام کا رہ گیا تھا خود کو تو اسنے اسی دن زمین میں دفن کردیا تھا….جس دن اسنے اپنے جینے کی وجہ جس کی مسکراہٹوں سے اسکی ڈھڑکنیں بحال رہتی تھیں جو اس کے جینے کی وجہ تھی وہ اسکو ہی اپنے ہاتھوں سے مٹی کے ہوالے کر چکا تھا…
کتنا وقت ہو رہاہے….؟؟؟ سلمان نے پوچھا
صاحب پورے آٹھ بج چکے ہیں…کریم دین نے بتایا..
نا چاہتے ہوئے بھی اسے اپنی مریم کی قبر سے دور جانا پڑ رہا تھا…وہ ہر چیز سے محروم بس مریم تک ہی محدود رہ گیا تھا…ورنہ ایسا کون ہو سکتا ہے کے جسکی بہن کا نکاح ہو اور وہ ان سب سے انجان و محروم قبرستان میں بیٹھا ہو…جس کے لئے وہ قبر ہی اسکی دنیا ہو….
اگر کریم دین نا آتا تو شاید وہ پوری رات وہاں سے نا اٹھتا…
ایک ملال تھا جو اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا..
وہ یہ کے اس نے دوسرے نکاح کے لیے حامی بھر لی تھی…
اور اب وہ خود کو مریم کا گنہگار مان رہا تھا…
اسی ملامت کی تسکین کے لئے آج وہ مریم کی قبر پر آیا تھا……
لوگوں کی نظر میں یقیناً مریم اس دنیا سے جا چکی تھی
مگر سلمان کے لئے وہ آج بھی با حیات تھی…
وہ اسے ہر جگہ محسوس کرتا تھا..
گھنٹوں مریم کی قبر پر بیٹھے اس سے باتیں کرتا…
اپنا دن بھر کا حال سناتا…
جیسے وہ قبر میں نہی بلکہ حقیقت میں اس کی نظروں کے سامنے ہو اور اسکی باتیں سن رہی ہو.

انعم کے نکاح کے بعد گھر اب اور بھی خالی خالی سا ہو گیا تھا…..ناشتے کے ٹیبیل پر سلمان کے ساتھ بیٹھی زاہدہ بیگم اس سے کچھ کہنا چاہتی تھیں مگر الفاظ کا چناؤ نہی کر پا رہی تھیں….ایسا بہت کم ہی دفعہ ہوتا کے سلمان انہے ناشتے کے ٹییبل پر ملتا…ورنہ اکثر وہ ایسے ہی دفتر کے لئے نلکل جایا کرتا تھا…آج زاہدہ بیگم کے پاس موقعہ تھا اپنی بات کہنے کا…بالآخر کچھ سوچ کر وہ سلمان سے مخاطب ہوئیں…..
بیٹا…..وہ…..وہ………وہ میں……..اصل میں اب انعم بھی اپنے گھر جا چکی ہے…گھر بہت خالی خالی سا لگنے لگا ہے..میں اتنے بڑے مکان میں اب خود کو بہت تنہا محسوس کرنے لگی ہوں…
ناشتے کے ٹییبل پر موجود زاہدہ بیگم سامنے بیٹھے سلمان سے مخاطب تھیں.
آپ جو کہنا چاہتی ہیں صاف صاف اور واضح انداز میں کہیں….آپ تو جانتی ہی ہیں کہ میرے پاس اتنا وقت میسر نہی ہوتا کے میں یہاں ناشتے کے ٹیبل پر بیٹھ کر بریڈ مسکے کے ساتھ پوری دنیا جہان کی باتیں کروں آپ کے ساتھ..
بریڈ کا سلائیس لیتے ہو سلمان نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا.
وہ غصے بھرے مزاج میں بیٹھا تھا…اور اسی غصے بھرے انداز میں اپنے لیے بریڈ پر مسکا لگا رہا تھا.
تمہیں اگر یاد ہو تو تم نے کچھ کہا تھا اپنی ماں سے….؟؟
ایک کام جو تمہیں انعم کے نکاح کے بعد سر انجام دینا تھا..
زاہدہ بیگم نے یاد دہانی کرواتے ہوئے کہا..
کہا ہوگا اب اتنی ساری باتوں میں ہر بات تو ذہن نشین کر کے نہی رکھ سکتا نا میں…سلمان نے انجان سے لہجے میں اپنی بات مکمل کی.
بیٹا تم نے کہا تھا کے انعم کے نکاح کے بعد تم بھی نکاح کر لوگے…
زاہدہ بیگم نے سلمان کو یاد دلاتے ہوئے کہا.
خدا کے لئے مجھے بخش دیں امی جان….
یہ کہتے ہی اسنے اپنے ہاتھ میں لئے بریڈ کو قریب رکھی پلیٹ میں زوردار انداز سے پھینکا….
تنگ آگیا ہوں میں آپ کی ان باتوں سے…جب دیکھو آپ ایک ہی بات لے کر بیٹھی رہتی ہیں…شادی….شادی…..شادی..
ہزار دفعہ آپ سے کہا ہے کے مجھے دوسرا نکاح نہی کرنا…کیوں نہی سمجھتی آپ…؟؟
سلمان ہمیشہ کی طرح غصے کی حالت میں آچکا تھا…مریم کے انتقال کے بعد وہ ہر بات پر ہی غصہ ہو جاتا تھا…اس کو شاید ہی اب کسی نے مسکراتے ہوئے دیکھا ہو…..
ورنہ اسکی مسکراہٹ کی تو لوگ تعریفیں کیا کرتے تھے…کہتے ہیں جن کی مسکراہٹ سحر انگیز ہوتی ہے ان کا غصہ بھی کمال کا ہوتا ہے….
بیٹا تم مجھے ایک ساتھ ہی کیوں نہی مار دیتے یوں روز روز کی موت سے تو چھٹکارا حاصل ہو……
پتا نہی میں نے تمہیں کون سا ایسا نیا کام کرنے کو کہہ دیا ہے جو تم اس طرح سے طیش میں آجاتے ہو…دوسروں کے بھی بیٹے ہیں ماں کی ایک آواز پر جی جی کرتے نہی تھکتے….ایک تم ہو جو ہر روز میرے سینے میں اپنے لفظوں کے نشتر چبھاتے رہتے ہو….
کاش میں تمہارے والد کے ساتھ ہی دفن ہو گئی ہوتی تو آج یہ دن نا دیکھنا پڑتا مجھے…..
زاہدہ بیگم کی آنکھوں سے اب قطرے نکلنے شروع ہوگئے تھے.
آپ کو اندازہ ہے کیا کہہ رہی ہیں آپ…؟؟ سلمان نے غصے سے کہا…
تو اور کیا کہوں…میرے تو سارے ارمانوں کو تم مٹی تلے دفن کر چکے ہو اب جینے کے لئے بچا ہی کیا ہے…..زاہدہ بیگم نے روہانسے لہجے میں کسی طرح اپنی بات مکمل کی.
ٹھیک ہے اگر آپ کو جینے کے لئے بہو کی ضرورت ہے تو میں تیار ہوں نکاح کرنے کو…آپ تیاریاں شروع کروادیں…سلمان نے ایک سانس میں پوری بات کہہ ڈالی..
کیا کہا تم نے…؟؟ پھر سے تو کہنا زرا….کہیں میں خواب تو نہی دیکھ رہی…زاہدہ بیگم کو اپنے کانوں پر یقین نہی ہو رہا تھا…کیوں کے اپنے بیٹے کا نکاح کروانا کسی جنگ فتح کرنے سے کم نہ تھا ان کے لئے.
بلکل ٹھیک اور سہی سنا ہے آپ نے…تیاریاں شروع کردیں…سلمان نے کہا…
اللہ تمہیں لمبی عمر سے نوزے بیٹا….تمہیں میری عمر بھی لگ جائے…بیٹا تم نے آج مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی دی ہے..میں آج ہی راشدہ سے بات کرتی ہوں انکی بیٹی نشوا اور تم ایک مکمل جوڑی لگوگے دیکھ لینا….زاہدہ بیگم کی خوشی آج ساتویں آسمان پہنچ گئی تھی..
ایک سیکنڈ……کیا کہا آپ نے…؟؟ نشوا..؟؟
نشوا اور میں…؟؟؟ آپ نے سوچ بھی کیسے لیا…..؟؟
اگر نکاح کرنے کا فیصلہ میرا ہے تو نکاح کس سے کرنا ہے یہ بھی میں ہی طئے کروں گا.
سلمان کی آواز میں حکمرانی تھی.
بیٹا وہ بہت اچھی لڑکی ہے…کیا کمی ہے اسکے اندر..؟؟
میں نے کہا آپ سے وہ خراب ہے…؟؟ سلمان نے آنکھیں بڑی کرتے ہوئے پوچھا…
زاہدہ بیگم اس وقت اس عالم میں تھیں کے انکے سامنے ان کے پسند کا کھانا رکھ تو دیا گیا تھا پر وہ کھانے سے قاصر اور خود کو لاچار محسوس کررہی تھیں…
بیٹا کوئی اور پسند ہیں تمہیں؟؟؟
اگر ہے تو پہلے بتاتے نا میں خود اس لڑکی کا ہاتھ مانگنے جاتی اپنے شہزادے کے لئے….
آپ بھی بخوبی جانتی ہیں کے میری پسند مٹی تلے دفن ہوچکی ہے….سلمان نے ماں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا.
تو پھر نشوا میں کیا برائی ہے بیٹا….نا صرف وہ بلکہ راشدہ بھی تمہیں پسند کرتی ہے…اور نشوا مجھے بھی پسند ہے وہ میری بہو بننے کی قابلیت رکھتی ہے…ورنہ آج کل کا ماحول تو ایسا ہے کے اچھی لڑکیاں ملنے سے رہیں…..زاہدہ بیگم نے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا..
دیکھیں امّی اگر میں نے دوبارہ سے نکاح کا فیصلہ کیا ہے تو بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے….بیشک میں آپ کی خوشی کے لئے دوسرا نکاح کرونگا…..مگر میری ایک شرط ہے جو آپ کو بھی ماننی پڑیگی…….سلمان نے جوتے پہنتے ہوئے ماں سے کہا…
شرط…..!! کیسی شرط…..؟؟؟؟
زاہدہ بیگم نے حیرانگی سے پوچھا…
آپ نے بلکل ٹھیک سنا کے میں دوبارہ نکاح کرونگا….پر میں جس لڑکی سے نکاح کرونگا وہ طلاق شدہ ہونی چاہئے…
سلمان نے بہت ہی واضع انداز میں اپنی بات کہی تھی اور اب وہ آفس جانے کے لئے تیار تھا.
طلاق شدہ…..؟؟ تم ہوش میں تو ہو…؟؟
تمہیں زرا سا بھی اندازہ ہے تم کیا کہہ رہے ہو…؟؟
میں نے بالکل وہی کہا ہے جو آپ نے سنا ہے…یہ کہتے ہوئے سلمان وہاں سے دفتر کے لئے نکل جاتا ہے…
زاہدہ بیگم کو اب بھی اپنے کانوں پر یقین نہی آرہا تھا…جیسے کسی نے ایک پل میں ان کے قدموں تلے سے زمین کھینچ لی ہو…….سلمان انکا اکلوتا بیٹا تھا…اور اب اس نے جس طرح کی شرط ان کے سامنے رکھ دی تھی وہ کسی حال میں اسے مان نہی سکتی تھیں…..
ان کی نظر میں طلاق شدہ لڑکی کی جو تصویر تھی وہ یہ تھی کے طلاق کبھی اچھی لڑکیوں کے نہی ہوتے…
تو وہ کیسے اپنے بیٹے کی بات مان سکتی تھیں..!!
زاہدہ بیگم اس لمحے گنگ ہو چکی تھیں..
دونوں ہاتھ ماتھے پر رکھ کر وہ حیرت زدہ سا چہرہ لئے ہوئے وہی ساکت سی ہو گئی تھیں…
سلمان کی بات اب بھی ان کے کانوں میں گونج رہی تھی…
ٹنگ ٹانگ…..اچانک سے دروازے کی گھنٹی بجتی ہے…اور کئی دفعہ بیل بجانے کے بعد بھی اندر سے کوئی جواب موصول نا ہونے کی صورت میں راشدہ ویسے ہی گھر میں داخل ہو جاتی ہیں…
زاہدہ باجی……کیاہوا سب خیر تو ہے…
زاہدہ بیگم بےساختہ سی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھیں…وہ اپنی ہی کسی دنیا میں تھیں….آس پاس کی انہیں کوئی خبر تک نا تھی…انہیں تو راشدہ کی موجودگی کا بھی احساس نہی تھا….
زاہدہ باجی….خدا کے لئے کچھ تو بولیں….
ارے راشدہ تم……تم کب آئی…؟؟
آؤ بیٹھو نا….بلآخر زاہدہ بیگم کے حواس لؤٹ چکے تھے…
پہلے یہ بتائیں ہوا کیا ہے…؟؟راشدہ نے پریشانی ظاہر کرتے ہوئے پوچھا….
میرا بیٹا نکاح کے لئے مان گیا ہے..زاہدہ بیگم نے کہا
یہ تو بہت اچھی بات ہے نا باجی….پھر تو ہمیں تیاریاں شروع کردینی چاہئے…کتنے کام کرنے ہیں ہمیں…..اور……
وہ طلاق شدہ سے نکاح کرنا چاہتا ہے…
زاہدہ بیگم نے راشدہ کی بات بیچ میں ہی کاٹتے ہوئے کہا..
کیا…..طلاق شدہ…؟؟
آپ کو پتا ہے آپ کیا کہہ رہی ہے…؟؟
راشدہ بھی اب حیران ہو چکی تھی..
صحیح سنا تم نے…اس نے دوسرے نکاح کے لئے شرط رکھی ہے کہ اگر وہ دوسرا نکاح کرے گا تو صرف طلاق شدہ لڑکی سے کرے گا..ورنہ نہی کرےگا….
زاہدہ بیگم نے راشدہ کے سامنے سلمان کی شرط بیان کر دی.
ضرور ہمارے بیٹے پر کسی نے کالا جادو کروا دیا ہے…
ورنہ وہ ایسی باتیں کبھی نا کرتا..راشدہ نے کہا.
پتہ نہی مجھے تو کچھ سمجھ نہی آرہا راشدہ….پہلے میں ہی اسے نکاح کے لئے کہتی رہی اور اب حب کے وہ میری بات مان چکا ہے…میں کیسے اسکی بات کو تسلیم کر سکتی ہوں….
تم ہی بتاؤ راشدہ کیا شریف لڑکیوں کا بھی کہی طلاق ہوتا ہے؟؟
ہمارے تو پورے خاندان میں کسی کا آج تک طلاق نہی ہوا…
زاہدہ بیگم نے راشدہ کے سامنے اپنی بات رکھی…
بلکل بھی نہی باجی….اگر لڑکی با کردار ہو تو بھلا طلاق ہی کیوں ہو..؟؟
وہ نسیم کی بہو یاد ہے….پچھلے مہینے جس کے نکاح میں گئے تھے ہم…؟؟
راشدہ نے پوچھا….!!
ہاں یاد ہے بہت اچھا انتظام کیا تھا فاروق بھائی نے کسی چیز کی کمی نہی چھوڑی تھی اپنے عمران کی شادی میں…
زاہدہ نے یاد کرتے ہوئے جواب دیا…
وہی تو…فاروق بھائی نے اتنا اچھا انتظام کیا…سب کچھ اتنے اچھے سے ہوا اور ابھی کچھ دنوں پہلے ہی عمران نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی….راشدہ نے بتایا…..
کیا واقعی….؟؟ زاہدہ نے تعجب سے پوچھا…
ہاں اور پتا ہے طلاق کیوں دیا عمران نے…؟؟
کیوں کے اس لڑکی کا کسی اور سے چکّر تھا جس کا پتا عمران کو چل گیا تھا….راشدہ نے مکمل اسٹوری پیش کر دی تھی
میں نے نہی کہا تھا…؟؟
شریف اور اچھے گھرانوں کی لڑکیوں کی بھی کہیں طلاق ہوتی ہے بھلا……
پتا نہی میرے بیٹے کے دماغ میں کس نے اس طرح کی بے جا باتیں ڈال دیں ہیں اور وہ عجیب سی شرط لے کر بیٹھ گیا ہے…
اب اللہ ہی بہتر کرے سب سلمان کو عقل آجائے کہ وہ جو سوچ رہا ہے اس میں صرف بدنامی اور بربادی ہی ہاتھ لگے گی….
زاہدہ نے پریشانی بھرے لہجے میں اپنی بات مکمل کی.
آپ سمجھائیں اسے اور کون سمجھا سکتا ہے
ماں ہو اسکی ماں کی بات نہی مانے گا تو پھر کس کی مانے گا…؟؟
الحمدللہ نشوا کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک رشتے ہر روز ہی آتے رہتے ہیں…پر میں نے آپ کو زبان دے دی ہے اس لئے ہر کسی کو منا کرنا پڑتا ہے….راشدہ نے کہا جب کے اس کی نظر تو صرف اکلوتے سلمان…اسکے محل جیسے گھر….اور اسکی دولت پر تھی…
ٹھیک ہے میں پھر بات کرتی ہوں اس سے…
اسے سمجھاتی ہوں…کہ وہ جو سوچ رہا ہے وہ ناممکن ہے…
نشوا ہی ہے اس کے خوابوں کی تعبیر…
زاہدہ بیگم نے راشدہ کو مطمئن کرتے ہوئے کہا.

طلاق شدہ لڑکی
از قلم – سلمان ابراھیم خان
قسط – 04

السلام علیکم…….
وعلیکم السلام….آگئے تم…..
جلدی سے فریش ہوجاو کھانا لگا دوں……آج زاہدہ بیگم روز کے مقابلے میں کچھ مطمئن نظر آرہی تھیں….
شاید آج انہیں خود پر یقین تھا کہ وہ سلمان سے اپنی بات منوا ہی لینگی…
جی آپ کھا لیں….مجھے نہی کھانا………یہ وہ جواب تھا جو وہ ہر روز ہی دیا کرتا تھا…….

رات کا کھانا ترک نہی کرتے بیٹا…تھوڑا سا ہی سہی کھالو….دیکھو میں نے آج سب کچھ تمہاری پسند کی چیزیں بنائی ہیں…زاہدہ بیگم آج الگ ہی انداز می پیش آرہی تھیں….

اور سلمان بھی سمجھ چکا تھا یہ سارے انتظام…یہ میٹھا لہجہ ان سب کے اختتام پر بات اس کی شادی پر آ کر رک جائے گی….

یہ بات آپ بھی بہتر طریقے سے جانتی ہیں کہ میں اپنی پسند مٹی تلے دفنا چکا ہوں….سلمان نے قدرے روخے انداز میں کہا…

بیٹا کھانا تو کھانا ہی ہے نا ایسے کھانا ترک کر کے تم مریم سے کونسی محبت ثابت کرلوگے….چلو جلدی سے آؤ میں ٹیبل پر تمہارا انتظار کر رہی ہوں….
آج زاہدہ بیگم پوری طرح سے پرعزم تھیں…

سلمان بنا کچھ کہے ٹیبل پر آکر بیٹھ گیا دل تو اس کا کچھ بھی کھانے کو نہ تھا وہ بس ایک رسم ادا کرنا چاہتا تھا تاکہ اس کی ماں کو بھی برا نا لگے……

لو بیٹا کچھ کھا لو…….

آپ اپنی بات شروع کر سکتی ہیں…..میں سن رہا ہوں….سلمان روٹی توڑتے ہوئے ماں زاہدہ بیگم سے مخاطب ہوا تھا
سلمان تم تو جانتے ہی ہو میری خواہش کیا ہے….
ایک بوڑھی ماں کے کیا ارمان ہو سکتے ہیں….

میں نے کب کہا میں آپ کی خواہش پوری نہی کررہا ہوں…میں جانتا ہوں آپ یہی چاہتی ہیں کہ میں دوسرا نکاح کرلوں…اور میں آپ کی اس بات کے لئے بہت پہلے ہی راضی ہوچکا ہوں….
سلمان نے یاد دلانے والے انداز میں کہا….

بیٹا وہ تو میں جانتی ہوں کہ بالآخر تم میری نکاح والی بات پر راضی ہو چکے ہو….پر اب تم نے جو اس کے ساتھ عجیب سی شرط لگا دی…مجھے تو یقین ہی نہی آرہا کے تم میرے بیٹے ہوکر اس طرح کی بات کرسکتے ہو….زاہدہ بیگم نے خفگی ظاہر کی..!!

کیوں ایسا کیا کہہ دیا میں نے آخر…..؟؟ سلمان نے قدرے حیرانگی سے سوال کیا…

بیٹا تم ایک طلاق شدہ سے نکاح کی بات کر رہے ہو…

ہاں تو….؟؟ کیا وہ انسان نہیں ہے؟؟ یا پھر جن کی طلاق ہو جائے ان کو معاشرے میں سر اٹھا کے جینے کا یا دوسرا نکاح کرنے کا حق نہی ہوتا….؟؟؟

یا تو تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے…یا پھر کسی نے تمہارا دماغ گھما دیا ہے سلمان…..تمہیں بلکل بھی اندازہ نہی ہے تم کیا کہہ جارہے ہو…مریم کی موت نے تمہیں پاگل کردیا ہے……
ورنہ تم خود سوچو….کیا اچھے گھرانوں کی لڑکیوں کی طلاق ہوتی ہے..؟؟؟ آج تک کبھی تم نے سنا ہے ہمارے خاندان میں کسی لڑکی کا طلاق ہوا ہے؟؟…. نہیں نا…پتہ ہے کیوں بیٹا…؟؟ کیوں کہ ہم عزت دار لوگ ہیں اور عزت دار گھرانے میں طلاق نہی ہوتی…

سلمان جو کھانےکا آخری نوالے لئے ماں کی ساری باتیں خاموشی سے سن رہا تھا….ان کی بات ختم ہوتے ہی وہ ٹیبل سے اٹھ کھڑا ہوا اور ماں سے مخاطب ہوتے ہوئے اسنے اپنی بات کہنی شروع کی….
مجھے نہیں پتا اس طرح کی سوچ اور نظریہ آپ کا اپنا ہے یا کوئی اور ہی آپ کے دماغ میں اس طرح کا زہر و فتور بھر رہا ہے….
طلاق کا مطلب یہ بلکل نہیں ہوتا کہ ہمیشہ لڑکی ہی غلط ہو…اسے تو بس طلاق دی اور نکال دیا زندگی سے…اب وہ بیچاری کس کے پاس جائے….کس سے مدد مانگے..؟؟

اس سماج اور معاشرے سے جو پہلے ہی ایسی لڑکیوں کا فیصلہ سنا چکے ہوتے ہیں…یا پھر اپنے گھر….جو معاشرے کی عزت کا سوچ کر اسے اپنانے سے ہی انکار کردیں…بتائیں مجھے ایسی لڑکیوں اور عورتوں کے حقوق کا کیا؟؟؟

چلیں میں آپ کی بات مان بھی لوں کہ اچھی لڑکیوں کی طلاق نہی ہوتی جن کی ہوتی ہے ان کی ہی کوئی نا کوئی غلطی ہوتی ہے تو پھر بتائیں زرا کیا ہمارے نبی ﷺ نے طلاق شدہ سے نکاح نہی کیا تھا؟؟؟…کیا طلاق شدہ سے نکاح کرنا ان کی سنت نہی ہے؟؟؟
مجھے نہیں پتا تھا آپ کی سوچ بھی باقی لوگوں جیسی ہوگی…
سلمان نے اپنی بات کی اور فوراً اپنے کمرے کے جانب پلٹ گیا…..

اگر تمہارا فیصلہ آخری ہے تو میرا فیصلہ بھی سنتے جاؤ…..سلمان پلٹا ہی تھا کہ زاہدہ بیگم نے اسے اپنی بات سے آگاہ کیا…جب تک میں زندہ ہوں کوئی طلاق شدہ لڑکی میرے گھر کی دہلیز پار نہی کریگی…..
اگر تمہاری ضد ہے کہ تم طلاق شدہ کو میرے گھر کی بہو بناؤ گے تو میں بھی تمہاری ماں ہوں……

سلمان اب مزید نہی سن سکتا تھا….اسے اس طرح کی باتیں کسی کی بھی پسند نہی تھی…پھر چاہے وہ اسکی اپنی ماں ہی کیوں نا ہو…..
اب مزید وہ نا کچھ کہنا چاہتا تھا نا ہی کچھ سننا…
تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے وہ سیدھا اپنے کمرے میں آگیا……
دروازے کو اندر سے لاک لگا کر وہ کھڑکی کے اطراف لگی کرسی پر بیٹھ گیا…..یہ اسکی اور مریم کی من پسند جگہ تھی….

زندگی بھی کیسے کیسے کھیل کھلتی ہے….
کل تک جو چیز آپ کی من پسند ہوتی ہے آپ کی خوشی اور مسرت کا باعث ہوتی ہے وہی ایک دن آپ کے تکلیف کی وجہ بن جاتی ہے…
آج اسے شدت سے مریم کی یاد آئی تھی…اگر آج وہ اس کے ساتھ ہوتی تو اسے نا ہی زاہدہ بیگم کی باتیں سننی پڑتی نا ہی یہ دن دیکھنا پڑتا…..کیوں کہ آپ کا من پسند شخص ہی آپ کی کل کائنات ہوتا ہے….
وہ نا ہو تو دنیا کا ہر رنگ پھیکا پڑجاتا ہے…..
ساری خوشی بے معنی ہو جاتی ہے…….
اور سب کچھ بے مطلب ہوجاتا ہے…

آج بھی اس کے آنکھوں سے نیند غائب ہوچکی تھی
زندگی میں دو چیزوں کی کمی انسان کو اذیت میں ڈال دیتی ہے
ایک رات کی نیند…….
اگر نیند نہیں تو چہرہ بگڑ جاتا ہے
اور دوسرا من پسند شخص میسر نا ہو تو زندگی بگڑ جاتی ہے
سلمان کی زندگی بھی مریم کے بغیر بے معنی ہوگئی تھی.
………………………………………………………………

آجائیں میں کھانا لگا دیتی ہوں…..
تھک گئے ہوں گے….. میں نے بھی کچھ نہیں کھایا ہے آپ کا انتظار کرہی تھی آپ آجائیں پھر ساتھ کھالینگے….انعم فکرمند تھی
ارشد آج پھر نشے کی حالت میں گھر آیا تھا….

کچھ دنوں سے یہ اسکا روز کا معمول بن چکا تھا….
شادی کے کچھ دنوں تک تو سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا پر پچھلے کچھ دنوں سے سب کچھ بدل سا گیا تھا….یہ پھر یہ کہا جائے کے ارشد اپنے اصلی رنگ کو زیادہ دن تک چھپا نہی پایا تھا تو بھی کچھ غلط نا ہوگا…!!

ارشد ہر روز ہی شراب کے نشے میں لت پت گھر آتا….
انعم کو الٹی سیدھی باتیں سناتا……
پھر بھی ارشد کے لئے انعم کی محبت میں کم نہی ہوئی تھی…اسے امید تھی کہ ارشد بھی کبھی نا کبھی یہ سب چھوڑ دیگا اور وہ دونوں ایک خوشحال زندگی بسر کرینگے….!!

کس نے کہا تھا انتظار کرو…؟؟؟
میں نے تو نہی کہا….!!
اگر واقعی میں تمہیں میری اتنی فکر ہوتی تو تم اب تک اپنے بھائی سے دس لاکھ روپے مانگ چکی ہوتی…..
میں تمہیں اور تمہارے اس بخیل بھائی کو بہت اچھے سے جانتا ہوں….!!
پتا نہی اتنے پیسوں کا وہ آخر کریگا کیا……..!!

نشے کی حالت میں جو اسکے منہ میں آرہا تھا بکتا جا رہا تھا….
پیسوں کا تقاضا وہ پہلے بھی کئی دفا کرچکا تھا….!!
انعم ہمیشہ اسے اپنی savings میں سے دیتی رہی تھی…
وہ نہی چاہتی تھی کے اسکے گھر اس بارے میں کچھ بھی پتا چلے اور وہ اپنی ماں بھائی سے پیسے مانگے…..
حالانکہ وہ ایک اشارہ بھی کردیتی تو سلمان سب کچھ لٹا دیتا اس کے لئے….پر وہ جانتی تھی کے وہ جتنی بار اپنے شوہر کے تقاضے پورے کریگی اتنی ہی اسکی لالچ بڑھتی چلی جائے گی….

کیا ہوگیا یہ اتنی آوازیں کیوں آرہی ہے….یہ ارشد کی ماں تھی جو شور سن کر دروازے تک آئی تھی….
کچھ نہی اممی ارشد ہیں بس تھوڑا سا تھک گئے ہیں اس وجہ سے…آپ جائیں آرام کریں میں دیکھ لوں گی یہاں…

کمبخت آج پھر پی کر آیا ہے نا…..!! یا خدا تو مجھے کس جنم کی سزا دے رہا ہے…؟؟ کیا ہوگا اس لڑکے کا…میں تو تنگ آچکی ہوں اس لڑکے سے…
ارشد کی ماں نے سر پکڑتے ہوئے کہا….

وہ بھی اب پریشان ہوچکی تھیں کیونکہ ارشد اب روزانہ ہی نشے کی حالت میں لوٹتا تھا..!

اممی آپ جائیں نا آرام کریں انہیں میں سنبھال لونگی….
ٹھیک ہے میری بچی تم نا ہوتی تو کیا کرتی میں….

انعم ارشد کو سہارا دے کر کمرے تک لے آئی.
دور رہو مجھ سے….مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے..
ارشد نے انعم کو خود سے دور کرتے ہوئے کہا…
کہا جاؤں میں…؟؟
بیوی ہوں میں آپ کی….ایسا کیا گناہ کردیا ہے میں نے؟؟
اگر میں نا پسند تھی تو رشتے کے لئے ہاں ہی نا کرتے اسی وقت انکار کردیتے…یوں میری زندگی تو خراب نا کرتے…..

تو کس نے روکا ہے تمہیں….؟؟ جاؤ ابھی چلی جاؤ…جو عورت اپنے شوہر کے کام نا سکے اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے…
ارشد نشے کی حالت میں کہتا چلا جا رہا تھا

ایسی کیا پریشانی ہے جس کے لئے آپ کو شراب کا سہارا لینا پڑا مجھے بتائیں اگر آپ کو کوئی پریشانی ہے تو…
ہوسکتا ہے میں کچھ مدد کر سکوں آپ کی پر آپ بتائیں تو.!

انعم شادی کے کچھ دن بعد میں نے ایک کاروباری سیٹھ سے کچھ پیسے ادھار لئے تھے…تاکہ اپنا کچھ چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرلوں….پر حالات بگڑتے چلے گئے اور مجھ پر مزیر قرض بڑھتا چلا گیا اور اب میں ان قرض تلے دب گیا ہوں…

انعم کو ارشد کی باتوں نے بہت دکھی کیا تھا اس کا شوہر اتنی تکلیف اکیلے ہی برداشت کر رہا تھا اور وہ اس کے لئے کچھ نہی کر پا رہی تھی….سلمان سے وہ پیسے مانگنا نہی چاہتی تھی کافی دیر سوچنے کے بعد وہ وہاں سے چلی گئی….
اور جب دوبارہ وہ لوٹی تو اسکے ہاتھ میں زیورات کا باکس تھا…یہ اسکے نکاح کے زیورات تھے جو وہ ارشد کو سونپنے آئی تھی…
یہ لے لیں….!!
یہ میرے کچھ زیورات ہیں اس سے کچھ قرض تو معاف ہو ہی جائے گا آپ کا اسے بیچ آئیں اگر یہ آپ کے کام نا آسکے تو پھر یہ میرے بھی کسی کام کے نہیں…

ارشد نے نا چاہتے ہوئے بھی انعم سے وہ زیورات کا باکس لے لیا اور اس سے وعدہ کیا کے وہ بہت جلد اسے یہ دوبارہ لوٹا دے گا..

ہیلو…..!!!
فون کے دوسری جانب سلمان کی سیکرٹری تھی
سر حماد سر آپ سے ملنا چاہتے ہیں…
انہیں اندر بھیج دو..
اوکے سر…

سلمان نے جیسے ہی فون کو کان سے ہٹا کر ریسیور پر رکھا حماد دروازے پر دستک دے چکا تھا….
حماد نا صرف سلمان کا مینیجر تھا بلکہ وہ اسکا بہت قریبی دوست بھی تھا جو اسکے دوسرے کام سنبھالتا تھا…
کہو حماد کیسے آنا ہوا….؟؟
اور اس ارسلان افتخار کے ساتھ تمہاری جو میٹنگ تھی اس کا کیا بنا؟؟
اسی سلسلے میں تو میں تم سے بات کرنے آیا ہوں….
ہاں بتاؤ کیا تفصیل ہے…؟؟
یار یہ ارسلان تو کوئی بہت ہی تیڑی چیز ہے…
پر یو نو نا….کہ میں بھی حماد شاہ ہوں….
بالآخر اسے ہمارے پروجیکٹ کے لئے ماننا ہی پڑا…

Ohhh…!! That’s great hammad

پر تمہیں اس deal کے لئے برازیل جانا ہوگا وہ بھی آج شام کی فلائیٹ سے….

اوکے….کوئی مسئلہ نہی ہے میں ابھی نکل جاتا ہوں…
یہاں کا سارا کام تم سنبھال لینا…..جب تک میں واپس نا لؤٹ آؤں..

اوکے بؤس…جیسا آپ چاہیں….حماد نے کہا

سلمان ہلکا سا مسکرایہ اور وہاں سے نکل گیا….اسے جانے کی تیاری بھی کرنی تھی….سارا کام اسے ہی کرنا پڑتا تھا…

………………………………………………………

میری باتوں کا اتنا برا لگ گیا تمہیں کہ اب تم گھر چھوڑ کر ہی جا رہے ہو….؟؟؟
زاہدہ بیگم نے سلمان کو پیکنگ کرتے دیکھا تو ان سے رہا نا گیا انہیں لگا سلمان ان سے اس قدر خفا ہو چکا ہے کہ اب وہ انکے ساتھ نہیں رہنا چاہتا اور یوں اچانک گھر چھوڑ کر جا رہا ہے…

آپ سے کس نے کہا میں گھر چھوڑ کر جارہا ہوں…؟؟
سلمان نے بیگ میں کچھ فائیل رکھتے ہوئے ان سے سوال کیا..اس کی ساری توجہ اس وقت اپنے سامان پر تھی وہ بہت ضروری میٹینگ کے لئے برازیل جا رہا تھا تو وہ بلکل بھی لاپرواہی نہی برتنا چاہتا تھا…

تو پھر یہ سب کیا ہے..؟؟ تم اپنے پسندیدہ کپڑے اور اپنی قیمتی چیزیں اس بیگ میں ڈال کر کہا جا رہے ہو؟؟؟ زاہدہ بیگم نے حیرانگی سے پوچھا.

آفس کے کام کے سلسلے میں برازیل جا رہا ہوں کچھ دنوں کے لئے…
یہاں کا سارا کام حماد دیکھے گا….
میں نے سب کچھ بتا دیا ہے اسے…ویسے تو وہ سب کچھ ہی جانتا ہے کیا کیسے کرنا ہے پھر بھی…..اگر آپ کو کوئی کام ہو یا کسی چیز کی ضرورت ہو تو حماد سے کہہ دیجئے گا..
چلیں اب مجھے نکلنا ہے میں نہی چاہتا میں لیٹ ہوجاؤں….
اپنا خیال رکھئے گا……
اللہ حافظ…..!!

بیگ کو ہاتھوں میں اٹھائے اب وہ گھر سے نکل چکا تھا….پر جاتے جاتے اسے اپنا ایک بہت ضروری کام پورا کر کے جانا تھا….
اس نے جیب سے سیل فون نکالا اور جلدی جلدی کوئی نمبر ڈائیل کرنے لگا….
کچھ ہی سیکنڈ میں کال ریسیو کرلی گئی تھی…
کہا ہو تم؟؟؟؟
سلمان نے فون ریسیو ہوتے ہی سوال کیا…
جواب ملتے ہی اس نے کہا کہ…..!!!
اگلے پندرہ منٹ کے اندر مجھے میرے آفس کے قریب والے ریستوران میں آکر ملو…مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے تم سے..
اتنا کہہ کر سلمان نے کال کٹ کردی اور موبائیل کو فلائٹ موڈ پر لگا کر جیب میں رکھ لیا…..
ڈرائیور کو اس نے پہلے آفس کے قریب والے ریستوران چلنے کا کہا…
اگلے پانچ منٹ میں وہ اس ہوٹل میں موجود تھا…جہاں اس نے کسی کو کال کر کے ملنے کے لئے بلایا تھا…..
اسنے اپنے لئے ایک کپ چائے آڈر کی اور گھڑی کی سوئیوں کو دیکھتے ہوئے اس انسان کا انتظار کرنے لگا جسے اس نے وہاں ملنے کے لئے بلایا تھا…سلمان کی چائے آچکی تھی پر وہ شخص اب تک نہی آیا تھا….

کسی کا انتظار کرنا اسے بلکل بھی پسند نہیں تھا پر جانے سے پہلے اس شخص سے ملاقات اور بات کرنی اس کے لئے بہت ضروری تھی.

وہ چائے کا آخری گھونٹ لے رہا تھا جب اس کے کندھے پر کسی نے پیچھے کے جانب سے ہاتھ رکھتے ہوئے اسے پکارا تھا…آواز کسی لڑکی کی تھی…..
اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ نشوا تھی…..

سوری مجھے لیٹ ہوگیا آنے میں راستے میں ٹریفک ہی اتنا ہوتا ہے تم تو جانتے ہی ہو….نشوا نے آتے ہی عزر پیش کیا…..
جب کے اسکا پہناوا اور میک اپ سے وہ اس بات کا اندازہ لگا چکا تھا کہ اسے اتنی دیر کہا ہوئی تھی.
ویسے یہ بیگ وغیرہ لے کر کہا جارہے ہو…؟؟
اور مجھے بھی اتنی جلد بازی میں بلا لیا….کچھ بتایا بھی نہی بس کہا آجاؤ….میں نے دوبارہ بھی کنٹیکٹ کرنا چاہا پر تمہارہ نمبر بند بتا رہا تھا….بتاو سلمان ارادہ کیا ہے؟؟؟
کہیں تم میرے ساتھ بھاگنے کی تو نہیں سوچ رہے؟؟
اگر سوچ رہے تو مجھے منظور ہے….
بس مجھے کال پر بتا دیتے میں تیاری کے ساتھ آتی نا….
اب میرے کپڑے…..جیولری….وہ سب کون لائے گا…؟؟
نشوا بس بولے ہی جا رہی تھی….

تمہارا ہوگیا ہو تو میری بات سنوگی….؟؟ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے شام کی فلائیٹ ہے میری….
ہاں ہاں میں سن رہی ہوں پر یار کچھ آرڈر تو کرو….
میں کر چکا ہوں تمہیں جو چاہیے منگوا لو…
اور میری باتوں کو زرا توجہ سے سنو…کچھ باتیں ہیں جن کا تمہیں پتا ہونا بہت ضروری ہے…

دیکھو تم جانتی ہی ہو ہمارے گھر والے ہمارا رشتہ کروانا چاہتے ہیں…
اور تم یہ بھی جانتی ہو کہ میں مریم سے کتنی محبت کرتا تھا..میری زندگی میں مریم کی جگہ کوئی اور لڑکی کبھی نہیں لے سکتی….
اممی کہ بہت اسرار پر میں ایک نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر بات نکاح کرنے کی ہی ہے تو پھر میں کسی ایسی لڑکی سے نکاح کروں گا جو طلاق شدہ ہوگی….

نشوا حیرت بھری آنکھو سے سلمان کو دیکھے جا رہی تھی اس کے پاس کہنے کے لئے کوئی لفظ نہیں تھے…
وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اگر سلمان نے کوئی فیصلہ کر لیا ہے تو اب اسے اس کے علاوہ کوئی اور کبھی پیچھے نہیں ہٹا پائے گا…

رہی بات تمہارے نکاح کی تو شاید تمہیں پتا نا ہو پر میرا دوست حماد وہ تمہیں پسند کرتا ہے اور تم سے نکاح کرنے کا خواہش مند ہے….
حماد بہت اچھا انسان ہے اور تم اس جیسے شخص کو ہی deserve کرتی ہو….وہ بہت خوش رکھے گا تمہیں…
گھر جاؤ اور ایک بار اچھے سے سوچ لو اس بارے میں پھر جو بھی تمہارا فیصلہ ہو مجھے بتا دینا…ابھی مجھے نکلنا ہے میں ویسے ہی بہت لیٹ ہوچکا ہوں….
نشوا نے آنکھ کے اشارے سے اسے ٹھیک کہا اور وہ وہاں سے اٹھ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ہوٹل سے باہر نکل گیا…

……………………………………………………

فون کی گھنٹی مسلسل بجتی ہی چلی جا رہی تھی انعم کچن میں تھی جب اس کی ساس نے اسے پکارا….
ارے بیٹی کہاں ہو تم….؟؟ دیکھنا زرا کون اتنا مرا جا رہا ہے…فون پے فون کیے جارہا ہے…..
انعم جو کچن میں کھانے کی تیاری کر رہی تھی ساس کی آواز پر دوڑتی ہوئی ہال میں آگئی فون اب بھی رنگ کررہا تھا..
اس نے ریسیور سے فون کو اٹھا کر کان کے قریب کیا…

تم فون کیوں نہیں اٹھا رہے ہو میرا..؟؟
تم کو کیا لگتا ہے میں اتنی آسانی سے تمہیں چھوڑ دونگا….؟؟ فون ریسیو کرتے ہی دوسری جانب سے کسی نے گرجتے ہوئے بولنا شروع کیا تھا..
جی…..آپ کون…؟ اور کس سے بات کرنی ہے آپ کو؟؟ انعم نے گھبرائے ہوئے لہجے میں دریافت کرنا چاہا…!!
اوہ…. تو جناب گھر پر نہیں ہے….کوئی بات نہیں ارشد کی آپ جو کوئی بھی ہوں اسے کہہ دینا کہ جو جویلیری وہ جوئے میں ہارا ہے نا اس کا بقیہ ابھی باقی رہتا ہے….اسے کہہ دینا کے شرافت چاہتا ہے تو جوئے کے پیسے دو دنوں میں مجھے لاکر دے دے ورنہ بختاور اسکا وہ حال کرےگا کہ اس کہ پاس نا رہنے کو کوئی جگہ ہوگی نا کھانے کو کوئی دانا….
انعم کے تو کان سن پڑگئے تھے…..یہ بات تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہی تھی کے ارشد نے جوا کھیلنے کے لئے اس سے جھوٹ بول بول کر ہر دفعہ پیسے لئے تھے…اس کے جتنے بھی ارمان تھے ارشد کے ساتھ ایک بہتر زندگی کے وہ سب ایک ہی پل میں چکنا چور ہو چکے تھے…
آنکھوں سے آنسو کسی بھی وقت اس کے رخساروں پر لڑکھنے کے لئے تیار تھے….!!

کس کا فون تھا بیٹی….؟؟ تم اتنی پریشان کیوں ہوگئی ہو؟؟ انعم کی ساس نے اسے پریشانی کے عالم مبتلا پایا تو پوچھ بیٹھیں.
نہیں کوئی بات نہی ہے اممی….وہ بس….گھر سے فون تھا…..میں بہت دنوں سے گئی نہیں ہوں نا تو اممی کو بہت یاد آرہی تھی میری….
انعم خود ہی ابھی ساری باتیں سمجھ نہی پائی تھی…اس لئے وہ سچ بتا کر انہیں پریشان نہی کرنا چاہتی تھی…
ٹھیک ہے پھر تم جاٰؤ کھانے کی تیاری کرو ارشد آتا ہی ہوگا…اور کسی دن وقت نکال کر مل آؤ اپنی اممی سے…
جی ٹھیک ہے….اپنے آنسوؤں پر ضبط کرتے ہوئے وہ کچن میں آگئی..

………………………………………………………

ہال میں بیٹھیں زاہدہ بیگم اب بھی ان ساری باتوں سے نکل نہیں پائی تھیں جو سلمان ان سے کہہ گیا تھا….
وہ کسی بھی صورت ایک طلاق شدہ کو تسلیم نہیں کر سکتی تھی ان کی نظر میں ایسی لڑکیوں کا کوئی مقام نہیں تھا…
وہ تو یہی جانتی تھیں کہ ایک گھر کو بنانا اور اسکو تباہ کردینا صرف عورت کے ہاتھوں ہوتا ہے….
گالوں پر ہاتھوں کو رکھے وہ مسلسل اسی سوچ میں مبتلا تھیں کہ ان سے کہا غلطی سرزد ہوگئی تھی جو انکا بیٹا آج ان سے اسطرح کی باتیں کرنے لگا تھا…..
اسی اثنا میں کوئی مسلسل دروازے پر دستک دیئے جارہا تھا…
زاہدہ بیگم آس پاس کی دنیا سے بلکل بے خبر تھیں…
نیلم جو ان کے گھر کی خادمہ تھی وہ کچن سے دوڈتی ہوئی آئی اور اس نے جیسے ہی دروزا کھولا…..
سامنے انعم کھڑی تھی….
وہ جلدی سے اندر آئی اور زاہدہ بیگم کو انعم کے آنے کی اطلاع دی…
انعم کا نام سنتے ہی زاہدہ بیگم دوبارہ سے اصل دنیا میں آچکی تھیں..
وہ دروازے تک گئیں اور انعم کو اندر آنے کا کہا….
زاہدہ بیگم بہت خوش تھیں کیونکہ انعم بہت دنوں بعد آئی تھی..
اور جس دور سے وہ گزر رہی تھیں انہیں کسی کے ساتھ کی بھی ضرورت تھی.
اس کے برخلاف انعم بہت خاموش تھی…
رسمی علیک سلیک کے بعد زاہدہ بیگم نے انعم سے اتنے دنوں بعد آنے کی وجہ پوچھی…..
انعم اب بھی نظریں جھکائے بلکل خاموش سی بیٹھی تھی…
تمہیں پتا ہے میں تمہیں کتنا یاد کرتی ہوں….
سسرال جاکر تو تم ہمیں بھول ہی گئی ہو ہمیں…..زاہدہ بیگم اپنی بیٹی سے شکوے کیے جا رہی تھیں….
انعم اب مزید ضبط نہی کرسکتی تھی….اس کے صبر کا باندھ اب ٹوٹنے لگا تھا…..اس نے فوراً ماں کو گلے سے لگا لیا…اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی…….
زاہدہ بیگم ششدر سی رہ گئی….کیا ہوا میری بچی…کیوں رو رہی بتاؤ مجھے….کسی نے کچھ کہہ دیا ہے……؟؟
اممی میری زندگی برباد ہوچکی ہے اب تو مجھے جینے کا بھی حق نہیں ہے…..پر…..پر میں بری نہیں ہوں اممی…..مجھے معاف کردیں…
انعم ہوا کیا ہے بتاؤگی تو حل نکلے گا نا میری بچی…..
اب کوئی حل نہیں نکل سکتا اممی…..وہ مسلسل رؤے جارہی تھی….

زاہدہ بیگم کو اب اسکی حالت دیکھی نہیں جارہی تھی….
وہ اٹھ کر فون کے پاس گئیں اور کہا کہ ٹھیک ہے تم نا بتاو میں خود ہی خبر لیتی ہوں تمہارے سسرال والوں کی..

نہیں رک جائیں ایسا مت کریں…میں بتاتی ہوں آپ کو…

کچھ دن پہلے ارشد نے مجھ سے میرے زیورات لئے تھے….کسی سے کاروبار کے سلسلے میں قرض لیا تھا انہوں نے جو وہ چکا نہی پارہے تھے…تو میں نے خود انہیں اپنے زیورات سونپے تھے…ارشد نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بہت جلد مجھے میرے زیورات لؤٹا دیں گے…
پھر مجھے اس واقعہ کے دو دن بعد ہی ایک کال ریسیو ہوئی سامنے سے کوئی بختیار بات کررہا تھا اس نے مجھے بتایا کہ ارشد وہ زیورات جوئے کی بازی میں ہار گیا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی رقم تھی جو وہ جوئے میں ہار چکا تھا اور وہ اسے لؤٹانی تھی…
مجھے اس وقت اس شخص کی باتوں پر یقین نہی ہوا….

رات میں جب ارشد گھر آئے تو میں نے باتوں باتوں میں بختیار کا ذکر چھیڑ دیا…..
بختیار کا نام سنتے ہی ارشد کے چہرے کا رنگ بدل گیا….
پہلے تو اس نے بختیار نام کے کسی بھی شخص کو پہہچاننے سے صاف انکار کردیا…..
پھر میری کال والی بات سن کر اس نے اسرار کر لیا کے ہاں اس نے اس سے جھوٹ بول کر زیورات لئے تھے….
نہ صرف زیورات بلکہ بہت سی رقم وہ جوئے میں ہار چکا تھا…
اور اب جب کے اسکا راز فاش ہوچکا تھا تو وہ اور بھی نڈر ہوگیا تھا….

زاہدہ بیگم یک ٹک انعم کو دیکھے جا رہی تھیں….
ان کی بیٹی اتنے دنوں سے اتنا سب اکیلے ہی برداشت کئے جارہی تھی اور انہوں نے اس کی خبر تک نا لی…..

جب میں نے ارشد سے ساری چیزوں کا حساب مانگا تو وہ مجھے گھسیٹتے ہوئے کمرے سے باہر لے آئے….
تم ہوتی کون ہو مجھ سے حساب کتاب کرنے والی….
مجھے لگا تھا تم سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہو…تب تمہیں اپنے گھر لیکر آیا تھا….پر تم نے کبھی میری مدد نہیں کی…..تم چاہتی تو اپنے بھائی سے کہہ کر بہت کچھ کروا سکتی تھی پر تم نے نہیں کیا…
آج میری اس حالت کی وجہ کوئی اور نہیں صرف اور صرف تم ہو…
جس طرح چاند پر گرہن لگ جاتا ہے ویسے ہی میری زندگی میں تمہارے نام کا گرہن لگ گیا ہے…..
تمہیں بہت تکلیف اور پریشانی ہے نا میرے ساتھ…؟؟
چلو آج میں تمہیں ان ساری تکلیفوں سے آزاد کرتا ہوں….
میں تمہیں طلاق دیتا ہوں انعم ریحان خان…….!!!

طلاق……طلاق…….طلاق

ارشد نے مجھے طلاق دے دی ہی اممی…….
انعم کے منہ سے اتنا سنتے ہی پورے ہال میں سناٹا چھا گیا….
زاہدہ بیگم کے قدموں سے تو جیسے کسی نے بہت زور سے زمین کھینچ لی ہو….انہیں اپنا وجود زمین کے تہہ میں دھنستا محسوس ہورہا تھا…..
وہ ساری باتیں جو انہوں نے سلمان سے کہی تھی کہ…..
طلاق اچھی لڑکیوں کے نہی ہوتے…..
میں کبھی کسی طلاق شدہ کو اپنی دہلیز پار کرنے نہیں دونگی….
حتٰی کہ سلمان سے کہے ایک ایک لفظ کسی فلم کے فلیش بیک کی طرح ان کے چارو جانب گھمنے لگے….
آج زاہدہ بیگم کو اپنے ہی کہے ہوئے لفظوں سے نفرت ہوگئی تھی….
ان کی اپنی ہی آواز ان کے کانوں میں نشتر کی طرح چبھنے لگی تھی…..!! ایک ہی جملہ بار بار انکی سماعت سے گزر رہا تھا…

” اچھی لڑکیوں کی طلاق نہی ہوتی..”

تو کیا ان کی بیٹی اچھی نہی تھی…؟؟؟
زاہدہ بیگم کا سارا وجود سست پڑ گیا تھا…….
اللہ نے ان کے سوالوں کا جواب انعم کی شکل میں ان کے سامنے پیش کردیا تھا.

“مکافات عمل دستک نہیں دیتی, جو آج تم کرو گے وہی کل تمہارے ساتھ ہوگا. “

……… ختم شد ………

از قلم سلمان ابراھیم خان