ناول راجہ گدھ کا خلاصہ | Raja Gidh Summary In Urdu

0

ناول ‘راجہ گدھ‘ بانو قدسیہ کا ایک مشہور و معروف ناول ہے جو 1981ء میں شائع ہوکر منظر عام پر آیا۔ بانو قدسیہ 28 نومبر 1928 کو مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئیں اور تقسیم ہند کے بعد لاہور آ گئیں تھیں۔ان کے والد بدرالزماں ایک گورنمنٹ فارم کے ڈائریکٹر تھے اور ان کا انتقال 31 سال کی عمر میں ہو گیا تھا۔ اس وقت ان کی والدہ ذاکرہ بیگم کی عمر صرف 27 برس تھی۔ بانو قدسیہ کی اپنی عمر اس وقت ساڑھے تین سال تھی۔ بانو قدسیہ نے پہلا ڈراما پانچویں جماعت میں لکھا۔ یہ ان کی پہلی کاوش تھی۔ اس ڈرامے کو اسکول بھر میں فرسٹ پرائز کا حقدار ٹھہرایا گیا۔

ایم اے اُردو کرنے کے دوران اشفاق احمد کی حوصلہ افزائی پر ان کا پہلا افسانہ ’’داماندگی شوق‘‘ 1950 میں اس وقت کے ایک سرکردہ ادبی جریدے ’’ادبِ لطیف‘‘ میں شائع ہوا۔1949 میں انھوں نے گورنمٹ کالج لاہور میں ایم اے اُردو میں داخلہ لیا۔ یہاں اشفاق احمد ان کے کلاس فیلو تھے۔ دونوں کی مشترکہ دلچسپی ادب پڑھنا اور لکھنا تھا۔ دسمبر 1956 میں بانو قدسیہ کی شادی اشفاق احمد سے ہو گئی۔ دونوں لکھاری تھے اور ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ شادی کے بعد دونوں رائٹرز کام میں جُٹ گئے۔ ایک سال بعد انھوں نے ایک ادبی رسالے ’’داستان گو‘‘ کا اجراء کیا تمام کام خود کرتے تھے۔ رسالے کا سر ورق بانو قدسیہ کے بھائی پرویز کا فنِ کمال ہوتا تھا جو ایک آرٹسٹ تھے۔ چار سال تک ’’داستان گو‘‘ کا سلسلہ چلا پھر اسے بند کرنا پڑا۔

اشفاق احمد ریڈیو پر اسکرین رائٹر تھے وہ دونوں ریڈیو کے لیے ڈرامے لکھتے تھے۔ ٹیلی ویژن نیا نیا ملک میں آیا تو اس کے لیے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ مسلسل لکھنے لگے۔ اشفاق احمد کی کوئی سیریز ختم ہوتی تو بانو قدسیہ کی سیریل شروع ہو جاتی تھی۔ ٹی وی پر بانو قدسیہ کی پہلی ڈراما سیریل ’’سدھراں‘‘ تھی جب کہ اشفاق احمد کی پہلی سیریز ’’ٹاہلی تھلے‘‘ تھی۔ بانو قدسیہ کا پنجابی میں لکھنے کا تجربہ ریڈیو کے زمانے میں ہی ہوا۔ ریڈیو پر انھوں نے 1965 تک لکھا پھر ٹی وی نے انھیں بے حد مصروف کر دیا۔ بانو قدسیہ نے ٹی وی کے لیے کئی سیریل اور طویل ڈرامے تحریر کیے جن میں ’دھوپ جلی‘، ’خانہ بدوش‘، ’کلو‘ اور ’پیا نام کا دیا‘ جیسے ڈرامے شامل ہیں۔

راجہ گدھ

1981 میں شائع ہونے والا ناول ’’راجہ گدھ‘‘ بانو قدسیہ کی حقیقی شناخت بنا۔ موضوع کے لحاظ سے یہ ناول درحقیقت ہمارے معاشرے کے مسائل کا ایک ایسا تجزیہ ہے جو اسلامی روایت کے عین مطابق ہے اور وہ لوگ جو زندگی، موت اور دیوانگی کے حوالے سے تشکیلی مراحل میں گزر رہے ہیں بالخصوص ہمارا نوجوان طبقہ ان کے لیے یہ ایک گراں قدر حیثیت کا حامل ناول ہے۔ یہ ناول مڈل کلاس کی جواں نسل کے لیے محض اسی لیے دلچسپی کا باعث نہیں ہے کہ ناول کے بنیادی کردار یونیورسٹی کی کلاس میں ایک دوسرے سے آشنا ہوتے ہیں بلکہ اس لیے کشش کا باعث ہے کہ بانو قدسیہ نے جذبات اور اقدار کے بحران کو اپنے ناول کا موضوع بنایا ہے اور اسلامی اخلاقیات سے عدم وابستگی کو اس انتشار کا سبب اور مراجعت کو ’’طریقہ نجات‘‘ بتایا ہے۔ راجہ گدھ کے 14 سے زائد ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔

یہ کہانی ایک گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھنے والے ایک دیہاتی لڑکے کی ہے۔ یہ لڑکا قیوم ایم اے سوشیالوجی کر رہا ہے لیکن فلسفے میں وہ افلاطون کا بھی باپ ہے، انسانی نفسیات، اس کے پیچیدہ مسائل، الجھنیں اور تجزیہ اس ناول کا تھیم ہے، لیکن ان سب کو بیان کرنے کے لیے عجیب سے کرداروں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ قیوم کے ساتھ پانچ لڑکیاں پڑھتیں ہیں اور پانچ ہی لڑکے ہیں کلاس میں۔ کلاس کا پہلا دن ہی بھونچال لے آیا، سیمی کو آفتاب سے، آفتاب کو سیمی سے عشق ہوگیا، قیوم اور کلاس کے لیکچرر سر سہیل کو سیمی سے نرالی قسم کا عشق ہو گیا، جس میں وہ آفتاب کو اپنا رقیب نہیں گردانتے۔ یہ بڑا ہی ڈھیٹ پن والا عشق ہے۔

سیمی ایک بیوروکریٹ کی بیٹی ہے ، جس کا باپ سیمی کی ہم عمر لڑکیوں سے ناجائز تعلقات ایسے رکھتا ہے جیسے وہ اس پر حلال کی گئی ہوں۔ سیمی کی ماں ڈھلتی عمر میں شوہر کو قابو کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، والدین کی ناچاقیوں سے تنگ آکر وہ ہاسٹل میں رہائش پذیر ہے، اور اپنی زندگی اپنے باپ سے بھی زیادہ آزاد انداز میں گزار رہی ہے۔ اس کی زندگی میں انجوائمنٹ ہی سب سے بڑی خوشی ہے۔ آفتاب کے عشق نے اس کو جس طرح ساتویں آسمان پر پہنچایا بلکل اسی طرح زمین کی ساتویں تہہ میں گاڑھ دیا جب آفتاب کی بے نے اس کو بطور بہو کے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

آفتاب پاکستان کے سب سے بڑے قالین فروش کا اکلوتا بیٹا ہے، اسکی منگنی اپنی ماموں زاد سے ہو چکی ہے۔ شروع شروع میں اسے آئیڈیل شخصیت دکھایا گیا مگر مصنفہ نے اس سے فلسفہ چھڑوانے کے چکر میں خود اس کی شخصیت کا کچرا کر ڈالا۔ آفتاب نے والدین کی رضا کے لیے زیبا سے شادی کرلی وہ زیبا سے بھی عشق کرتا ہے اور سیمی سے بھی لیکن وہ سیمی کے لیے ڈٹ کر خاندان کے سامنے نہیں آسکتا ہے، وہ سیمی کو چھوڑ دیتا ہے اور سیمی کالج کو۔

امتحانات سے پہلے ہی آفتاب کی شادی ہو جاتی ہے اور اس کی سہاگ رات کو سیمی قیوم کے ہاسٹل والے کمرے میں گزارتی ہے۔ قیوم اور آفتاب روم میٹ تھے، وہ آفتاب کی یادیں تلاشتی رہتی ہے۔ امتحانات تک سیمی اور آفتاب دونوں کو مناظر سے ہٹا دیا گیا۔ امتحانات کے بعد سیمی اور قیوم کے درمیان اس وقت تعلقات استوار ہوتے ہیں جب آفتاب پاکستان چھوڑ کر لندن چلا جاتا ہے۔ سیمی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے اور قیوم اس کو جناح باغ کے کافور کے درخت کے نیچے جذباتی سہارا دیتا ہے، ان کی اکثر ملاقات اسی درخت کے نیچے ہوتی ہے جس میں آفتاب سے لیکر زندگی کے ہر پہلو پر فلسفہ بیان کیا جاتا ہے۔ انتہائی ذہین دو مخالف جنس اپنے جذبات اور خیالات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور اکثر ہی اپنی حدود تجاوز کر جاتے ہیں اور انہیں اس بات کا کوئی دکھ شرمندگی، شرمساری نہیں ہوتی۔

کبھی کبھی سیمی منظر سے غائب کر دی جاتی ہے اور پھر اچانک ابھر آتی ہیں۔ سیمی وائی ڈبلیو کے بدنام زمانہ ہاسٹل میں رہائش پذیر ہے اس کے قیوم کے علاؤہ بھی دوسرے مردوں سے حد سے بڑھے تعلقات ہیں، لیکن ناول میں بار بار عشق کا رٹا لگایا جاتا ہے، ایسے لگتا سیمی دوسرے مردوں ( جو آفتاب نامہ سن کر بھی راہ نہ بدلیں) میں آفتاب کا جسم تلاش کرتی رہتی ہے، جب کوئی اور نہیں ملتا تو ہر وقت خدمت گزاری کے لیے قیوم حاظر و ناظر ہے۔

سیمی سخت بیمار پڑ جاتی ہے، مصنفہ نے یہ دیکھانے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ سیمی آفتاب کے فراق میں بستر مرگ پر جا پڑی ہے۔ سیمی ایک ہسپتال میں قیوم کے پیسوں پر زیر علاج ہوتی ہے کہ ایک رات خواب آور گولیاں نگل کر خودکشی کر لیتی ہے۔

قیوم کا دماغی توازن یہیں بگڑنا شروع ہوجاتا ہے وہ مختلف مناظر دیکھتا ہے جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں، یہ تب تک ہوتا ہے جب تک کوئی اور عورت اس کی زندگی میں نہیں آجاتی یہی حالت رہتی ہے، وہ چرس بھی پیتا ہے۔ اس دوران انسانی زندگی کا تجزیہ کیا جاتا ہے، مختلف روحانی راز کھولے جاتے ہیں، نفسیاتی الجھنوں کا حل نکالا جاتا ہے۔

اب نفسیاتی اور روحانی مسائل کی ڈسکشن کے لیے ایک گھریلو خاتون عابدہ سے قیوم کے تعلقات بنتے ہیں وہ اس کے ساتھ بھی ناجائز تعلق قائم رکھتا ہے۔ عابدہ شادی شدہ عورت ہے وہ جلد ہی توبہ تائب ہو کر واپس پلٹ جاتی ہے۔

پروفیسر سہیل سے ملاقات ہوتی ہے وہ قیوم کی جنس کو سمجھ کر اس کو یوگا مشورہ دیتے۔ ہیں مختلف یوگا سکھاتے ہیں لیکن قیوم حرام کی لذت اٹھا چکنے کے بعد حلال کے لیے خود کو تیار نہیں کر پاتا، جلد ہی یوگا ووگا ہوا ہو جاتاہے۔

پروفیسر سہیل اسے اپنی رازی بنائی تھیوری سے بہرہ مند کرتا ہے جس کے مطابق حرام کھانے سے انسان میں دیوانگی اور جنون پیدا ہوتا ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہے، وہ انسان کی پیدائش سے اب تک کی مثالیں دیتا ہے لیکن قیوم پروفیسر صاحب کو خاطر میں نہیں لاتے۔

قیوم خود کو ایک گدھ ہی مانتا ہے جو کہ حرام کھانے کا عادی ہے اور وہ اس پر راضی ہے۔ اس کو روکنے والا کوئی نہیں، اس کا بھائی صبح سات سے رات نو بجے تک کی نوکری کرتا ہے، اس کی بھابھی اس کی خصلت سے بخوبی آگاہ ہے اس لیے سو فٹ کے فاصلے پر رہتی، اس کا باپ شورذدہ گاؤں میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ رہا ہوتا ہے، دونوں بیٹوں کو کوئی پروا نہیں باپ چاہے بھوکوں مرے۔ اتنے فلسفے جھاڑنے والے کردار کہیں بھی والدین کے لئے باعث رحمت نہیں بلکہ باعث ذلت ہی ہیں۔

کہانی کا تقریباً ہر کردار پہنچا ہوا بابا ہے، یا افلاطون ۔ ہر کردار نے اپنا اپنا فلسفہ پیش کیا ہے اور ایسا پیش کیا جو یا تو صدیوں کے گیان کے بعد حاصل ہوتا ہے یا پھر روحانی عملیات وظائف کرنے بعد، لیکن یہاں تو ہر کردار ہی کندن لال ہے۔

عابدہ کے بعد قیوم کی حرام دہ زندگی میں امتل نامی بیالیس سالہ طوائف آتی ہے، طوائفوں کے حوالے سے تمام فلسفہ بیان کیا جاتا ہے اور امتل اور قیوم کے حرام تعلقات کا قصہ بیان کیا جاتا ہے‌۔ امتل کے زریعے گہرے عمیق کڑھے ہوئے تجربات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے، اتنا تو افلاطون نے ارسطو سے نہ سیکھا ہوگا جتنا امتل نے اپنے جسم کو بیچ بیچ کر حاصل کیا، اگر کسی کو زندگی کا فلسفہ سمجھنا ہو تو مڈل کلاس طوائف سے وقت لے، ویسے عام طور پر طوائفیں مردوں کی جنس کے علاوہ کسی اور تجربے میں صفر علم رکھتی ہیں۔

آخر کار بانو قدسیہ کو کافور کے درخت کے نیچے بیٹھے امتل طوائف سے سارا فلسفہ جھڑوا کر یاد آ ہی گیا کہ وہ ایک ان پڑھ جسم فروش ہے، اس لیے کھسیانی ہنسی ہنس کر امتل کہتی ہے کہ میں تو ان پڑھ گوار ہوں۔ اب اس ان پڑھ گنوار کے ساتھ قیوم صاحب نے بہت رہ لیا تھا، یہیں انہوں نے بچھڑنے کا فیصلہ کرلیا۔

قیوم گھر چلا جاتا ہے، صبح اطلاع ملتی ہے کہ امتل عزیز کا قتل اس کے مخبوط الحواس بیٹے نے کردیا ہے، امتل نے کبھی شادی کی تھی جس سے اس کا ایک مخبوط الحواس بیٹا تھا جو اب جوان تھا، چونکہ امتل نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا اس لیے وہ اپنے شوہر کی دوغلی شخصیت کے ساتھ زیادہ دیر نبھا نہ کر سکی، اور اسے چھوڑ دیا۔ امتل کا طلوعِ جوانی میں ایک شاعر سے عشق کا چکر بھی رہا، جو کہ اس کے بائیس ہزار لے اڑا اور شکریے کے طور پر دو شعر اس کے بستر پر لکھ گیا۔قیوم اپنی بھابھی سے کہتا ہے کہ اس کو ایک باکرہ ، پاکیزہ اور ان چھوئی لڑکی سے شادی کرنی ہے۔

حرام کھانے سے انسان میں جنون پیدا ہوتا ہے، اور یہ نسل در نسل منتقل ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ یہ جنون انسان سے مثبت سوچ چھین لیتا ہے اور منفی رویوں کو فروغ ملتا ہے، اگر اولاد میں سے کوئی مخبوط الحواس بچہ ہو تو 99 فی صد امکانات ہیں کہ والدین میں سے کسی ایک نے حرام کام سر انجام دیے ہیں،نامحرم سے حرام اور ناجائز تعلقات، خلقِ خدا کا ناحق خون کرنا، حق غصب کر لینا، اور دیگر تمام چھوٹے سے بڑے حرام کام سر انجام دینا، یہ سر سہیل کی تھیوری تھی، وہ امریکہ جاکر اس پر مزید مشاہدات اور تجربات کرنا چاہتے ہیں کہ کس طرح سے انسانی خون میں حرام کام سر انجام دینے سے منفی ہارمونز جنم لیتے ہیں اور مثبت ہارمونز منجمد ہو کر نکارہ ہو جاتے ہیں۔ تھیوری کے مطابق انسانی جسم میں حرام کام کرنے یا حرام کھانے سے سیلز میں زبردست بھونچال آتا ہے، اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ذہنی توازن کی خرابیوں کی وجہ بنتا ہے، یہی وہ وجہ ہے کہ اکثر حرام کھانے والوں کی اولادوں کا ذہنی توازن برقرار نہیں رہتا، یا پیدائشی پاگل ہوتے ہیں یا جلد یا بدیر حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ لیکن یہ پاگل پن نجات دہندہ ہے۔

قیوم کی شادی ایک باکردار لڑکی روشن سے ہوتی ہے، شادی کی پہلی رات ہی وہ بتاتی ہے کہ وہ افتخار نامی مرد کے بچے سے ہے، قیوم پر یہ خبر بجلی بن گرتی ہے، وہ اسے کہتا ہے کہ وہ اپنے عاشق کے پاس واپس جا سکتی ہے۔ پھر وہ افتخار کو سعودیہ عرب سے بلواتا ہے، روشن اور اس کا نکاح کر کے رخصت کر دیتا ہے۔

سر سہیل ایک دن اس بات کا اعتراف کرلیتے ہیں کہ وہ سیمی سے عشق کرتے ہیں، لیکن سیمی نے جب انہیں ٹھکرا کر آفتاب کا ہاتھ تھام لیا تو انہوں نے آفتاب کے دل میں یہ بات بٹھا دی کہ سیمی ایک بدکردار لڑکی ہے، اور دونوں جدا ہو گئے، لیکن مسلسل نفسیاتی مشقوں کی وجہ سے انہیں اپنے اس گناہ کا احساس ہی نہیں رہا۔

ناول کے دوسرے رخ میں پرندوں کی تاریخ ساز بیٹھک کے مناظر دکھائے جاتے ہیں، غالباََ روح پرندے سے مشابہت رکھتی ہے اس لیے بیٹھک میں طویل بحث کے بعد یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ گدھ حرام کھاتا ہے اس لیے اس کو دیوانگی کے دورے پڑتے ہیں۔ یہاں پر ناول بلکل فکشن پر مبنی ہے۔ یہ رخ دراصل سر سہیل کی تھیوری سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔

مابعد الطبیعیات کا بھی ذکر ملتا ہے مگر قیوم مستقل مزاج نہیں ورنہ روحوں کی دنیا کا تفصیلی جائزہ مل جاتا۔۔۔۔۔ آفتاب کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے جو کہ سیمی کا ہمشکل ہے، اس کی جسمانی ساخت اور ہئیت عجیب ہوتی ہے وہ ایک ایبنارمل بچہ ہے۔ افراہیم(بچہ) کو مابعد الطبیعیات کے تمام مسائل اور واقعات اپنی مادی جسم کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں لیکن جب وہ واقعات بیان کرتا ہے تو کوئی یقین نہیں کرتا ہے اس کی روحانی آنکھ قدرتی طور پر کھل چکی ہے، لیکن وہ دنیا والوں کے لیے پاگل ہے، وہ بیچ سڑک پر نیلے گنبد دیکھتا ہے اور چار مؤذن جو کسی اور کو نظر نہیں آتے۔ لیکن قیوم اس کی حالت سمجھتا ہے کیونکہ اس کو بھی گھماتے ہوئے یہ مناظر دکھتے ہیں۔ کہانی کا اختتام افراہیم کے بیچ سڑک پر سجدے پر ہوتا ہے اور قیوم کے تجزیے پر، کہ وہ جس عرفان کی پہلی سیڑھی پر اس عرفان کی آخری سیڑھی پر افراہیم سجدہ کر رہا ہے۔بھٹکا ہوا چار عورتوں سے ناجائز تعلقات رکھنے والا قیوم بلآخر اپنی آخری نیکی کے توسط سے عرفان ( درجہ ولیت) کی پہلی سیڑھی کے فرش کو چوم لیتا ہے۔

ناول میں وہ ٹاپکس زیر بحث لائے گئے ہیں جن پر عام انسانوں یا تعلیم یافتہ افراد کا اعتقاد نہیں، لیکن کافی حد تک بانو قدسیہ ان ٹاپکس کو واضح کرنے پر کامیاب رہیں، اگر وہ صحیح کرداروں کا انتخاب کرتیں تو ناول کی کہانی اتنی گنجلک نہ ہوتی، ناول نوجوان نسل کے لئے جن میں شعور پنپ رہا ہے، بہترین اور سبق آموز ہے۔

از قلم عائشہ اقبال