رسالہ تہذیب اُلاخلاق ایک تعارف

0

رسالہ تہذیب الاخلاق کی تاریخ و آغاز کے بارے میں مختصر یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ جب سر سید احمد خان اپنے بڑے بیٹے سید محمود کے ساتھ ١٨٦٩میں انگلستان گٸے تو وہ(سر سید احمد خاں ) غالباً ایک سال (١٨٦٩تا ١٨٧٠) تک وہاں رہے تو اس عرصے میں ان کو وہاں کے مشہور رسالوں بنام ٹیٹلر (The Tatler)، سپکٹیٹر (The Spectator) اور گارڈین(The Guardian) کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔

یہ رسالے معاشرے میں نو جوان نسل کے اخلاق کے ساتھ ساتھ اُن لوگوں کے اخلاق کو بھی اچھا اور بہتر سے بہترین بنانے کے لیے چھپتے تھے کہ جو بد اخلاقی کے ساتھ ساتھ بے راہ روی کا شکار ہو ریے تھے اور زیادہ تر ہو چکے تھے۔ ان رسالوں کی دیگر خوبیوں کے ساتھ ساتھ یہ خوبی بھی تھی کہ اس میں مزاح بھی موجود تھا۔ تو انگلستان کے لوگ ان رسالوں کا مطالعہ بڑے شوق سے کرتے اور ان سے لُطف اندوز بھی ہوتے تھے۔ تو اس طرح یہ رسالے ہر حوالے سے معاشرے کی اصلاح کے بڑے علمبردار تھے۔
رسالہ تہذیب اُلاخلاق ایک تعارف 1جب سرسید احمد خاں اپنے وطن ہندوستان واپس آۓ تو ان رسالوں کی بنا پر اُںھوں نے ایک نیا رسالہ اوراس کا نام ”رساله تہذیب اُلاخلاق رکھا“ اور سرسید کا اس رسالے کو چھاپنے کا مقصد معاشرے کی اصلاح کرنا تھی۔ لہٰذا جیسا کہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس رسالے میں انھوں نے سادہ و آسان مضامین لکھ کر معاشرے میں روز بروز بڑھنے والے اخلاقی مساٸل پر قلم اٹھا کر معاشرے کی اصلاحی و اخلاقی ترقی کی کوشش کی۔ لہٰذا اس رسالے کا پہلا شمارا 24 دسمبر 1870 میں شاٸع ہوا اور آخری شمارا2- فروری 1897 چھپا۔ ”مجلسِ ترقٸی ادب لاہور“ لاہور نے 1963 میں اس رسالے میں چھپنے والے مضامین میں سے انتخاب کرکے شاٸع کیا۔

” میزانِ ادب“ کے مطابق گیارہویں جماعت کی نصابی کتاب اردو میں موجود سبق ”اپنی مدد آپ“ اسی رسالے میں چھپنے والے مضامین میں سے انتخاب کرکے نصاب کا حصہ بنا ديا گیا ہے۔ اور نویں جماعت کی درسی کتاب اردو میں موجود سبق ”

کاہلی“ کے بارے میں بھی یہ ہی خیالات پاۓ جاتے ہیں کہ سبق بھی اسی رسالے میں چھپنے والے مضامین میں سے منتخب ہے۔ اس رسالے کا وہ ٹاٸٹل جو سرسید احمد خاں 1870 میں لندن سے تیار کرکے نیچے دیا گیا ہے۔

تحریر نوید شریف