ناول اداس نسلیں کا فکری و فنی جائزہ

0

پاکستان کا ایک ناول اور افسانہ لکھنے والا جسےپاکستان سمیت دنیا بھر میں پذیرائی ملی، وہ شخص جس نے اردو ادب کے لامحدود سمندر میں اداس نسلیں،باگھ،نادار لوگ، قید،رات،سات، رنگ، واپسی کا سفر،نشیب اور فریب جیسے بہترین ناولوں کو موتیوں کے مثل تراشا ہے۔ میری مرادعبداللہ حسین ہیں۔ آپ نے پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پورے پندرہ سال پہلے ۱۴ اگست ۱۹۳۱ کو راولپنڈی میں آنکھ کھولی۔ آپکا اصل نام محمد خان تھا جبکہ آپ نے ‘عبداللہ حسین’ کو بطورقلمی نام اختیار کیا۔

عبد اللہ حسین نے اپنی ادبی زندگی کی شروعات کہانی لکھنے سے کی تھی جبکہ آپکا باقاعدہ اشاعتی سلسلہ ۱۹۶۲ء میں رسالہ سویرا لاہور میں شائع ہونے والی کہانی ‘ندی’ سے ہوتا ہے۔ سمندر، جلاوطن، پھول کا بدن سمیت کئی کہانیاں لکھنے کے بعد عبداللہ حسین نے ناول لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔انگریزی میں آپ نے Émigré JourneysاورThe Afghan Girl کے عنوانات سے ناول لکھے جبکہ اپنے مشہورِ زمانہ ناول اداس نسلیں کا انگریزی ترجمہ The Weary Generationsبھی ازخود لکھا۔ دنیائے ادب کا یہ لافانی ناول نگار ۸۴ سال کی عمر میں ۴ جولائی ۲۰۱۵ کو خون کے کینسر میں مبتلا ہوکر لاہور میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملا۔

اداس نسلیں–از عبداللہ حسین

‘تقسیمِ ہند’ پر لکھا گیا ایک بہترین ناول، “اداس نسلیں” ۱۹۶۳ میں شائع ہوا۔ اس ناول کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ناول جذباتیت کی بجائے انسانی زندگی اور اسکی نفسیات پر مبنی ہے اور نصف صدی گزرجانے کےبعد بھی یہ ناول نوجوانوں میں اپنی دلچسپی کو پوری یگانگت سے قائم رکھے ہوئے ہے۔ ‘اداس نسلیں’ لکھنے کے لیے عبد اللہ حسین نے مواد کے حصول کا کام جون ۱۹۵۶ء میں شروع کیا تھا۔ وہ پانچ سال تک اس پر محنت کرتے رہے اور مئی ۱۹۶۱ء میں یہ ناول پایۂ تکمیل کو پہنچا لیکن اس کی اشاعت ۱۹۶۳ء میں عمل میں آئی۔

اس ناول کو عبداللہ حسین نے اپنے اباجان کے نام منسوب کیا ہے۔ میرا یہ ذاتی نقطہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے اہلِ دانش پاکستان کی تاریخ پر یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اس میں کافی حد تک فریبی عنصر شامل کردیا گیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس ناول کو پڑھ کر حقیقت تک پہنچنا کافی آسان ہوجائے گا۔

عبداللہ حسین کا ناول نگاری پر دلچسپ تبصرہ:

“ہر ادیب اور شاعر اپنی ہم عصر نسل کےلیے لکھتا ہے۔ یوں کبھی نہیں ہوا کہ کوئی ادیب قلم اٹھائے اور کہے کہ “اب میں آنے والی نسلوں کےلیے ادب تخلیق کرتا ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔” ہاں ایک کے بعد اگر دوسری نسل بھی اس کے ادب کو اسی شوق سے پڑھتی ہے اور اس کے ساتھ اپنے کو اسی قدر منسلک و مربوط محسوس کرتی ہےتو یہ بات ادیب کےلیے گویا بونس کے طور پر ہوتی ہے۔ اور اس سے اُسے۔۔۔ وہ جوکہ آخر قلم کا مزدور ہی ہوتاہے ، اتنی ہی خوشی حاصل ہوتی ہےجتنی کسی بھی محنت کش کو عید کے موقع پر ایک ماہ کی زائد تنخواہ کے ملنے کی ہوتی ہےاور وہ اس پر شکرگزار ہوتا ہے، گوکہ یہ کوئی عطیہ نہیں بلکہ اس کا اپنا حق ہوتا ہے۔”

ناول ‘اداس نسلیں’ کی تخلیق پر عبداللہ حسین کا تبصرہ:

“میں اپنی روز مرہ زندگی میں ۸ گھنٹے سیمنٹ فیکٹری میں کام کرتا تھا اور آٹھ گھنٹے سوتا تھا اور بقیہ آٹھ گھنٹے بالکل فارغ رہتا تھا۔ جس میں بوریت کا شکار ہو جاتا تھا۔ لہٰذا میں نے یہ سوچا کہ اس ‘بورڈم’ کو کیسے ختم کیا جائے؟ تو میں نے قلم اٹھایا اور سوچا کہ کوئی کہانی تحریر کرتا ہوں اور جو کہ چند صفحات پر ہوگی لیکن جب میں یہ لکھنے لگا تو میرے ذہن میں خاکہ بن چکا تھا۔ اب میں پریشان ہوگیا کہ میں نے یہ کون سا کام چھیڑ دیا جوکہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

اس کا جو پلاٹ ہے، وہ شروع سے آخر تک ایک ہی دفعہ ذہن میں آیا تھا۔ جب لکھنا شروع کیا تھا اس وقت یہ میرے لیے اتنا اہم نہ تھا، پھر میں نے باقاعدہ اس بارے میں پڑھنا شروع کیا۔ کتابیں پڑھیں، لوگوں سے ملا، گجرات کے ایک گاؤں بھی گیا وہاں جنگ عظیم اوّل کے ایک فوجی سے ملا اس طرح اس بےربط اور طویل کہانی کو میں نے بہت مشکل سے ترتیب دیا۔”
(کراچی لِٹ فیسٹیول ۲ فروری۲۰۱۳ء)

ناول’اداس نسلیں ‘ کا اسٹرکچر:

اس ناول کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
پہلا حصہ (ص ۱-۱۳۸) ‘برٹش انڈیا’ کے عنوان سے ہے۔ جس میں کُل’ ۱۱’سیکشنز ہیں۔ اس حصے میں ہندوستان میں انگریز حکومت کے راج(British India) کا بیان ہے۔

دوسرا حصہ (ص ۱۳۹-۴۰۰) ‘ہندوستان’ کے عنوان سے ہے جو بارہویں سیکشن سے شروع ہوتا ہوا سینتیسویں سیکشن پر مکمل ہوتا ہے۔ اس حصے میں ہندوستانیوں کا انگریزوں کی غلامی سے نکلنے اور ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا تذکرہ ملتا ہے۔

تیسرا حصہ(ص ۴۰۱-۴۸۵) ‘بٹوارہ’ کے عنوان سے ہے جو کہ اڑتیسویں سیکشن سے لیکر چھیالیسویں سیکشن پر ختم ہوتا ہے۔ اس حصہ میں تحریک کے نتیجہ میں ہونے والا بٹوارہ جوکہ پاکستان اور انڈیا کی شکل میں سامنے آیا، اس کا ذکر ہے۔

چوتھا حصہ (ص ۴۸۹-۵۱۲) ‘اختتامیہ ‘ کا ہے۔ اس میں پچاس تک کے سیکشن مکمل ہوتے ہیں۔ اس حصے میں مہاجرین کے شہرِ لاہورمیں قیام کی تصویر کھینچی گئی ہے۔
• اس ناول کی ٹائم لائن بیسویں صدی کا پہلا حصہ ہے جوقریب ۱۹۱۰ سے ۱۹۴۷ تک کا ہے۔

ناول کی کہانی و کردار :

ہندوستان کی تاریخ اور اسکے سماجی و سیاسی حالات کا چرچا کیا گیا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم، جلیاں والا باغ کا واقعہ (۱۳ اپریل ۱۹۱۹)، کانگریس کی انگریز حکومت کے ساتھ مزاحمت، مسلم لیگ کا کردار، بنگال میں قحط اور بٹوارہ کے وقت انسانوں پر ہوتا ظلم و ستم اور زیادتی و پریشانی دکھائی گئی ہے۔

اس ناول میں دو مسلمان خاندانوں کا ذکر ہے ایک روشن آغا کا خاندان ہے جو ایک بہت بڑے جاگیردار اور سیاسی اثر و رسوخ کے مالک ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ایاز بیگ اور نیاز بیگ کا خاندان ہے جو روشن پور گاؤں میں کاشتکاری کرتے ہیں۔

اس ناول کا مرکزی کردار نیاز بیگ کا بیٹا نعیم ہے۔ جو کلکتہ سے اپنی تعلیم مکمل کرکے روشن پور واپس آجاتا ہے۔ انہی دوران جنگِ عظیم کا آغاز ہوتا ہے اور نعیم کو زبردستی فوج میں داخل کرکے محاذ پر یورپ بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں سے نعیم افریقہ جاتا ہے جہاں اسکا ایک بازو کٹ جاتا ہے۔

جنگ کی واپسی پر نعیم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کس قدرحکومتِ وقت اور انکے منظورِ نظر لوگ ہندوستانی عوام کا خون چوس رہے ہیں اسی اثناء پر نعیم کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کرلیتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد نعیم اپنی محبت یعنی روشن آغا کی بیٹی عذرہ سے شادی کرتا ہے۔ مزید کئی کرداروں کی انٹری ہوتی ہے اور کہانی میں کئی نئے موڑ آتے ہیں اوراسکا اختتام پاکستان اور انڈیا کی صورت میں ہوتا ہے۔

ناول کا مرکزی کردار ‘نعیم’ :

نعیم کا کردار قاری کو اس قدر پریشان کردیتا ہے کہ وہ ایک خوبرو نوجوان کی اداسی اور زندگی کی مشکلات کا احاطہ کرتے کرتے خود کو اسکی زندگی سے ملانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ عبداللہ حسین نے نعیم کی کردار سازی میں ایک پیچیدہ نفسیات کا شخص، تملک اورغصے کا غیر متوازی بندہ اور فہم و ادراک اور دردِ دل رکھنے والا جانباز انسان دکھایا ہے۔

پہلا حصہ برٹش انڈیا

نعیم جو کہانی کا مرکزی کردار ہے، اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد شہر (نورمحل) آتا ہے جہاں اسکی ملاقات عذرہ نامی لڑکی سے ہوتی ہے۔چند ملاقاتوں میں ہی نعیم اس پر فریفتہ ہوجاتا ہے۔ محبت اور موسم کی حسین کروٹوں میں جسم کی خوبصورتی کا نظارہ جس انداز سے عبداللہ حسین نے قلمبند کیا وہ قابلِ ستائش ہے۔ کچھ دن بعد نعیم اپنے چچا ایاز بیگ کے ہمراہ گاؤں آجاتا ہے اور اسکے ساتھ کاشتکاری میں ہاتھ بٹانےلگتا ہے۔

اس ناول کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ عبداللہ حسین نے بہت وسیع پیمانے پرپنجاب کی ثقافت اور خوبصورتی کو بیان کیا ہے۔ کسانی زبان اور لغو الفاظ کے مکالمہ بھی دکھائی دیتے ہیں جو قارئین کے اذہان کو اُس جائے وقوع پر لے چلتے ہیں۔انگریز سپاہیوں کی ظلم و ستم کی انتہا اور معصوم مظلوم کسانوں اور عوام کی سسکیوں کا تذکرہ بھی دل موہ لیتا ہے۔ نسلی غیرت کے نام پر قتل کا بدلہ دیکھنا ہے تو مہندر سنگھ اور نعیم کا مکالمہ پڑھنے لائق ہے۔سیکشن ۷ کے اختتام پر زبردستی نعیم اور اسکے دوستوں کو سفید سارجنٹ اپنے ساتھ فوج میں بھرتی کرنے کیلئے لے جاتے ہیں۔

عبداللہ حسین نے اس ناول کو بالکل حقیقی رنگ دیتے ہوئے گفت و شنید میں انگریزی زبان کا جو معتدل استعمال کیا ہے اسکا جواب نہیں۔فوجیوں کا انداز اور کیمپ کے احوال، انگریز کے تبصرے سب ہی قابلِ داد ہیں۔ لیکن ادب کے ساتھ ہی جہاں ضرورت محسوس ہوتی ہے مکالمہ میں نوجوانوں کی غیر مہذبانہ گفتگو بھی شامل ہے۔لوگوں میں جنگ کا خوف اور زبردستی فوج میں بھرتی ہوئے مظلوم افراد کا موت سے خوف اور ڈر کی منظر کشی بھی پایہ کمال کی،کی گئی ہے مگر کیپٹن ڈِل اور ٹُھاکرداس کا انداز انفرادیت کا حامل ہے۔

قاری کیلئے جذباتی پہلو اس وقت ابھرتا ہے جب وہ ان حالات کو پڑھتا ہے کہ کس طرح نوبھرتی فوجی اپنے مختصر فارغ وقت میں ماضی کے رنگین قصے ایک دوسرے کو سنا کر خوش ہوا کرتے تھے۔جرمنی سے جنگ، بریگیڈ ہیڈ کوارٹرز کا قصہ ،زخمی فوجیوں کی داد رسی اور نعیم کے جذبات و خیالات پر یہ حصہ مکمل ہوتا ہے۔

دوسرا حصہ ہندوستان

اس حصہ کا آغاز روشن پور گاؤں کی پچھلے سالوں کی زبوں حالی اور حال کی آسودگی و خوبصورتی اور فاتح نعیم کی جوان بوڑھوں بچوں اور عورتوں میں بڑھتے ہوئے عزت و اکرام سے ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب تک واحد نعیم ہی تھا جو جنگ سے واپس زندہ لوٹا تھا۔ اس حصے میں اکثر آواز پر بھی زور دیا گیا ہے جیسے کہ کھرررر۔۔۔ کرررر۔۔۔ ، ہوئی شابا۔۔ہوئی شابا، ہنہ۔۔۔ وغیرہ۔ رومانوی پہلوؤں کو جس طرح عبداللہ حسین نے بیان کیا ہے وہ بےنظیر ہیں۔

نعیم اور شیلا کا ساتھ لیٹ کر پوری رات باتیں کرنا اور ایک دوسرے کو تعن بعن کرنا نہایت ہی بہترین طریقے سے رومانوی تصویر کی عکاسی کرتا ہے۔ چونکہ نعیم جرمنی کی جنگ میں انسانی جانوں کی بےدریغ قربانیوں کو دیکھ چکا تھا اس لیے اب وہ اندر سے جنگ کے خلاف تھا جو اس کے رویہ میں بھی جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔عورت کی امیدیں اور مستقبل پر مبنی خوابوں کے محلات کو کس طرح کوئی محبوب آکر بساتا ہے اور پھر گرا کر چلا جاتا ہے اس کی منظر کشی بھی ہمیں سیکشن ۱۴ کے اختتام پر شیلا اور نعیم کی جدائی پر دکھتی ہے۔

نعیم کا نور محل لوٹنا اور عذرا سے اسکی ملاقات ، دونوں کا ششدر ہونا کہانی میں ایک نئی روانی پیدا کرتے ہیں۔ چند سطروں بعد ہی عذرا، نعیم اور ایک مچھلی والے کا مکالمہ آتا ہے جس میں وہ جلیاں والا کا واقعہ سناتے ہوئے اپنی روداد بیان کرتا ہے۔

نعیم اور عذرہ کی شادی ، دہلی کاسفر کمالِ اتم بیان ہوا ہے۔ایک جگہ پربھوک، پیاس کی شدت اور مشروبات ولوازمات مل جانے پر اللہ کا شکر بجا لانا، نمایاں اہم اور اخلاقی پیغام واضح کرتا ہے۔گاؤں میں پولیس کی زیادتیوں پر نعیم کا کردار قارئین کوفردِ واحد کی قوت اور صلاحیت سے عوام کی امداد اور دلجوئی کا کلیہ سمجھاتا ہے۔ جبکہ ہمت افزانی اور محنت و مشقت کے باوجود حق کی خاطر جیل کی سیراور جیل کے حالات و واقعات کےبہت رنجیدہ نظارے بھی قارئین کی دلچسپی کو مزید تقویت دیتے ہیں۔

یہاں بھی حسن و مستی کا عنصر نمایاں رہتا ہے اور حسین و بدنما ، مہذب و ان پڑھ عورتوں کی گفتگو کو شامل کیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب روشن محل میں سیاسی سرگرمیاں اور اپَر کلاس لوگوں کی گفتگو خون جلانے کیلئے کافی معلوم ہوتی ہیں۔ بیوی اپنے شوہر کے بنا تنگی، تکلیف، آہ و زاری، فراق اور درد میں کیسے دن رات گزارتی ہے، عذرہ کے کردار سے بخوبی معلوم ہوتا ہے۔ عبداللہ حسین نے نعیم اور عذرا کی ملاقات اور جدائی کو جن سانچوں میں ڈھالا ہے وہ ناول میں گوہر نایاب کی طرح ظاہر ہوتے ہیں۔ تحرک آمیز اور ان تھک محنت سے لبریز نعیم کی زندگی اس وقت تبدیل ہوتی ہے جب اسے فالج کا اٹیک ہوتا ہے اور اس بیماری کےآثار اسکے وجود کو متاثر کرتے ہیں لیکن عذرا کی محبت اور تیمارداری طوفانی راتوں میں بھی نعیم کی خدمت گزاری سے باز نہیں آتی۔

تیسرا حصہ بٹوارہ

زندگیوں میں تبدیلی آچکی ۔۔ عذرا کی تحویل میں روشن محل کا ایک حصہ تھا، علی کمپنی میں مامور تھا اور نعیم وزارت تعلیم میں ملوث۔نعیم اپنی بیماری کے دوران کتب بینی کرتا اور اسکا ذوق شوق اب مزید بڑھ چکا تھا۔ اس حصے میں بنگال میں ہوئی تباہیوں کا بھی ذکر ہے اور ہجرت کے واقعات بھی ہیں جو انسانی اذہان و ارواح کو جھلساکر رکھ دیتے ہیں۔فلسفہ، پیغامات، شعوری گفتگو جیسے اہم مرکزی عناصر اس حصے میں نمایاں ملتے ہیں۔سول نافرمانی کی تحریکوں کی خبریں، لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی کانفرنسیں، آزادی کا اعلان اور پولیس کی تعیناتی ، غداری ،اشتعال انگیزی اور نعیم کی بڑھتی مشکلات اس حصے کا خاصہ ہیں۔ روشن محل سے تمام احباب کا بھاگنا ، لوگوں کا اپنی جانیں بچانے کیلئے ٹرینوں بسوں میں لٹکنا، عورتوں کی اپنی عصمتوں کی حفاظت کرنےکی خاطر جان دےدینا، ان سب کی منظرکشی دل دہلا دیتی ہے۔نعیم کی غریب الدیار کیفیت قارئین کے وجود پر لرزا طاری کرتی ہے اور مہاجرین کا طویل سفر اور پُر تعش و تکلیف دہ سفر آنکھوں کو نم کردیتے ہیں۔

اختتامیہ

تمام مصائب و آلام کے بعد آخر کار یہ کارواں لاہور پہنچتا ہے جہاں انہیں شہر میں رہنے کےلیے نیم بوسیدہ حویلی مل جاتی ہے۔ ماضی کے جھروکوں میں ڈوبے ، حال کی آسودگی کے ساتھ مستقبل میں بہتری کی امیدیں لگائے اس تین نسلوں کی اداسی پر محیط ناول کا اختتام ہوا چاہتا ہے۔

حرفِ آخر:

ناچیز کی ناقص رائے یہ ہے کہ عبداللہ حسین صاحب نے جتنے خوبصورت انداز میں ملکِ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کی دل فریب داستان کو قلم بند کیا ہے اسکی نظیر نہیں ملتی۔جبکہ اس وقت کے حالات و واقعات کا بیان، مہاجرین پر ٹوٹتے پہاڑ اور شہیدوں کی قربانیاں ہمیں اس عظیم مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اہمیت کا درس دیتی ہیں۔امید ہے کہ اس ناول کو پڑھنے کے بعد ہر کسی کے دل میں اپنے وطن کی محبت جوش مارے گی۔

از تحریر اظہر احمد