دشت ودر

0

شہروں کی رونق کی کیا بات یہاں دن کیا، کیا رات ۔گاؤں میں تو شام ہوتے لوگ بھی نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں اور شہروں میں دن کی رونق رات کے آگے پھیکی معلوم ہوتی ہے بعد  غروب آفتاب سڑکیں، بازار، شاپنگ سینٹرس، کلب، ہوٹلیں اس طرح جگمگا اٹھتی ہے جیسے سبھی جشن میں ملبوس ہوں۔

ہائیوے کے قریب والی سڑک کے کچھ اندر شام ہوتے ہی ایسی چکاچوندھ ہوتی مانو ستارے اپنے نور بکھیرنے خود فلک سے اتر آئے بھیڑ بھی عجب ہوا کرتی تھی لوگ جام اور موٹرکاروں کی عجیب و غریب آواز سے پریشان ہو کر قسمیں کھاتے دوبارہ اس راہ سے گزر نہیں ہو گا پھر بھی اگلے دن اسی سڑک کنارے انواع انواع اقسام کے اسٹریٹ فوڈ سے لطف اندوز ہوتے نظر آتے۔

آج بھی ہرروز کی طرح بھیڑ تھی سامنے چائے کی اسٹول  پر کچھ بزرگ حضرات کے گروہ کے علاوہ ایک گروپ نوجوان نسل کا بھی تھا جن کے سیر سپاٹے کی صدائیں بلند ہو رہی تھی سبھی اپنے آپ میں مصروف تھے ۔ ہائیوے کے طرف سے کئی گاڑیوں کے ساتھ ایک لال رنگ کی کار بھی اسی سڑک کی اور مڑ گئی اس کار کی تصویر اوروں کے مختلف معلوم ہو رہی تھی نہ لائٹ جل رہی تھی نہ مکمل طور پر ڈرائیور نظر آرہا تھا جلدی تو سبھی کو تھی نہ جانے اس کار والے کو کس بات کا خوف تھا کبھی کار کو ہائیوے کی طرف موڑتا تو کبھی آگے لےجانے کی کوشش کرتا پر نکل پانا ممکن نہ ہوا ۔ چائے کے اسٹول پر نوجوان نسل کا جو  گروپ تھا ان میں سے ایک بڑی سنجیدگی سے اس کار کو دیکھ رہا تھا نہ چاہنے کے باوجود بھی اس کا ذہن کار کی جانب منتقل ہو جاتا ۔اس لڑکے کو کار کی وینڈو سے کچھ آواز آنے کا اندیشہ ہوا اپنی تسلی کے لیے جوں اٹھ کر کار کی جانب بڑھا وینڈو ذرا سا کھلا ایک  ہاتھ وینڈو سے ذرا باہر کی طرف بڑھ ہی رہا تھا  کہ گہرے سیاہ اندھیروں نے اسے اپنی جانب کھینچ لیا کچھ باہر پھیکتے ہوے کار چلنے لگی نوجوان کار کی طرف لپکا اور شور مچانے لگا دیکھنے پر معلوم ہوا کپڑے کسی لڑکی کے ہیں اور کار بنا نمبر پلیٹ کے اس گہماگہمی میں کچھ لوگوں نے اس کار کا پیچھا کرنا شروع کیا لیکن کار راستوں کے دشت میں کھوگئ اور لوگ مختلف علاقوں میں تلاش کرتے رہ گئے۔