Majeed Amjed Biography | مجید امجد کی شاعری کا جائزہ

اردو نظم نظیر سے لے کر حلقہ ارباب ِ ذوق تک ارتقائی سفر سےگزری ۔لیکن نظم کو عروج میراجی ، راشد اور مجیدامجد کی بدولت حاصل ہوا۔ جنہوں نے موضوعاتی اور ہیئتی سطح پر اردو نظم میںنئے تجربات کئے اور نظم کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔نظم کی خصوصاً آزاد نظم کی جو ترقی یافتہ شکل میں آج نظر آتی ہے اس میںمجید امجد کا بہت بڑا حصہ ہے۔
مجید امجد جھنگ میں پیدا ہوئے۔والد کا نام میاں علی محمد تھا۔ مجید امجد ابھی چھوٹی عمر کے تھے اور ان کی والدہ بھی ابھی زندہ تھی کہ ان کے والد نے دوسر ی شادی کر لی۔ اس وجہ سے یہیں سے مجید امجد کے دکھوں ، مصیبتوں اور اذیتوں کا آغاز ہوتا ہے۔ ان کی والدہانہیں ساتھ لیکر اپنے والد کے گھر آگئیں ۔ مجید امجد کی ابتدائی تعلیم ان کے نانا کے ہاتھوںشروع ہوئی ۔ چنانچہ مجید امجد نے ابتداءعربی اور فارسی کی تعلیم اپنے نانا سے حاصل کی۔

والد کی دوسری شادی نے انہیں باپ کے جیتے جی ہی یتیم بنا دیا۔ اس پر مزید یہ کہ اوائل عمر ی میں ہی ان کی شادی ماموں کی بیٹی سےہوگئی ۔ اور بدقسمتی سے یہ شادی بری طرح ناکام ثابت ہوئی ۔ باپ کی طرح مجید امجد نے بھی دوسری شادی کر لی۔

مجید امجد کو بعض نقادوں نے اداسیوں کا شاعر قرار دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مجید امجد کو جو ماحول ملا تھا وہ نہایت مایوس کن تھا۔ با پ کی دوسری شادی اور اس کی شفقت سے محرومی ، پہلی شادی کی ناکامی ، اولاد سے محرومی اور زندگی میں ناکامیوں سے واسطہ ایسے سانحات ہیں جنہوں نے مجید امجد کو یقینا دنیا کی طرف سے مایوس کیا ہوگا۔ پھر دنیا کے لوگوں کے منافقانہ رویوں اور مکارانہ گفتگو نے بھی انہیں خاصا مایوس کیا ہوگا۔ اس لئے ان کے کلام میں ہمیں غم کے سائےزیادہ گہرے ملتے ہیں ۔ انہیں کچھ پانے کا غم بھی ہے اور پا کر کھونے کا دکھ بھی ہے۔ انہوں نےخود بھی اپنی شاعری کو فکر ِ خود سوز کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ ان کی شاعری کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں،

مجید امجد اداسیوں کا شاعر:

بقول فرخ درانی:
” مجیدامجد انسان کے ازلی اور آفاقی دکھوں کا شاعر ہے وہ بچھڑے دلوں ، پرانی برساتوں اور تنہا چاند نیوںکا شاعر ہے۔ زوال ، اضمحلال اور تنہائی کا جان لیوا احساس مجید کی شاعری کا بنیادی اور مرکزی نقطہ ہے۔
مجید امجد کی شاعری کا اہم ترین پہلو عام روزمرہ زندگی کے آئینے میں اپنی محرومیوں اور اداسیوں کا عکس دیکھنا ہے ان کی نظمیں جذباتی سطح پر قاری کو متاثر کرتی ہیں اور جذبات کی ایک تیز رو قاری کواپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے۔ وہ محسوسات و جذبات کا شاعر ہے۔ مجید امجد کی نظموں میںانسان کی نتہائی ، اداسی ، بے چارگی اور بے بسی کا ز کر اکثر ملتا ہے۔ مجید امجد کی شاعر ی میں ہر لمحہدکھ اور تنہائی کا شدید اظہار ملتا ہے۔ مثلاً:

یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
گناہوں میں لتھڑے رواجوں کی دنیا
محبت کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہاں ہر کلی دل کی کھلتی نہیں ہے
کوئی چق دریچوں کی ہلتی نہیں ہے
میر ے عشق کو بھیک ملتی نہیں ہے

مایوسی ہی مایوسی:

مجید امجد کی شاعری کو پڑھ کر قاری کے دل میں یہ احساس بیدار ہوتا ہے کہ وہ بالکل اس دنیا اور یہاں کی محفلوں سے مایوس ہو چکے تھے ۔ وہ انسان اور انسانوں کی اس موجودہ زندگی کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ وہ دنیا کے ا س نظام سے مطمئن نہ تھے وہ اس میں تبدیلی لانا چاہتے تھے ۔ایسی تبدیلی جہاں انسان کے دل کو خوشی اور سکون و آرام مل سکے۔ مثلاً:

اگر میں خدا اس زمانے کا ہوتا
تو عنواں کچھ اور اس فسانے کا ہوتا
عجب لطف دنیا میں آنے کا ہوتا

تنہائی کااحساس:

مجید امجد کی شاعری میں قدم قدم پر تنہائیوں کے جال بھی ہمیں نظر آتے ہیں مجید کا احساس زوال و اضمحلال اور تنہائی اس کی ذاتی محرومیوں ، ناکامیوںاور نا مرادیوں سے جنم لیتا ہے اور کبھی عالم اشیاءکی مجموعی بے ثباتی و ناپیداری اور زندگی کی بے حاصلی و بے مصرفی کے تصور سے پیدا ہوتا ہے۔

دل نے ایک ایک دکھ سہا تنہا
انجمن انجمن رہا تنہا
ڈھلتے سایوں میں تیرے کوچے سے
کوئی گزرا ہے بارہا تنہا

جب انسان کے پاس کوئی دوست نہ ہو جو مصیبت کے وقت اس کا ساتھ دے سکے ۔ کوئی ایسا غمگسار اور چارہ گر نہ ہو جو تنہائی کے مقام پر اس کے ساتھ کھڑ ا ہو سکے اور اس کی زندگی مصروفیت سے ہمکنار کرے تو ایسے لمحات میں ہر انسان کا دل اس دنیا او ر اس کائنات سے بھر جاتا ہےپھر اس کے دل میں دوستوں کے لئے اور رشتہ داروں کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی ہے۔ مجید امجد بھی لوگوں کے دیے ہوئے داغ سینے میں چھپا کر زندگی کے ایسے سفر پر روانہ ہوا ہے جس کےبارے میں وہ خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کدھر جا رہا ہے۔

میں سینے میں داغوں کے دیپک جلائے
میں اشکوں کے تاروں کے پربت اُٹھائے
خیالوں میں نغموں کی دنیا بسائے
رہ زیست میں بے خبر جا رہا ہوں
کہاں جا رہا ہوں کدھر جا رہا ہوں
نہیں جانتا ہوں مگر جا رہا ہوں

مجید امجد حیرت کا شاعر:

مجید امجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حیرت کا شاعر ہے ۔ حیرت کیا ہے اور امجد کے ہاں اس کا اظہار کس طرح ہوا ہے؟ بعض شعراءنے حیرت کے عالم کو سکوت کہا ہے یا سکوت کو حیرت کے مماثل قرار دیا ہے۔ جبکہ بعض حیرت اور سکوت کو جستجو اور تلاش کے ذریعے توڑتے ہیں۔حیرت انسان کو ٹھٹھکا دیتی ہے جبکہ جستجو اورکریداسے متحرک کر دیتی ہے اور آگے چلنے پر مجبور کرتی ہے ۔ اور یہی جستجو اسے جذبہ و احساس کی نئی دنیا میں لے جاتی ہے ”حرف آغاز “ میں مجید امجد کہتے ہیں:

عمر اس الجھن میں گزری
کیا شے ہے یہ حرف و بیاں کا
عقدہ مشکل
صورت معنی؟ معنی صورت؟
اکثر گرد سخن سے نہ ابھرے
وادی فکر کی لےلائوں کے
جھومتے محمل
طے نہ ہو ا ویرانہ حیرت!

تلاش و جستجو:

مجید امجد کی شاعر ی تلاش و جستجو سے بھری پڑی ہے۔ حسن کا انجام کیاہے ؟ انسان کی سعی کا حاصل کیا ہے؟ پرندوں کی زندگی کے مختصر لمحات کا دور اور انسانی کی ساری جہد حیات کس لئے ہے؟ ان کی نظم ”راہ گیر“ میں یہ احساس ملتا ہے۔

کوئی تو مجھ کو بتائے یہ راہگیر ہے کون
حسین انکھڑیوں میں حسنِ شش جہات لئے
لگی ہے اس کولگن جانے کس ٹھکانے کی
بھٹک گئی ہو نہ ٹھوکر کوئی زمانے کی

یہ تلاش و جستجو کی خواہش اس کی نظم”دستک “ میں اور زیادہ خوبصورتی سے اجاگر نظرآتی ہے۔مثلاً:

تم کہاں ہو، کہاں ، جواب تو دو اومیرے مہمان ، جواب تودو
تم نے دروازہ کھٹکھٹایا تھا کس کی دستک تھی کون آیاتھا
کس نے نیندوں کو مری ٹوکا تھا
کوئی جھونکا تھا کوئی دھوکا تھا

مجید امجد ایک پر امید شاعر:

بعض نقادوں کے خیال میں مجید امجد کو صرف اور صرف اداسیوں اور اداس شاموں کا شاعر کہنا سراسر زیادتی ہے۔ کیونکہ مجید امجد زندگی کی کیفیات کو ابھارتا نظر نہیں آتا۔ اور نہہی وہ صنفی قدروں کی حمایت کرتا ہے۔ وہ لمحہ بھر اداس ضرور ہوتا ہے لیکن یہ صرف ایک لمحات کیفیت ہوتی ہے۔ وہ زندگی سے مکمل طور پر مایوس نہیں ہے اگر و ہ مکمل طور پر مایوس ہوتا تو ”نژاد نو“ سے پیار کیوں کرتا اور نئی نسل کو یوں پھول کہتا کہ:

شریر روحیں
ضمیر ہستی کی آرزوئیں
چٹکتی کلیاں
کہ جن سے بوڑھی اداس کلیاں
مہک رہی ہیں

مجید امجد کی نظم ”ہری بھری فصلو“ اس کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ اگر وہ مایوس و نامراد انسان ہوتے تو کبھی ہر ی بھری فصلوں کو دعا نہ دیتے یہ دعا تو وہی شخص دے سکتا ہے جسے زندگی سےپیار ہو مثلاً:

ہر ی بھری فصلو!
جگ جگ جیو ، پھلو
جھومتے کھیتو ! ہستی کی تقدیرو، رقص کرو
دامن دامن پلو پلو ، جھولی جھولی ہنسو
ہری بھری فصلو
جگ جگ جیو ، پھلو

موسیقیت:

مجید امجد کی شاعری فکر کے علاوہ بلحاظ فن بھی ایک علیحدہ پہچان رکھتی ہے ان کی شاعری میں ایسے الفاظ اور الفاظ کا ایسا عمدہ استعمال کیا گیا ہے کہ جس نے ان کی شاعری کو چار چاند لگادئیے ہیں ۔شاعری کی خوبصورتی الفاظ کے ٹکرائو سے پیدا ہونے والی موسیقیت کی وجہسے دوبالا ہو جاتی ہے۔ مجید امجد واحد شاعر ہے جس نے الفاظ کے ٹکرائو سے منظر کشی اور موسقیت کا کام لیا ہے۔مثلا:

کتنی چھنا چھن ناچتی صدیاں
کتنے گھنا گھن گھومتے عالم
کتنے مراحل
جن کا مال ایک سانس کی مہلت
سانس کی مہلت عمر گریزاں
جسکی لرزتی روشنیوں میں
جھل مل ، جھل مل
جھلکے اک مسحور مسافت

زندگی کے تجربات کی عکاسی:

مجید امجد کا اصل فن یہ ہے کہ زندگی کے تجربے سے حاصل کئے ہوئے اس تاثر کو دوبارہ واقعات و کردار ، علامتوں اور مکالموں کی شکل دی جائے جس سے پڑھنے والا اس تاثر تک پہنچ سکے جو شاعر کا مقصود ہے۔ اس لئے اس کاتخلیقی عمل دوہر ا ہے۔ایک زندگی کےتجربے سے کسی تاثیر یا کیفیت یا معنویت تک پہنچنا اور دوسرے پھر اس تاثر کو دوبارہ واقعہ اور کردار کے روپ میں ڈھالنے کا عمل انہیں اخترالایمان ، میرا جی اور ن۔م۔راشد سے الگ کرتا ہے ان کی نظم ”طلوع فرض“ کا ایک بند ملاحظہ ہو:

چمکتی کار فراٹے سے گزری غبار ِ راہ نے کروٹ بدلی جاگا
اٹھا اک دو قدم تک ساتھ بھاگا
پیا پے ٹھوکروں کا یہ تسلسل یہی پرواز بھی اُفتادگی بھی
متاع زیست اسکی بھی مری بھی

ہیئت کے تجربے:

مجیدامجد کی شاعری فنی طور پر بہت ہی اہمیت کی حامل ہے ۔ انھوں نے ہیئت کے کئی تجربے کئے ہیں ۔ غزل نظم ، نظم معرٰی ، نظم آزاد، نثری نظم اور پابند نظم میں بھی اصناف اور ہیئت کےاعتبار سے ان کے ہاں بوقلمونی زیادہ ملتی ہے ، مجید امجد غزل کے شاعر نہیں نظم کے شاعر ہیں۔ لیکن کہیں کہیں انھوں نے غزل کی ہیئت میں بھی اپنے فن کا خوب اظہار کیا ہے۔مجید امجد نے جہاںہیئت کے بہت تجربے کئے ہیں وہاں اس نے نثری شاعری بھی کی ہے۔ ان کی نثری نظموں میں کہیںکہیں بعض مقامات پر خود بخود ایک آہنگ اور وزن پیدا ہوگیا ہے۔ جو کہ فطری ہے. اس حوالے سے”فرخ درانی“ مجید امجد کی نثر ی نظم کا موجد قرار دیتی ہیں۔

نثر ی نظموں میں آہنگ اور توازن:

مجید امجد کی شاعری میں وہ شعریت ہے جو شاعرانہ مصرعوں میں بہت کم ملتی ہے۔ مجید امجدنے لفظیات کا بہت خیال رکھا ہے۔اس کا لفظی ذخیرہ تو نہ کسی سے مستعار ہے اور نہ اس نےتقلید کرکے فرسودہ الفاظ استعمال کئے ہیں ۔ مجید نے ضرورت کے پیش نظر نئے الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی نثری نظموں میں بھی مخصوص قسم کی آہنگ اور توازن پیدا ہوگیا ہے۔مثلاً

باہر گیلی گیلی سڑکوں پر سرما کے محرم جھونکوں کے ساتھ تھوڑی دور
پامال دھوپ میں چلا ہوں
مولا! تیری معرفتیں تو انسانوں کے جمگھٹ میں تھیں
میں کیوں پڑا رہا
اپنے خیالوں کی کٹیا میں تنہا!

لفظ تراشی:

مجید امجد نے اپنی شاعری میں ایسے الفاظ تراشے ہیں جو دوسرے شعرا ءکے ہاں کم ہی ملتے ہیں ۔ اس لحاظ سے ہیئت کے حوالے سے وہ لفظ تراش ہیں۔ جس نے اردو ، ہندی ، عربی اور فارسی زبانوں کے الفاظ سے بھی کام لیا ہے۔ مجید امجد نے اصوات کو الفاظ کے روپ میں اس طرح پیش کیا ہے کہ الفاظ کے پس منظر میں آوازیں صاف معلوم ہوتی ہیں۔نظم ”پنواری “ملاحظہ ہو۔

شام کو اس کا کم سن بالا بیٹھا پان لگائے
جھن جھن ، ٹھن ٹھن چونے والی لکڑی بجتی جائے
ایک پتنگا دیپک پر جل جائے ، دوسراآئے

اسی طرح مجیدامجد اےسے الفاظ استعمال کرتا ہے جس سے منظر کی بڑی جاندار تصوےر بن جاتی ہے مثلا:

کالی چونچ اور نیلے نیلے پنکھوں والی
چوں چوں ، چچر چچر ، چچلاتی لالی

ان دو مصرعوں میںایک خوب صورت پرندے کی خوب صورت تصویر فوراً تصویر کے پردے پر ابھر آتی ہے۔ اور ہماری سماعت اس کے چہچہانے کی آواز بھی سننے لگتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات مجید امجد نے الفاظ کے ٹکرائو سے بھی منظر کشی اور موسیقیت پیدا کی ہے۔ مثلاً

کتنی چھنا چھن ناچتی صدیاں
کتنے گھنا گھن گھومتے عالم
کتنے مراحل جن کا مال اک سانس کی مہلت

مجید کی ہیئتوں کی علیحدہ پہچان:

شاعری کے میدان میں اچھا شاعری وہی ہے جو زندگی کے نمائندہ مظاہر کو ڈرامائی یا افسانوی معنویت کے ساتھ پیش کرتا ہے اور اس کے لئے واقعات کا تانا بانا بنتا ہے۔ کردار تراشتا ہے، منظر کشی کرتا ہے اور علامتیں اور استعارے ڈھونڈ کر لاتا ہے ۔ جدید شاعری میں اس کی مثالیں میراجی، ن ۔ م ۔راشد اور اخترالایمان کے ہاں ملتی ہیں۔ مجیدامجد نے ان سب کا اثر قبول کیا ہے ۔ لیکن خود اپنی انفرادیت بھی قائم رکھی ہے۔

مجید امجد کی مندرجہ ذیل بندوں کو اگر بغور دیکھا جائے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح ان کیہیئت اپنی علیحدہ پہچان کراتی ہے۔ نیز یہ نظمیں مجید امجد کی شاعری پر معاصر شعراءکے اثر کو بھی واضح کرتی ہیں۔مثلاً

جا رہا ہوں زرفشاں پوشاک میں لپٹا ہوا (ن۔م ۔ راشد)
زرفشاں پوشاک ، نیچے دل ِ حسرت نصیب
اک شرر پیراہنِ پوشاک میں لپٹا ہوا
کون دیس گئیو ، نیناں کون دیس
گئیو
کجرارے اور متوارے او نیناں (میراجی کا اثر)

غزل کے مصرعے سے انحراف:

مجید امجد میراجی اور اخترالایمان کی طرح غزل کے مصرعے سے انحراف کرتے ہیں ۔غزل کا ہر شعر اپنی جگہ مکمل ہوتا ہے اور اس کے ایک مصرعے اور ادھورا ٹکڑا دوسرے مصرعے میں عام طور پر جا کر پورا نہیں ہوتا۔ راشد نے غزل کے اس اسلوب کو آزاد نظم میں بھی برقرار رکھا ہے۔ میراجی اور اختر الایمان نے اسے توڑا۔ مجید امجد کے ہاں بھی یہی کیفیت ملتی ہے۔مثلا

ادھر وہ مصیبت کے ساتھ ملائے ہوئے سےنگوں سے سینگ شانوں سے شانے
رواں ہیں نہ جانے
کدھر کس ٹھکانے

گیتوں کی جھنکار:

ڈاکٹر محمد حسن مجید امجد کی مخصوص تکنیک اور ہیئت کے تجربات کے بارےمیں رائے دیتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ،
” غزل کے آب و رنگ کی جگہ مجید نے شاعری میں گیتوں کا آب و رنگ استعمال کیا ہے وہ گیتوں کی جھنکار سے کام لیتے ہیں ۔ کبھی کبھی ہندی کے عام فہم الفاظ اور تلمیحات بھی برت لیتے ہیں۔ میراجی نے گیتوں کی جو روایت اپنائی تھی اس پرمیں مجید امجد نے اضافہ کیا ہے۔ “مثلاً ایک گیت ملاحظہ ہو:

اور طنبور بجاتے راہی گاتے راہی
جاتے راہی
ساجن دیس کو جانا ، ساجن دیس کو جانا

اس کے علاوہ مجید امجد منظر کشی ، کردار نگاری اور مکالموں تینوں کو خلط ملط کرکے افسانے، ڈرامے اور کسی قدر فلم کی تکنیک اختیار کر لیتے ہیں، مثلاً

ہم تو سب کچھ جانیں
سب کچھ جس کو دنیا جانے ، لیکن منہ سے نہ مانے
ری ری ری ہم سب کچھ جانیں ، کیا ہے خوشیوں کے یہ سارے
دکھاوے

محاکات نگاری:

مجید امجد کی شاعری کی ایک اورخصوصیت محاکات نگاری ہے۔ مجید حسیاتی تاثر پاروں سے زیادہ نظر نواز علامتوں کا شاعر ہے۔ فیض کے ہاں محاکات کا استعمال احساس باطن کے سہارےہوا ہے۔ لیکن مجید امجد اختر الایمان کی طرح حرکی اور نظر نواز علامتوں اور مناظر سے کام لیتے ہیں۔مجید امجد کا ذہن تصاویر کی شکل میں سوچتا ہے۔ وہ کیفیات کو بھی مرئی مناظر ، اشیاءواقعہ اورمحل کا پیکر بخش دیتا ہے۔ ”ریوڑ “ کی ایک تصویر ملاحظہ ہو۔

مست چرواہا چراگاہ کی ایک چوٹی سے
جب اترتا ہے تو زیتون کی لامبی سونٹی
کسی چلتی ہوئی بدلی میں اٹک جاتی ہے

مجموعی جائزہ:۔

بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں جنم لینے والے شاعروں میں مجید امجد سب سے زیادہ منفر د نظر آتا ہے۔ جس دور میں ترقی پسند تحریک اور حلقہ اربابِ ذوق کی تحریک شاعروں اور ادیبوں کو متاثر کر رہی تھی ، مجید امجد نے اپنے لئے دوسروں سے الگ راہ چنی اور دوسروں کی بھیڑسے الگ ہو کر ادبی سفر جاری رکھا ۔ نہ کوئی ان کی پیروی کرسکا اور نہ ہی کوئی ان کے ساتھ چل سکا ۔گویا اپنی ادبی ، فنی اور زندگی کے سفر میں یہ احساس اور خوددار شاعر و فنکار اکیلا ہی رواں دواں رہا۔البتہ اپنی محرومیاں ہر جگہ ، ہر وقت اور ہر مقام پر اس کے ساتھ رہیں ۔ بقو ل فرخ درانی،
” نثری نظم کی ابتداءاور ایک خاص حد تک اور خاص مقام تک تکمیل مجید امجد کی شاعری کا طرئہامتیاز ہے۔“

بقول پروفیسر جمیل احمد انجم
” نظم جیسی صنف سخن میں مجید امجد کے لئے ہیئت کا میدان بہت وسیع تھا ۔چنانچہ آزاد نظم ، نظم معٰری ، پابند نظم ، ترجیع بند ہر ہیئت کا الگ اسلوب مجید کی شاعری کا حصہ ہے”۔