Media Aur Islam | میڈیا اور اسلام

میڈیا معنی ومفہوم

میڈیا کا مطلب ، زندگی کے مختلف شعبوںکے متعلق خبروں، واقعات اور حادثات کاجائزہ لیکر ایک خاص تر تیب سے معلو مات جمع کر ناپھر اس کو عام فہم انداز میں پیش کر نا ہوتا ہے۔میڈیا انگر یزی میں میڈیم(Mediam) کی جمع ہے جس کے معنی وسائل و ذرائع ابلاغ اور نشراشاعت کے ہیں ۔آکسفورڑ ینیورسل ڈکشنری میں میڈیا کا معنی یہ بتایا گیا ہے کہ : اخبار،اورٹیلوژن یا ریڈیو جس کے ذریعے عوام تک معلومات یا پروگرام پہنچایا جائیں۔(۱)میڈیا آکسفورڑ ڈکشنری کے مطابق  Means and institutions for publishing and broadcasting  information(۲) یعنی ذرائع ابلاغ خصوصا اخبارات و جرائد اور نشرو اشاعت کا مجموعی نام ہے۔ہر دور میں ایک دوسرے کے خیالات ،پیغامات ،اور معلومات کی ترسیل کا کو ئی نہ کو ئی ذریعہ رہا ہے۔ پہلے ٹیلی گراف کا زمانہ تھا۔اس کے بعد ریڈیو کا دبدبہ تھا پھر اخبار ،رسائل وجرائد اور ٹیلوژن کا دور آیا لیکن اب انٹر نیٹ کا زمانہ ہے جو معلومات فراہم کر نے کا تیز ترین ذریعہ ہے۔ میڈیا ذرائع ابلاغ کی بنیادی طور پر تین قسمیں ہیں۔

(۱)پرنٹ میڈیا (۲) الیکٹرانک میڈیا (۳)سائیبر میڈیا

۱۔  پر نٹ میڈیاسے مراد اخبارات اوررسائل و جرائد ہیںجو معلومات حاصل کر نے کا اور لو گوں کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کا سب سے آسان اور سستا ذریعہ ہے یہ اگر چہ ابلا غ کا پرانا ذریعہ ہے لیکن اس کی اہمیت و افادیت آج بھی بر قرار ہے۔ ۲۔  الیکٹرانک میڈیا جس میں ریڈیو،ٹی وی اور کیبل وغیرہ شامل ہیں یہ ابلاغ کے جدید ذرائع ہیں ۔اس میں فلمیں،سیریلز اور اشتہارات بھی شامل کیا جاسکتا ہے کیو نکہ یہ بھی پیغام پہچانے کے موثر ذرائع ثابت ہورہے ہیں ۔الکٹرانک  میڈیا نے ۱۹۹۱ء کے بعد یعنی لبرل معاشی نظام کے غالب ہونے کے بعد جنم لیا ۔۳۔سائیبر میڈیا: یہ میڈیا کی جدید ترین شکل ہے اسے جدید میڈیا بھی کہا جاتا ہے ۔ آج دنیا میں اسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور اس کی اہمیت، افادیت اور وسعت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔سائیبر میڈیا میں انٹرنٹ، ویب سائٹس ، بلاگز وغیرہ شامل ہیں۔

 میڈیا کی اہمیت و افادیت

ہر قو م،ملک اور تحریک اپنی بات لو گوں تک پہنچا نے اور ان تک ملک و قوم کے مسائل سے باخبر رکھنے کے لئے میڈ یا کا ہی سہارا لیتی ہے۔میڈ یا یا ذرائع ابلاغ ایک ایسا ہتھیار ہے جو بہت ہی کم وقت میں کسی بھی مسئلہ یا ایشوکے متعلق لو گوں کے ذہنوں کو ہموار کر تا ہے۔بلکہ ان کی رائے بھی بناتا ہے ۔یہی لوگوں کی دلچسپیاں اور ان کی ترجیحات متعین کرتا ہے ۔ یہ میڈیا ہی ہے جو کسی کام پر اکساتا ہے اور کسی اہم کام سے توجہ بھی ہٹاتا ہے ۔ آج فرد سے لیکر حکومت تک کی نکیل میڈیا ہی کے ہاتھ میں ہے  ۔بہت  عرصے سے مقننہ،انتظامیہ اور عدلیہ کو کسی بھی ریاست کے تین اہم ستون تصور کیا جاتا ہے  اور ان تینوں اہم اداروں کے ذریعے کو ئی بھی تبدیلی لائی جاسکتی ہے لیکن اب کسی بھی ریاست یا جمہوری ملک کا چوتھا ستون میڈ یا کو گردانا جاتا ہے ۔ملنراے(Milner A)  اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ:میڈ یا نہ صرف سماج کا ایک اہم حصہ ہے بلکہ ایک جمہو ری ملک کا بھی اہم ستون ہے یہ مجموعی طور پر ہر ملک و قوم میں  لوگوں کی آواز اور ہتھیار ہے۔ (۳)اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جدید دنیا میں میڈ یا کی اہمیت اور ضر ورت ہر لحاظ سے پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے کیو نکہ یہ نہ صرف رائے عامہ کو ہموار کر نے میں اہم رول ادا کر تاہے۔ بلکہ لو گوں کے ذہن و فکر کو بھی تبدیل کرنے میں کلیدی رول ادا کر تا ہے یہ لو گوں کے ذہنوں کو بنانے اور بگاڑنے میں سب سے اہم ذریعہ ہے ۔مارٹن ایلن(Martin alhum))اور نکلاس کارلر( Nikalas Carlar)) کی یہ بات کتنی اہمیت کی حامل ہے جب انہوں نے کہا کہ: میڈ یا اپنا پیغام پہچانے کے سلسلے میں لو گوں پر ہر طر یقے سے اثر انداز  ہو کر ایک طاقت ور کردار ادا کرتا ہے۔اور اپنی رائے سے لو گوں کو متاثر کر تا ہے۔(۴)

    میڈ یا کے ذریعے سے تر قی یافتہ ممالک اپنے افکارو نظریات ،تہذیب وتمدن،اقتدار اور فیشن کو خوب بڑھاوا دیا جاتا ہے ۔اس وقت دنیا کی صورت حال یہ ہے کہ اس گروہ کا جادوچل رہاہے جن کے ہاتھ میں ابلاغ کے ذرائع ہیں( 5 )  ۔اس بات  میں ذرا بھر بھی مبالغہ نہیں ہے کہ جو بھی قوم و ملک سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھتی ہے وہ نہ صرف زمین پر بلکہ آسمان پر بھی کمندے ڈالتا ہے ۔ڈے اے صدیقی کی یہ بات کتنی قابل غور ہے جب انہوں نے لکھا ہے کہ: In the twenteeth first century it appears that who  over controls the air waves will control the whole world and what eve3r is beyond it (6) طاقت ور میڈ یا  ہی ملک  و قوم کو صحیح خطوط پر استوار رکھنے کے لیے اہم رول ادا کر سکتا ہے اور جب میڈ یا ہی اصول پسندی اور اقدار پر مبنی  طرز عمل کو نظر انداز کر تا ہے  تو یہ عام لوگوں کی تباہی کا ذر یعہ بنتا ہے میڈیا کی آواز بعض اوقات پار لیمنٹ اورعدلیہ سے بھی طاقت ور ہو تی ہے کیو نکہ یہ ظالم کے کر تو ت اور مظلوم پر کی گئی  ناانصافی اور پھر  اس کی بے بسی کو نمایا ں کر نے میں ایک  کارگر ہتھیا ر کے طور ثابت ہو تا ہے ۔میڈیا  تعمیر و تر قی کا بھی ایک ذریعہ ہے اور تخریب کاری کا بھی ۔ہم آج ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں بڑے پیمانے پر  جنگ میڈ یا کے سہارے لڑی جارہی ہے۔پروفیسر مرتضیٰ مسیک کا یہ تجزیہ مبنی بر صداقت ہے جب انہوں نے کہا کہ ذرائع ابلاغ کے اس دور میں جنگ میڈ یا کے ذریعے سے شر وع ہو تی ہے اور اختتام بھی ۔یہ رائے عامہ کو ہموار بھی کر تا ہے اور حقائق کو چھپاتا بھی ہے یہ ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور ہمیں دنیا ویسی  ہی دکھاتا ہے جیسے وہ چاہتا ہے۔(۷)

 مغربی میڈیا کی کارستانیاں

اس وقت جاردانگ عالم پر بھی میڈیا کا دبدبہ ہے وہ مغربی میڈیا ہے ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے ۷۰ فیصد پر اسی کا قبضہ ہے ۔ اس نے تمام اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھا ہے۔سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ،ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم اور امن پسند کو دہشت گرد ثابت کرنا مغر بی میڈ یا کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔مغر ب نے میڈ یا کے ذریعے سے انتہائی منظم منصوبہ بند ی کے ساتھ اپنی فکر و تہذیب کی خوب تشہیر کی اور کر رہا ہے۔ عالمگیر یت کے اس دور میں مغر ب نے ذرائع ابلاغ کی وساطت سے علم و فکر سے لے کر سوچنے سمجھنے کے زاویہ تک اور کھانے پینے ،رہنے سہنے اور طرز گفتگو سے لیکر گھر یلوں معاملات کے طور طریقے تک بد ل کر رکھ دیا ہے اور اس کے نتیجے میں مغر بی فکر و تہذ یب اور اقدار نے پوری دنیا میں ایک بحران کی کیفیت  پیدا کر دی ۔عالمی میڈیا نے بالعموم اور مغر بی میڈ یا نے بالخصوص اسلام اور عالم اسلام کے خلاف مشرق و مغر ب میں ایک بڑا محا ذکھول رکھا ہے اور بہت سی قسمیں اسلام  اور مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کے در پے ہیں ۔ مغر ب نے اپنے بے شمار و سائل و ذرایع سے اسلام اور عالم اسلام کی حقیقی تصویر پو ری دنیا میں انتہائی غلط انداز سے پیش کی ہے اور کر رہا ہے مغر بی میڈ یا جب چاہتا ہے کو ئی نہ کوئی نئی اصطلاح  وضع کر دیتا ہے اور کو ئی نیا  شو شہ چھوڑ دیتا ہے دنیا کے بہترین وسائل جن میں ادبی تحقیقی اور سیاسی پر چے شامل ہیں،مغر بی دنیا سے شائع ہو کر ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیںان رسائل میں ایک خاص نکتہ پیش کیا جاتا ہے جو مغر بی  دنیا کے عین مطابق ہو تاہے۔(۸) ۹۰ کی دہائی سے بالعموم اور 9\11 سے بالخصوص مغرب نے اپنے ناپاک سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ذرائع ابلاغ کو شاہ کلید کے طور پر استعمال کیاہے جس کے ذریعے سے اس نے اسلام اور اسلام پرستوںکو بنیاد پر ست (Fundamantlism)انتہا پسند (Extremist)،دہشت گرد(Terrorist)اور جنوبی (Fanatics ) قرار دے کر عالم اسلام کے ہر کو نے میں اسلام اور اس کے علمبردار ں کا خوب مذاق اڑا رہا ہے۔اس کے ہاں اب دہشت گرد اور مسلمان میں زیادہ فرق نہیں رہا۔اس وقت مغر بی دنیا اسلام کے ماننے والوں سے بھی زیادہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف معا ندا نہ رویہ اختیار کر رکھاہے۔مغر بی مفکر ین میں سے برنارڑ لوئیس اور پروفیسر ہنٹنگٹن نے یہ بات منظم انداز سے پیش کی ہے کہ مغر ب کا اصل مسئلہ بنیاد پرستی نہیں بلکہ خود اسلام ہے ۔ ہنٹنگٹن کا کہنا ہے کہ اسلام ایک مخصوص تہذیب کا نام ہے جس کے ماننے والے اپنی فکر وتہذیب کے اعلی ہو نے کے دعویدارہیں اور اپنی تہذیبی بر تر ی کو کھو دینے سے کف  افسوس مل رہے ہیں۔ (۹)

یہودیوں کا رول

دنیا میں تمام اسلام دشمن قوتوں میں سے اسلام کی شبیہ بگاڑنے میں سب سے زیادہ سر گر م عمل ہے وہ یہودی قوم ہے۔ اس نے عالمی ذرائع ابلاغ کو اپنی مٹھی میں رکھا ہے۔ 1997ء میںسوئزرلینڈ سے شہر بال میں تین سو یہودی   دانشوروں ، مفکرورں اور فلسفیوں نے جمع ہو کر پو ری دنیا میں حکمرانی کا منصوبہ تیار کیا اور یہ منصوبہ ۱۹ دستاویز کی صورت میں دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ اس دستاویز میں ذرائع ابلاغ کو بنیادی اہمیت دی گئی۔ اس کے  بارویں دستاویز میں لکھا گیا کہ’’ اگر ہم یہودی دنیا پر قبضہ حاصل کر نے کے لئے سونے کے زخائر پر قبضے کو مر کزی اور بنیادی اہمیت دیتے ہیں تو ذرا ئع ابلاغ  ہمارے مقاصد کے حصول کے لئے دوسرا اہم درجہ رکھتے ہیں ہم میڈیا کے سرکش گھوڑے پر سوار ہو کر اس کی باگ کو اپنے قبضے میں رکھیں گے ۔ہم کو ئی ایسا موثر اور طاقت ور اخبار نہیں رہنے دیں گے کہ وہ اپنی رائے کو موثر ڈھنگ سے ظاہر کر سکیں ۔(۱۰) اس کے نتیجے میں آج ۹۵ فیصد میڈیا پر یہودیوں کا قبضہ ہے اور وہی دنیا کے ہر کو نے میں اپنی آواز کو منظم طر یقے سے پیش کر رہے ہیں ۔ان کی پسند اور چاہت پوری دنیا کی پسند اور چاہت ہے یہودیوں کے غضب و نفرت کا نشانہ جو بھی بنا ہے پوری دنیا  اس سے ناراضگی اور نفرت  کا اظہارکر تی ہے اور اپنادشمن سمجھتی ہے ۔یہودیوں کے پاس دنیا کے بڑ ے بڑے خبررساں اجنسیاں ہیں جس کے ذریعے سے وہ اپنے یہودی منصوبے کا عملی جامہ پہنارہے ہیں۔انمیں سے چند ایک کا تعارف اسطر ح سے ہے۔

(۱) رائٹر :

عالمی خبر رسا ایجنسیوں میں رائٹر کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہے۔دنیا میں ہر جگہ تمام اخبارات و ٹی وی  چیلنج اسی ایجنسی پر انحصار کر تی ہیں ۔حتیٰ کہ بی بی سی ،وائس آف امریکہ کے اخبارات، ریڈیومونٹ کالر اس سے ۹۰ فیصد خبریں حاصل کر تے ہیں۔ایک سو پچاس ملکوں کے اخبارات ،ریڈیو ، ٹی وی ایجنسیوں کو رزانہ پندرہ لاکھ الفاظ پر مشتمل خبریں اور مضامین بھیجے جاتے ہیں ۔ جو ۴۸ زبان میں شائع ہو تے ہیں۔

(۲)یونا ئیٹڈ  پریس:

یو نائیٹڈ پر یس  کا بھی دنیا کے چند بڑ ے خبر رسا ایجنسیوں میں شمار ہو تا ہے ۔ یونا ئیٹڈپریس سے امر یکہ میں گیارہ سے پچاس اخبارات ،اشاعتی ادارے اور تیس ہزارا  ایک سو ننانو ے ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن وابستہ ہیں۔ پوری دنیامیں اس ایجنسی کے ایک سوستر دفاتر ہیں  اورصرف امر یکہ میں ۹۶ دفاتر ہیں ۔

(۳) فرانسی نیوز ایجنسی( اے،ایف،بی)  : 

فرانسیسی نیوز ایجنسی کی بنیاد فرانس میں ڈالی گئی اگر چہ فرانس میں صرف ۷ لاکھ یہودی آباد ہیں لیکن وہاں پر شائع ہو نے والے ۵۰ فیصد اخبارات و رسائل کی حکمرانی چلتی ہے۔ اس ایجنسی کا دائر ہ کار بعد میں فرانس سے باہر بھی بڑھا دیا گیا۔اس ایجنسی کے تحت ۱۲ نیو ز ایجنسیاں کا م کر تی ہیں یہ ایک سو پچاس ریڈیو،ٹی وی اداروں کو خبر یں مہیا کر تی ہیں۔

(۴) ایسو سی ایٹڈ پر یس :

یہ بھی ایک بڑی نیو ز ایجنسی ہے اس ایجنسی سے ۱۶۰۰ روز نامہ اور ۴۱۸۸ ریڈیو ،ٹی وی  اسٹیشن وابستہ ہیں۔ اس نیوز ایجنسی کے امر یکہ میں ۱۷۰ دفاتر اور بیرونی ممالک میں ۸۱ اخبار ی مراکز ہیں (۱۱)ان کے علاوہ  اس وقت دنیا میں پانچ بڑی میڈیا فر م ہیں جن کے نام درجہ ذیل ہیں:

(۱ )والٹ ڈزنی: والٹ ڈزنی دنیا کی سب سے بڑی میڈیا کمپنی ہے اس کے پاس ۳ بڑے ٹیلی وژن چیلنج ہیں ۔ اے بی سی نام کا دنیا میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا کیبل نیٹ ورک ہے صرف امر یکہ کے اندر اس کے ایک کروڑ ۴۰ لاکھ کنکشن ہولڈرز ہیں دنیا کے ۲۲۵ ٹیلی وژن چیلنج  والٹ ڈزنی سے وابستہ ہیں دنیا کے ۳ ہزار ۴۰۰ ریڈیو اس سے وابستہ ہیں۔

(۲)  ٹایم وار نر: ۔ یہ دوسری بڑی میڈیا فر م ہے ۔ پہلے یہ A L O  کے نام سے کام کرتی تھی ۔اس کے پاس دنیا میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے فلموں کے چینل ایچ بی اور ،مو سیقی کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل وارنر میوزک ،ایک ریڈیو پروڈکشن کمپنی اور دنیا کے پانچ کثیرالاشاعت میگزین  ٹائم ایسوسیٹن ، السٹر ٹنڈاور فار چون ہیں یہ کمپنی  دنیا میں اختلاف اور کشمکش پیدا کرنے میں کو ئی جواب نہیں رکھتی۔ٹائم میگزین  جیسی  بڑی میگزین بھی اسی کے پاس ہے۔یہ کمپنی خالصتا یہودیوں کی ہے ۔

(۳)  وائی کام :۔ یہ دنیا کی تیسری بڑ ی فر م ہے اس کے پاس ٹی وی اور ریڈیو کے ۱۲ یا ۱۴چنلنز ہیں ۔یہ کتابیں شائع کر نے والے تین بڑے اداروں  اور ایک فلم ساز ادارے کی بھی مالک ہے۔پیرا ماونٹ پکچرس اور ایم ٹی وی اسی کمپنی کی ملکیت ہے ۔یہ پوری دنیا کے میڈیا پر حاوی ہے  اور بڑے پیمانے پر لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کرنے کا کام انجام دے رہے ہیں ۔

(۴)نیوز ہاوس:۔ یہ یہودیوں کی ایک اشاعتی کمپنی ہے یہ کمپنی ۲۶ روز نامے اور ۲۴ میگزین شائع کر تی ہیں۔ اس کے علاوہ دی نیو یارک ٹائمز، وال اسٹریٹ جرنل اور واشنگٹن پوسٹ دنیا کے تین بڑے اخبارات ہیں۔ نیو یارک ٹائمز روزانہ ۹۰ لاکھ کی تعداد میں شائع ہو تا ہے۔ یہ وہ ایشوز چھڑتے ہیں جو آگے چل کر دنیا بھر کے اخبارات کے لئے خبر بنتے ہیں ۔(۱۲)۔میڈیا کے زریعہ سے یہ انسانی ذہنوں کو خاموشی سے مسخر کر رہے ہیں ۔ پرنٹ میڈیا کا عالم یہ ہے کہ روزانہ  ۶ کروڑ اخبارات فروخت ہوتے ہیں ، جن میں ۵۷ فیصد حصہ یہودیوں کا ہے ۔(ندائے اعتدال ،دسمبر ۲۰۱۶)اس کے علاوہ انٹر نیٹ پر بھی ان لو گوں کاجال بچھا ہواہے۔ انٹر نیٹ پر ان لو گوں نے جعلی اسلام کی ۱۰۳ سائٹس بنا رکھی ہیں جن کے ذریعے یہ نو مسلم اور ضعیف الایمان مسلمانو ںاور نو جوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔مغر ب کو اسلام کی عالمگیر بر تری اور اس کا تیزی سے پھیلنا سر دردبنا ہوا ہے۔ ان کو اس بات کا خوف ستاتا رہتا ہے کہ The muslims will take over the world(13)یعنی مستقبل میں مسلمان ہی دنیا کی قیادت دسیادت کر یں گے۔اس لیے وہ اسلام اورعالم اسلام کو متنوع حربوں اور طر یقوں سے بد نام کر نے کی مسلسل کو شش کر رہا ہے۔وہ میڈیا کے ذریعہ سے اسلام اور مسلمانوں پر مند ر جہ ذیل الزامات لگا کر  لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے: (۱)اسلام تشد دپر مبنی دین ہے اور اس کے ماننے والے زیادہ تر دہشت گر د اور انتہا پسند ہو تے ہیں۔ (۲)قرآنی آیات دنیا میں مسلمانوں کو تشددکے لیے ابھار تے ہیں  اور غیر مسلموں کو اپنا مذہب تبدیل کر نے  پراکساتا ہے۔ (۳)اسلامی شر یعت کی وجہ سے مسلمان پسماندہ ہے اور اس کے علاوہ مسلمان بنیاد پر ست،تشدد اور وحشی بھی ہیں اور تبدیلی مذہب پر پابند ی بھی عائد ہے۔(۱۴)

میڈ یا کے ذریعہ سے اسلام اور مسلمانوں کا حقیقی چہرا اتنا بگاڑا گیا ہے کہ لوگ اسلام اور مسلمانوں سے سخت  متنفرہو چکے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھا وا دینے کے لیے اب مغر بی اور یورپی میڈیا کا سب سے اہم مشغلہ بن گیا ہے۔ ۱۹۹۶ سے لیکر ۲۰۰۰تک  یعنی چار سال میں صرف The west Australian  Herald ,The sydeney Morning .کے 1038 مضامین شائع ہو ئے جن میں ۸۰ فیصد مضامین میں مسلمانوں کو دہشت گرد،بنیاد پر ست اور انتہا پسند کی حیثیت سے دکھا یا گیا ۔۷۳ فیصد مضامین میں مسلمانوں کو انسا نیت کے قاتل ٹھہرا یا گیا اور صرف ۴ فیصد مضامین میں مسلمانوں کو انسا نیت نواز بتا یا گیا ۔ (۱۵)

  اسلام میں میڈیا کا تصور

غرض کہ عالمی میڈ یا اسلام اور عالم اسلام کو نقصان پہچانے کے لئے مصروف عمل ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹے پر و پگنڈے میں ہمیشہ کو شاں ہے ۔ اسلام کے ماننے والوں نے ہر دور میں اپنی بات دوسروں تک منظم اور حسن وخو بی کے ساتھ پہنچائی اور اس میں کسی بھی قسم کی کوتاہی اور لاپرواہی نہیں کی۔قرآن مجید نے اس کے لئے دعوت کا لفظ استعمال کیا۔ ایک دور وہ  بھی تھا جب انبیا ء ،سلف صالحین اور اسلام کے علمبردار وں نے گھر گھر تک اپنا پیغام پہچانے کے لئے زبانی گفتگو اور تقریروں کا سہارا لیا کر تے تھے اس حوالے حضرت نوح کا کردار قرآن نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا  :   فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَائِیْ إِلَّا فِرَاراً وَإِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَ لَہُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَہُمْ فِیْ آذَانِہِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَاراً ثُمَّ إِنِّیْ دَعَوْتُہُمْ جِہَاراً ً (سورہ نوح :آیت ۸ ۔۵)۔ اس نے عرض کیا ’’ اے میر ے رب میں نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا مگر میر ی پکار نے ان کے فرار میں اضافہ کیااور جب بھی میں ان کو بلاتا تاکہ تو انہیں معاف کر دے انھوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھاک لیے اور اپنی روش پر اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا میں نے ہانکے پکارے دعوت دی ۔ پھر میں نے علانیہ بھی تبلیغ کی اور چپکے چپکے بھی پہنچا یا۔
اسی طرح سے حضرت موسیٰ نے بھی اسی نہج کو اپنایا انھوں نے مخالیفین اسلام تک نہ صرف اپنا اصولی مو قف پیش کیا بلکہ ان کے اعتراضات اور ان کے غلط فہمیوں کا بھی ازالہ کیا قرآن میں ان کا تذکرہ اس طرح سے وارد ہے۔:اذْہَبَا إِلَی فِرْعَوْنَ إِنَّہُ طَغی ۃفَقُولَا لَہُ قَوْلاً لَّیِّناً لَّعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ أَوْ یَخْشَی ۃقَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَن یَفْرُطَ عَلَیْْنَا أَوْ أَن یَطْغَی۔(     ) تم دونوں فرعون کے پاس جا واس نے بڑی سرکشی کی ہے اسے نرمی سے سمجھا ؤکہ شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے ۔اس تسلسل کو جاری رکھتے ہو ئے اللہ کے رسول ؐ نے سرزمیں عرب میں لوگوں کو اللہ کی طر ف دعوت دی۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ؐ کو اس بات کا حکم دیا کہ یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّہَ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْکَافِرِیْن(مائدہ :۶۷) اے رسول جو آپ کی طر ف اپ کی جانب سے نازل کی گئی ہے پہنچا دیجئے اگر آپ نے ایسا نہ کیا  تو آپ نے رسالت کا حق ادا نہ کیا۔اللہ کے رسول ؐ پر عائد کی گئی ذمہ داری کے بارے میں اللہ کا یہ ارشاد ہے۔مَّا عَلَی الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ ،(سورہ مائدہ:۹۹)رسول یہ صرف پیغام پہچانے کی ذمہ داری ہے۔

 اللہ کے رسول ؐ اپنے وقت میں ذرائع ابلاغ کی قوت سے بے خبر نہیں تھے اور نہ ہی اس اہم چیلنج کو نظر انداز کیا بلکہ محدود افراد ی قوت اور وسائل کو بروئے کار لا کر لو گوں تک رب کا پیغام پہنچایا ۔مثلاً چٹھی صدی عیسویں میں عرب میں اگر کسی کو ضروری اعلان یا کسی اہم بات کو دوسروں تک پہنچا نی ہوتی تو وہ  اپنے جسم سے کپڑے اتار کر سر پر رکھ لیتا اور کوہ صفا پر چڑھ کرزور زورسے چلانا شروع کر دیتا  ـــ’’ہائے صبح کی تباہی‘‘۔ لوگ اس طرح کے اعلان کوتوجہ سے سنتے تھے  ۔عرب میں اس قسم کے خاص اعلان کرنے والے کو’’نزیر عریاں‘‘ کہتے تھے۔ اللہ کے رسول ؐ نے بھی ابلاغ کے اس ذریعے کو استعمال کیا لیکن کپڑے اتار نے، چیخنے چلانے اور دوسرے غیر اخلاقی قدروں سے اجتناب کر تے ہو ئے اس کو اسلامی رنگ عطا کیا۔لوگوں تک اِلٰہی پیغام پہنچانے کے لیے انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا تھا ۔کار دعوت کے سلسلے مختلف ممالک  کے حکمرانوںتک دعوتی خطوط اور وفود بھیجے۔نیز ہر علاقے میں دعاۃ اور مبلغین روانہ کرتے رہے تاکہ ان تک پیغام اِلٰہی  پہنچ سکیں۔

عرب میں شعر و شاعری اور خطابات کا بھی بڑا دبدبہ تھا مشرکین مکہ کو زبان دانی اور شاعری پر فخر اور ناز تھا اور وہ شعرو شاعری کے ذریعے سے بھی اللہ کے رسول پر تکبر انہ لہجے میں حملے کر تے تھے۔اس چیلنج کو قبول کر تے ہوئے اللہ کے رسول ؐ  نے صحابہ کو ترغیب دی کہ وہ اس فن کے ذریعے سے کفر کا مقابلہ کریں اور مشر کین مکہ کے حملوں کا جواب دیں چنانچہ بہت سے صحابہ نے اس فن میں خوب جو ہر دکھا ئے۔ان میں حسان بن ثابت ،حضرت کعب بن مالک اور حضرت عبداللہ بن رواحہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔انھوں نے شعر و شاعری کو اظہار ابلاغ کا ایک موثر ذریعہ بنا کر کفار کا زبردست مقابلہ کیا اور اسلام اور پیغمبر اسلام کی دفاع میں جنگ لڑی۔حضرت عبد اللہ بن رواحہ کافروں کی ہجو میں شعر کہتے تھے اور ان کی برائیاں بیان کر تے تھے۔حضرت کعب بن مالک اسلام کے دشمنوں پر نفسیاتی رعب ڈالتے تھے اور حسان بن ثابت مشرکین مکہ کی طر ف سے اللہ کے رسول کے خلاف کہے گئے اشعار کا نہ صرف جواب دیتے تھے بلکہ اللہ کے رسول ؐ کی مدح بھی کہتے۔

حضرت حساب بن ثابت نے اپنی شاعری سے دین کے دشمنوں کو توہین آمیز اشعار پر زبردست ضر بیں لگا ئیں اور ان کی زبانوں کو بند کیا ۔ان کے اشعار سے کفار کو وہی ایزا پہنچی جو اندھیر ی شب میں لگنے والے تیروںسے پہنچتی تھی۔(۱۳)  اس دور میں خطابت کو بھی بڑی اہمیت حاصل تھی اور خطباء کارول اپنے اپنے قبیلوں میں انتہائی اہم ہوا کر تا تھا اس فن کو بھی دور نبوت میں متعدد صحابہ نے اختیار کیااور اس کو اظہار و ابلاغ کا ذریعہ بنا کر اسلام کی بول وبالا کے لیے استعمال کیا ان میں سے ایک خاص نام ثابت  بن قیس کا ہے جنہیں خطیب اسلام کے لقب سے بھی نوزا گیا۔ان کے علاوہ حضرت ابو بکر صدیق،حضرت عمر بن الخطاب اور عثمان اور حضرت علی نے خطابت کے میدان میں زبردست جوہر دکھائے۔اُمت مسلمہ ایک ذمہ دار امت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اللہ کا پیغام پہچانے کے لئے ایک عظیم منصب پر فائز کر کے کہا اور اس کو خیرات کے خطاب سے نوازا : ارشاد باری تعالیٰ ہے کنتم  خیر امۃ اخرجت للناس  تامرون باالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون با اللہ(سورۃ آل عمران۔۱۱۰) اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر کاملِ ایمان  رکھتے ہو۔ اس خیرامت کا تقاضا ہے کہ لو گوں تک سچائی اور حقائق پہنچائی جائیں کیو نکہ اگر خیر امت یہ کام نہیں کر ے گی تو دنیا شرو فسادسے بھر جائے گا۔ اس لیے امت مسلمہ پر یہ بڑی اور اہم ذمہ داری عائد ہو تی ہے۔کہ مو جود ذرائع ابلاغ کو استعمال کر کے  انسانیت کو حقائق اور ھدایت کی روشنی سے آگاہ کر یں۔

میڈیا کے فرائض

عصر حاضر میں اسلام اور مسلمانوں پر مغربی ذرائع ابلاغ کا جو یلغار ہے وہ ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہے اس نے ہر انسان کے فکر و خیال کومتزلزل کر کے نت نئے الجھنوں اور مسائل کا شکار رہا۔ ننگاناچ ، عریانیت اورفحاشی کو اتنا عام کیا کہ اب  یہ سماج کا ایک اہم حصہ تصور کیا جاتا ہے۔میڈیا ہی کے سہارے سے مغر ب نے اپنی فکرو تہذیب پوری دنیا میں پھیلا دیا مادہ پرستانہ ذہنیت ،عیش پرستانہ مزاج،فیشن پر ستی،گلیمرکلچر اور جاہ وحشت کے حصول کے لیے تمام اخلاقی اصولوں کو پس پشت ڈالنا ،جزبہ مسابقت الی الشر،غلط فہمیوں کو ہوا دینا،فتنہ پروری اوراشتعال انگیزی کو میڈیا ہی کے  ذریعے خوب فروغ دیا جارہا ہے۔

یہ ذرائع ابلاغ کا دور ہے لوگوں کے ذہنوں کو جس طرح سے چاہتا ہے۔موڑ دیتا ہے ۔عیسایوں اور یہودیوں نے صلیبی جنگوںکے بعد مغربی اور یورپی  ذرائع ابلاغ نے اسلام اور عالم اسلام کے خلاف ایک  نیا حربہ اپنایا۔ اس کے ذریعے سے مغر بی دنیا نے مسلمانوں کو ہر جگہ ذہنی غلام بنا کے رکھا ہے۔ چونکہ یہ دور جسمانی غلامی کا نہیں بلکہ ذہنی غلامی کا ہے۔ واضح رہے کہ ذہنی غلامی جسمانی غلامی سے کہیں زیادہ طاقت ور بھی ہوتی ہے اور بدتر بھی۔یہ استعماریت کی ایک نئی شکل ہے جس سے مغر ب کو پوری طر ح سے کامیابی ملی۔ لہٰذا اس کا  نہ صرف تدارک کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ایک اچھا متبادل پیش کرنے کی بھی ضرورت  ہے جو نہ صرف انتہائی صحیح فکر و خیال کی آبیاری کر ے  بلکہ اس کی تہذیب وثقافت کو بھی پلید اور گندہ ہو نے سے محفوظ رکھیے۔اصولی طور  پر میڈ یا  چند بنیادی مقصد کے تحت کام کر تا ہے جو میڈ یا کے فرائض بھی ہیں۔  

(۱) معلومات کی فر اہمی:۔ میڈیا کا پہلا فر یضہ ہے کہ وہ مختلف ذرائع سے کام لے کر عوام تک صحیح معلومات فراہم کر ے۔ 

 (۲) ذہن سازی :۔ یہ میڈ یا کا دوسرا فر یضہ ہے کہ وہ عوام کی صحیح خطوط پر ذہن سازی کا کام کر ے۔اور اس کی رائے اور طر ز عمل کو ملکی و قومی ضرورتوں کے مطابق تبدیل کر ے۔

(۳)  تفریح کی فراہمی:۔ میڈیا کا ایک اور مقصد لو گوں کو تفریح فراہم کرنا بھی ہے۔لیکن اگر یہ تفر یح انسان کو انسان کے مر تبے سے گرادے تو پھر یہ تفریح نہیں بلکہ اذیت ہے۔(۱۷)  اسلامی میڈیا کا کام ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے اس کا کام نہ صرف

مخالفین اسلام کے اعتراضات کا جواب دینا،غلط فہمیوں کا ازالہ کر نا  ہی نہیںبلکہ آگے بڑھ کر اسلام کو متبادل کے طور پر پیش کر نا شامل ہے۔اسلامی میڈیا کی وسعت میں بہت گہرائی اور گیرائی ہے۔اس لیے کہ:”Islamic Media is not simply the broadcasting of so called relegious programs but should encompass art,culture information and other universal programes which are mentioned  and guided by islamic teachings”.(18) اسلامی میڈیاصرف مذہبی پروگرام کو نشر کر نے کا نام نہیں بلکہ اس میں آرٹ ،تہذیب، علم و تحقیق اوردوسرے عالمگیر نو عیت کے پروگرام بھی شا مل ہیں جنھیں اسلامی تعلیمات کے مطابق پیش کیا جاتا ہے۔

میڈیا کے لئے رہنما اصول

 اسلامی اصولو ں پر مبنی میڈیاسماج کو صحیح  ڈگر پر رکھنے کے لیے کچھ رہنما اصول بھی فراہم کر تا ہے اس کی رہنمائی فرد اور سماج کے لئے الہی نظر یات اور اقدار پر مبنی ہے۔اور اس کے مقاصد میں بہت  وسعت ہے مشہور نو مسلمہ اور مصنفہ میرلی وین ڈیوس۔(Mersly wyn Daves)نے اسلامی ذرائع ابلاغ کے تین مقاصد بیاں کیں وہ اس طر ح ہیں۔  

( ۱  ) اسلام ایک مشنری مذہب ہے اس لیے اپنے ماننے والوں پر یہ ذمہ داری عائد کر تا ہے کہ اس کو ہر فرد تک پہنچا یا جائے۔

(۲) اسلام حق و صداقت، علم و بصورت اور وحی الہی سے پرلبریز ہے اس لیے اس کو مختلف ذرائع استعمال کر تے ہوئے  دنیائے انسانیت کو  یہ اختیار کرنے پر مائل کیا جائے

(۳) اسلام صحیح فکر اور زندگی کے حقیقی مقصد سے آگاہ کرتا ہے اس لئے اس روشنی اور نور سے دوسروں کی زندگی کو بھی منور کرے۔(۱۹)  اسلامی اسکالرس اور مفکرین الیکٹرانک، پرنٹ اور سائیبر میڈیا کواسلام اشاعت اور پھلاو کے لیے اور عالم اسلام  کی مضبوطی اور ترقی کے لیے ایک اہم عنصر تصور کرتے ہیں اور اس کو نظر انداز کرنے یا اس کو کم اہمیت اور ترجیح دینے کے لئے بڑی لاپروائی اور غیر سنجیدگی سمجھتے ہیں۔

 اگر مسلمان علم و استدلال کے ذریعہ ذرائع ابلاغ کی دنیا میں بہتر کار کر دگی کا مظاہرہ نہیں کر یںگے تو اسلام کو دائمی اور عالمی مذہب کے طور پر ہر گزپیش نہیں کر سکیں گے۔ صرف تیر و تفنگ اور بندوق کے میدان میں دشمن کا مقابلہ کر نا مطلوب نہیں بلکہ قرطاس و قلم اور نشرواشاعت کی دنیا میں بھی اس کا مقابلہ ضرور ی ہے اور اس طرح سے ہر چیلنج کا جواب دینا ضروری ہے جو اسلام کو درپیش ہے۔(۱۶)

اس وقت مسلمانوں کے پاس کوئی عالمی معیار کا میڈیا موجود نہیں جو یہو دونصاری  اور معترضین  کے برپا کئے ہو ئے فتنوں ساز شوں،پروپگنڈوں اوراعتراضات کا انتہائی معقول اور منظم طر یقے سے سد باب کر سکیں اس سلسلے میں اسلامی تحریکوں ،اداروں ،علما ء اور دانشوروں کو سنجید گی سے غور کرنا چاہئے تاکہ ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ مالی قربانیوں سے بھی عصر حاضر کے اس درپیش چیلنج کا مقابلہ بحسن و خوبی کر سکیں۔لہٰذا میڈیا پر صرف اپنی گر فت مضبوط ہی نہیں کر نی ہے بلکہ اس کے سمت کو بھی صحیح اور پائیداررخ دینا ہو گا ،اس Muslims must have many influntial and dominant islamic media of thier own (especially television,movies,internet and newspapers) in order to compete with world world culture(17)مسلمانوں کے پاس اپنامو ثر ،ارفع اور کار گر میڈیا ہو( خاص کر ٹیلوژن ،فلمیں،انٹر نیٹ اور اخبارات) تاکہ مغرب کی عالمگیر تہذیب کا مقابلہ کر سکیں۔

آئندہ لائحہ عمل

  اس بات کی  بار بار ضرورت محسوس ہو تی ہے کہ مسلم ممالک کے پاس نہ صرف خبررساں ایجنسیاں اور نیوز چینلز ہوں بلکہ الکٹرانک،پرنٹ اور سائیبر میڈیا کے تمام ادارے بھی ہوں جو عالمی اور مغر بی ذرائع ابلاغ کی ہرزہ سرائیوں ، کارستانیوں اور ان کے پروپیگنڈوں کامنہ توڑ جواب دے سکیں اور اس  کے ساتھ ساتھ موجود ہ میڈیا کو بھی نہ صرف صحیح رخ دینا ہو گا۔بلکہ مضبو ط بھی بنانا ہوگا۔اس کے لئے عالم اسلام کے متمول ممالک اور تحر یکات اولین فرصت میں اس پر تو جہ دیں ۔اس سلسلے میں حسب ذیل چند کار آمد اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

(۱)مسلم ممالک کو چاہئے کہ وہ Media institutes کا قیام عمل میں لائے ،جہاں سے جدیر تعلیم یا فتہ نوجوان اور ماہر ین تیار ہوجائیں جو مغر بی رپوٹروں اور تجزیہ نگاری سے بھی زیادہ جانفشانی سے کام بھی کریں اور دنیا کو واقعات کی حقیقی شکل سے روشنا س بھی کرا ئیں۔

(۲) اس وقت مغر ب کے پاس بڑ ے بڑے ایسے ادارے موجودہیں جو نہ صرف مسلمانوں کے فکر و عمل پر گہرے اثرات ڈال رہے ہیں بلکہ لمحوں میں دنیا بھر کے رائے عامہ کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہے ۔ ا ن کے مقابلے میں مسلم دنیا میں ایسے اداروں کی تعمیر کی اشد ضرورت ہے جو مسلم دنیا کو انفرادی طور پر بھی اور اجتمائی سطح پر بھی حالات حاضرہ اور دشمنوں کی سازشوں اور چالوں سے باخبر رکھیں۔

(۳) سرکاری  یا غیر سرکاری سطح پر بھی ایسے ٹی وی چینلز قائم کئے جائیں جودعوتی اورمشنری جزبے کے ساتھ اور حق و صداقت کی سچائی کا علم لے کر پروپیگنڈہ پھلانے والے ادار وںکا پردہ چاک کریں۔(18)

(۴) ایسے ذہین اور باصلاحیت طلبہ کو ماس کام یا میڈ یا کو رس میں داخلہ لینے کے لئے تر غیب دی جا ئے اور ان کیلئے حو صلہ افزائی کے ساتھ ساتھ مالی معاونت کا انتظام بھی کئے جائیں۔ (۱۹)

(۵) ایسے  ورک شاپ اور کانفرنسوں کا خوب اہتمام کیا جائے جو نہ صرف جنرل ازم کی تعلیم حاصل کر نے والوں کے لئے ہوں بلکہ ان تمام  افراد کے لئے بھی ہوں جو صحافت سے وابستہ ہیں ۔ ان کے صحیح تر بیت کر نے کے لئے مختلف مراحل میں پر گرام منعقد کئے جائیں تاکہ انہیں مہارت  حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی روح بھی بیدار ہوجائیں۔

(۶) مغر بی فکرو تہذ یب اور فلسفہ نے پورے انسانی معاشرے کو  الجھنوں  ،مسائل اور مشکلات سے دو چار کر دیا ہے۔تجز یہ تحقیق اور دلائل سے ان خرابیوں کو اجاگر کر نے کی ضرورت ہے تاکہ پو ری نوع انسانی ان مسائل اور خرابیوں سے آگاہ رہے۔ (۷) عالمی اور مغر بی ذرائع ابلاغ، لابیاں ، تحقیقی ادارے اسلام کے مختلف احکام اور تعلیمات کے بارے میں جو شکوک و شبہات بڑے پیمانے پر دنیا میں پھیلا ئے جارہے ہیں۔اس کو احتجاجی مظاہروںکے بر عکس علمی اور فکر ی سطح پر سامنا کر نے کی ضرورت ہے۔چو نکہ علمی فکر ی  شبہا ت اور اعتراضات کا جواب علمی اور فکر ی زبان میں ہی دیا جا سکتا ہے۔یہ اسلامی دانشوروں ، علماء،مصنفین ،تحر یکوں  ،تنظیموں اور اداروں کی ذمہ دار ی ہے۔

  خلاصہ کلام یہ ہے کہ میڈیا کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے اور دن بدن اس کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے  افکار و نظریات کو فروغ دینے میں اس کا کلیدی رول رہتا ہے۔اسلام نے اس کو چند بنیادی صفات سے مزین کر رکھا ہے ۔ یہ جہاں تعانوا علی البروالتقوی کے نظریہ پر قائم ہے ۔ وہیں ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان  اس کا مطمح نظر ہے ۔ جہاں اس کا مقصد لتخرج الناس من الظلمات الی النور ہو وہاں یہ قولو قولا سدیدا کی صفت سے بھی  مزین ہو۔

مراجع ومصادر

(1) joce M Howeims,Oxford universal Dictionery ,london university press,p:      437
(2) Oxford English Urdu dictionery ,oxford university press,pg: 99                         
(3) Milner A, literature,cultural and the society, university college londen press p: 81
(4) Mortin Ahlin and Nicklas carlar,Media and the Muslims,university west 2011,p: (1)

(۵) نزر الحفیظ ندوی: مغر بی میڈیا  اور اس کے اثرات ،۲۰۰۱،دارالعلوم ندوۃ العما ء لکھنو،اس کتاب میں علی میاں کا  مقدمہ ملاخط فرمائیں۔

 (6) Dr. Zulkeple Ibn Gani,Islamic braodcasting A search for islamic idaenty.Dh Zulkeple Add.Gham. Hamderd    Islamicus ,Aprial- June.2006 p:23             
(7) Mirza Mesic,The perecption of islam and Muslim in media               
 (۸) عبد العظیم جانباز:۔ اسلام کے خلاف مغر ب کا مو ثر ہتھیار، محدث  لاہور،جون ۔۲۰۰۹
 (۹) سموئیل ہنٹنگٹن،تہذیبوں کا تصادم، (اردو ترجمعہ ،سہیل انجم )کر اچی اکسفوڈ پر س ،ص: ۱۲۹
 (۱۰) میر بابر:۔ ذرائع ابلاغ کے ذر یعے دنیا پر قبضے ک کا خواب ،فریڈے اسپیشل، ۳۰ مارچ، ۲۰۰۹، ص۔۳۰ (۱۱) ایضا ،ص:۳۰
 (۱۲) امت مسلمہ کے مو جودہ مسائل ،چیلینج اور ان کا تدارک ،مقالات سیر ت ( سیرۃ النبی کا نفرنس ۲۰۰۷) وزارت مذہبی امور وزکوۃ و عشر حکومت پاکستان۔ص:۱۷۷
(13) Edward said ,Orientalism,Penguin,1977,p:46                            
(14)Dearborn . B .Ghosh, islamophobia :does amrica have a muslim problim?, The Time, aug 30,2010 ,htt   www. time .com 
(15) Dr. Hasnul Amin and Farah Afzal,Construction of muslims as a security threat, peace preventers and as a terrorists in the west,Hamdard islamicus,july _september2015,p:56
        (۱۶) احمد حسن زیات،تاریخ الادب العربی  (اردو تر جمہ عبد لرحمن طاہر سورتی) ۱۹۸۵ ،البران الہ آباد، ص: ۱۳۵ (۱۷) فہیم احمد، کار پوریٹ میڈ یا ،شعبئہ تنظیم جماعت اسلامی ہند،  ص:۱۱
                                                                (34d111111)                                                                                    
)18)  Dh Zulkeple Ibn Gani,Hamderd Islamicus,Aprial-June.2006 p:26    (19)Ibd, p:13                                                                                                         
(۲۰) سعود عالم قاسمی ،اسلام اور عصر حاضر ، فیکلٹی دینیات، علی گڑ مسلم یو نورسٹی علی گڑھ،ص:۶۹
21)islamic cultural identiy,Dr Noor Mohammad usman and sadtnuruth.Hamdard  islamics oct. 2007 p: 71                                                   
(۲۲) محمد ایوب منیر ، ذرائع ابلاغ کی جنگ ،ترجمان لقرآن جون ۲۰۰۷ ص: ۷۸
 (۲۳) کار پوریٹ میڈیا اور تحر یک اسلامی،ڈاکٹر سیدقاسم رسول الیاس،مہنامہ زندگی نو،جون ۲۰۰۲ ص ؛ ۶۵                                                     

تحریر مجتبیٰ فاروق