اسلامی نام کی اہمیت

جب آپ کسی انجان انسان سے ملتے ہیں تو سب سے پہلے آپ ان کے بارے میں اس چیز کی آگاہی حاصل کرتے ہیں جو ان کی اصل پہچان ہوتی ہے یعنی ان کا نام۔لیکن آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں گے کہ آپ جس نام سے جانے جاتے ہیں، وہ دوسروں پر آپ کے بارے میں ایک خاص تاثر چھوڑ جاتا ہے۔

آپ نے یقیناً یہ ضرور سوچا ہو گا کہ آپ کے والدین نے کیسے آپ کی ذات کو سانچا اور کیسے آپ کی تربیت کی۔ ان کا غصہ، ان کا پیار، ان کی شفقت اور ان کا ڈانٹنا، سب ہی آپ کے کردار میں بھی نظر آتا ہے۔ لیکن آپ نے شاید یہ نہ سوچا ہو کہ ان کے دیے ہوئے سب سے اہم تحفے نے آپ کی شخصیت پر کس قدر گہرا اثر چھوڑا ہے یعنی آپ کا نام جو انھوں نے آپ کو دیا ہے اور اس کی وجہ سے سماج آپ کے بارے میں خاص خیالات رکھتاہے۔

نام کی حیثیت ایک قالب کی سی ہے جس میں انسان ڈھلتا ہے۔ نام کا انسان کی فطرت پر نفسیاتی اثر رہتا ہے۔ اچھے نام والا آدمی اپنے نام کا اچھا اثر محسوس کرتا ہے؛ چنانچہ جب اس سے پکارا جاتا ہے تو وہ اپنے اندر ایک عجیب طرح کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ اس کے بر خلاف جس کا نام اچھا نہیں ہوتا تو وہ اپنے نفس کو جھنجوڑتا رہتا ہے۔  ناموں کا یہ اثر انسان کی شخصیت پر  نمایاں نظر آتا ہے۔

اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  ہر اس نام کو تبدیل کرنے کی کوشش فرماتے تھے جس میں منفی معنی ہوتے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں : ”کان النبی ﷺ یُغَیِّرُ الاسْمَ القَبِیْحَ“یعنی اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  برے نام کو بدلتے تھے (الترمذی:۲۸۳۹)۔ ایک آدمی کا نام اَصرم تھا۔ حضور کی خدمت میں آیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا کہ تیرا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ اَصرم۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ تیرا نام زُرعہ ہے (ابو داوٴد)۔ اصرم کٹنے والے یا کاٹنے والے کو کہتے ہیں جو کہ منفی معنی ہے اور زُرعہ کے معنی کھیتی یا بیج کے ہیں جو ایک مثبت معنی ہے۔ حضرت عمر کی ایک صاحبزادی کا نام عاصیۃ (گناہگار) تھا۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کا نام بدلا اور جمیلہ (خوب صورت) نام رکھا۔