Shikwa Shikayat | Wardat | Afsana Premchand


شکوہ شکایت

زندگی کا بڑا حصہ تو اسی گھر میں گزر گیا مگر کبھی آرام نصیب نہ ہوا۔میرے شوہر دنیا کی نگاہ میں بڑے نیک اور خوش خلق اور فیاض اور بیدار مغز ہوں گے لیکن جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ دنیا کو تو ان لوگوں کی تعریف میں مزہ آتا ہے جو اپنے گھر کو جہنم میں ڈال رہے ہوں اور غیروں کے پیچھے اپنے آپ کو تباہ کیا ڈالتے ہوں۔ جو گھر والوں کے لیے مرتا ہے اس کی تعریف دنیا والے نہیں کرتے۔ وہ تو ان کی نگاہ میں خودغرض ہے۔ بخیل ہے، تنگ دل ہے، مغرور ہے اور باطن ہے۔ اسی طرح جو لوگ باہر والوں کے لیے مرتے ہیں ان کی تعریف گھر والے کیوں کرنے لگے۔ اب انہیں کو دیکھو، صبح سے شام تک مجھے پریشان کیا کرتے ہیں۔ باہر سے کوئی چیز منگواؤ تو ایسی دکان سے لائیں گے جہاں کوئی گاہک بھول کر بھی نہ جاتا ہو۔ ایسی دکانوں پر نہ چیز اچھی ملتی ہے، نہ وزن ٹھیک ہوتا ہے ،نہ دام ہی مناسب۔ یہ نقائص نہ ہوتے تو وہ دوکان بد نام ہی کیوں ہوتی۔ انہیں ایسی ہی دکانوں کا سودا سلف خریدنے کا مرض ہے۔ بارہا کہا کسی چلتی ہوئی دکان سے چیزیں لایا کرو وہاں مال زیادہ بکتا ہے اس لئے تازہ مال آتا رہتا ہے۔ مگر نہیں ٹٹپونجیوں سے ان کو ہمدردی ہے اور وہ انہیں الٹے استرے سے مونڈتے ہیں۔گیہوں لائیں گے تو سارے بازار سے خراب، گھنا ہوا، چاول ایسا موٹا کہ بیل بھی نہ پوچھے، دال میں کنکر بھرے ہوئے۔ منوں لکڑیاں جلا ڈالو کیا مجال کہ گلے۔گھی لائیں گے تو آدھوں آدھ تیل، اور نرخ اصلی گھی سے ایک چھٹانک کم۔تیل لائینگے تو ملاوٹ کا، بالوں میں ڈالو تو چکٹ جائیں۔ مگر دام دے آئیں گے اعلی درجے کے چمبیلی کے تیل کے۔ چلتی ہوئی دوکان پر جاتے تو جیسے انہیں ڈر لگتا ہے۔شاید اونچی دکان اور پھیکے پکوان کے قائل ہیں۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ نیچی دکان پر سڑے پکوان ہی ملتے ہیں۔

ایک دن کی بات ہو تو برداشت کر لی جائے۔ روز روز کی مصیبت برداشت نہیں ہوتی۔ میں کہتی ہوں آخر ٹٹپونجیوں کی دوکان پر جاتے ہی کیوں ہیں۔ کیا ان کی پرورش کا ٹھیکہ تمہیں نے لیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں مجھے دیکھ کر بلانے لگتے ہیں۔ خوب! ذرا انہیں بلا لیا اور خوشامد کے دو چار الفاظ سنا دیے، بس آپ کا مزاج آسمان پر جا پہنچا۔ پھر انہیں سدھ نہیں رہتی کہ وہ کوڑا کرکٹ باندھ رہا ہے۔ یا کیا پوچھتی ہوں تم اس راستے سے جاتے ہو کیوں ہو؟۔کیوں کسی دوسرے راستے سے نہیں جاتے؟ ایسے اٹھائی گیروں کو منہ ہی لگاتے کیوں ہو؟ اس کا کوئی جواب نہیں، ایک خموشی سو بلاؤں کو ٹالتی ہے۔

ایک بار ایک زیور بنوانا تھا۔ میں تو حضرت کو جانتی تھی۔ ان سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ سمجھی۔ ایک پہچان کے سنار کو بلا رہی تھی۔ اتفاق سے آپ بھی موجود تھے۔ بولے یہ فرقہ بالکل اعتبار کے قابل نہیں۔ دھوکا کھاؤ گی۔ میں ایک سنار کو جانتا ہوں میرے ساتھ کا پڑھا ہوا ہے۔ برسوں ساتھ ساتھ کھیلے ہیں۔ میرے ساتھ چالبازی نہیں کر سکتا۔ میں نے سمجھا جب ان کا دوست ہے اور وہ بھی بچپن کا تو کہاں تک دوستی کا حق نہ نبھائے گا۔ سونے کا ایک زیور اور پچاس روپے ان کے حوالے کئے اور اس بھلے آدمی نے وہ چیز اور روپے نہ جانے کس بے ایمان کو دے دئے کہ برسوں کے پیہم تقاضوں کے بعد جب چیز بن کر آئی تو روپے میں اٹھ آنے تانبا اور اتنی بدنما کہ دیکھ کر گھن آتی تھی۔ برسوں کاارمان خاک میں مل گیا۔رو پیٹ کر بیٹھ رہی۔ ایسے ایسے وفادار تو ان کے دوست ہیں جنہیں دوست کی گردن پر چھری پھیرنے میں عار نہیں۔ ان کی دوستی بھی انہیں لوگوں سے ہے جو زمانہ بھر کے فاقہ مست قلانچ، بے سرو سامان ہیں۔ جن کا پیشہ ہی ان جیسے آنکھ کے اندھوں سے دوستی کرنا ہے۔ روز ایک نہ ایک صاحب مانگنے کے لئے سرپر سوار رہتے ہیں اور بلا لئے گلا نہیں چھوڑتے۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی نے روپے ادا کئے ہوں۔ آدمی ایک بار کھو کر سیکھتا ہے، دو بار کھو کر سیکھتا ہے مگر یہ بھلے مانس ہزار بار کھو کر بھی نہیں سیکھتے۔ جب کہتی ہوں روپے دے آئے اب مانگ کیوں نہیں لاتے کیا مر گئے تمہارے دوست؟ تو بس بغلیں جھانک کر رہ جاتے۔ آپ سے دوستوں کو سوکھا جواب نہیں دیا جاتا۔ خیر سوکھا جواب نہ دو میں یہ بھی نہیں کہتی کہ دوستوں سے بے مروّتی کرو، مگر ٹال تو سکتے ہو۔ کیا بہانے نہیں بنا سکتے ہو۔ مگر آپ انکار نہیں کر سکتے۔ کسی دوست نے کچھ طلب کیا اور آپ کے سر پر بوجھ پڑا۔ بے چارے کیسے انکار کریں۔ آخر لوگ جان جائیں گے یہ حضرت بھی فاقہ مست ہیں۔ دنیا انہیں امیر سمجھتی ہے چاہے میرے زیور ہی کیوں نہ گروی رکھنے پڑیں۔ سچ کہتی ہوں بعض اوقات ایک ایک پیسے کی تنگی ہو جاتی ہے اور اس بھلے آدمی کو روپے جیسے گھر میں کاٹتے ہیں۔ جب تک روپے کے وارےنیارے نہ کر لے اسے کسی پہلو قرار نہیں۔ ان کے کرتوت کہاں تک کہوں میرا تو ناک میں دم آگیا۔ ایک نہ ایک مہمان روز بلائے بے درماں کی طرح سر پر سوار۔ نہ جانے کہاں کے بے فکرے ان کے دوست ہیں۔ کوئی کہیں سے آ کر مرتا ہے کوئی کہیں سے۔ گھر کیا ہے اپاہجوں کو اڈہ ہے۔ ذرا سا تو گھر، مشکل سے دو تو چارپائیاں اوڑھنا بچھونا بھی بافراط نہیں مگر آپ ہیں کہ دوستوں کو دینے کے لئے تیار۔ آپ تو مہمان کے ساتھ لیٹیں گے۔ اس لئے انہیں چارپائی بھی چاہئے اوڑھنا بچھونا بھی چاہئے ورنہ گھر کا پردہ کھل جائے۔ جاتی ہے تو میرے اور بچوں کے سر زمین پر پڑے سکڑ کر رات کاٹتے ہیں۔ گرمیوں میں تو خیر مضائقہ نہیں لیکن جاڑوں میں تو بس قیامت ہی آ جاتی ہے۔گرمیوں میں بھی کھلی چھت پر تو مہمانوں کا قبضہ ہو جاتا ہے اب میں بچوں کو لئے قفس میں پڑی تڑپا کروں۔ اتنی سمجھ بھی نہیں کہ جب گھر کی یہ حالت ہے تو کیوں ایسوں کو مہمان بنائیں جن کے پاس کپڑے لتے تک نہیں۔ خدا کے فضل سے ان کے سبھی دوست ایسے ہی ہیں۔ ایک بھی خدا کا بندہ ایسا نہیں جو ضرورت کے وقت ان کے دھیلے سے بھی مدد کر سکے۔ دو ایک بار حضرت کو اس کا تجربہ اور بے حد تلخ تجربہ ہو چکا ہے مگر اس مردِ خدا نے تو آنکھیں کھولنے کی قسم کھا لی ہے۔ ایسے ہی ناداروں سے ان کی پٹتی ہے۔ ایسے ایسے لوگوں سے آپ کی دوستی ہے کہ کہتے شرم آتی ہے۔ جسے کوئی اپنے دروازے پر کھڑا بھی نہ ہونے دے وہ آپ کا دوست ہے۔ شہر میں اتنے امیر کبیر ہیں آپ کا کسی سے بھی ربط ضبط نہیں۔ کسی کے پاس نہیں جاتے۔ امرا مغرور ہیں، مدمغ ہیں، خوشامد پسند ہیں، ان کے پاس کیسے جائیں۔ دوستی گانٹھیں گے ایسوں سے جن کے گھر میں کھانے کو بھی نہیں۔

ایک بار ہمارا خدمت گار چلا گیا اور کہیں دن دوسرا خدمت گار نہ ملا۔ میں کسی ہوشیار اور سلیقہ مند نوکر کی تلاش میں تھی مگر بابو صاحب کو جلد سے جلد کوئی نوکر رکھنے کی فکر سوار ہوئی۔ گھر کے سارے کام بدستور چل رہے تھے مگر آپ کو معلوم ہو رہا تھا کہ گاڑی رکی ہوئی ہے۔ ایک دن جانے کہاں سے ایک بانگڑو کو پکڑ لائے۔ اس کی صورت کہہ دیتی تھی کہ کوئی جانگلو ہے۔ مگر آپ نے اس کی ایسی ایسی تعریفیں کیں کہ کیا کہوں۔ بڑا فرما بردار ہے، پرلے سرے کا ایمان دار۔ بلا کا محنتی، غضب کا سلیقہ شعار اور انتہا درجے کا با تمیز۔ خیر میں نے رکھ لیا۔ میں بار بار کیوں کر ان کی باتوں میں آ جاتی ہوں مجھے خود تعجب ہے یہ آدمی صرف شکل سے آدمی تھا آدمیت کی کوئی علامت اس میں نہ تھی۔ کسی کام کی تمیز نہیں۔ بے ایمان نہ تھا مگر احمق نمبر اول کا۔ بے ایمان ہوتا تو کم سے کم اتنی تسکین تو ہوتی کہ خود کھاتا ہے۔کم بخت دکان داروں کی فطرتوں کا شکار ہو جاتا تھا۔ اسے دس تک گنتی بھی نہ آتی تھی۔ ایک روپیہ دے کر بازار بھیجوں تو شام تک حساب نہ سمجھا سکے۔ غصہ پی پی کر رہ جاتی تھی۔ خون جوش کھانے لگتا تھا کہ سور کے کان اکھاڑ لوں۔ مگر ان حضرت کو کبھی اسے کچھ کہتے نہیں دیکھا۔ آپ نہا کر دھوتی چھانٹ رہے ہیں اور وہ دور بیٹھا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ میرا خون کھولنے لگتا لیکن انہیں ذرا بھی احساس نہ ہوتا۔ جب میرے ڈانٹنے پر دھوتی چھانٹنے جاتا بھی تو آپ اسے قریب نہ آنے دیتے۔ اس کے عیبوں کو ہنر بنا کر دکھایا کرتے تھے اور اس کوشش میں کامیاب نہ ہوتے تو ان عیوب پر پردہ ڈال دیتے تھے۔ کم بخت کو جھاڑو دینے کی بھی تمیز نہ تھی۔ مردانہ کمرہ ہی تو سارے گھر میں ڈھنگ کا ایک کمرہ ہے اس میں جھاڑو دیتا تو ادھر کی چیز ادھر، اوپر کی نیچے، گویا سارے کمرے میں زلزلہ آ گیا ہو اور گرد کا یہ عالم کہ سانس لینی مشکل، مگر آپ کمرے میں اطمینان سے بیٹھے رہتے، گویا کوئی بات ہی نہیں۔اس دن میں نے اسے خوب ڈانٹا اور کہہ دیا “اگر کل سے تو نے سلیقے سے جھاڑو نہ دی تو کھڑے کھڑے نکال دوں گی” سویرے سو کر اٹھی تو دیکھتی ہوں کمرے میں جھاڑو دی ہوئی ہے۔ ہر ایک چیز قرینے سے رکھی ہوئی ہے۔ گرد و غبار کا کہیں نام نہیں۔ آپ نے فوراً ہنس کر کہا۔”دیکھتی کیا ہو، آج گھورے نے بڑے سویرے جھاڑو دے دی ہے، میں نے سمجھا دیا۔ تم طریقہ تو بتلاتی نہیں ہو الٹی ڈانٹنے لگتی ہو” لیجئے صاحب! یہ بھی میری ہی خطا تھی۔ خیر میں نے سمجھا کہ نالائق نے کم سے کم ایک کام تو سلیقے سے کیا۔ اب روز کمرہ صاف ستھرا ملتا اور میری نگاہوں میں گھورے کی کچھ وقعت ہونے لگی۔ اتفاق کی بات ایک دن میں ذرا معمول سے سویرے اٹھ بیٹھی اور کمرے میں آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ گھورے دروازے پر کھڑا ہے اور خود بدولت بڑی تن دہی سے جھاڑو دے رہے ہیں۔مجھ سے ضبط نہ ہو سکا۔ ان کے ہاتھ سے جھاڑو چھین لی اور گھورے کے سر پر پٹک دی۔ حرام خور کو اسی وقت دھتکار بتائی۔ آپ فرمانے لگے اس کی تنخواہ تو بیباک کر دو۔ خوب! ایک تو کام نہ کرے دوسرے آنکھیں دکھائے، اس پر تنخواہ بھی دے دوں۔ میں نے ایک کوڑی بھی نہ دی۔ ایک کرتا دیا تھا وہ بھی چھین لیا۔ اس پر حضرت کئی دن مجھ سے روٹھے رہے۔ گھر چھوڑ کر بھاگے جا رہے تھے بڑی مشکلوں سے رکے۔

ایک دن مہتر نے اتارے کپڑوں کا سوال کیا۔ اس بے کاری کے زمانے میں فالتو کپڑے کس کے گھر میں ہوں۔ شاید رئیسوں کے گھر میں ہوں۔ میرے یہاں تو ضروری کپڑے بھی نہیں۔ حضرت ہی کا توشہ خانہ ایک بغچی میں آ جائے گا جو ڈاک کے پارسل سے کہیں بھیجا جا سکتا ہے۔ پھر اس سال سردی کے موسم میں نئے کپڑے بنوانے کی نوبت بھی نہ آئی تھی۔ میں نے مہتر کو صاف جواب دے دیا۔ سردی کی شدت تھ۔ اس کا مجھے بھی خود احساس تھا۔ غریبوں پر کیا گزرتی ہے اس کا علم تھا لیکن میرے یا آپ کے پاس افسوس کے سوا اور کیا علاج ہے۔ جب رؤسا اور امراء کے پاس ایک مال گاڑی کپڑوں سے بری ہوئی ہے تو پھر غربا کیوں نہ برہنگی کا عذاب جھیلیں۔ خیر میں نے تو اسے جواب دے دیا۔ آپ نے کیا کیا، اپنا کوٹ اُتار کر اس کے حوالے کر دیا۔ میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ حضرت کے پاس یہی ایک کوٹ تھا۔ یہ خیال نہ ہوا کہ پہنیں گے کیا۔ مہتر نے سلام کیا، دعائیں دیں اور اپنی راہ لی۔ آخر کئی دن سردی کھاتے دے رہے۔ صبح کو گھومنے جایا کرتے تھے وہ سلسلہ بھی بند ہو گیا۔ مگر دل بھی قدرت نے انہیں عجیب قسم کا دیا تھا۔ پھٹے پرانے کپڑے پہنتے آپ کو شرم نہیں آتی۔ میں تو کٹ جاتی ہوں آپ کو مطلق احساس نہیں۔ کوئی ہنستا ہے تو ہنسے آپ کی بلا سے۔ آخر مجھ سے دیکھا نہ گیا تو ایک کوٹ بنوا دیا۔ جی تو جلتا تھا کہ خوب سردی کھانے دوں مگر ڈری کہ کہیں بیمار پڑ گئے تو اور بھی آفت آ جائے۔ آخر کام تو انہیں کو کرنا ہے۔

یہ اپنے دل میں سمجھتے ہوں گے کہ میں کتنا نیک نفس اور منکسر مزاج ہو ۔ شاید انہیں ان اوصاف پر ناز ہو۔ میں انہیں نیک نفس نہیں سمجھتی ہوں۔ یہ سادہ لوحی ہے۔ سیدھی سادی حماقت۔ جس مہتر کو آپ نے اپنا کوٹ دیا اسی کو میں نے کئی بار رات شراب کے نشے میں بد مست جھومتے دیکھا ہے اور آپ کو دکھا بھی دیا ہے۔ تو پھر دوسروں کی کج روی کا تاوان ہم کیوں دیں۔اگر آپ نیک نفس اور فیاض ہوتے تو گھر والوں سے بھی تو فیاضانہ برتاؤ کرتے یا ساری فیاضی باہر والوں کے لئے ہی مخصوص ہے؟ گھر والوں کو اس کا عشر عشیر بھی نہ ملنا چاہئے؟ اتنی عمر گزر گئی مگر اس شخص نے کبھی اپنے دل سے میرے لئے ایک سوغات بھی نہ خریدی۔ جو چیز طلب کروں اسے بازار سے لانے میں انہیں کلام نہیں۔ مطلق عذر نہیں مگر روپیہ بھی دے دوں یہ شرط ہے۔ انہیں خود کبھی توفیق نہیں ہوتی۔ یہ میں مانتی ہوں کہ بچارے اپنے لئے بھی کچھ نہیں لاتے۔ میں جو کچھ منگوا دوں اسی پر قناعت کر لیتے ہیں مگر انسان کبھی کبھی شوق کی چیزیں چاہتا ہی ہے۔اور مردوں کو دیکھتی ہوں گھر میں عورت کے لئے طرح طرح کے زیور کپڑے شوق سنگھار کے لوازمات لاتے رہتے ہیں یہاں یہ رسم ممنوع ہے بچوں کے لیے بھی مٹھائی، کھلونے،باجے، بگل شاید اپنی زندگی میں ایک بار بھی نہ لائے ہوں قسم سی کھا لی ہے اس لئے میں تو انہیں بخیل کہوں گی، مردہ دل ہی کہوں گی، فیاض نہیں کہہ سکتی۔ دوسروں کے ساتھ ان کا جو فیاضانہ سلوک ہے اسے مَیں حرص، نمود اور سادہ لوحی پر محمول کرتی ہوں۔ آپ کی منکسر مزاجی کا یہ حال ہے کہ جس دفتر میں آپ ملازم ہیں اس کے کسی عہدہ دار سے آپ کا میل جول نہیں۔ افسروں کو سلام کرنا تو آپ کے آئین کے خلاف ہے۔ نذر یا ڈالی کی بات تو الگ ہے۔ اور تو اور کبھی کسی افسر کے گھر جاتے ہی نہیں۔ اس کا خمیازہ آپ نہ اٹھائیں تو کون اٹھائے۔ اوروں کو رعایتی چھٹیاں ملتی ہیں آپ کی تنخواہ کٹتی ہے۔ اوروں کی ترقیاں ہوتی ہیں آپ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ حاضری میں پانچ منٹ بھی دیر ہو جائے تو جواب طلب ہو جاتا ہے۔ بچارے جی توڑ کر کام کرتے ہیں کوئی پیچیدہ مشکل کام آ جائے تو انہیں کے سر منڈھا جاتا ہے۔ انہیں مطلق عذر نہیں۔ دفتر میں انہیں گھسو اور پسو وغیرہ خطابات بھی ملے ہوئے ہیں مگر منزل کتنی ہی دشوار طے کریں ان کی تقدیر میں وہی سوکھی گھاس لکھی ہے۔ یہ انکسار نہیں ہے۔ میں تو اسے زمانہ شناسی کا فقدان کہتی ہوں۔ آخر کیوں کوئی شخص آپ سے خوش ہو؟ دنیا میں مروت اور رواداری کا سے کام چلتا ہے، اگر ہم کسی سے کھنچے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہم سے نہ کھنچا جا رہے۔ پھر جب دل میں کبیدگی ہوتی ہے تو وہ دفتری تعلقات میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ جو ماتحت افسر کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے، جس کی ذات سے افسر کو کوئی ذاتی فائدہ پہنچتا ہے، جس پر اعتبار ہوتا ہے اس کا لحاظ وہ لازمی طور پر کرتا ہے۔ ایسے بے غرضوں سے کیوں کسی کو ہمدردی ہونے لگی۔

افسر بھی انسان ہیں۔ ان کے دل میں جو اعزاز و امتیاز کی ہوس ہوتی ہے وہ کہاں پوری ہو جب اس کے ماتحت ہی فرنٹ رہیں۔ آپ نے جہاں ملازمت کی وہاں سے نکالے گئے۔ کبھی کسی دفتر میں سال دو سال سے زیادہ نہ چلے۔ یا تو افسروں سے لڑگے یا کام کی کثرت کی شکایت کر بیٹھے۔

آپ کو کنبہ پروری کا دعوی ہے۔ آپ کے کہیں بھائی بھتیجے ہیں۔ وہ کبھی آپ کی بات بھی نہیں پوچھتے مگر آپ برابر ان کا منہ تکتے رہتے ہیں۔ ان کے ایک بھائی صاحب آجکل تحصیلدار ہیں۔ گھر کی جائیداد انہیں کی نگرانی میں ہے۔ وہ شان سے رہتے ہیں۔ موٹر خرید لی ہے۔ کہیں نوکر ہیں۔ مگر یہاں بھولے سے بھی خط نہیں لکھتے۔ ایک بار ہمیں روپئے کی سخت ضرورت ہوئی۔ میں نے کہا اپنے برادر مکرم سے کیوں نہیں مانگتے۔ کہنے لگے کیوں انہیں پریشان کروں آخر انہیں بھی تو اپنا خرچ کرنا ہے۔ کونسی ایسی بچت ہو جاتی ہو گئی۔ میں نے بہت مجبور کیا تو آپ نے خط لکھا۔ معلوم نہیں خط میں کیا لکھا لیکن روپیے نہ آنا تھے نہ آئے۔ کہیں دنوں کے بعد میں نے پوچھا “کچھ جواب آیا حضور کے بھائی صاحب کے دربار سے”؟ اپن
آپ نے ترش ہو کر کہا ابھی ایک ہفتہ تو خط بھیجے ہوا ابھی کیا جواب آسکتا ہے۔ ایک ہفتہ اور گزرا۔ اب آپ کا یہ حال ہے کہ مجھے کوئی بات کرنے کا موقع ہی نہیں عطا فرماتے ۔اتنے بشاش کہ کیا کہوں۔ میری خوشامد بھی خوب ہو رہی ہے۔ میرے میکے والوں کی بھی تعریف ہورہی ہیں۔ میں حضرت کی چال سمجھ رہی تھی یہ ساری ی دلجوئیاں اس لئے تھیں کہ آپکے برادر مکرم کے متعلق کچھ پوچھ نہ بیٹھوں۔ سارے ملکی، مالی، اخلاقی، تمدنی مسائل میرے سامنے بیان کئے جاتے تھے۔ اتنی تفصیل اور شرح کے ساتھ کہ پروفیسر بھی دنگ رہ جائے۔ محض اس لئے کہ مجھے اس امر کی بابت کچھ پوچھنے کا موقع نہ ملے۔ لیکن میں کیا چونکنے والی تھی۔ جب پورے دو ہفتے گزر گئے اور بیمہ کمپنی کے روپے روانہ کرنے کی تاریخ موت کی طرح سر پر آ پہنچی تو میں نے پوچھا کیا ہوا تمھارے بھائی صاحب نے دہن مبارک سے کچھ فرمایا یا ابھی تک خط ہی نہیں پہنچا۔ آخر ہمارا حصہ بھی گھر کی جائیداد میں کچھ ہے یا نہیں۔ یا ہم کسی لونڈی باندی کی اولاد ہیں۔ پانچ سو روپے سال کا منافع نو دس سال قبل تھا،اب ایک ہزار سے کم نہ ہوگا۔ کبھی ایک کوڑی بھی ہمیں نہ ملی۔موٹے حساب سے ہمیں دو ہزار ملنا چاہیے۔ دو ہزار نہ ہو، ایک ہزار ہو، 500 ہو ڈھائی سو ہو۔کچھ نہیں بیمہ کمپنی کے پریمیم بھرنے کو تو ہو۔ تحصیلدار کی آمدنی ہماری آمدنی سے چوگنی ہے۔ رشوتیں بھی لیتے ہیں تو پھر ہمارے روپے کیوں نہیں دیتے۔ آپ ہیں ہیں، ہاں ہاں کرنے لگے۔بیچارے گھر کی مرمت کرواتے ہیں، عزیزواقارب کی مہمانداری کا بھی بار انہی کے سر پر ہے۔ خوب! گویا جائداد کا منشا محض یہ ہے کہ اس کی کمائی اسی میں صرف ہوجائے۔ اس بھلے آدمی کو بہانے بھی گھڑنے نہیں آتے۔ مجھ سے پوچھتے میں ایک نہیں ہزار بتا دیتی۔کہہ دیتے گھر میں آگ لگ گئی۔ سارا اثاثہ جل کر خاک ہو گیا۔ یا چوری ہو گئی۔چور نے گھر میں تنکا تک نہ چھوڑا۔ یا دس ہزار کا غلّہ خریدا تھا اس میں خسارہ ہو گیا۔ گھاٹے سے بیچنا پڑا یا کسی سے مقدمہ بازی ہوگئی۔ اس میں دیوالہ پٹ گیا آپ کو سوجھی بھی تو لچر سی بات۔ اس جولانئ طبع پر آپ مصنف اور شاعر بھی بنتے ہیں۔ تقدیر ٹھونک کر بیٹھ رہی۔ پڑوس کی بی بی سے قرض لئے تب جا کر کہیں کام چلا۔پھر بھی آپ بھائی بھتیجوں کی تعریف کے پل باندھتے ہیں تو میرے جسم میں آگ لگ جاتی ہے۔ایسے برادران یوسف سے خدا بچائے۔

خدا کے فضل سے آپ کے دو بچے ہیں دو بچیاں بھی ہیں۔ خدا کا فضل کہوں یا خدا کا قہر کہوں۔سب کے سب اتنے شریر ہو گئے ہیں کہ معاذاللہ۔ مگر کیا مجال کے یہ بھلے بانس کسی بچے کو تیز نگاہ سے بھی دیکھیں۔ رات کے آٹھ بج گئے ہیں۔ بڑے صاحبزادے ابھی گھوم کر نہیں آئے۔ میں گھبرا رہی ہوں۔وہ اطمینان سے بیٹھے اخبار پڑھ رہے ہیں۔ جھلائی ہوئی آتی ہوں اور اخبار چھین کر کہتی ہوں: “جا کر ذرا دیکھتے کیوں نہیں لونڈا کہاں رہ گیا۔ نہ جانے تمہارے دل میں کچھ قلق ہے بھی یا نہیں۔ تمہیں تو خدا نے اولاد ہی ناحق دے دی۔آج آ جائے تو خوب ڈانٹنا” تب آپ بھی گرم ہو جاتے ہیں” ابھی نہیں آیا؟ بڑا شیطان ہے۔ آج بچہ آئے تو کان اکھاڑ لیتا ہوں، مارے تھپڑوں کے کھال ادھیڑ کر رکھ دوں گا۔ جو بگڑ کر طیش کے عالم میں آپ اس کو تلاش کرنے نکلتے ہیں۔ اتفاق سے آپ ادھر جاتے ہیں، ادھر لڑکا آجاتا ہے۔ میں کہتی ہوں “کدھر سے آیا؟ وہ بیچارے تجھے ڈھونڈنے گئے ہیں۔ دیکھنا آج کیسے مرمت ہوتی ہے۔ یہ عادت ہی چھوٹ جائے گی۔ دانت پیس رہے تھے۔ آتے ہی ہونگے۔ چھری بھی ہاتھ میں ہے۔تم اتنے شریر ہو گے ہو کہ بات بھی نہیں سنتے۔ آج قدر و عافیت معلوم ہو گئی۔” لڑکا سہم جاتا ہے اور لیمب جلا کر پڑھنے لگتا ہے۔ اپ دو گھنٹے میں لوٹتے ہیں۔ حیران و پریشان اور بدحواس، گھر میں قدم رکھتے ہی پوچھتے ہیں “آیا کے نہیں”؟

میں ان کا غصہ بھڑکانے کے ارادے سے کہتی ہوں” آ کر بیٹھا تو ہے۔ جا کر پوچھتے کیوں نہیں، پوچھ کر ہار گئی کہاں گیا تھا، کچھ بولتا ہی نہیں۔”

آپ گرج پڑتے ہیں۔” منو یہاں آؤ”.

لڑکا تھرتھراتا کانپتا ہوا آ کر آنگن میں کھڑا ہوجاتاہے۔ دونوں بچیاں گھر میں چھپ جاتی ہیں کہ خدا جانے کیا آفت نازل ہونے والی ہے۔ چھوٹا بچہ کھڑکی سے چوہے کی طرح جھانک رہا ہے۔ آپ جامے سے باہر ہیں۔ ہاتھ میں چھڑی ہے۔ میں بھی وہ غضبناک چہرہ دیکھ کر پچھتانے لگتی ہوں کہ کیوں ان سے شکایت کی۔ آپ لڑکے کے پاس جاتے ہیں مگر بجائے اس کے کہ چھڑی سے اس کی مرمت کریں آہستہ سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بناوٹی غصے سے کہتے ہیں۔

“تم کہاں گئے تھے جی! منع کیا جاتا ہے۔ مانتے نہیں ہو۔ خبردار جو اب اتنی دیر کی۔ آدمی شام کو گھر چلا آتا ہے یا ادھر ادھر گھومتا ہے؟”

میں سمجھ رہی ہوں یہ تمہید ہے قصیدہ اب شروع ہو گا۔ گریز تو بری نہیں لیکن یہاں تمہید ہی خاتمہ ہو جاتی ہے۔ بس آپ کا غصہ فرو ہو گیا۔لڑکا اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے اور غالباً خوشی سے اچھلنے لگتا ہے۔

میں احتجاج کی صدا بلند کرتی ہوں.” تم تو جیسے ڈر گئے، بھلا دو تمانچے تو لگائے ہوتے، اس طرح تو لڑکے شیر ہو جاتے ہیں۔ آج آٹھ بجے آیا ہے کل نو بجے خبر لائے گا۔ اس نے بھی دل میں کیا سوچا ہوگا۔”

آپ فرماتے ہیں “تم نے سنا نہیں میں نے کتنی زور سے ڈانٹا۔ بچے کی روح ہی فنا ہو گئی دیکھ لینا جو پھر کبھی دیر میں آئے”

“تم نے ڈانٹا تو نہیں ہاں آنسو پونچھ دیئے”

آپ نے ایک نئی اپج نکالی ہے کہ لڑکے تادیب سے خراب ہو جاتے ہیں۔ آپ کے خیال میں لڑکوں کو آزاد رہنا چاہیے۔ ان پر کسی قسم کی بندش یا دباؤ نہ ہونا چاہیے۔ بندش سے آپ کے خیال میں لڑکے کی دماغی نشو و نمامیں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لڑکے شتر بے مہار بنے ہوئے ہیں۔ کوئی ایک منٹ بھی کتاب کھول کر نہیں بیٹھتا۔ کبھی گلی ڈنڈا ہے، کبھی گولیا،ں کبھی کنکوے۔ حضرت بھی انہیں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ چالیس سال سے تو متجاوز آپ کی عمر ہے مگر لڑکپن دل سے نہیں گیا۔ میرے باپ کے سامنے مجال تھی کہ کوئی لڑکا کنکوا اڑا لے یا گلی ڈنڈا کھیل سکے۔ خون پی جاتے۔ صبح سے لڑکوں کو پڑھانے بیٹھ جاتے۔ اسکول سے جوں ہی لڑکے واپس آتے پھر لے بیٹھتے بس شام کو آدھے گھنٹے کی چھٹی دیتے۔ رات کو پھر کام میں جوت دیتے۔ یہ نہیں کہ آپ تو اخبار پڑھیں اور لڑکے گلی گلی کی خاک چھانتے پھریں۔ کبھی آپ بھی سینگ کٹا کر بچھڑے بن جاتے ہیں۔ لڑکوں کے ساتھ تاش کھیلنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے باپ کا لڑکوں پر کیا رعب ہو سکتا ہے۔ ابا جان کے سامنے میرے بھائی سیدھے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ان کی آواز سنتے ہی قیامت آ جاتی تھی۔ انہوں نے گھر میں قدم رکھا اور خاموشی طاری ہو گئی۔ ان کے رو برو جاتے ہوئے لڑکوں کی جان نکلتی تھی اور اسی تعلیم کی برکت ہے کہ سبھی اچھے عہدوں پر پہنچ گئے۔ صحت البتہ کسی کی بہت اچھی نہیں ہے۔ تو ابا جان کی صحت ہی کون سی بہت اچھی تھی۔ بچارے ہمیشہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا رہتے۔ پھر لڑکوں کی صحت کہاں سے اچھی ہو جاتی۔ لیکن کچھ بھی ہو تعلیم و تادیب میں انہوں نے کسی کے ساتھ رعایت نہیں کی۔

ایک روز میں نے حضرت کو بڑے صاحبزادے کو کنکوا کی تعلیم دیتے دیکھا۔ یوں گھماؤ، یوں غوطہ دو، یوں کھینچو، یوں ڈھیل دو ۔ایسا دل و جان سے سیکھا رہے تھے گویا گرو منتر دے رہے ہوں۔ اس دن میں نے بھی ان کی ایسی خبر لی کہ یاد کرتے ہوں گے۔ میں نے صاف کہہ دیا کہ تم کون ہوتے ہو میرے بچوں کو بگاڑنے والے۔ تمہیں گھر سے کوئی مطلب نہیں ہے نہ ہو، لیکن آپ میرے بچوں کو خراب مت کیجئے۔ برے برے شوق مت پیدا کیجئے۔ اگر آپ انہیں سدھار نہیں سکتے تو کم از کم بگاڑیے بھی مت۔ لگے باتیں بنانے۔ ابا جان کسی لڑکے کو میلے تماشے نہ لے جاتے تھے۔ لڑکا سر پٹک کر مر جائے مگر ذرا بھی نہ پسیجتے تھے اور ان بھلے آدمی کا یہ حال ہے کہ ایک ایک سے پوچھ کر میلے لے جاتے ہیں۔ چلو چلو وہاں بڑی بہار ہے،خوب آتش بازیاں چھوڑیں گے،ولایتی چرخیاں بھی ہیں ان پر مزے سے بیٹھنا اور تو اور آپ لڑکوں کو ہاکی کھیلنے سے بھی نہیں روکتے۔ یہ انگریزی کھیل بھی کتنے خوف ناک ہوتے ہیں۔ کرکٹ، فٹ بال، ہاکی ایک سے ایک مہلک۔ گیند لگ جائے تو جان ہی لے کر چھوڑے۔ مگر آپ کو ان کھیلوں سے بڑی رغبت ہے۔ کوئی لڑکا میچ جیت کر آ جاتا تو کتنے خوش ہوتے ہیں گویا کوئی قلعہ فتح کر آیا ہو۔ حضرت کو ذرا بھی اندیشہ نہیں کہ کسی لڑکے کے چوٹ لگ گئی تو کیا ہو گا۔ ہاتھ پاؤں ٹوٹ گیا تو بچاروں کی زندگی کیسے پار لگے گی۔

پچھلے سال لڑکی کی شادی تھی۔ آپ کو یہ ضد تھی کہ جہیز کے نام کانی کوڑی بھی نہ دیں گے، چاہے لڑکی ساری عمر کنواری بیٹھی رہے۔ آپ اہل دُنیا کی خبیث النفسی آئے دن دیکھتے رہتے ہیں پھر بھی چشم بصیرت نہیں کھلتی۔جب تک سماج کا یہ نظام قائم ہے اور لڑکی کا بلوغ کے بعد کنواری رہنا انگشت نمائی کا باعث ہے اس وقت تک یہ رسم فنا نہیں ہو سکتی۔دو چار افراد بھلے ہی ایسے بیدار مغز نکل آئیں جو جہیز لینے سے انکار کریں لیکن اس کا اثر عام حالات پر کم ہوتا ہے اور برائی بدستور قائم رہتی ہے۔جب لڑکوں کی طرح لڑکیوں کے لئے بھی بیس پچیس برس کی عمر تک کنواری رہنا بدنامی کا باعث نہ سمجھا جائے گا اس وقت آپ ہی آپ یہ رسم رخصت ہو جائے گی۔ میں نے جہاں جہاں پیغام دئے جہیز کا مسئلہ پیدا ہوا اور آپ نے ہر موقع پر ٹانگ اڑا دی۔جب اس طرح ایک سال پورا گزر گیا اور لڑکی کا سترھواں سال شروع ہو گیا تو میں نے ایک جگہ بات پکی کر لی۔ حضرت بھی راضی ہو گے۔ کیونکہ ان لوگوں نے قرارداد نہیں کی حالانکہ دل میں انہیں پورا یقین تھا کہ ایک اچھی رقم ملے گی اور میں نے بھی طے کر لیا تھا کہ اپنے مقدور بھر کوئی بات اُٹھا نہ رکھوں گی۔ شادی کے بخیرو عافیت انجام پانے میں کوئی شبہ نہ تھا لیکن ان مہاشے کے آگے میری ایک نہ چلتی تھی۔یہ رسم بے ہودہ ہے، یہ رسم بے معنی ہے، یہاں روپے کی ضرورت کیا، یہاں گیتوں کی کیا ضرورت، ناک میں دم تھا۔ یہ کیوں، وہ کیوں، یہ تو صاف جہیز ہے، تم نے میرے منہ میں کالک لگا دی، میری آبرو مٹا دی، ذرا خیال کیجئے، بارات دروازے پر پڑی ہوئی ہے اور یہاں بات بات پر رد و قدح ہو رہی ہے۔شادی کے ساعت رات کے بارہ بجے تھی۔اس دن لڑکی کے ماں باپ برت رکھتے ہیں۔میں نے بھی برت رکھا۔لیکن آپ کو ضد تھی کہ برت کی کوئی ضرورت نہیں۔ جب لڑکے کے والدین برت نہیں رکھتے تو لڑکی کے والدین کیوں رکھیں اور سارا خاندان ہر، چند منع کرتا رہا لیکن آپ نے حسب معمول ناشتہ کیا کھانا کھایا۔خیر رات کو شادی کے وقت کنیا دان کی رسم آئی۔ آپ کو کنیا دان کی رسم پر ہمیشہ سے اعتراض ہے۔ اسے آپ مہمل سمجھتے ہیں۔لڑکی دان کی چیز نہیں، دان روپے پیسے کا ہوتا ہے۔ جانور بھی دان دئے جاسکتے ہیں لیکن لڑکی کا دان ایک لچر سی بات ہے۔ کتنا سمجھاتی ہوں:”صاحب پرانا رواج ہے۔ شاستروں میں صاف اس کا حکم ہے”عزیز اقارب سمجھا رہے ہیں مگر آپ ہیں کہ کان پر جوں نہیں رینگتی۔ کہتی ہوں دنیا کیا کہے گی۔ یہ لوگ کیا بالکل لا مذہب ہو گئے۔ مگر آپ کان ہی نہیں دھرتے۔ یہاں تک کہا کہ بابا تم کچھ نہ کرنا جو کچھ کرنا ہو گا میں کر لوں گی صرف تم چل کر منڈپ میں لڑکی کے پاس بیٹھ جاؤ اور اسے دعا دو۔ مگر اس مرد خدا نے مطلق سماعت نہ کی۔ آخر مجھے رونا آگیا۔ باپ کے ہوتے میری لڑکی کا کنیا دان چچا یا ماموں کرے یہ منظور نہ تھا۔ میں نے تنہا کنیا دان کی رسم ادا کی۔ آپ گھر جانکے تک نہیں اور لطف یہ ہے کہ آپ ہی مجھ سے روٹھ بھی گئے۔ بارات کی رخصتی کے بعد مجھ سے مہینوں بولے نہیں۔ جھک مار کر مجھ کو منانا پڑا۔

مگر کچھ عجیب دل لگی ہے کہ ان ساری برائیوں کے باوجود میں ان سے ایک دن کے لیے بھی جدا نہیں رہ سکتی۔ ان سارے عیوب کے باوجود میں انہیں پیار کرتی ہوں۔ ان میں وہ کون سی خوبی ہے جس پر میں فریفتہ ہوں مجھے خود معلوم نہیں۔ مگر کوئی چیز ہے ضرور جو مجھے ان کا غلام بنائے ہوئے ہے۔ وہ ذرا معمول سے دیر میں گھر آتے ہیں تو میں بے صبر ہو جاتی ہوں۔ ان کا سر بھی درد کرے تو میری جان نکل جاتی ہے۔ آج اگر تقدیر ان کے عوض مجھے کوئی علم اور عقل کا پتلا،حسن اور دولت کا دیوتا بھی دے تو میں اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھوں۔ یہ فرض کی بیڑی نہیں ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ رواجی وفاداری بھی نہیں ہے، بلکہ ہم دونوں کی فطرتوں میں کچھ ایسی رواداریاں، کچھ ایسی صلاحیتیں پیدا ہو گئی ہیں، گویا کسی مشین کے کل پرزے گھس گھسا کر فٹ ہو گئے ہوں اور ایک پرزے کی جگہ دوسرا پرزہ کام نہ دے سکے چاہے وہ پہلے سے کتنا ہی سڈول، نیا اور خوشنما کیوں نہ ہو۔ جانے ہوئے رستے سے ہم بے خوف آنکھیں بند کیے چلے جاتے ہیں۔ اس کے نشیب و فراز، موڑ اور گھماؤ اب ہماری آنکھوں میں سمائے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس کسی انجان رستے پر چلنا کتنی زحمت کا باعث ہو سکتا ہے۔ قدم قدم پر گمراہ ہو جانے کے اندیشے، ہر لمحہ چور اور رہزن کا خوف، بلکہ شاید آج میں ان کی برائیوں کو خوبیوں سے تبدیل کرنے پر بھی تیار نہیں۔