اردو غزل کے جمالیاتی پہلو

کسی تحریر کو حسین ، معنی خیز اور پر اثر بنانے کے لئے اجتماعی طور پر جو ہیئتی، موضوعی، لسانی، فنی اصول، طریقے اور رویے اپنائے جاتے ہیں جن سے قاری یا سامع مسرت اور بصیرت حاصل کرتا ہے ان کی مجموعی صورت و کیفیت کو ہم جمالیات کہتے ہیں۔ اصطلاح میں یہ ایک ایسے علم کا نام ہے جس میں حسین چیزوں کے پرکھنے کے اصول واقدار سے بحث کی جاتی ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے لفظ ”Aesthetic“ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ تو آسان لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جمالیات اس کیفیت و احساس کا نام ہے جس سے انسان کو لفظی و معنوی مسرت و بصیرت حاصل ہوتی ہے۔

اردو ادب کا تعلق نثر اور نظم سے ہے نثر اور نظم میں مختلف اصناف آتی ہیں، مثلاً شاعری (نظم) میں قصیدہ، مرثیہ ، نظم ، مثنوی، غزل رباعی، قطعہ وغیره اسی طرح نثر میں داستان، ناول، افسانہ ، انشائیہ، مضمون وغیر۔ چوں کہ ہر نثری و شعری صنف کے اپنے کچھ مخصوص فنی اور ہیئتی اصول و ضوابط ہوتے ہیں اس لئے ہر ایک صنف کی جمالیات دوسری صف کی جمالیات سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔ لیکن ہر صنف میں جمالیات کا تعلق بنیادی طور پر تحریر کی حسن کاری یعنی Beautification سے ہوتا ہے۔

اگر صنف غزل کی بات کی جائے تو غزل اردو کی تمام شعری اصناف میں سب سے مقبول ترین صنف سخن ہے۔ اس کی مقبولیت کا راز اس کے ہمہ گیر متنوع موضوعات، اختصار کے باوجود جامعیت، اس کی اشاراتی زبان اور ہر شخص کے داخلی جذبات کو بہترین انداز میں بیان کرنے میں مضمر ہے۔ غزل کی پہچان اس کی ظاہری شکل و صورت یعنی اس کے اجزائے ترکیبی مثلاً ردیف ، قافیہ، مطلع، مقطع اور بحر وغیرہ سے کی جاتی ہے۔ شروع سے لے کر آج تک غزل کی ہیئت میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے البتہ اس کے موضوعات اور لفظیات زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے ہیں۔

اگر غزل کی ہیئت اور صورت کو وسیع معنوں میں دیکھیں تو ان الفاظ میں بڑی وسعت ہے۔ ان الفاظ سے مراد صرف زبان کا استعمال اور اندازِ نیان نہیں ہے۔ یہ تنقیدی اور فلسفیانہ اصطلاحیں ہیں۔ ہیئت اپنے وسیع مفہوم میں ایک طرف تو وہ طریقِ اظہار ہے جو فن کار استعمال کرتا ہے اور دوسری جانب جذبات سے بھرا ہوا وہ پُر اثر اور کسی حد تک مانوس اظہار بیان ہے جو شاعر اور سامع کے درمیات رابطہ اور رشتے کا کام دیتا ہے۔ اس میں زبان ، زبان کی تمام آرائش ، اثر اندازی کے تمام طریقے ، مواد کے تمام سانچے، حسن اور لطافت پیدا کرنے کے تمام ذریعے اور ان سے بڑھ کر مواد کے ساتھ ہم آہنگی کا احساس دلا کر ایک مکمل فنی نمونہ پیش کرنا سبھی کچھ شامل ہے۔ اور فلسفۂ جمال میں ہیئت اور صورت ایک نظم و ترتیب کا نام ہے یعنی چند چیزوں کو ایک خاص ترتیب سے یکجا کر دینے کو صورت یا ہیئت کہتے ہیں۔

انسان کی فطرت ہے کہ وہ خارجی مظاہر سے متاثر ہوتا ہے۔ اس خارجی مظاہر کے ردعمل کے طور پر اس کے دل میں کچھ لہریں اٹھتی ہیں۔ ان لہروں سے جذبات کی تخلیق ہوتی ہے۔ یہ جذبات ظاہر ہونا چاہتے ہیں، ظاہر ہونے کے لیے انھیں کوئی صورت اختیار کرنی پڑتی ہے تو فنکار جب ان کو ترتیب اور منظم طریقے کے ساتھ پیش کرنا ہے تو اس صورت اور ہیئت میں ایک جمالیاتی اثر پیدا ہوتا ہے اور یہی خصوصیت فن کو فن ، ادب کو ادب اور شاعری کو شاعری بناتی ہے۔ اس لیے مذکورہ بالا تمام باتیں ہیئت اور صورت کے لئے ضروری ہیں۔ گویا ہیئت یا صورت فن ادب اور شعر کا ایسا جزو ہے جس کے بغیر ان کے تخلیق کرنے والوں کو کامیابی نصیب نہیں ہو سکتی۔

اردو غزل کی ہیئت کو انھیں بنیادی باتوں کو سامنے رکھ کر دیکھنا چاہیے۔ اس کو اردو نے پیدا نہیں کیا بل کہ وہ فارسی کے اثر سے ہمارے یہاں آئی ہے اور ہماری شاعری کا سب سے بڑا سرمایہ بن گئی ہے۔ اس میں ذرا بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ اس میں اعلیٰ قسم کی شاعری کی گئی ہے اور آج بھی اس کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔

صنف غزل کی یہ مقبولیت اور اس کی یہ دل موہ لینے والی کیفیت اس کی ظاہری ہیئت و صورت کے ساتھ ساتھ اس کے معنوی پہلوؤں کی بھی مرہونِ منت ہے۔ اس کے موضوعات بذاتِ خود اپنے اندر ایک اندازِ دلکشی رکھتے ہیں۔ ان موضوعات کو انسانی زندگی سے مناسبت ہے۔ غزل کا سب سے اہم موضوع عشق رہا ہے، عشقیہ جذبات و احساسات اور اس کی مختلف کیفیات کو انسانی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کون ایسا کافر ہوگا جو اس کی اہمیت سے انکار کرئے گا، شاید ہی کوئی پاک دامن ایسا ملے جس نے اس کوچے کی خاک نہ چھاتی ہو۔ یہ جذبات واحساسات مرتے دم تک انسان کے ساتھ رہتے ہیں۔ غزل کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ اس کا یہی موضوع ہے اور یہی بات غزل کی جمالیات میں شامل ہے۔ لیکن غزل نے اپنے آپ کو صرف اسی موضوع تک محدود نہیں رکھا ہے۔ آج دنیا کا کوئی موضوع ایسا نہ ہوگا جو غزل کی صورت میں تخلیق نہ ہوتا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آج غزل اتنی مقبول ہو گئی ہے کہ ہر کسی کے دل میں اس نے گھر کر لیا ہے۔

آج غزل کی مقبولیت اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ داخلی صنف سخن ہے اور اس کے اشعار میں رمزیت اور کنائیت ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایک مختصر سے شعر میں پوری کہانی بیان کی جا سکتی ہے۔ یہ پہلو بھی غزل کی جمالیات میں شامل ہے کیوں کہ داخلیت ، سوز و گداز، رمزیت ، ایمائیت، موسیقی اور عنانیت یہ سب خصوصیات مل کر غزل کے جمالیاتی محاسن کا وجود بنتے ہیں۔

الغرض ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صنف غزل کے جمالیاتی پہلؤوں میں اس کی ظاہری ہیئت و صورت یعنی غزل کے اجزائے ترکیبی مثلاً : مطلع ، مقطع ، ردیف ، قافیہ، بحر ، وزن اور غزل کی زمین کے ساتھ ساتھ اس کے خارجی پہلو یعنی مواد، اسلوب، موضوعات لفظیات وغیرہ بھی شامل ہیں۔

تحریر ساجد منیر (ریسرچ اسکالر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری، جموں و کشمیر)