قاضی اختر کے شعری مجموعہ الفجر کا تجزیاتی مطالعہ

خیالات کو جب کوئی فنکار وزن قافیہ اور شعری لفظیات کی حسین ترتیب کے ساتھ پیش کرتا ہے تو وہ نغمہ یا آہنگ کا روپ دھار لیتا ہے اسی کو شعر کہتے ہیں۔ شاعری کے اندر آہنگ ایک علوی عنصر ہے جو دلوں کو مسحور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی گر کا سہارا لے کر اختر قاضی نے اپنے خیالات، تجربات اور احساسات کو شعری قالب میں لا کر خیالات اور جذبات کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔

اختر قاضی صاحب کا شعری مجموعہ ”الفجر “ جو حال ہی میں 2023 کو اشاعت پذیر ہوا ہے۔ زیر نظر شعری مجموعہ 84 تخلیقات پر مشتمل ہے۔ یہ تخلیقات موضوعی طور پر حمد، نعت اور غزل کے دائرے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اختر قاضی صاحب ایک انقلابی مزاج کے انسان ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں کے مضامین میں ملت کی ناگفتہ بہ حالات کی عکاسی کے ساتھ اس کے سدِ باب کی خواہش بھی ملتی ہے۔بعض مقامات پر وہ انسانیت کے درمیان ۔۔۔۔۔کہ قیام پر مزاحمت کرتے ہیں اور انسان اور انسانیت کی اعلیٰ قدروں کو محدود جغرافیائی تناظر سے نکال کر وسیع کینوس میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ ان کی شاعری میں تفکر، تدبر اور تناظر کے ساتھ ساتھ ایک ملت کے تئیں دھڑکتا ہوا دل بھی موجود ہے جو انسانیت کی اعلی قدروں کے تحفظ کے لیے مضطرب ہے۔ صاحب اقتدار اور طاقتور کے جبر و استداد کو قاضی اختر کا شعور قبول نہیں کرتا۔ احمد شناس نے قاضی اختر کے اس شعری مجموعے کے حوالے سے بہت مناسب رائے دی ہے کہ:
” اختر قاضی کی شاعری کا ایک واضح اور نمایاں موضوع زندگی کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے حالات کا جبر اور جبر کے مقابلے میں انہوں نے اپنے اشعار سے اس مزاحمت کا اظہار بھی کیا ہے۔ یہ مجموعہ کلام اختر قاضی کو ادبی دنیا میں زندہ رکھنے میں معاون ہی نہیں ہوگا بلکہ اس سے ان کے ادبی قد میں اور اضافہ ہوگا۔“

ادب کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ ادب زندگی کی تفسیر ہے، تشریح ہے۔ اختر قاضی کے اس مجموعے کے حوالے سے اگر یہ کہا جائے گا تو غلط نہ ہوگا کہ ان کے اس شعری مجموعے میں سماج کا ہر طبقہ اپنی شدت، بے راہ روی اور اپنے غیر متوازن اور غیر معتدل کردار کے ساتھ سانسیں لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مذہبی، سماجی، سیاسی، انقلابی ، جوان، بزرگ ہر کردار اپنے نمایاں اوصاف کے ساتھ ان کی اس شعری کائنات میں نظر آتا ہے۔ یہ الگ بات ہے بعض کرداروں کے اوصاف ہدف تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ اختر قاضی کو تجربات، احساسات کی دنیا سے تخلیقی اظہار تک ان کرداروں کے اوصاف بیان کرنے میں نہایت ریاضت کرنی پڑی ہے لیکن اختر قاضی کے بعض رویے اور خیالات ایسے بھی ہیں کہ جن کے خیالات اور رویے اپنی جگہ پر درست ہیں لیکن ابھی ان کے ڈکشن یعنی اظہار کو فن کے درجے تک لے جانے میں سخت ریاضت درکار ہے۔ یہ بات بھی مسلم ہے کہ وہ کرداروں پر طنزیہ نشانے سادھنے میں مخلص ضرور ہیں، ان اشعار کی بین السطور سے ان کا دردِ دل ضرور اس میں شامل ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

وہ غریبوں کے کام ائیں کبھی
یوں تو پھرتے ہیں شہر یار بہت
(صفحہ 55)

راہ سب کی کریں وہ اب روشن
رہبروں پر ہے اعتبار بہت
(صفحہ 55)

جانب کعبہ فقط جھکنا ہی کافی ہے کہاں
اک دعا کے واسطے قلب و جگر بھی چاہیے
(صفحہ 58)

آدمی قید ہے کیوں فرقے کی دیواروں میں
دین کی توقیر سے آگے بھی تو سوچا جاتا
(صفحہ 61)

ہم تو لیتے ہیں یہاں اس کا نام
ہم سے ہی مسجد و مندر ٹھہرے
(صفحہ 62)

ہے کوئی بولے انا الحق ہر دم
ہے کوئی جو کہ قلندر ٹھہرے
(صفحہ 62)

اپنے ترک غرور تک جانا
جب کبھی بھی ہو طور تک جانا
(صفحہ 63)

شرک کو اپنے رکھنا ایک طرف
ہو جو ممکن حضور تک جانا
(صفحہ 63)

ایک سفر ہے انا کا یہ اختر
شور سے بس شعور تک جانا
(صفحہ 63)

وہ ہوں سنی کہ ہوں سلفی یا کسی مسلک کے
ہم سے روشن ہے بہت اہل کرامات کی بات
(صفحہ 66)

سماجی وہ شعور جو ابھی حقیقت سے آشنا نہیں ہے جن کی نظر میں جماعت کی تقسیم ہی کامیابی ہے، یا خدا کو بھی انہوں نے خانوں میں بانٹ رکھا ہے، انسانوں کو جغرافیائی حدوں میں قید کر رکھا ہے، انسانیت کی اعلی قدروں کو فراموش کر کے وہ اپنی ہوشیاری کی پرچار کرتے ہیں ایسے کرداروں پر اختر قاضی نے دلچسپ طنزیہ نشانے باندھے ہیں۔

کسی کا دل کہاں ملتا ہے اب دل سے
ہے مردہ سارے پیپل نیم باقی ہے
( صفحہ 69)

ابھی اس جنگ کا رکنا ہے ناممکن
خلاؤں کی ابھی تقسیم باقی ہے
(صفحہ 69)

یہ اب تقسیم کب ہو چکا اختر
خدائی میں بس ایک ترمیم باقی ہے
(صفحہ 69)

اختر قاضی کے اس شعری مجموعے ”الفجر “ میں بعض اشعار ایسے بھی ہیں ان کو ابھی شعری اور لسانی ریاضت کی اشد ضرورت ہے۔ ان شعروں میں کہیں تنافر حروف اور تنافر صوت کا عیب در آتا ہے تو کہیں تاکید لفظی اور لفظوں کی تقدیمی و تاخیری تراکیب معنی کی تفہیم میں آڑے آ جاتی ہیں۔ بعض مقامات پر قافیے اور پروف ریڈنگ کی غلطیاں بھی اپنی اور متوجہ کرتی ہیں جس کے سبب ادب کی ادبی لطافت متاثر ہو جاتی ہے۔

مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا کلام تازہ مضامین کی پرنشاط فضا قائم کر لیتا ہے۔ اسلوب منفرد اور کلام میں تفکر، تدبر اور بصیرت کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ ان خصوصیات کی وجہ سے سنجیدہ قاری ان کے کلام کی طرف کھینچا چلا جاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ادبی حلقوں میں ان کے اس شعری مجموعے کو ضرور قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

تحریر: ڈاکٹر محمد آصف ملک (اسسٹنٹ پروفیسر اردو)