اقبال کی شاعری کے ادوار

اقبل نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونکی ہے۔وہ پیغمبری اور صحت مند قدرو کی ترجمان ہیں۔اقبال کی شاعری کا آغاز روایتی انداز سے ہوا ابتدا میں انہیں داغ کی شاگردگی کے زیراثر مصنوعی حسن و عشق کی گلیوں کی خاک بھی چھانی پڑی مگر بہت جلد اس آزاد طائر کا دم حسن و عشق کی ان تاریک گلیوں میں گھٹنے لگا اور انہوں نے روایتی و رومانی شاعری کو خیر آباد کہہ دیا۔اقبال کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلا دور ابتدا سے ١٩٠٥ء تک کا ہے

“ہمالہ” اس دور کی پہلی  نظم ہے جو ١٠١ء  میں مخزن لاہور کے پہلے شمارے میں ‘کوہستان ہمالیہ’ کے عنوان سے شائع ہوئی۔اس دور کی فطری، رومانی اور وطنی نظمیں اور غزلیں “بانگ درا” میں شامل ہیں۔”بانگ درا” اقبال کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو ١٩٢٤ء میں شائع ہوا۔اس دور کی اہم نظموں میں گل رنگین، ابر کوہسار، آفتاب صبح، چاند، جگنو،شمع،ماہ نو،انسان،بزم قد رت،ایک آرزو،موج دریا،ابر،کنارہ،ترانہ ہندی اور نیاشوالہ وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جو انسان کو فطرت اور وطنیت کا پیغام دیتی ہیں۔اقبال کی ابتدائی دور کی شاعری ایک ایسے مسافر کا سفر ہے جو منزل اور سمت منزل سے بے خبر ہے۔

اقبال کی شاعری کا دوسرا دور قیام یورپ کا ہے

١٩٠٥ء سے ١٩٠٨ء تک اقبال کا سفر یورپ ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کو نئی سمت و نئی وسعت دینے میں بڑا مفید ثابت ہوا۔ان کے زاویہ نگاہ اور سوچنے کے انداز میں تبدیلی رونما ہوئی۔یورپ کی خاک کے ذرے ذرے میں انہیں ایک دھڑکتا ہوا دل نظر آیا جو حرارت، تڑپ اور شدت سے لبریز تھا۔دوسری طرف ایشیا میں انہیں ہر چیز محو خواب نظر آئی۔یہاں دل کا دھڑکنا تو کیا سانس تک کی آواز محسوس نہیں ہوتی۔ان حالات سے متاثر ہوکر اقبال وطن پرستی کے محدود دائرے سے باہر نکلے اور آفاقی مسائل کی طرف متوجہ ہوئے۔اس عہد میں لکھی گئ نظمیں”طلباء علی گڑھ کالج کے نام” “عبدالقادر کے نام” اور “محبت” ان کے خیالات و تصورات کی تبدیلی کو ظاہر کرتی ہیں۔اقبال علی گڑھ طلبہ کو عشق وعمل کا پیغام یوں دیتے ہیں۔

اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے
عشق کے دردمند کا طرز کلام اور ہے

علامہ اقبال کی شاعری کا تیسرا دور ١٩٠٨ء کے بعد شروع ہوتا ہے

اس دور کو انکی شاعری کا عہد زرین کہا جاسکتا ہے۔اس دور کی شاعری میں انہوں نے بتایا ہے کہ قوم کے زوال اور تمام خرابیوں کی جڑ ان کی بے عملی اور حقیقت سے بے خبری ہے لہذا انہوں نے قوم کو ذہنی غلامی سے نجات دلانے کے لیے فلسفہ خودی کو پیش کیا۔اقبال نے فلسفہ خودی کے ساتھ ایک منفرد تصور عشق،جہد عمل،فکر، حیات اور مومن کی وضاحت کی ہے۔وہ قوم کو خواب غفلت سے یوں بیدار کرتے ہیں۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

زندگی سے بھرپور خیالات و تصورات کا اندازہ “بال جبریل” اور” ضرب کلیم” میں شامل اقبال کی شاہکار نظموں ذوق و شوق،حضر راہ،شکوہ،جواب شکوہ،ساقی نامہ،مسجد قرطبہ،ابلیس کی مجلس شوریٰ اور لینن کے حضورمیں وغیرہ کے مطالعے سے لگایاجاسکتاہے۔وہ اس عہد میں اتحاد و ملت کی دعوت کے علاوہ مسلمانوں کو اسلامی طرز اختیار کرنے،قرآن پر عامل ہونے اور رسول پاکﷺ سے والہانہ عشق و استوار کرنے کا پیغام دیتے ہیں۔

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

اقبال کی شاعری میں جدید و قدیم تصورات،تغزل و تصوف کا امتزاج،فلسفیانہ اور مفکرانہ نظریات خوبصورت اسلوب میں ملتے ہیں۔بیشتر اشعار میں دریا کو کوزے میں بند کر دیتے ہیں جس سے ان کی فکری بلندی اور تخیل پروازی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

غرض کہ اقبال کے کلام میں فلسفے کے ساتھ ساتھ فن شاعری کی ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں۔نادر تشبیہات و استعارات،رمزوکنایہ،موسیقی و ترنم،منظرکشی و پیکر تراشی اور فصاحت و بلاغت میں انہوں نے خون جگر لگا کر کمال فن کا ثبوت دیا ہے۔