Advertisement
Advertisement
چلو اب ایسا کرتے ہیں ستارے بانٹ لیتے ہیں
ضرورت کے مطابق ہم سہارے بانٹ لیتے ہیں
Advertisement
محبت کرنے والوں کی تجارت بھی انوکھی ہے
منافع چھوڑ دیتے ہیں خسارے بانٹ لیتے ہیں
اگر ملنا نہیں ممکن تو لہروں پر قدم رکھ کر
ابھی دریائے الفت کے کنارے بانٹ لیتے ہیں
Advertisement
میری جھولی میں جتنے بھی وفا کے پھول ہیں ان کو
اکھٹے بیٹھ کر سارے کے سارے بانٹ لیتے ہیں
Advertisement
محبت کے علاوہ پاس اپنے کچھ نہیں ہے فیضؔ
اسی دولت کو قسمت کے مارے بانٹ لیتے ہیں
Advertisement