چلو اب ایسا کرتے ہیں ستارے بانٹ لیتے ہیں
ضرورت کے مطابق ہم سہارے بانٹ لیتے ہیں
محبت کرنے والوں کی تجارت بھی انوکھی ہے
منافع چھوڑ دیتے ہیں خسارے بانٹ لیتے ہیں
Advertisement
اگر ملنا نہیں ممکن تو لہروں پر قدم رکھ کر
ابھی دریائے الفت کے کنارے بانٹ لیتے ہیں
میری جھولی میں جتنے بھی وفا کے پھول ہیں ان کو
اکھٹے بیٹھ کر سارے کے سارے بانٹ لیتے ہیں
Advertisement

محبت کے علاوہ پاس اپنے کچھ نہیں ہے فیضؔ
اسی دولت کو قسمت کے مارے بانٹ لیتے ہیں