وقار احمد

           کیا مل گیا ہے راہِ وفا میں مجھے وقار
           اتنا کہ صرف خواب سجاتا رہا ہوں میں
  • نام : وقار احمد
  • والد : محمد مستقیم ٹیپو
  • والدہ : شہناز پروین
  • بھائی : تنویر ٹیپو، شہباز ٹیپو، انعام ربانی، ازیر ٹیپو
  • بہن : تحسین سلطانہ
  • تاریخ ولادت : 21 نومبر  1995 مغربی بنگال کے شہر رانی گنج میں ہوئی۔ میرا تعلیمی سفر گھر کی جنت’  ماں ‘ کے آنچل تلے سے روایتی انداز میں شروع ہوا جس کے بعد میں نے ابتدائی تعلیم مخدومیہ فری پرائمری اسکول سے اور سیکنڈری رانی گنج اردو ہائی اسکول سے حاصل کی ۔ ہائر سیکنڈری کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے میں نے آسنسول رحمانیہ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ اسکول کے دنوں سے ہی اردو ادب سے خاص لگاؤ اور شعری ذوق بھی اچھا خاصا رہا ہے جو آس پاس کئی ادب نوازوں کو دیکھ کر پرورش پاتا رہا۔ اس درمیان میں نے لکھنا بھی شروع کردیا چونکہ غزل ہر دور میں دلعزیز رہی ہے اس صنف نے مجھے بھی حد درجہ اپنے قریب کرلیا۔ شہر رانی گنج کے مشہور شاعر ندیم شعبانی کی ذات نے مجھے غزل کے بحر و اوزان سے متعارف کروایا۔

بی اے  ( اردو ) کی تعلیم  Triveni Devi Bhalotia college  سے حاصل کی اور اسی دوران عزیز استانی محترمہ  ڈاکٹر صابرہ خاتون حنا صاحبہ  کی شفقت بھری نگاہ میری غزلوں  پر پڑی اور پھر ان سے تحریک پا کر یہ سلسلہ ایک قدم اور بڑھ چلا  اور میں غزلوں کے ساتھ نظموں کی طرف بھی مائل ہوا۔  جس کے بعد میری کئی ایک غزلیں اور نظمیں اخبار و رسائل کی زینت بن چکی ہیں۔ آسنسول اردو اکیڈمی کے ادبی رسالہ”  صدائے اردو ” جلد اول کے شمارہ دوم اور سوم میں بھی میری غزلیں منظر عام پر آچکی ہیں۔

بی ایڈ کی تعلیم  Shams-Ul-Uloom College  آندھراپردیش سے حاصل کرنے کے بعد میں نے اپنے تعلیمی سلسلے کو برقرار رکھنے کے لئے  مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے ایم اے  ( اردو ) میں داخلہ لے لیا ہے۔ یوں تو ادب کی تمام تر اصناف  شاعر و ادیب کے دل و دماغ سے ہو کر ہی وجود میں  آتی ہیں لیکن نظم اور خاص کر غزل کا دل سے بڑا گہرا اور اہم رشتہ ہوتا ہے اور یہی ریت رہی ہے کہ ہر شاعر اپنے دل کے احساسات کو منفرد لب و لہجے میں ڈھال کر شعر بنتا ہے لہذا میری کوشش بھی یہی رہتی ہے۔

وقت کے راستے سے ہم تم کو
              ایک ہی ساتھ تو گزرنا تھا
ہم تو جی بھی نہیں سکے اک ساتھ
         ہم کو تو ایک ساتھ مرنا تھا
(جون ایلیا)

اردو ادب کے افق پر ایسے کئی ایک شعرا ہیں جنہوں نے اپنی فکر ، رنگین بیانی اور دلفریب انداز سے اپنی منفرد شناخت کے ساتھ ساتھ اپنی  ایک خاص جگہ بھی متعین کی ہے ۔ لیکن جن کا کلام میرے دل کے آخری حصے تک کو چھو جاتا ہے ، وہ جون ایلیا اور مرزا غالب ہیں۔ ان کے کلام میں موجود آفاقیت ان کو ہر دور میں بلند و عزیز رکھنے کے لئے کافی ہے۔

                           جون آغاز مے گساری میں
                            نشہ ہوتا ہے، پھر نہیں ہوتا
                  (جون ایلیا)           
           بے خودی بے سبب نہیں غالب
               کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے
                 (مرزا غالب)