شب فرقت مصیبت ہے نہیں تو

0
شب فرقت مصیبت ہے نہیں تو
یہ آہیں کیا شکایت ہے نہیں تو
نظر پھر کیوں نہیں ہٹتی ہے ان سے
انہیں پانے کی حسرت ہے نہیں تو
اتاروں عشق کے دریا میں کشتی
تو کیا خود سے عداوت ہے نہیں تو
شب فرقت کا آخر کیوں ہو رونا
 مجھے ان کی ضرورت ہے نہیں تو
سپر جو ڈال دے اس پر شقاوت
بتاؤ کیا شجاعت ہے نہیں تو
زمیں کیا لے گیا وہ آسماں بھی
وقار اس سے شکایت ہے نہیں تو