Advertisement
Advertisement

تحقیقی مقالے کی تیاری میں محقق کو بہت سی کٹھن منزل سے گزرنا پڑتا ہے۔ مواد اکٹھا کرنا، نوٹ لینا اور مواد کی پرکھ تحقیق کا ایک مخصوص عمل ہے۔ لیکن ان سب کے بعد تسوید کی منزل آتی ہے، تو محقق کے ذہن کو بھی اسی تخلیقی کرب سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

Advertisement

تحقیق ایک غیر جذباتی عمل ہے اس میں ایسا نہیں ہے کہ محقق جب چاہے معمار کی دیوار تعمیر کرنے کی طرح یکا یک مقالہ لکھنے بیٹھ جائے، کبھی بھی اٹھ جائے اور پھر لکھنے لگ جائے۔ تحقیق کے لیے یہ ضروری ہے کہ لکھنے کا کوئی وقت اور جگہ مقرر ہونی چاہیے۔ مطالعہ کہیں بھی کیا جا سکتا ہے لیکن تسوید نہیں۔ اس لئے یہ لازم ہے کہ اس کا وقت اور اس کی جگہ مقرر ہو اور اس کے خاص لوازمات میں کرسی اور میز وغیرہ مقرر ہیں۔

مشہور فلاسفر کارل مارکس نے اپنی عظیم کتاب ”سرمایہ“ برٹش میوزیم لائبریری میں بیٹھ کر لکھی۔ ڈاکٹر گیان چند جین کہتے ہیں کہ میں نے شکاگو یونیورسٹی میں دیکھا کہ ایک چھوٹے بند کمرے میں، جس کے شیشے کے دروازے تھے، دو لڑکے میز پر پاؤں رکھے بیٹھے ہیں یقینی ہے کہ وہ دونوں لڑکے نہ سو رہے ہوں گے بلکہ ذہن ہی ذہن میں اپنے مقالے کے بارے میں فکر کر رہے ہوں گے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ کوئی بھی اسکالر دن پر بیٹھ کر نہ ہی پڑھ سکتا ہے نہ ہی لکھ سکتا ہے۔اسے کھانا کھانے کے لئے بھی تو اٹھنا ہے اور اگر کوئی اسکالر چاہے کہ وقفہ دے کہ وہ دو گھنٹے یا ڈیڑھ گھنٹے میں مقالے کی تصویر کرے تو ممکن نہیں ہے۔ نیا ریسرچ اسکالر ہاسٹل میں رہتا ہو وہاں کمرے میں لکھ سکتا ہے۔ ہوسٹل میں نہ رہ کر شہر میں رہتا ہو اور گھر میں مکانیت نہ ہو تو اسے لائبریری میں ہی گوشہ تلاش کرنا ہوگا۔

Advertisement

ایک بار ڈاکٹر شنکر دیال نے ڈاکٹر گیان چند جین کو بھوپال میں کہا تھا کہ اسکالر کو مسلسل کام کرتے رہنا چاہئے، کام نہ کرنا اسکالر کی موت ہے۔ ان کا یہ قول بالکل سچ ہے کہ مسلسل کام کرتے رہنا چاہئے اور آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔

Advertisement

انگریزی کے ایک مضمون نگار کا کہنا ہے کہ دنیا کا سب سے مشکل کام پہلا پیراگراف لکھنا ہے۔ یہ بات بلکل درست ہے کہ کتاب یا مضمون کی ابتدائی سطور لکھنا بہت مشکل کام ہوتا ہے لیکن جب ایک بار گاڑی چل پڑتی ہے تو شروع میں آہستہ اور بعد میں تیز چلتی ہی جائے گی۔

لنڈا نے کہا تھا کہ اگلے دن کی تحریر کے لئے کچھ نکات لکھ چھوڑیے۔ ڈاکٹر گیان چند جین نے اس میں ترمیم کرکے کہا کہ ایک دن کے کام کا خاتمہ کسی موضوع، فصل یا جزو کے خاتمے کے مطابق نہ ہو بلکہ ایسی جگہ درمیان میں چھوڑئیے کہ اگلے دن طبیعت آسانی سے آگے بڑھانے پر مائل ہوجائے۔

Advertisement

انگریزی کے ایک نقاد میک کیرو نے اپنے ایک مضمون میں مقالے کی تسوید کے کچھ اصول بیان کیے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

  • 1. تحقیقی مقالے کا مضمون ایک اکائی ہونا چاہیے۔
  • 2. جو کچھ کہیے اسے قاری کے علم کے مطابق ڈھال کر کہیے۔
  • 3. حقایق کو تاریخی ترتیب سے دیجئے۔
  • 4. تاریخیں کثرت سے دیجئے۔
  • 5. حقائق سادہ اسلوب میں قلمبند کیجئے۔
  • 6. مزاح کی کوشش نہ کیجئے۔
  • 7. اقتباسات اور مقولے مختصر ہو اور بالکل صحیح صحیح نقل کیے گئے ہوں۔
  • 8. خواہ آپ کو اپنی تحقیق میں شک ہو لیکن تحریر میں ایسا ہرگز ظاہر نہ ہونے دیجئے۔
  • 9. پورے مقالے میں وحدت کا شعور ہو۔
  • 10. پوری تحریر کا لہجہ اور اسلوب ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو۔

ڈاکٹر گیان چند جین کے مطابق مقالے کی تسوید کے وقت اردو کی دو ایک اچھی لغات اور انگریزی کی ایک ڈکشنری پاس رکھیں تاکہ الفاظ کا صحیح مفہوم اور لہجے کو دیکھ سکیں۔ مندرجہ بالا ان اصول و ضوابط کو ذہن میں رکھ کر ایک بہترین طریقے سے مقالے کی تسوید کی جا سکتی ہے۔

Advertisement

Advertisement