تحقیق میں اقتباسات، حوالے اور حواشی کا مقام

0

تحقیق کے میدان میں اقتباس ایک اہمیت کا لفظ ہے۔ انگریز مصنف راس کا کہنا ہے کہ اگر اقتباس تین سطروں یا اس سے کم ہے تو کھلا کھلا یعنی Double Space میں دیجئے اس سے زیادہ کا ہے تو بین السطور فاصلہ کم یعنی Single Space کر دیجئے۔ بہت مختصر مقولے کو جملے کے سلسلے میں ہی لکھ دیجیے۔ اردو میں ذیل کے قواعد کو اپنا سکتے ہیں۔

  • 1. اگر دوسری زبان کے اقتباس کا ترجمہ کرکے دے رہے ہیں یا اردو کے اقتباس کو اپنے الفاظ میں خلاصہ کرکے لکھ رہے ہیں تو اس کو واوین میں ہرگز محصور نہ کیجئے۔ ترجمے یا خلاصے کے آخر میں آپ حوالے کا نمبر ڈالیں گے تو اندازہ ہو جائے گا کہ اقتباس یا دوسروں کی رائے یہاں تک تھی۔یہ بھی ہدایت ہے کہ متن میں دوسری زبان کے اقتباس کا ترجمہ دے رہے ہیں تو فٹ نوٹ یا اخیری حواشی میں اصل زبان میں عبارت دے دی جائے۔
  • 2. نظم کا ایک مصرع درج کرنا ہو تو اسے خواہ جملوں کے سلسلے میں لکھیے، خواہ نیچے نئی سطر میں اس کے پہلے ع لکھ کر بغیر واوین کے مصرع لکھیے۔جملے کے سلسلے میں ہے تو اس کے بعد ڈیش (-) لگا دیجئے۔
  • 3. نثری اقتباس میں ایک جملے کے اقتباس کو حسب خواہش خواہ متن کے سلسلے میں واوین میں دے دیجئے خواہ نیچے سطر میں۔اس سے بڑے اقتباس کو نیچے دینا ہی مناسب ہے۔
  • 4. اقتباس کے اندر اقتباس آجائے تو آخرالذکر کو اکہرے واوین میں دیجئے۔ مثلاً یادگارغالب سے:
  • ” نواب مصطفیٰ خاں مرحوم کہتے تھے کہ ملا کے خط میں جو اس نے مرزا کو کسی دوسرے ملک سے بھیجا تھا“ یہ فقرہ تھا ” اے عزیز چہ کسی؟ کہ بایں ہمہ آزد دیہا گاہ گاہ بخاطرمی گزری، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ دو برس کے قلیل عرصے میں وہ مرزا کو سکھا سکتا تھا اس میں ہرگز مضائقہ نہ کیا گیا ہو گا“
  • 5. اگر اقتباس کی عبارت کے آخر میں سوالیہ نشان ہے تو پہلے سوالیہ نشان لگائے اس کے بعد واوین۔ مثلاً بادشاہ نے پوچھا ”مرزا اس قدر غور سے کیا دیکھتے ہو؟“

حوالے اور حواشی

نوٹ دو قسم کے ہوتے ہیں (١) مآخذ کی اطلاع دینے والے انہیں حوالے کہتے ہیں، (٢) مآخذ پر تبصرہ کرنے والے اور معلومات میں اضافہ کرنے والے، انہیں حواشی کہتے ہیں۔ ماخذی حوالوں کا مقصد اپنے ماخذ کا پتہ دینا ہے تاکہ قاری چاہے تو ماخذ کو دیکھ کر خود تصدیق کر لے۔اس طرح اسے مزید مواد کی نشاندہی بھی ہو جائے گی، دوسرا مقصد اپنے بیان کا پایہ استناد بلند کرنا ہے۔

تبصراتی حواشی کے کئی مقصد ہوتے ہیں۔ متن کے بیان میں تشریح یا صراحت، متن کی اغلاط کی تصحیح، متن سے متعلق مزید معلومات بہم پہنچانا، اختلافی مسائل میں متن سے مختلف نقطۂ نظر پیش کرنا، اگر متن میں کسی دوسری زبان کے مثلاً عربی ،فارسی ، انگریزی کے مواد کا اردو ترجمہ پیش کیا ہے تو نوٹ میں اصل زبان کے الفاظ دینا، کسی کے شکریہ کا اعراف وغیرہ۔

خیال رہے کہ حواشی متن پر غالب نہ ہونے پائیں، اس کے خریف نہ ہو جائیں۔ جو بات متن میں جگہ پانے کی مستحق نہ ہو اسے کم سے کم حواشی میں بھی دینے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔

قاضی عبدالودود کے مجموعے عیارستان میں ص ١٤، ٢٧، ٢٨، ١٣٢، ١٣٥، ١٣٦ وغیرہ پر تبصراتی حاشیے ہیں جنہیں متن میں درج کرنا چاہیے تھا۔ ڈاکٹر عابد پشاوری کی کتاب ’انشاءاللہ خان انشاء‘ میں جابجا معزز حاشیہ بھرے پڑے ہیں جو بعض اوقات کئی کئی صفحوں تک پاؤں پھیلاتے ہیں۔