Advertisement
Advertisement

غزل

ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم
صاحب نے اس غلام کو آزاد کر دیا
لو بندگی! کہ چھوٹ گئے بندگی سے ہم
کیا دل کو لے گیا کوئی بیگانہ آشنا
کیوں اپنے جی کو لگتے ہیں کچھ اجنبی سے ہم
لے نام آرزو کا تو دل سے نکال دیں
مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم

تشریح

پہلا شعر

ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم

شاعر کہتا ہے کہ محبت میں جو ہم کو سختیاں اٹھانی پڑی ہیں ان سے عاجز آکر ہم نے اپنے دل میں ارادہ کر لیا تھا کہ اب محبوب سے نہیں ملیں گے کہ وہی ہماری تباہی اور بربادی کا سبب ہے۔لیکن کیا کریں اس دل کو کیسے سمجھائیں۔یعنی اس کے ہاتھوں مجبور ہوکر پھر وہاں جا رہے ہیں۔

Advertisement

دوسرا شعر

ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم

شاعر کہتا ہے کہ محبت میں ہم نے جو غم اٹھائے ہیں ان کے سبب سے ہنسی ہمارے لبوں سے غائب ہوگئی ہے۔کبھی کوئی ایسی صورت پیدا ہی نہیں ہوئی جو ہنسی کا سبب بنے اور اب تو یہ عالم ہو گیا ہے کہ کہیں کسی کو کسی سے بات کرتے اور ہنستے دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور دیر تک ہم ان کھلکھلاتے چہروں کو دیکھ کر روتے رہتے ہیں۔دوسرا پہلو یہ ہےکہ ہمیں تم سے محبت میں ہمیشہ ناکامی اٹھانی پڑی ہیں۔کبھی وصل کی صورت پیدا نہیں ہو سکی۔لہذا جب ہم کسی عاشق کو معشوق کے ساتھ ہنستے یا بات کرتے دیکھتے ہیں تو ہم کو اپنی ناکامیاں یاد آ جاتی ہیں اور دیر تک ان کے منہ کو دیکھ دیکھ کر ہم روتے رہتے ہیں۔

تیسرا شعر

صاحب نے اس غلام کو آزاد کر دیا
لو بندگی! کہ چھوٹ گئے بندگی سے ہم

شاعر کہتا ہے کہ ہمارے دوست ہمارے ہمدم نے اس نیازمند کو آزاد کر دیا ہے۔اپنی خدمت سے الگ کر دیا ہے۔لیجئے ہماری بندگی، ہماری خدمت دیکھیے کہ ہم بندگی سے بھی چھوٹ گئے ہیں۔ یعنی عبادت سے چھوٹے گے ہیں۔

Advertisement

چوتھا شعر

کیا دل کو لے گیا کوئی بیگانہ آشنا
کیوں اپنے جی کو لگتے ہیں کچھ اجنبی سے ہم

شاعر کہتا ہے کہ آج کل ہم اپنے جی کو اجنبی اور ناواقف سے لگنے لگے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا دل ہمارا نہ رہا ہوں اس کو کوئی ایسا جان پہچان والا لے گیا ہو جو یگانہ نہیں بے گانہ ہو کہ اگر یگانہ ہوتا تو پھر یہ صورت نہ ہوتی۔

Advertisement

پانچواں شعر

لے نام آرزو کا تو دل سے نکال دیں
مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم

شاعر کہتا کہ ہم مومن ہیں ایمان والے ہیں اس کے سوا ہمارے دل میں کسی آرزو کا کیا کام ہے اگر دل آرزو کا نام بھی لے تو ہم اس کو دل سے نکال باہر کردیں کہ یہی ایمان ہے۔اس سے الگ کسی بری رسم کو چلائیں یا اس سے تعلق رکھیں تو پھر ہم مومن تو نہیں ہوئے۔شاعر نے اپنے تخلص سے کیا خوب معنی پیدا کیے ہیں۔

Advertisement

Advertisement