ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم

0

غزل

ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم
صاحب نے اس غلام کو آزاد کر دیا
لو بندگی! کہ چھوٹ گئے بندگی سے ہم
کیا دل کو لے گیا کوئی بیگانہ آشنا
کیوں اپنے جی کو لگتے ہیں کچھ اجنبی سے ہم
لے نام آرزو کا تو دل سے نکال دیں
مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم

تشریح

پہلا شعر

ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم

شاعر کہتا ہے کہ محبت میں جو ہم کو سختیاں اٹھانی پڑی ہیں ان سے عاجز آکر ہم نے اپنے دل میں ارادہ کر لیا تھا کہ اب محبوب سے نہیں ملیں گے کہ وہی ہماری تباہی اور بربادی کا سبب ہے۔لیکن کیا کریں اس دل کو کیسے سمجھائیں۔یعنی اس کے ہاتھوں مجبور ہوکر پھر وہاں جا رہے ہیں۔

دوسرا شعر

ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم

شاعر کہتا ہے کہ محبت میں ہم نے جو غم اٹھائے ہیں ان کے سبب سے ہنسی ہمارے لبوں سے غائب ہوگئی ہے۔کبھی کوئی ایسی صورت پیدا ہی نہیں ہوئی جو ہنسی کا سبب بنے اور اب تو یہ عالم ہو گیا ہے کہ کہیں کسی کو کسی سے بات کرتے اور ہنستے دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور دیر تک ہم ان کھلکھلاتے چہروں کو دیکھ کر روتے رہتے ہیں۔دوسرا پہلو یہ ہےکہ ہمیں تم سے محبت میں ہمیشہ ناکامی اٹھانی پڑی ہیں۔کبھی وصل کی صورت پیدا نہیں ہو سکی۔لہذا جب ہم کسی عاشق کو معشوق کے ساتھ ہنستے یا بات کرتے دیکھتے ہیں تو ہم کو اپنی ناکامیاں یاد آ جاتی ہیں اور دیر تک ان کے منہ کو دیکھ دیکھ کر ہم روتے رہتے ہیں۔

تیسرا شعر

صاحب نے اس غلام کو آزاد کر دیا
لو بندگی! کہ چھوٹ گئے بندگی سے ہم

شاعر کہتا ہے کہ ہمارے دوست ہمارے ہمدم نے اس نیازمند کو آزاد کر دیا ہے۔اپنی خدمت سے الگ کر دیا ہے۔لیجئے ہماری بندگی، ہماری خدمت دیکھیے کہ ہم بندگی سے بھی چھوٹ گئے ہیں۔ یعنی عبادت سے چھوٹے گے ہیں۔

چوتھا شعر

کیا دل کو لے گیا کوئی بیگانہ آشنا
کیوں اپنے جی کو لگتے ہیں کچھ اجنبی سے ہم

شاعر کہتا ہے کہ آج کل ہم اپنے جی کو اجنبی اور ناواقف سے لگنے لگے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا دل ہمارا نہ رہا ہوں اس کو کوئی ایسا جان پہچان والا لے گیا ہو جو یگانہ نہیں بے گانہ ہو کہ اگر یگانہ ہوتا تو پھر یہ صورت نہ ہوتی۔

پانچواں شعر

لے نام آرزو کا تو دل سے نکال دیں
مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم

شاعر کہتا کہ ہم مومن ہیں ایمان والے ہیں اس کے سوا ہمارے دل میں کسی آرزو کا کیا کام ہے اگر دل آرزو کا نام بھی لے تو ہم اس کو دل سے نکال باہر کردیں کہ یہی ایمان ہے۔اس سے الگ کسی بری رسم کو چلائیں یا اس سے تعلق رکھیں تو پھر ہم مومن تو نہیں ہوئے۔شاعر نے اپنے تخلص سے کیا خوب معنی پیدا کیے ہیں۔