اظہار شوق شکوہ اثر اس سے تھا عبث

0

غزل

اظہار شوق شکوہ اثر اس سے تھا عبث
یعنی کہا کہ مرتے ہیں تم پر کہا عبث
میں ایک سخت جان ہوں گردوں سے پوچھ لو
تم کو خیال ہے مرے آزار کا عبث
امید وعدہ بھی تو نہیں روز ہجر میں
ہم سے وفا زندگی بے وفا عبث
اس ضعف میں تو سینے سے آتا ہے لب تلک
کہتے ہیں اپنے نالے کو ہم نارسا عبث
اے روز حشر کچھ شب ہجراں بھی کم نہیں
بد نام ہو جہاں میں تیری بلا عبث
ہرگز نہ رام وہ صنم سنگ دل ہوا
مومن ہزار حیف کے ایماں گیا عبث

تشریح

پہلا شعر

اظہار شوق شکوہ اثر اس سے تھا عبث
یعنی کہا کہ مرتے ہیں تم پر کہا عبث

شاعر کہتا ہے کہ میرا محبوب بڑا بے درد اور بے مروت ہے۔اس سے کوئی خاک محبت کا اظہار کرے۔محبت کا اظہار اور تاثر کا شکوہ اس سے کرنا فضول ہے۔میں نے جب اس سے کہا کہ ہم تم پر مرتے ہیں یعنی تم پر عاشق ہیں اور تمھارے عشق میں جان پر کھیل گئے ہیں تو اس نے کہا سب فضول ہے، بکواس ہے۔

دوسرا شعر

میں ایک سخت جان ہوں گردوں سے پوچھ لو
تم کو خیال ہے مرے آزار کا عبث

شاعر محبوب سے مخاطب ہے۔ کہتا ہے کہ میں بڑا سخت جان ہوں۔ اگر چاہو تو آسمان سے دریافت کر لو کہ اس نے لاکھ ستم ڈھائے ہیں مگر میں سلامت ہوں۔ لہذا تم کو میری محبت کی تکلیف سے ناخق پریشانی ہے۔ تم میری تکلیف میرے درد سے متعلق مت سوچو۔

تیسرا شعر

امید وعدہ بھی تو نہیں روز ہجر میں
ہم سے وفا زندگی بے وفا عبث

شاعر کہتا ہے کہ محبوب سے وصل کی بات تو خیر چھوڑیے کہ جُدائی کے روز وہ وعدۂ وفا تو کیا کرے گا‌۔اس سے وعدہ کی بھی امید نہیں ہے۔اس لیے یہ بے وفا زندگی ہم سے وفا بھی کرتی ہے تو فضول ہے۔ یعنی کاہے کو جیں گے۔

چوتھا شعر

اس ضعف میں تو سینے سے آتا ہے لب تلک
کہتے ہیں اپنے نالے کو ہم نارسا عبث

شاعر کہتا ہے کہ اس ناتوانی کے عالم میں بھی ہمارا نالہ، ہماری فُغاں سینے سے لبوں تک آ رہی ہے۔گویا لبوں تک اس کی رسائی ہے۔ہم فضول میں اپنے نالے کو نارسا کہتے ہیں جب کہ اس عالم میں بھی اس کی لبوں تک رسائی ہے۔

پانچواں شعر

اے روز حشر کچھ شب ہجراں بھی کم نہیں
بد نام ہو جہاں میں تیری بلا عبث

شاعر قیامت سے مخاطب ہے۔ کہتا ہے کہ اے قیامت تیری بلا ئیں زمانے بھر میں مشہور ہیں تو بلاؤں اور تکالیف کے لیے بد نام ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کے تیری بلاؤں سے تو تنہائی اور جُدائی کی رات بھی کچھ کم نہیں ہے بلکہ زیادہ ہے تیری بلائیں تو فضول میں بد نام ہیں۔

چھٹا شعر

ہرگز نہ رام وہ صنم سنگ دل ہوا
مومن ہزار حیف کے ایماں گیا عبث

غزل کے مقطعے میں مومن کہتے ہیں کہ وہ سنگ دل محبوب جس کو پانے کے لیے ہم نے لاکھ جتن کیے۔دین و دنیا کی پرواہ نہیں کی،رام نہیں ہو سکا۔ہم اس کو قابو نہیں کرسکے اور ہزار افسوس کہ اس سعی میں ہم نے فضول میں اپنا ایمان بھی کھو دیا۔