اجل سے خوش ہوں کس طرح ہو وصال تو ہے

0

غزل

اجل سے خوش ہوں کس طرح ہو وصال تو ہے
نہ آئے نقش پہ وہ پر یہ احتمال تو ہے
ذرا تھم اے دل مضطر کہ فکر وصل کروں
شبقلق نہ سہی،خواب بھی خیال تو ہے
کہاں تلک گلہ ہاۓ تغافل قتل
ہم آپ کاٹ لیں آخر یہ سر وبال تو ہے
جفائے یار کو سونپا معاملہ اپنا
اب آگے ہو نہ ہو، امید انفعال تو ہے
شب فراق میں بھی زندگی پہ مرتا ہوں
کہ گو خوشی نہیں ملنے کی پر ملال تو ہے
عبث ترقی فن کی ہوس ہے مومنؔ کو
زیادہ ہوئے گا کیا اس سے بے مثال تو ہے

تشریح

پہلا شعر

اجل سے خوش ہوں کس طرح ہو وصال تو ہے
نہ آئے نقش پہ وہ پر یہ احتمال تو ہے

شاعر کہتا ہے کہ زندگی ہم نے ہجر یار میں کاٹ لی۔ اب موت آئی ہے تو میں خوش ہوں کہ کم ازکم کہنے کے لئے ہی سہی وصال تو ہوا۔ وہ مزید کہتا ہے کہ ہمارا محبوب ہماری میت میں ممکن ہے کہ نہیں آئے لیکن یہ وہم یہ گمان تو ہے کہ آئے گا۔اور یہ وہم یہ گمان بھی دل کی تسکین کے لیے نہیں ہے۔

دوسرا شعر

ذرا تھم اے دل مضطر کہ فکر وصل کروں
شبقلق نہ سہی،خواب بھی خیال تو ہے

شاعر بے قرار دل سے مخاطب ہے۔ کہتا ہے کہ تمہاری اس بے قراری نے مجھے سوچنے سمجھنے سے معزور کر دیا ہے۔ذرا تو اس بے قراری سے فرصت دے۔ ذرا تو بے قراری تھام لے تو میں ملاقات کی سوچوں، فکر کروں۔ رنج بے قراری کی رات نہیں تو کیا ہوا کہ آرام بھی اسی کا تصور ہی تو ہے۔

تیسرا شعر

کہاں تلک گلہ ہاۓ تغافل قتل
ہم آپ کاٹ لیں آخر یہ سر وبال تو ہے

شاعر کہتا ہے کہ وہ جو مجھے قتل کرنے سے باز رہا ہے۔اس کا گلا اس ستم گر،ظالم محبوب سے کہاں تک کرتے پھریں۔کیوں نہ ہم اپنا سر آپ ہی کاٹ لیں کہ آخر یہ ہمارا سر مصیبت ہی تو ہے۔

چوتھا شعر

جفائے یار کو سونپا معاملہ اپنا
اب آگے ہو نہ ہو، امید انفعال تو ہے

شاعر کہتا ہے کہ ہم نے اپنا کاروبار اپنی زندگی محبوب کی جفاؤں کے حوالے کر دی ہے اب وہ نہ ہو تو نہ ہو مگر یہ امید تو ہےکہ وہ اپنے جور و جفا پر بھی ضرور شرمندہ ہوگا اسے اپنے کیے پر شرمندگی ہو گی۔

پانچواں شعر

شب فراق میں بھی زندگی پہ مرتا ہوں
کہ گو خوشی نہیں ملنے کی پر ملال تو ہے

شاعر کہتا ہے کہ جُدائی کی رات اگرچہ تکلیف دہ ہوتی ہے اور زندگی کو عذاب بنا دیتی ہے لیکن پھر بھی مجھے زندگی بہت عزیز ہے۔اس لئے کہ کچھ نہ کچھ تو شب ہجر میں ملتا ہی ہے۔ خوشی اگر نہیں ملتی تو نہ سہی،رنج تو ملتا ہے۔اور یہ بھی کچھ کم نہیں ہے۔

چھٹا شعر

عبث ترقی فن کی ہوس ہے مومنؔ کو
زیادہ ہوئے گا کیا اس سے بے مثال تو ہے

شاعر نے تعلّی سے کام لیا ہے۔بڑے خوبصورت انداز میں اپنے تعلّی کا پہلو نکالا ہے۔کہتا ہے کہ مومن کو جو اپنے فن کی ترقی کی خواہش ہے تو یہ فضول ہے۔گویا یہ خواہش کیوں ہے اس کا کلام تو پہلے ہی بے نظیر ہے اس کی تو دوسری کوئی مثال ہی نہیں ملتی تو پھر اس میں اور ترقی کیا ہوگی۔