دیدۂ حیراں نے تماشا کیا

0

غزل

دیدۂ حیراں نے تماشا کیا
دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا
آنکھ نہ لگنے سے سب احباب نے
آنکھ کے لگ جانے کا چرچا کیا
زندگی ہجر بھی اک موت تھی
مرگ نے کیا کار مسیحا کیا
جور کا شکوہ نہ کروں ظلم ہے
راز مرا صبر نے افشا کیا
رحم فلک اور میرے حال پر
تونے کرم اےستم آرا کیا
سچ ہی سہی آپ کا پیماں ولے
مرگ نے کب وعدۂ فردا کیا
دشمن مومنؔ ہی رہے بُت سدا
مجھ سے مرے نام نے یہ کیا کیا

تشریح

پہلا شعر

دیدۂ حیراں نے تماشا کیا
دیر تلک وہ مجھے دیکھا کیا

شاعر کہتا ہے کہ آج ہماری حیران آنکھوں نے وہ کھیل دکھا دیا کہ پوچھیے مت۔ وہ محبوب جو ہماری جانب آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا، آج ہماری حیران آنکھوں کا دیر تک تماشا کرتا رہا۔ یعنی دیکھتا رہا۔

دوسرا شعر

آنکھ نہ لگنے سے سب احباب نے
آنکھ کے لگ جانے کا چرچا کیا

عشق میں عاشق کو نیند سے مطلب۔ اب شاعر کہتا ہے کہ ہماری جو آنکھ نہیں لگتی تھی یعنی ہمیں نیند نہیں آتی تھی تو ہمارے احباب نے یعنی دوستوں نے یہ چرچا کردیا، یہ پھیلا دیا کہ ہماری آنکھ لگی ہے۔ یعنی ہمیں محبت ہو گئی ہے۔ آنکھ نہ لگنے اور آنکھ لگ جانے کی مہاروں کے استعمال نے شعر میں حُسن پیدا کر دیا ہے۔

تیسرا شعر

زندگی ہجر بھی اک موت تھی
مرگ نے کیا کار مسیحا کیا

شاعر کہتا ہے کہ جدائی کی زندگی کون سی راحت افزا تھی۔ بلکہ ایک مصیبت تھی اور ایسی مصیبت جو موت سے بدتر ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر موت آتی ہے تو ہمارے لیے گویا اس نے مسیحا کا کام کیا ہے کہ کم ازکم جدائی کی مصیبت سے نجات دلادی ہے۔

چوتھا شعر

جور کا شکوہ نہ کروں ظلم ہے
راز مرا صبر نے افشا کیا

شاعر کہتا ہے کہ میں اس ظالم محبوب کے ظلم کا شکوہ ہرگز نہ کرتا۔ کبھی اس کے ستم کی شکایت نہ کرتا۔ وہ تو میرے صبر نے یہ راز افشا کر دیا کہ وہ میرے صبر کو بار بار آزماتا رہا اور مجھ پر ظلم کرتا رہا اور لوگوں کو اس کا علم ہوگیا۔ ورنہ میں کبھی شکایت نہ کرنا۔

چھٹا شعر

سچ ہی سہی آپ کا پیماں ولے
مرگ نے کب وعدۂ فردا کیا

شاعر کہتا ہے کہ بے شک آپ کا بیان درست۔ آپ کا وعدہ سچا۔ آپ اپنا وعدہ وفا بھی کریں گے۔ مگر موت بھی اپنے وعدہ وفا کرتی ہے۔ دوسرے دن پر نہیں ٹالتی۔ گویا ہماری یہ حالت کہ جان لبوں پر آتی ہے اور آپ کا طویل مُدّتی وعدہ۔ کیا کہنے۔

ساتواں شعر

دشمن مومنؔ ہی رہے بُت سدا
مجھ سے مرے نام نے یہ کیا کیا

مومن کے معنی ایمان لانے والا۔ اب ایمان رکھنے والے کے بُت کیونکر دوست ہو سکتے ہیں۔اب مومن کہتے ہیں کہ ہمارے شاعرانہ نام یعنی تخلص کے سبب سے بُت ہمیشہ ہم سے خفا رہے بلکہ دشمن رہے۔اور ہمیشہ یہی صورت رہتی وہ کبھی ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔