Advertisement
Advertisement
کبھی ایسابھی ہوتا ہے
جسے اپنا سمجھتے ہیں
زباں پر جسکی خاطر ہم
خوشی کے گیت گاتے ہیں
ہزاروں غم چھپا کر بھی
جسے ہر دم ہنساتے ہیں
ہزاروں طرح کے نخرے
خوشی سے سہ بھی جاتے ہیں

کبھی غمگین سی راتیں
کبھی آدھی ملاقاتیں
ہمیں اکثر ملا کرتی ہیں تحفے میں جو سوغاتیں

وہ جس کے نام سے دل کی
روانی تیز ہوتی ہے
جسے پانے کی خاطر
زندگی مہمیز ہوتی ہے
کبھی تیشہ چلا کر ہم
یہاں ندیاں بہاتے ہیں

یوں جاں پر کھیل جاتے ہیں
مگر یہ دکھ بھی تواحمد
ہماری جان لیتے ہیں
جسے اپنا سمجھتے ہیں
ہمارے گہرے زخموں سے
وہی نادان رہتے ہیں

Advertisement
Advertisement