Back to: وقار احمد
Advertisement
Advertisement
کبھی ایسابھی ہوتا ہے جسے اپنا سمجھتے ہیں زباں پر جسکی خاطر ہم خوشی کے گیت گاتے ہیں ہزاروں غم چھپا کر بھی جسے ہر دم ہنساتے ہیں ہزاروں طرح کے نخرے خوشی سے سہ بھی جاتے ہیں کبھی غمگین سی راتیں کبھی آدھی ملاقاتیں ہمیں اکثر ملا کرتی ہیں تحفے میں جو سوغاتیں وہ جس کے نام سے دل کی روانی تیز ہوتی ہے جسے پانے کی خاطر زندگی مہمیز ہوتی ہے کبھی تیشہ چلا کر ہم یہاں ندیاں بہاتے ہیں یوں جاں پر کھیل جاتے ہیں مگر یہ دکھ بھی تواحمد ہماری جان لیتے ہیں جسے اپنا سمجھتے ہیں ہمارے گہرے زخموں سے وہی نادان رہتے ہیں |
Advertisement
Advertisement