دردِ محبت کی ایک کہانی

0

کسی نے اچانک اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھتے ہوئے مجھے جھٹکا ، میں گھبراہٹ کے مارے اُچھل ہی گیا ، ایک لمحے کے لئے ایسا لگا کے کہیں وہ آ ہی نہ گئی ہو، مُڑ کر دیکھا تو صوفیہ نامی ایک بہت ہی بدقسمت لڑکی کھڑی تھی، جس کو معلوم نہیں، گھڑی کا ایسا کونسا بُرا لمحہ تھا، جب وہ میری دوست بن بیٹھی تھی!
وہ پلکیں جھپکاتے ہوئے بولی….. “کیا تمہیں اندازہ بھی ہے کہ میں تمہیں کب سے آوازیں دے رہی ہوں….؟
اب میں اُسے کیا سمجھاتا کے کچھ یادیں بھی کتنی طاقتور ہوتی ہے ، اگر یہ یادیں کسی کو آکر دبوچ لے نا تو (چاہے آس پاس میں کتنی بھی چیخوں پکار کیوں نہ چل رہی ہو) اُسے ٹس سے مَس ہونے نہیں دیتی،تو پھر اُس بے چاری صوفیہ کی دھیمی سی آواز کہاں ہوش میں لا پاتی مجھے، اس لۓ میں خاموش ہی رہا ، اور ایک لمحہ کے لئے مسکرا دیا!
عزیز کی خاموشی کو توڑنے کے لۓ پھر صوفیہ بولی، “تم بہت عجیب ہو۔”
تو جھٹ سے عزیز نے جواب دیا ،”سو تو میں ہوں”!
صوفیہ “وجہ نہیں پوچھو گے”!
عزیز “وجہ ضرور پوچھوں گا”!
صوفیہ “ہزاروں میں پہلی وجہ یہ ہے کہ تم مسکراتے نہیں…..اور بعض اوقات اگر تم غلطی سے مسکرا بھی دیتے ہو تو ، 2 سیکنڈ سے زیادہ تمہاری مسکراہٹ رہتی ہی نہیں”!
عزیز مسکراتے ہوے بولا ، “اچھا۔ اور”!
صوفیہ آنکھیں بند کرتے ہوے ہنسنے لگی ، وہ آنکھیں بند کرکے ہمیشہ ایک سوتے ہوئے چھوٹے سے پچے کی طرح لگتی ہے ، پھر بالوں کو اپنے کانوں کے پیچھے کرتے ہوئے صوفیہ نے کہا….!
اور جناب….! اگر کوئی آپ کو کسی کام کے بارے میں کچھ بول بھی دے نا، تو آپ سے تو بالکل بھی صبر ہی نہیں ہوتا۔ اور آپ فوراً وہ کام کرکے دوسروں پر احسان کر دیتے ہو،
عزیز “ارے نہیں ، ایسی کوئی بات نہیں، اچھا ……اور کچھ”؟
صوفیہ “جی ہاں”!
عزیز “کیا؟”
صوفیہ “آج کچھ پریشانی سی کوئی بات تو ہے”!
عزیز “کیا ہوا…”؟
صوفیہ “وہ شخص جو مہینوں مہینوں تک نہیں مسکراتا۔ وہ شخص آج پورے 5 منٹ تک اپنی گھسی پٹی، سستی سی، لڑکیوں والی گھڑی کو دیکھتے ہوے مسکراتا دکھا ہے…. ایسا کیوں”؟
“کیا بتاتا اُسے، اور کیسے بتاتا؟
کیا بولتا کے کس کو ڈھونڈ رہا تھا، اِس سستی سی گھڑی میں، کیسے اُسے سمجھاتا! کہ جو گھڑی شاید اُس کے لئے سب سے سستی ہو، کسی اور کے لئے سب سے مہنگی بھی ہو سکتی ہے۔
میں نے تھوڑا ٹھِٹھَک کر جواب دیا!
“ا…ا…ا…اچھی لگ رہی تھی”، وہ کچھ پل کے لۓ مجھے سنجیدگی سے گھورتی رہی ، پھر اچانک سر ہلاتے ہوے، منھ سے ہوا باہر پھینکتے ہوے مُڑی اور یہ کہتے ہوے جانے لگی، “جب کچھ بتانے کو ہو تو بُلا لینا”!
وہ خفا ہوکر جا رہی تھی۔ کیونکہ اُسے…”اُس” کے بارے میں سننا تھا ، جسے جھٹکنے کے لۓ میرا دماغ ہر کوشش کرکے بھی ناکام رہا، اور جِسے پُکارنے کے لیے میری زبان ، میرے ہونٹ ترس اُٹھے تھے۔ میں اُسے اِس بار بھی خفا نہیں کر سکتا تھا۔
اچانک میرے قدم اُس کی طرف بڑے، اور میں نے اُسے آواز دی، “صو … صو …صوفیہ”!
اس کے قدم تھم گئے،مُڑ کر مجھے دیکھا، اور پھر اس نے غصے بھرے لہجہ میں کہا،
“کیاہے…..”؟
وہ اِس وقت بالکل “اُس” کی طرح لگ رہی تھی، میں نے ایک بہت گہری آواز میں جواب دیا، “تمہارے سوالات کے جوابات دینے ہیں!
“سچی…..”!
وہ حیرانی سے چیکھ اُٹھی،جیسے ایک چھوٹا سا بچہ اپنا قیمتی تحفہ مل جانے پر خوشی سے چہک اٹھتا ہے۔
عزیز “ہاں سچی”
صوفیہ “مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا،”
عزیز “بس ایک شرط ہے،”
صوفیہ “کیا؟”
عزیز “تم اس کا نام نہیں پوچھو گی،
صوفیہ “یہ کیا بات ہوئی،”
عزیز “اتنا تو ماننا ہی پڑے گا”
صوفیہ “چلو ٹھیک ہے….. دیکھتے ہیں،”
کچھ دیر تک جملوں کا تبادلہ چلتا رہا، پھر ہم دونوں کالج کے باہر سب سے قریبی Coffee shop میں جاکر بیٹھ گئے ، اُسکی اور اپنی پسند جانتے ہوئے میں نے بیگ سے ایک دوا کا پیکٹ نکال کر اپنے سامنے رکھ دیا۔
صوفیہ “چونکتے ہوے پیکٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی، یہ تم نے کیوں رکھا ہے یہاں”؟
عزیز “کیونکہ میں ایک مریض ہوں، جسے دواؤں کی ضرورت ہے۔
صوفیہ “میں نے تو سنا تھا کہ دل کے مریضوں کو دواؤں کی نہیں بلکہ دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔
عزیز “یقیناً….! مگر یہ بتاؤ ان بے چاروں کا کیا ہوگا، جو کبھی دل ہی کے مریض ہوا کرتے تھے۔ مگر افسوس اب دماغ کے بھی ہو گۓ ہیں۔
“اُس نے پریشانی سے مجھے دیکھا تو، میں بولا، فکر مت کرو اِِسکی زیادہ ضرورت نہیں پڑیگی مجھے…… آج اُسکی یاد کم آ رہی ہے۔
وہ کچھ وقت کے لیے مجھے ایسے دیکھتے رہی جیسے میں اِس دنیا کا ہی نہیں تھا…. خیر…! اگر وہ ایسا سمجھ بھی رہی تھی تو ایک طور سے وہ غلط بھی تو نہیں تھی۔
سر……! اتنے میں Waiter پانی سے بھرا ایک گلاس میری طرف اور دوسرا گلاس صوفیہ کی طرف رکھ کر چلا جاتا ہے۔
اپنا کپ اٹھاتے، Coffee کا ایک گھونٹ لیتے ہوے صوفیہ نے پوچھا،
“شروع کریں”؟
یہ ذہن تو اب بھی نہ کہنے کو لڑ رہا تھا، مگر یہ دل…… کہاں سنتا ہے کسی کی، سچ بتاؤں تو اِس دل کے تو ہاتھ پاؤں بھی ٹوٹ چکے تھے، اب تک تو…… مگر مجال ہے کہ، اُسکے ذکر کی بات آۓ اور یہ مچل نہ اٹھے۔
صوفیہ “ہاں ضرور ضرور…..! تو بتاؤ، کیسی تھی وہ، جو اتنی محبت کرتے ہو اُس سے؟
عزیز “حُسن کی بات کروں تو کوئی اُس سے زیادہ حسیِن، نہیں دیکھا کوئی! ایک چھوٹی سی سفید رنگت والی خوبصورت لڑکی تھی۔ جسکی کالی گھنی زلفیں تھی،اگر وہ اپنے زلفوں کو جھٹک دے تو ہزاروں اسکی زلفوں کے اسیر ہو جائے، اور کچھ چھوٹی-چھوٹی آنکھیں تھیں، نیم باز آنکھیں، جب اُسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہوں تو ایسا لگتا گویا شراب کا نشہ چڑ گیا ہو۔ اور یقین کرو، وہ دکھنے میں بالکل تمہاری ہی طرح تھی! تم سے زیادہ خوبصورت نہ ہو، مگر حد سے زیادہ خوبصورت تھی، اِس قدر خوبصورت کے اُسے دیکھ کر چاند بھی رشک کرے! تمہاری طرح کا ایک عینک پہنا کرتی تھی، اس کی آواز میں اِس قدر مٹھاس تھی کہ گویا کسی نے کانوں میں شہد گھول دیا ہو، آج بھی جب اُس کی آواز میرے کانوں میں گونجتی ہے نا، تو ڈر لگتا ہے، کہیں مر ہی نا جاؤں،
اور اُس کی مسکراہٹ اتنی پیاری ہوتی تھی کہ دنیا میں اُس کے علاوہ تو کوئی دِکھتا ہی نہیں، دِکھتا تو کوئی آج بھی نہیں،کیونکہ اُس کی مسکراہٹ میرے دل میں کنول کھلا دیتی تھی”خیر”، اگر اُس کی مسکراہٹ ہی صرف یاد آ جائے،
میں بھی تمہیں کیا باتیں بتا رہا ہوں، میں نے اُس کے حُسن سے تو محبت کی ہی نہیں تھی، مجھے تو اس کے دل سے محبت ہو گئ تھی۔ جتنی معصومیت اس کے چہرے پر تھی اُتنی اس کے دل میں بھی تھی۔ اور ہمدردی تو اُسے، ہر ایرے گیرے سے ہو جاتی تھی۔ میں اسے سمجھاتا تھا کے ہر کوئی مدد کے لائق نہیں ہوتا، مگر وہ میری ایک نہ سُنتی، ایک بار تو میں نے اسے ڈانٹ ہی دیا مگر مجال ہے کہ کبھی ناراض بھی ہو جائے، الٹا مجھے ہی منانے لگ جاتی، اب بھلا کوئی ایسی لڑکی سے محبت نہ کرے تو…….کیا گناہ نہیں ہوگا؟ اور ہاں……! میں جتنی محبت کرتا تھا اُس سے، اُس سے کئی زیادہ وہ مجھ سے محبت کرتی تھی، پتا نہیں اُسے مجھ میں ایسا اچھا کیا دکھ گیا، خیر میرے پاس تو ہزاروں وجہ اور ہے تمہیں بتانے کو، سب بتانے پر آیا تو دن ختم ہو جائیگا، لیکن……..باتیں نہیں!
صوفیہ “میں نے سوچا نہیں تھا کبھی، کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہوں گے……….اُس کے اور تمہارے جیسے”!
عزیز “میرے جیسے تو کافی…… ہاں مگر اُس کے جیسا کوئی نہیں “!
صوفیہ “ایسی بات تو نہیں خیر…!
(اچھا تو پھر یہ بتاؤ ایسی محبت کا آغاز ہوا کیسے……)؟
عزیز “بنگال کے شہر راۓگنج میں جس کالج مے میں پڑھا کرتا تھا، وہاں اُسے بہت کم لوگ ہی جانتے تھے، میں نے بھی بس اتنا ہی سُن رکھا تھا کہ کوئی بنگالی لڑکی ہے وہ۔
ایک دن کچھ ایسا ہوا کہ میں کچھ جلدی میں کلاس کی طرف جا رہا تھا، کہ فرش پر پڑے پانی سے میرے پیر پھسلے اور میں گِر گیا، میری فائل میں رکھے سارے Notes بھی نکل کر بکھر گۓ، پورا Coridor میرے پر ہنس رہا تھا، اور میری شرمندگی کا عالم یہ تھا کے سات آسمانوں تک پہنچ چکا تھا، اُس دوران وہ Coridor میں واحد لڑکی تھی، جو میرا مزاق اُڑانے اور کھڑے ہوکر میرا تماشا دیکھنے کی بجائے میرے Notes جمع کرنے میں میری مدد کر رہی تھی، Notes تھما تے وقت اُس کے چہرے پر، ایک ایسی شرمندگی تھی، جیسے سارا قصور اسی کا ہو۔
وہ اُس روز پورے دن میرے ذہن میں رہی، اور اُس دن میں کچھ اور سوچ ہی نہیں سکا۔ اگلے دن جب میں ایک کونے میں بیٹھا ہوا تھا، تو وہ میرے پاس آئی، اور اُس نے نرم لہجہ میں مجھ سے کہا، “مجے اُس پر بہت دُکھ ہوا جو کل ہوا آپکے ساتھ، اُس کی بات پر میں ہنستے ہوئے بولا، ارے آپ کو دُکھ کیوں ہو رہا ہے……..خیر میں آپ کا شکریہ ادا…….. ” تو اُس نے فوراً میری بات کاٹتے ہوے کہا” کوئی ضرورت نہیں اِس کی، میں جانتی ہوں ایسی شرمندگی کیسی ہوتی ہے۔
تو میں نے جھٹ سے پوچھا؟ کیا آپکے سات بھی ایسا ہوا کبھی،
تو جواب آیا…! اِس سے بھی زیادہ بُرا!
میں نے پوچھا، کیا اُس وقت آپکی کوئی مدد کرنے والا تھا؟
اُس نے بتایا “نہیں”۔
میں نے نظرے اٹھاکر اُس کی معصومیت سے بھرے چہرے کی طرف دیکھا اور مجھے اُس سے اُسی پل محبت ہو گئی، اُس کی عزت کا پاس رکھتے ہوئے میں نے اپنی نظرے نیچی کر لی، کیونکہ وہ کیا ہے نا………اصل محبت میں تو محبت سے زیادہ عزت ہوتی ہے، عزت کے بغیر محبت کے دعوے تو، بس محبت کی توہین ہوتی ہے۔
پھر بس میرے خیالوں میں وہ، میرے خوابوں میں وہ، یہاں وہ بغیر گنے اچھائیاں کر رہی ہوتی تھی، اور وہاں میں گِن-گِن کے اُس کی اچھائیاں اپنی ڈائری میں لکھ رہا ہوتا تھا، اُس کے بتانے کے مطابق اُس دوران وہ بھی مجھ سے محبت کرنے لگی تھی، مگر وہ مجھ سے محبت کرنا کب شروع ہوئی، اِس بات کا مجھے اندازہ نہیں،
خیر………! یہاں میری محبت انتہا کو چھو رہی تھی، اور وہاں اُس کی محبت۔
مزے کی بات یہ ہے کہ، یہ بات ہم دونوں ہی نہیں جانتے تھے، اور اگر ہم دونوں یہ بات جان بھی جاتے، تو اتنی آسانی سے اظہارِ محبت کرنا ہمارے بس کا تو کام ہی نہیں تھا۔

خیر……..! کچھ مہینوں بعد میں نے اُسے یہ بول ہی دیا،”کے مجھے تم سے محبت ہے ” بس اتنا سُننا تھا کے اُس کا منھ کھُلا کا کھُلا ہی رہ گیا،اور جب اُس نے مجھے یہ بتایا کے اُس کے بھی تاسورات میرے لئے کچھ مِلتے جُلتے ہی ہے، تو میں تو بس بےہوش ہوتے- ہوتے ہی رہ گیا۔
میں اپنی Coffee پیتے، تھوڑی دیر آرام کی سانس لیتے ہوے صوفیہ کو دیکھنے لگا، وہ کچھ دیر تو دنگ بیٹھی رہی، پھر ایک دم سے بولی،
“یہ کوئی ناول کی کہانی تو نہیں”؟
عزیز میری کہانی کسی ناول کی کہانی سے کم تھوڑی ہے۔
میں نے پانی سے بھرا گلاس لیا، اتنے میں صوفیہ بولی،” اب آتا ہے سب سے مشکل سوال۔ کیا ہوا اُس کا”؟
میں نے میز پر پڑی ہوئی دوا کے پیکٹ سے دو Capsul نکالے اور انہیں پانی کے ساتھ نگل گیا، پھر میں نے بولنا شروع کیا۔
یہ بات چھ ماہ پہلے ہونے والی میری زندگی کی سب سے زیادہ تکلیف سے بھری رات کی ہے۔ وہ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں ڈالے، سڑک کے کنارے میرے ساتھ چل رہی تھی، ہم کچھ ہی مہینے میں شادی کرنے والے تھے۔ اُس دن وہ تھوڑی پریشان تھی، اُس نے ایک رات بُرا خواب دیکھا تھا جس میں “میں” اُسے روتا ہوا چھوڑ کر کہیں غائب ہو گیا تھا، وہ روتی ہی رہی میرے لیے، مگر میں واپس نہیں آیا۔
اِس بارے میں ہی سوچ-سوچ کر اُس نے اپنا دل اِس قدر بھاری کر رکھا تھا کے وہ اچانک میرے گلے لگ کر پھوٹ-پھوٹ کر رونا شروع ہو گئی تھی، اُس وقت تو میں اُسے چُپ کراۓ آگے بڑھ گیا، لیکن کاش…….مجھے اُس وقت یہ احساس ہو جاتا کہ”اگر ایک لیلیٰ کا دل گھبرا جاۓ تو اُس کے مجنوں کو ڈر جانا چاہیے”۔
میری آنکھ بھر آئی، میں نے انگوٹھے کے پچھلے حصے سے آنسو صاف کۓ اور پھر اپنی بات جاری کی، ہم ایک دوسرے کا سہارا لۓ بس چلتے ہی جا رہے تھے، پتا نہیں تھا کہ، ہم کہاں جا رہے تھے، اور کہاں پہونچیں گے، اور پھر پتا اُس کا بھی نہیں چلا کہہ کب اُس کا ہاتھ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا، اور کب ہم ایک منہوس سڑک پر آ پہونچیں۔
میں وہ سڑک پار کر ہی رہا تھا، جبکہ وہ تھوڑا پیچھے رہ گئی تھی، میں نے رُکتے ہوے اُسکی طرف پیچھے مُڑ کر دیکھا، میں اندازہ ہی نہیں کر پایا کے ایک گاڑی جس کی لائٹ بند تھی، وہ تیز رفتار سے میرے قریب پہونچ چُکی تھی۔ مگر شاید “اُسے” اِس بات کا اندازہ ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے اُس کی آنکھ پھٹی کی پھٹی ہی رہ گئی، وہ میرا نام چیکھتے ہوے بھاگی۔
عزیز….. عزیز……. عزیز……اور میری شرٹ سے اُس نے مجھے کھینچا، کچھ اُس نے کھینچ لیا مجھے، اور کچھ میں نے چھلانگ لگا دی، خیر…! میں تو بچ گیا مگر اُس دوران جب وہ مجھے بچانے دوڑیں تھی،تو اُس کا اپنا پیر پھسل گیا، اور وہ منھ کے بل چلتی ہوئی تیز رفتار گاڑی سے جا ٹکرائی، مجھے تو معلوم ہی نہ چلا، اور وہ گاڑی اُسے کھینچتے ہوے کہاں سے کہاں لے گئی، ایک لمحہ کو تو مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آیا، پھر کچھ ایسا درد ہوا جیسے دل ہی باہر آ گیا ہو، میں اُس کے پیچھے بھاگا…… پھر میں نے جو دیکھا، اُس کے بعد تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی ہی رہ گئی، اُس کی سفید فِروق خون سے لال تھی۔
مجھے اب اور کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا، میری آنکھوں سے موتیوں سے آنسو ایک کے بعد ایک کرکے بہتے ہی چلے جا رہے تھے، “اور اب تو صوفیہ بھی رو رہی تھی آتا جاتا ہر شخص ہمیں کوئی 15 Second تک گھورتا اور پھر آگے بڑھ جاتا”، میرا سَر پھٹنے کو آیا تھا مگر اب میں چُپ نہیں رہ سکتا تھا۔
اور پھر سے Tow Tablet’s لیتے ہوے اپنی کہانی پر واپس آیا، “اُسے بہت زخم آۓ تھے اور سر پر ایک گہری چوٹ لگی تھی، میں نے اُس گاڑی کے شرابی ڈرائیور کو گاڑی سے کھینچا اور باہر پھینکا، اور پانچ، سات، تھپڑ مار کر زمین پر پٹخ دیا، اور آگے والی سیٹھ پر اُسے بٹھاکر سیدھے Hospital کی طرف گاڑی بھگا ڈالی، Hospital پہونچنے تک اُسکی آنکھیں بند تھی، اور نا ہی وہ کچھ بول رہی تھی،
بس اُسنے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، اور میں اُس ہاتھ سے جان نکلنے نہیں دے رہا تھا، Hospital پہونچتے ہی میں اُسے اپنے ہاتھوں میں اٹھاۓ، چیکھتا چلاتا Emergency Word کی طرف دوڑا، اتنے میں کچھ نرس وغیرہ اُسے مجھسے لیکر Stature پر لِٹا کر ایک کمرے کے اندر لے گئ، میں سسکیاں لیتا، اُس کا نام پکارتا سجدے میں گر پڑا، میرے ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھ گۓ، اور میں گِڑگِڑانا شروع ہو گیا، مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کے پورا جہاں اُس وقت اُس کے لیے یہی دعا مانگ رہا ہو، “یا اللہ سب لے لے……. بس اِسے بچا لے”، اتنے میں ایک بزرگ آدمی نے مجھے اُٹھایا، نہ کچھ پوچھا نا بتایا، بس اپنے ساتھ لے جاکر بٹھا دیا، اُس بزرگ کی شکل سے صاف ظاہر تھا کے وہ خود کئی گھنٹوں سے رو کر اب چُپ ہوا تھا۔
اگلے دو گھنٹے رو-رو کر میرا حال بے حال ہو گیا تھا، اور میری آنے والی ہر سانس مجھ پر بوجھ بنتی جا رہی تھی۔ پھر آیا میری زندگی کا دوسرا ڈراؤنا منظر، جب ایک ڈاکٹر میرے سامنے آیا، اور اُسکے منھ سے یہ الفاظ نکلے She is no more بس اتنا سننا تھا کہ میرا ایک ہی دم مے سب کچھ ختم ہو گیا، پھر میں اُس پل اٹھا اور باہر کی طرف چل دیا۔
بغیر کچھ کہے بغیر کچھ سُنے،
میں Hospital سے باہر نکلا اور چلتا رہا، اُسکی خوشبو مجھے آتی رہی اور میں چلتا رہا۔
اُس کی آواز میرے دماغ میں گونجتی رہی اور میں چلتا رہا۔
اُس کی مسکراہٹ مجھے دکھتی رہی اور میں چلتا رہا۔
پھر میں رُکا، ناگور پُل Nagaur Bridge پر جا رکا، میرے غم کی شدّت کچھ اِس قدر بڑھ رہی تھی کے میں برداشت نہیں کر پا رہا تھا، کچھ گھنٹے “میں” اُسی پُل پر کھڑا رہا، اور گزرے ہوئے لمحوں کو یاد کرتا رہا، اور پھر میں نے پُل پر سے چھلانگ لگا دی اور ندی میں جا گرا،
صوفیہ کیا…..؟
(اتنی زور سے چلا کر بولی کے سارے لوگ ہماری ہی طرف دیکھنے لگے) پھر اُس نے بے صبری سے دھیمی سی آواز میں پوچھا…! “آگے کیا ہوا”؟
میں نے جواب دیا، میں دوبارہ بچ گیا، پریشانی میں مامو نے فوراً خاندان والوں کے پاس بھیج دیا۔ اور گاؤں آتے ہی میں نے ہر کسی سے ملنا جلنا چھوڑ دیا۔
دو مہینے پہلے میں نے مالدہ کالج میں داخلہ لے لیا، جسکا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا، آج بھی غم کی حد اِس قدر بڑ جاتی ہے کہ روز مرنے کا جی کرتا ہے، مگر ہو بھی کیا سکتا ہے، جتنی شدّت کی محبت کی ہے اُتنی شدّت کی تکلیف تو اُٹھانی پڑیگی ہی۔
میں بیٹر کو بِل کی ادائیگی کے بعد صوفیہ کو گھر چھوڑ آیا، ہم دونوں ہی پورے راستے چُپ رہے، ایک ہفتہ کچھ یوں ہی چُپ چاپ گزرا، اور پھر ایک دن صوفیہ میرے سامنے آ کھڑی ہوئی!
صوفیہ مجھے بھی محبت ہو گئی ہے کسی سے۔
عزیز اچھا…….! چلو میں دعا کروں گا کے تمہاری محبت تمہیں ضرور مل جائے!
صوفیہ مگر وہ تو کسی اور سے محبت کرتا ہے۔
عزیز ارے تم اچھی ہی اتنی ہو….. جس دن تمہیں جانیگا اُس دن تم سے ضرور محبت کریگا!
صوفیہ وہ کسی اور سے پاگلوں……کی طرح محبت کرتا ہے۔ (اسنے “پاگلوں” کو ذرا زور سے بولتے ہوے کہا)۔ میں نے اُسے گھورتے ہوے اُس سے پوچھا…..!
عزیز صوفیہ…!کون ہے وہ؟
صوفیہ تم ہو……؟
عزیز کیا چاہتی ہو تم مجھ سے؟
صوفیہ شادی کرنا چاہتی ہوں۔
عزیز شاید برباد کر دوں میں تمہاری زندگی!
صوفیہ میں یقیناً تمہاری زندگی آباد کر دونگی۔
عزیز مجھے تمہاری ہمدردی کی کوئی ضرورت نہیں!
صوفیہ مگر مجھے تمہارے پیار کی ہے۔
عزیز میں اُس کے علاوہ کسی اور سے پیار نہیں کر سکتا!
صوفیہ کوشش تو کر سکتے ہو۔
میں آگے کچھ بولے بغیر ہی وہاں سے چلا گیا، وہ روز مجھے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی رہی، اور میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکا، میں اُسے منع کر دینا چاہتا تھا، مگر مجھ میں، اُسے منع کرنے کی ہمت نہیں تھی، اب محبت کرنے والے ہی محبت کرنے والوں کو کیسے ٹھُکراۓ، آخر کار میں اُس سے شادی کرنے کو راضی ہو ہی گیا۔ اور صوفیہ خوشی سے پاگل!
صوفیہ کے گھر والوں کو “میں” بلکل بھی پسند نہیں تھا، مگر بیٹی کی ضِدّ پر صوفیہ کے والدین اِس رشتے کو مان گۓ، میرے خاندان والوں کو تو ویسے ہی کوئی مسئلہ نہیں تھا، تو ایسے میں شادی پورے دو مہینے بعد منظور کر لی گئی۔
جیسے جیسے شادی قریب آتی گئی مجھے اُس کی یاد اور آنے لگی، کوئی ڈیڑھ مہینے بعد تو ہر کوئی خوش نظر آتا، اور خاص طور پر مجھے دیکھ کر، جبکہ میں ہی نا خوش تھا، میرے خاندان والے تو مجھے دیکھ کر پریشان ہوتے ہی نہیں تھے، جیسے کے شادی کرتے ہی میری پوری زندگی ہی ٹھیک ہو جانی تھی۔
شادی والے دن “میں” سادہ سا سفید کُرتا پہن کر گیا، جو اسے پسند تھا، میں اُس میرج ہوم کی چار دیواری میں، جہاں میری شادی ہونی تھی، لوگوں کی باتیں اور بِلا وجہ کی مسکراہٹ کو نظر انداز کرتا رہا، پھر اچانک کمرے میں صوفیہ آ پہنچی، جو خاصہ دلہنوں والے کپڑے میں تو نہیں تھی، مگر تیار ضرور تھی، اُس نے میرا ہاتھ تھاما اور کہا، “چلو میرے ساتھ” کچھ دیر کے لیے میں حیران (چوک) ہو گیا تھا، مگر پھر میں چل دیا اُس کے ساتھ۔
ہم چھت پر جا پہونچے، وہ بولنا شروع ہوئی، “مجھے کچھ بات کرنی ہے تم سے”وعدہ کرو، کچھ کہو گے تو نہیں، اور وعدہ پورا کروگے،”ہاں “
عزیز میں کوئی وعدہ نہیں کر سکتا۔
صوفیہ کیے ہوے وعدے تو نبھا سکتے ہو۔
عزیز کیا….؟
صوفیہ “کچھ نہیں، اچھا اب گور سے سنوں اور جواب دو…….حادثے کی رات جب ڈاکٹر نے تمہیں آکے بولا She’s no more تو کیا وہ تمہاری طرف دیکھ رہا تھا؟
عزیز ہاں……وہ…….!
صوفیہ صرف تمہاری ہی طرف دیکھ رہا تھا؟
عزیز ہاں…..میرے ساتھ ایک بزرگ آدمی بیٹھے تھا، تو ہم دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
صوفیہ جب تم وہاں سے جا رہے تھے تو کیا تم نے سُنا تھا کے وہ دونوں تم سے کیا کہہ رہے تھے؟
عزیز سُنا تو تھا مگر میں سمجھ نہیں پایا، مجھے لگا کی تسلّی دینے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر تم یہ سوال…..!
صوفیہ اچھا واہ! چلو یہ ہی بتا دو اُس کے مر جانے کی خبر کتنے لوگوں سے سُنی ہے تم نے؟
عزیز میں….میں نے…..میں نے نہیں سُنی خبر۔

صوفیہ تو یہ بتاؤ کے جس کے لیے تم ہزاروں جتن کرتے پھرتے ہو اُسکے چلے جانے کی بات اتنی آسانی سے کیسے مان لی تم نے…؟ ہر سجدے میں خُدا سے جس ایک ہی چیز کو مانگا ہے تم نے، کیسے سوچ بیٹھے کے اب وہ تمہیں مل ہی نہیں سکتی؟ کبھی یہ بھی سوچا ہے کے شاید خُدا نے تمہاری دعائیں سُن لی ہو، اور جو تمہیں لگتا ہے کے تم سے چھِن گیا ہے، کبھی چھِنا ہی نہ ہو۔
میرا دل زور-زور سے دھڑکنے لگا اور میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ گۓ۔ میں نے گھبرائی ہوئی آواز میں صوفیہ سے پوچھا، تم کہہ…….کہنا کیا چاہتی ہو؟
صوفیہ وہ زندہ ہے اور نیچے کمرے مے بیٹھی تمہاری دلہن بننے کا انتظار کر رہی ہے (صوفیہ نے مسکراتے ہوے جواب دیا)
میری آنکھیں نم ہو گئی اور میں کپکپانا شروع ہو گیا، مجھے تھوڑا سا بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے میرے ساتھ۔
صوفیہ مُڑ کر جانے لگی، پھر اچانک ٹھہری اور ہنستے ہوئے بولنے لگی، “اور ہاں……! جسکا نام چھپاتے پھرتے ہو نا تم سب سے، فاریہ منطشأ نام ہے اُس کا، Cousin ہے وہ میری، اور پھر وہ چلی گئی۔
میں آسمان کی طرف دیکھ کر بس یہی دوہرا رہا تھا کے بس کسی طرح یہ سب سچ ہو جائے، اور پھر………ایک جان لیوا آواز نے میرا نام پُکارا،”عزیز” میں نے نظرے نیچی کرتے ہوئے اپنے سامنے ایک بہت ہی زیادہ پتلی، کالے عینک پہنی ایک حور کو آتے دیکھا، میں تو اُس وقت مر ہی جاتا اگر وہ اُس وقت مجھے تھام کر سہلاتی نہیں، جیسے ایک چھوٹے سے بچے کو سہلایا جاتا ہے، مجھے سہلاتے- سہلاتے وہ خود ہی رونا شروع ہو گئی تھی۔
اُس نے اپنے نرم سے ہاتھوں سے میرے آنسو پوچھے اور میرے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لئے، میں روتے ہوئے بول اٹھا، مجھے معاف کر دو…..!
فاریہ بولی چُپ…..چُپ ہو جاؤ! اب ہم مل گۓ ہیں نا واپس، اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ہم کچھ دیر تک ایسے ہی کھڑے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے، میں نے اُسے کَس کر زور سے گلے لگا لیا، اور پھر ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر نیچے جانے ہی لگے تھے کہ وہ رُکی، اور کہنے لگی، اچھے لگتے رہے ہو……. میرے پسند کے کپڑوں میں، اور میری گھڑی میں تو اور بھی زیادہ۔
تم تو سب سے اچھی لگتی ہی ہو، میں مسکراتے ہوے بولا۔
جواب میں فاریہ بھی مسکرا دی اور کہا، بڑی عجیب بات ہے۔
میں نے کہا “کیا”؟
فاریہ ” تمہیں یہ بھی نہیں معلوم مجھے پہلی بار تم سے محبت کب ہوئی………؟
عزیز “مجھے تو نہیں معلوم”!
فاریہ “چلو میں بتا دیتی ہوں…… یاد ہے جب تم اکیلے بیٹھے ہوئے تھے، اور میں تم سے پہلی بار بات کرنے آئی تھی!
عزیز ” ہاں وہ وہ دن، وہ لمحہ کیسے بھول سکتا ہوں۔ تم نے نظرے اوپر کرکے میری طرف دیکھا تھا اور تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی تھی………! پھر تم نے نظرے نیچی کی تھی اور مجھے تم سے محبت ہو گئی تھی……!

طیب عزیز خان محمودی [email protected]